میڈلین، کیری اور بائیڈن کے یہودی ڈانڈے

وسعت اللہ خان  ہفتہ 28 ستمبر 2024

بارہ مئی انیس سو چھیانوے کو امریکی ٹی وی نیٹ ورک سی بی ایس کے ایک انٹرویو کے دوران اقوامِ متحدہ میں متعین امریکی سفیر میڈلین البرائٹ سے میزبان لیزلی اسٹال نے پوچھا کہ عراق پر عائد اقتصادی پابندیوں کے سبب اب تک وہاں ہلاک ہونے والوں میں پانچ لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔یہ تعداد ہیروشیما پر ایٹمی حملے میں مرنے والے بچوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ کیا عراق کو سزا دینے کے لیے یہ قیمت زیادہ نہیں ؟

میڈلین البرائٹ : ’’ میرے خیال میں یہ ایک کٹھن سوال ہے۔ مگر میں پھر بھی کہوں گی کہ یہ قیمت زیادہ نہیں ہے۔

جب تئیس مارچ دو ہزار بائیس کو میڈلین البرائٹ کا انتقال ہوا تو صدر جو بائیڈن نے انھیں شائستگی ، وقار ، انسان دوستی اور آزادی کا روشن ستارہ قرار دیا۔

میڈلین جنوری انیس سو ستانوے تا جنوری دو ہزار امریکا کی پہلی خاتون وزیرِ خارجہ رہیں۔بلکہ وہ کسی بھی امریکی کابینہ میں شامل ہونے والی پہلی یہودی نژاد خاتون وزیر تھیں۔

میڈلین البرائٹ جب مئی انیس سو سینتیس میں چیکوسلواکیہ کے شہر پراگ میں پیدا ہوئیں تو ان کے والد جوزف کوربیل وزارتِ خارجہ میں کام کرتے تھے۔اس حیثیت میں وہ کئی ممالک میں چیکو سلوواکیہ کے سفارت کار رہے۔جب ہٹلر نے انیس سو انتالیس میں چیکوسلواکیہ پر قبضہ کیا تو جوزف کوربیل کے خاندان نے رومن کیتھولک عقیدہ اپنا لیا اور اپنے بچوں کے نام بھی بدل دیے۔یوں ’’ میری جانا ‘‘ نامی دو برس کی بچی میڈلین البرائٹ بن گئی۔

اگرچہ البرائٹ خاندان کے چھبیس یہودی ارکان نازی کنسنٹریشن کیمپوں میں مار دیے گئے مگر میڈلین کے والدین نے اپنے تینوں بچوں کو مرتے دم تک یہی بتایا کہ ہم رومن کیتھولک ہیں۔انھوں نے کبھی بھی بچوں کے سامنے کنسنٹریشن کیمپوں میں مرنے والے رشتے داروں کا تذکرہ نہیں کیا۔مبادا اس داستان سے بچوں کی ذہنی پرورش متاثر نہ ہو۔

بقول میڈلین مجھے اپنے یہودی پس منظر کا علم تب ہوا جب میں بطور وزیرِ خارجہ پراگ گئی اور وہاں مقیم پرانے یہودی بزرگوں سے ملاقات ہوئی۔

میڈلین کے سفارت کار والد نے ہٹلر کے چیکو سلواکیہ پر قبضے کے بعد خاموشی سے خاندان کو مرحلہ وار برطانیہ منتقل کر دیا اور خود لندن میں قائم ہٹلر مخالف قوم پرست چیک جلاوطن حکومت کے ترجمان بن گئے۔

مئی انیس سو پینتالیس میں جنگ کے خاتمے کے بعد یہ خاندان واپس پراگ آ گیا اور میڈلین کے والد نے دوبارہ سفارتی ذمے داریاں سنبھال لیں۔مگر انیس سو اڑتالیس میں جب چیکوسلواکیہ سوویت نواز کیمونسٹ حکومت کے تحت آ گیا تو جوزف کوربیل نے نظریاتی اختلاف کے سبب نوکری سے استعفی دے کر اقوامِ متحدہ کی ملازمت اختیار کر لی اور اپنے خاندان کو امریکا منتقل کر دیا۔

جوزف کوربیل نے کشمیر میں رائے شماری کے لیے قائم اقوامِ متحدہ کے کمیشن میں بھی خدمات انجام دیں۔اور پھر خود بھی مستقل نیویارک منتقل ہو گئے۔ انھوں نے کل وقتی تدریس شروع کر دی اور یونیورسٹی آف ڈینیور میں اسکول آف انٹرنیشنل ریلشنز کی بنیاد رکھی۔

ان کی ایک شاگرد کونڈا لیزا رائس بھی تھیں جو بعد میں صدر جارج بش جونئیر کی کابینہ میں وزیرِ خارجہ بنیں۔جب کہ جوزف کی نواسی اور میڈلین البرائٹ کی صاحبزادی ایلس البرائٹ صدر جو بائیڈن کی ماحولیاتی مشیر ہیں۔جوزف کوربیل کا انتقال انیس سو ستتر میں ہوا۔انھوں نے بین الاقوامی امور پر متعدد کتابیں لکھیں۔ ان میں سے ایک کا عنوان تھا ’’ کشمیر ایک خطرہ ‘‘۔

میڈلین البرائٹ نے انیس سو پچھتر میں کولمبیا یونیورسٹی سے ’’ انیس سو چھپن میں سوویت تسلط کے خلاف چیکوسلواکیہ کی عوامی بغاوت ‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی۔ دو برس انھوں نے سینیٹر ایڈمنڈ مسکی کے دفتر میں اپرنٹس شپ کی اور بعد ازاں صدر جمی کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر زبگنیو برزنسکی کی ٹیم میں شامل ہو گئیں۔انیس سو بیاسی میں انھوں نے جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں تدریس شروع کی۔انیس سو بانوے میں وہ صدر کلنٹن کی ٹیم کا حصہ بن گئیں۔

اگلے برس انھیں اقوامِ متحدہ میں امریکا کا مستقل مندوب مقرر کر دیا گیا۔ اس عہدے پر انھوں نے چار برس کام کیا اور عراق کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا شکنجہ مزید کسنے کے لیے بھرپور لابنگ کی۔انھوں نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بطروس غالی کی دوسری مدت کے لیے منتخب ہونے کی کوشش کو کامیابی سے روکا اور پھر میڈلین کی وزیرِ خارجہ کے عہدے پر ترقی ہو گئی۔

انیس سو اٹھانوے میں دیے گئے ایک انٹرویو میں میڈلین نے کہا کہ امریکا ( عالمی سطح پر ) طاقت استعمال کرنے میں اس لیے حق بجانب ہے کہ ہم ایک بلند قامت ناقابلِ تسخیر قوم ہیں۔ چنانچہ ہم مستقبل کو اوروں کی نسبت زیادہ بہتر طریقے سے دیکھ سکتے ہیں۔

اس دعوی کے صرف تین برس بعد دو طیارے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ ٹاور میں گھس گئے۔

بارک اوباما کے دوسرے دورِ صدارت میں ہلیری کلنٹن کی جگہ جان کیری دو ہزار تیرہ تا سولہ وزیرِ خارجہ رہے۔ان کا تعلق ریاست میسا چوسٹس کے معروف امیر خاندان فوربس سے ہے۔یہ خاندان انیسویں صدی میں چین سے افیون کی تجارت بھی کرتا رہا ہے۔جان کیری نے ویتنام میں فوجی خدمات انجام دیں۔مگر پھر وہ جنگ مخالف تحریک کے سرگرم رکن بن گئے۔وہ میسا چوسٹس کے گورنر رہے ، سینیٹر کے طور پر ذمے داریاں نبھائیں۔ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے دو ہزار چار کے صدارتی انتخابات میں جارج بش کا مقابلہ کیا مگر ناکام رہے۔

جب یورپ میں یہودیوں کے بارے میں عمومی سطح پر بدگمانی بڑھی تو جان کیری کے پرکھوں نے امریکا ہجرت کی اور یہودیت چھوڑ کے کیتھولک عیسائیت قبول کر لی۔ سابق وزیرِ خارجہ میڈلین آلبرائٹ کی طرح جان کیری کا بھی کہنا ہے کہ انھیں دو ہزار چار میں اپنی صدارتی مہم کے دوران اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک تحقیقی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ ان کے دادا اور نانا یہودی تھے۔ دادا نے اپنی کنیت کوہن سے کیری کر لی۔مگر جان کیری کے والدین نے ان سے یہ باتیں پوشیدہ رکھیں۔

دو ہزار چودہ میں اسرائیل کے چینل ٹو کو انٹرویو دیتے ہوئے جان کیری نے کہا کہ ان کے کچھ بزرگ رشتے دار ہالوکاسٹ کی نذر ہو گئے۔جب مجھ پر منکشف ہوا کہ میرے نانا اور دادا کا شجرہ یہودی ہے۔ اس کے بعد سے مجھے احساس ہوا کہ میرے اندر ہالوکاسٹ کا صدمہ کیوں تھا اور اس ناتے اسرائیل کے لیے ہمیشہ ہمدردی کے جذبات کیوں موجزن رہے۔

کیری نے انٹرویو کے دوران کہا کہ اگر اسرائیل آزاد فلسطینی ریاست کا تصور مان بھی جائے تو بھی مقبوضہ علاقوں میں بسے یہودی آبادکاروں کا انخلا ضروری نہیں ہے۔اس وقت جان کیری صدر جو بائیڈن کے خصوصی مشیر برائے ماحولیات ہیں۔

جو بائیڈن انیس سو تہتر سے دو ہزار نو تک مسلسل چھتیس برس کی ریکارڈ مدت تک سینیٹر رہے۔ان کے آئرش کیتھولک آباؤ اجداد نے انیسویں صدی کے شروع میں امریکا ہجرت کی۔مگر جو بائیڈن جب سات اکتوبر کو حماس کی کارروائی کے ایک ہفتے بعد تعزیت کے لیے تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پر اترے تو انھوں نے میزبان وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے معانقہ کرتے ہوئے کہا کہ میں یہودی تو نہیں مگر صہیونی ضرور ہوں۔ امریکا ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

جو بائیڈن نے سینیٹ میں گزاری گئی مدت کے دوران اسرائیل نواز لابی سے بیالیس لاکھ ڈالر کی انتخابی مدد وصول کی جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔

اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ اسرائیل میں امریکی سفیر متعین ہونے کے لیے کن کن خوبیوں کی ضرورت ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔