24 سال بعد
محمد سرور بھٹی نے دونوں ہاتھ اٹھا کر حلف دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ سلمان رشدی کو خود اپنے ہاتھوں سے قتل کریں گے۔
یہ 1988ء کی بات ہے۔ میں ایک قومی اخبار کے فیچر سیکشن میں بطور فیچر رائٹر کام کر رہا تھا جہاں میرے انچارج زبیر رانا مرحوم ہوا کرتے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب زبیر رانا بھرپور جوان اور صحت مند تھے اور وہ ایک متحرک صحافی تھے۔ فیچر سیکشن میں میرے علاوہ آج کے معروف صحافی اور اینکر پرسن حامد میر، احسن اختر ناز جو اِن دنوں جامعہ پنجاب شعبہ ابلاغیات کے چیئر مین ہیں، عابد تہامی، آصف علی پوتا اور ظفر اقبال نگینہ ''بازی لے جانے والی جرنلز م '' میںمصروف تھے۔
متذکرہ اخبار کے میگزین ایڈیٹر جنا ب ضیاء شاہد صاحب تھے اور ہم سب ان کی زیر نگرانی صحافت سے وابستہ اپنے فرائض ادا کرنے میں مصروف تھے۔ ایک دن میرے ساتھی ظفر اقبال نگینہ نے مجھے ایک دعوت نامہ دیا جو ان کی کتاب کی رونمائی سے متعلق تھا۔ سب سے پہلے میری نظر کتاب کے عنوان پر پڑی جس کا عنوان ''غازی علم دین شہیدؒ'' تھا۔
نگینہ صاحب نے بتایا کہ تقریب کے صدر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سکندر حیات ہوںگے جب کہ مولانا کوثر نیازی، احمدندیم قاسمی، امجد اسلام امجد اور ضیاء شاہد سمیت دیگر اہم شخصیات مقررین میں شامل ہیں ۔ اگلے دن لاہور کے چڑیا گھر کے بالمقابل ہوٹل میںسجائی گئی تقریب میں پہنچا تو مجھے محفل کے تیور کچھ چڑھے ہوئے دکھائی دیے۔ میری چھٹی حس مجھے کہہ رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔
تقریب کا آغاز تو کتاب کے مندرجات سے ہوا، شرکا نے اس کے مختلف ابواب پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور غازی علم دین شہید ؒکی طرف سے رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی پر مبنی ایک پلید کتاب کے پرنٹر اور پبلشر راج پال کو قتل کرنے کے واقعے کو اپنا موضوع بنائے رکھا۔
متذکرہ کتا ب میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ مسلمانوں نے غازی علم دین شہید کے مقدمے کی پیروی کرنے کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کو وکیل کیا تھا۔ قائد اعظم سے قبل غازی علم دین کے وکیل اس وقت کے نامور بیرسٹر فرخ حسین ایڈووکیٹ تھے جنہوں نے کنجاہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور غازی اللہ دتہ شہید کا مقدمہ بھی لڑا تھا۔
کتاب میں بیان کیا گیا تھا کہ انگریز دور میںغازی علم دین کے علاوہ 12دیگر افراد نے بھی توہین رسالتﷺ کے جرم کا ارتکاب کرنے والے شا تمین کو جہنم واصل کیا تھا۔ جب سب تقریریں ہو گئیں تو ڈائس پر مولانا کوثر نیازی کو دعوت دی گئی۔ مولانا نے اپنی تقریر کا آغاز تو متذکرہ کتاب کے مندرجات اور مصنف کی کاوش کو سراہنے کے ساتھ، ساتھ غازی علم دین شہید کی عظمت کو موضوع سخن بنایا۔
تقریر کے اگلے حصے میںمولانا نے پاکستان اور مسلم اُمہ کی غیرت کو لکارتے ہوئے بیان فرمایا کہ راج پال کو تو غازی علم دین شہید ؒ نے جہنم واصل کر دیا تھا۔ آج کے راج پال کو جہنم رخصت کون کرے گا؟ یہ پاکستان میں ہونے والی پہلی تقریب تھی جس میں بیان کیا گیا تھاکہ سلمان رشدی نامی معلون نے ایک ایسی نجس کتاب لکھی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی حیات مقدسہ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ وہ شخص توہین رسالت ؐکا مرتکب ہوا ہے۔
مولانا کوثر نیازی کی تقریر سن کر آج سے 24 سال پہلے بھی میرا موقف یہ تھاکہ رحمتہ العالمین رسول اللہؐ کی توہین ممکن نہیںہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی گھٹیا، ذہنی مریض اور لعنتی شخص اس عمل پر قادر ہو جائے کہ رحمتہ العالمین کی توہین کر سکے۔ اگر اس نازیبا حرکت کو اپنی زبان پر لانا مقصود ہو تو اس کی مذمت زیادہ سے زیادہ یوں کر دی جائے کہ منہ بھر کے نفرت کے ساتھ پورے زور سے زمین پر تھوک دیا جائے۔
غازی علم دین سے متعلقہ اس کتاب کی رونمائی کی تقریب کی خبر اگلے روز اخبارات میں جلی حروف میں شایع ہوئی۔ چونکہ اس زمانہ میں الیکٹرانک میڈیا اور بریکنگ نیوز کا رواج نہیں تھا اس لیے اس انکشاف کو تحریک بننے میںکچھ دیر لگی۔ چار یا پانچ روز میں یہ تحریک تنومند ہو چکی تھی اور جناب نواب زادہ نصراللہ خان اس کی سر پرستی بھی فرما رہے تھے۔
نواب زادہ صاحب اور مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں کی سر پرستی میں سلمان رشدی کے خلا ف اسلام آباد میں ُپر تشدد احتجاج ہوا جس میںپانچ افراد موقع پر جاں بحق ہو گئے۔ اگلے روز غریب شہدا کے لواحقین نے تنہا انھیں سپرد خاک کیا اورناموس رسالت ؐکے رہنما ان کی گمنام قبروں پر فاتحہ خوانی کے لیے بھی نہ جا سکے۔
اسلام آباد کے علاوہ پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاج کرنے والے افراد نے اپنے ہاں تو جلائو گھیرائو کیا مگر سلمان رشدی جو ہم سے ہزاروں میل دور تھا وہ محفوظ رہا۔
1989ء میں ایرانیوں کے مذہبی اور روحانی پیشوا ٓیت اللہ خمینی نے فتویٰ دیا کہ سلمان رشدی توہین رسالت ؐکا مجرم ہے اسے قتل کرنے والے کو 33 لاکھ امریکی ڈالر انعام دیا جائے گا۔ 23 سال گزر جانے اور33 لاکھ امریکی ڈالر انعام کے باوجود سلمان رشدی کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔
اس عرصے میں دنیا میں نائن الیون کی ''عظیم واردات'' بھی ہوئی جس کا عالمی اور امریکی پرچہ القاعدہ پر کاٹ کر افغانستان پر حملہ کر دیا گیا۔ دہشت گردی کی اس مشکوک جنگ میں پاکستان کے 35 ہزار سے زائد سویلین اور فوجی شہید ہوئے اور کھربو ں ڈالر کا نقصان بھی ہوا۔
امریکا نائن الیون کی واردات القاعدہ کے کھاتہ میں ڈالتا ہے جس کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو بالآخر چار امریکی ہیلی کاپٹروں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کیپٹل اور ہمارے عسکری کوہ قاف کی دہلیز پر بے یار و مددگار شہید کر دیا اور جاتے ہوئے ان کا جسد خاکی بھی اس تابوت میں ساتھ لے گئے جو وہ ریڈی میڈ بنوا کر اپنے ساتھ لائے تھے۔
اگر امریکا نائن الیون کا الزام القاعدہ پر ڈالتا ہے اور واقعی سرمایہ دارانہ نظام کا وہ مینار مسلمانوں نے تباہ کیا تھا، تو پھر القاعدہ سمیت ہر مسلمان کا پہلا فرض یہ تھا کہ وہ امریکی ٹوئن ٹاور پر حملے سے پہلے سلمان رشدی کو جہنم واصل کرتا کیونکہ اس نے ڈیڑھ ارب مسلمانوںکے ایمان اور عشق ؐپر حملہ کیا تھا۔
24 سال بعد نیوز چینلز پر توہین رسالت ؐکے دلفگار موضوع پر کچھ ٹاک شوز دیکھے تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ میری چھٹی حس نے ایک بار پھر مجھے خبردار کیا۔ میںسوچنے لگا کہ آج سے 24 سال پہلے اس منحوس سازش سے 5 غریب مسلمان جاں بحق ہو گئے تھے، اگر آج وہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا تو خدانخواستہ کتنے مسلمان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیںگے اور قصور وار ہزاروں میل دور محفوظ بھی رہیں گے اور مسلمانوں کی لاشیںگرتی دیکھ کر محظوظ بھی ہوں گے۔
حکومت کی غیر ذمے دارنہ اور پھٹی ہوئی چھتری کے تلے منائے جانے والے یوم عشق رسولؐ کے سلسلہ میں خیر سے 31 غریب مسلمان جاں بحق ہوئے اور اربوں روپے کی سرکاری اور نجی املاک خاکستر کر دی گئیں۔ اس موقعے پر 24 سال قبل برپا کی گئی وہی تقریب یاد آ رہی ہے جس میں مولانا کوثر نیازی کی پر جوش تقریر کے اختتام پر پنجابی فلم مولاجٹ کے '' شہرہ آفاق'' فلمساز محمد سرور بھٹی اسٹیج پر آ گئے تھے۔
محمد سرور بھٹی نے دونوں ہاتھ اٹھا کر حلف دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ سلمان رشدی کو خود اپنے ہاتھوں سے قتل کریں گے، مگر ربع صدی گزر جانے کے باوجود حقیقت میں تو کیا فلمساز نے اپنی کسی فلم میں بھی سلمان رشدی کوٹھکانے نہیں لگایا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب زبیر رانا بھرپور جوان اور صحت مند تھے اور وہ ایک متحرک صحافی تھے۔ فیچر سیکشن میں میرے علاوہ آج کے معروف صحافی اور اینکر پرسن حامد میر، احسن اختر ناز جو اِن دنوں جامعہ پنجاب شعبہ ابلاغیات کے چیئر مین ہیں، عابد تہامی، آصف علی پوتا اور ظفر اقبال نگینہ ''بازی لے جانے والی جرنلز م '' میںمصروف تھے۔
متذکرہ اخبار کے میگزین ایڈیٹر جنا ب ضیاء شاہد صاحب تھے اور ہم سب ان کی زیر نگرانی صحافت سے وابستہ اپنے فرائض ادا کرنے میں مصروف تھے۔ ایک دن میرے ساتھی ظفر اقبال نگینہ نے مجھے ایک دعوت نامہ دیا جو ان کی کتاب کی رونمائی سے متعلق تھا۔ سب سے پہلے میری نظر کتاب کے عنوان پر پڑی جس کا عنوان ''غازی علم دین شہیدؒ'' تھا۔
نگینہ صاحب نے بتایا کہ تقریب کے صدر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سکندر حیات ہوںگے جب کہ مولانا کوثر نیازی، احمدندیم قاسمی، امجد اسلام امجد اور ضیاء شاہد سمیت دیگر اہم شخصیات مقررین میں شامل ہیں ۔ اگلے دن لاہور کے چڑیا گھر کے بالمقابل ہوٹل میںسجائی گئی تقریب میں پہنچا تو مجھے محفل کے تیور کچھ چڑھے ہوئے دکھائی دیے۔ میری چھٹی حس مجھے کہہ رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔
تقریب کا آغاز تو کتاب کے مندرجات سے ہوا، شرکا نے اس کے مختلف ابواب پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور غازی علم دین شہید ؒکی طرف سے رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی پر مبنی ایک پلید کتاب کے پرنٹر اور پبلشر راج پال کو قتل کرنے کے واقعے کو اپنا موضوع بنائے رکھا۔
متذکرہ کتا ب میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ مسلمانوں نے غازی علم دین شہید کے مقدمے کی پیروی کرنے کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کو وکیل کیا تھا۔ قائد اعظم سے قبل غازی علم دین کے وکیل اس وقت کے نامور بیرسٹر فرخ حسین ایڈووکیٹ تھے جنہوں نے کنجاہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور غازی اللہ دتہ شہید کا مقدمہ بھی لڑا تھا۔
کتاب میں بیان کیا گیا تھا کہ انگریز دور میںغازی علم دین کے علاوہ 12دیگر افراد نے بھی توہین رسالتﷺ کے جرم کا ارتکاب کرنے والے شا تمین کو جہنم واصل کیا تھا۔ جب سب تقریریں ہو گئیں تو ڈائس پر مولانا کوثر نیازی کو دعوت دی گئی۔ مولانا نے اپنی تقریر کا آغاز تو متذکرہ کتاب کے مندرجات اور مصنف کی کاوش کو سراہنے کے ساتھ، ساتھ غازی علم دین شہید کی عظمت کو موضوع سخن بنایا۔
تقریر کے اگلے حصے میںمولانا نے پاکستان اور مسلم اُمہ کی غیرت کو لکارتے ہوئے بیان فرمایا کہ راج پال کو تو غازی علم دین شہید ؒ نے جہنم واصل کر دیا تھا۔ آج کے راج پال کو جہنم رخصت کون کرے گا؟ یہ پاکستان میں ہونے والی پہلی تقریب تھی جس میں بیان کیا گیا تھاکہ سلمان رشدی نامی معلون نے ایک ایسی نجس کتاب لکھی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی حیات مقدسہ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ وہ شخص توہین رسالت ؐکا مرتکب ہوا ہے۔
مولانا کوثر نیازی کی تقریر سن کر آج سے 24 سال پہلے بھی میرا موقف یہ تھاکہ رحمتہ العالمین رسول اللہؐ کی توہین ممکن نہیںہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی گھٹیا، ذہنی مریض اور لعنتی شخص اس عمل پر قادر ہو جائے کہ رحمتہ العالمین کی توہین کر سکے۔ اگر اس نازیبا حرکت کو اپنی زبان پر لانا مقصود ہو تو اس کی مذمت زیادہ سے زیادہ یوں کر دی جائے کہ منہ بھر کے نفرت کے ساتھ پورے زور سے زمین پر تھوک دیا جائے۔
غازی علم دین سے متعلقہ اس کتاب کی رونمائی کی تقریب کی خبر اگلے روز اخبارات میں جلی حروف میں شایع ہوئی۔ چونکہ اس زمانہ میں الیکٹرانک میڈیا اور بریکنگ نیوز کا رواج نہیں تھا اس لیے اس انکشاف کو تحریک بننے میںکچھ دیر لگی۔ چار یا پانچ روز میں یہ تحریک تنومند ہو چکی تھی اور جناب نواب زادہ نصراللہ خان اس کی سر پرستی بھی فرما رہے تھے۔
نواب زادہ صاحب اور مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں کی سر پرستی میں سلمان رشدی کے خلا ف اسلام آباد میں ُپر تشدد احتجاج ہوا جس میںپانچ افراد موقع پر جاں بحق ہو گئے۔ اگلے روز غریب شہدا کے لواحقین نے تنہا انھیں سپرد خاک کیا اورناموس رسالت ؐکے رہنما ان کی گمنام قبروں پر فاتحہ خوانی کے لیے بھی نہ جا سکے۔
اسلام آباد کے علاوہ پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاج کرنے والے افراد نے اپنے ہاں تو جلائو گھیرائو کیا مگر سلمان رشدی جو ہم سے ہزاروں میل دور تھا وہ محفوظ رہا۔
1989ء میں ایرانیوں کے مذہبی اور روحانی پیشوا ٓیت اللہ خمینی نے فتویٰ دیا کہ سلمان رشدی توہین رسالت ؐکا مجرم ہے اسے قتل کرنے والے کو 33 لاکھ امریکی ڈالر انعام دیا جائے گا۔ 23 سال گزر جانے اور33 لاکھ امریکی ڈالر انعام کے باوجود سلمان رشدی کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔
اس عرصے میں دنیا میں نائن الیون کی ''عظیم واردات'' بھی ہوئی جس کا عالمی اور امریکی پرچہ القاعدہ پر کاٹ کر افغانستان پر حملہ کر دیا گیا۔ دہشت گردی کی اس مشکوک جنگ میں پاکستان کے 35 ہزار سے زائد سویلین اور فوجی شہید ہوئے اور کھربو ں ڈالر کا نقصان بھی ہوا۔
امریکا نائن الیون کی واردات القاعدہ کے کھاتہ میں ڈالتا ہے جس کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو بالآخر چار امریکی ہیلی کاپٹروں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کیپٹل اور ہمارے عسکری کوہ قاف کی دہلیز پر بے یار و مددگار شہید کر دیا اور جاتے ہوئے ان کا جسد خاکی بھی اس تابوت میں ساتھ لے گئے جو وہ ریڈی میڈ بنوا کر اپنے ساتھ لائے تھے۔
اگر امریکا نائن الیون کا الزام القاعدہ پر ڈالتا ہے اور واقعی سرمایہ دارانہ نظام کا وہ مینار مسلمانوں نے تباہ کیا تھا، تو پھر القاعدہ سمیت ہر مسلمان کا پہلا فرض یہ تھا کہ وہ امریکی ٹوئن ٹاور پر حملے سے پہلے سلمان رشدی کو جہنم واصل کرتا کیونکہ اس نے ڈیڑھ ارب مسلمانوںکے ایمان اور عشق ؐپر حملہ کیا تھا۔
24 سال بعد نیوز چینلز پر توہین رسالت ؐکے دلفگار موضوع پر کچھ ٹاک شوز دیکھے تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ میری چھٹی حس نے ایک بار پھر مجھے خبردار کیا۔ میںسوچنے لگا کہ آج سے 24 سال پہلے اس منحوس سازش سے 5 غریب مسلمان جاں بحق ہو گئے تھے، اگر آج وہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا تو خدانخواستہ کتنے مسلمان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیںگے اور قصور وار ہزاروں میل دور محفوظ بھی رہیں گے اور مسلمانوں کی لاشیںگرتی دیکھ کر محظوظ بھی ہوں گے۔
حکومت کی غیر ذمے دارنہ اور پھٹی ہوئی چھتری کے تلے منائے جانے والے یوم عشق رسولؐ کے سلسلہ میں خیر سے 31 غریب مسلمان جاں بحق ہوئے اور اربوں روپے کی سرکاری اور نجی املاک خاکستر کر دی گئیں۔ اس موقعے پر 24 سال قبل برپا کی گئی وہی تقریب یاد آ رہی ہے جس میں مولانا کوثر نیازی کی پر جوش تقریر کے اختتام پر پنجابی فلم مولاجٹ کے '' شہرہ آفاق'' فلمساز محمد سرور بھٹی اسٹیج پر آ گئے تھے۔
محمد سرور بھٹی نے دونوں ہاتھ اٹھا کر حلف دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ سلمان رشدی کو خود اپنے ہاتھوں سے قتل کریں گے، مگر ربع صدی گزر جانے کے باوجود حقیقت میں تو کیا فلمساز نے اپنی کسی فلم میں بھی سلمان رشدی کوٹھکانے نہیں لگایا۔