آخریہ سب کیا ہو گیا

سیاست دانوں کے پاس بھی بہانے اور معذرت نامے بہت ہیں اور فقیہہ شہر بھی قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا۔

Abdulqhasan@hotmail.com

عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام پر جس دن ہم پاکستان بھر میں امریکا کے خلاف ہنگاموں میں اپنے پاکستان کا اربوں کا نقصان کر رہے تھے۔

ملک بھر میں لوٹ مار اور نہ جانے کیا کچھ مچا ہوا تھا تو مجھے اس دن کسی ہنگامے اور ہنگامہ پرور گروہ کے درمیان کوئی سیاسی لیڈر اور علماء دکھائی نہ دیا۔

اس قومی سطح کی ہنگامہ خیزی کے دوران ہر نوع اور نسل کی قیادت کا فقدان دیکھ کر اندازہ ہوا کہ جب کوئی قوم یا اس کا کوئی گروہ قیادت اور رہنمائی سے محروم ہو جاتا ہے تو پھر کیا ہوتا ہے' یہی جو اس دن ہوتا رہا۔

مجھے انتہائی پریشانی کے عالم میں یہ سب دیکھ کر برطانوی دانشور وزیراعظم کی زمانہ جنگ کی ایک بات یاد آئی کہ جنگ ایک ایسا نازک معاملہ ہے جسے جرنیلوں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا اور اس دن یہ عام سا ایک پاکستانی اس میں یہ اضافہ کر رہا تھا کہ عوام کی قیادت ایک ایسا نازک اور پیچیدہ معاملہ ہے کہ اسے سیاستدان اور علماء کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔

کیونکہ اس دن نہ کوئی سیاستدان دکھائی دیا نہ کوئی عالم دین، جو دکھائی دیا ،وہ اس پوری قوم نے خود اس میں شریک ہو کر یا ٹی وی کے ذریعے دیکھا۔ ایک معلم نے اس دن کی حالت دہراتے ہوئے مجھ سے کہا کہ یہ سب ان پڑھ لوگ تھے کیونکہ پیغمبر کی نصیحت یا مشورہ نہیں بلکہ یہ حکم تھا کہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر حصول علم ایک فرض ہے۔

جس کی ادائیگی لازم ہے۔ اگر کوئی مسلمان جاہل ہے تو وہ مسلمان ہونے کے اوصاف پر پورا نہیں اترتا اور جس ملک اور ریاست کی بھاری اکثریت ان پڑھ ہو یا صرف دستخط کرنے والی پڑھی لکھی ہو تو وہ ملک ایک اسلامی ملک نہیں کہا جا سکتا کجا کہ اسے خدا اور رسول کا عطیہ قرار دیا جائے۔ مملکت خدا داد پاکستان۔

تو جناب گزشتہ جمعہ جو رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت کے نام پر منایا جا رہا تھا یہ ان پڑھ یا نیم خواندہ مسلمان نوجوانوں کے ملک کا جمعہ تھا جس کے باشندوں کی دکھتی رگ پر چالاک اسلام دشمنوں نے پاؤں رکھ دیا تھا اور وہ اس کا انتقام اپنے آپ سے لے رہے تھے کہ وہ نہ صرف جاہل تھے بلکہ قیادت اور رہنمائی سے محروم بھی تھے کیونکہ وہ پیغمبر کے حکم یعنی حصول علم کے نافرمان تھے۔

اس دن کے حالات جن کا تحریر میں لانا کسی لکھنے والے کی بڑی آزمائش تھی اسے میرے کئی ساتھی دانشمندوں اور حقیقی مبصروں نے بڑی خوبصورتی اور خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کیا ہے کیونکہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ عالمی حالات اور عالمی کشمکش کی ہر کیفیت سے شناسا ہیں۔ انھیں دنیا کی بساط پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کی چپقلش کی باریکیوں کا خوب علم ہے اور وہ اس کی رفتار اور چالوں سے بخوبی واقف ہیں۔


سچ تو یہ ہے کہ ان گوناگوں انتہائی مکمل اور پر مغز تحریروں کے بعد اس موضوع پر کچھ لکھنا یعنی اضافہ ممکن نہیں ہے محض خانہ پری ہے۔ ایک بات جو دہرانے کی ضرورت ہے وہ ہے ہماری دینی اور سیاسی قیادت کی لاتعلقی' لاپروائی اور ملک گیر وقتی تحریک میں عوام کو یکہ و تنہا چھوڑ دینے کی کوتاہی یا جرم۔

میں جو ہر روز ان سیاستدانوں کا ذکر کرتا ہوں اور علماء کرام سے اپنی نیازمندی کا حوالہ بھی دیتا رہتا ہوں اپنے آپ سے شرمندہ ہوں اور اپنے باشعور اور حالات سے باخبر قارئین سے بھی جو مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ تم ان لوگوں کی مدح و ثناء میں ہمیں الجھاتے رہے، اب جب قوم پر وقت آیا ہے تو انھیں بلاؤ وہ کہاں ہیں، آئیں قوم کی رہنمائی اور قیادت کریں مگر حالت یہ ہے کہ ہر مظاہرہ کرنے والے کے ہاتھ میں جو ڈنڈا ہے وہ اسے اندھا دھند چلا رہا ہے۔

جو گاڑی بھی سامنے دکھائی دیتی ہے اس کے شیشے توڑ رہا ہے اور قہقہے لگا رہا ہے جیسے یہ پاکستان نہیں کوئی پاکستان دشمن ملک ہے جس کے شہریوں سے وہ کوئی انتقام لے رہا ہے۔ میں نے سارا دن چینل بہ چینل یہ منظر دیکھے اور شدید گھبراہٹ کے عالم میں یہ سوچتا رہا کہ ہماری قوم یکایک قیادت سے محروم کیسے ہو گئی ہے۔

اسے تو ایک لیڈر محمد علی جناح نے قوم بنایا تھا اور ایک حکیم اور دانش ور شاعر نے اس کے ذہنوں کی آبیاری کی تھی۔ پھر اس قوم نے جنگیں بھی لڑیں' اس کے دو ٹکڑے ہو جانے کا حادثہ بھی ہوا، اس نے اس کے رد عمل میں ایٹم بم بھی بنا لیا۔ اس نے چار فوجی آمروں کو بھی برداشت کیا۔ ہاں یاد آیا کہ اس قوم کے مجاہدوں نے اسلام دشمن سوویت یونین کو ملیامیٹ بھی کر دیا جو تاریخ کا ایک سیاسی معجزہ تھا۔

اس طرح یہ قوم کتنی ہی آزمائشوں اور کامرانیوں سے گزر کر یہاں تک پہنچی لیکن پھر ہم نے کیا دیکھا کہ یہ قوم اپنی ہر طرح کی قیادت سے محروم ہو گئی ہے۔ اس کے قائدین اگر زندہ ہیں تو کہاں ہیں۔ اگر حالات سے گھبرا کر کہیں بھاگ گئے ہیں تو ان کو تلاش کریں اور اگر مایوس ہو کر چھپ گئے ہیں تو قوم کو اپنی قیادت کا استعفیٰ پیش کر دیں۔

کچھ تو ہو، قیادت سے اچانک اور یکایک محرومی کے سانحہ کے پیچھے کچھ تو ہو گا، اس کا پتہ تو چلے کہ یہ حادثہ کس طرح ہو گیا۔ یہ کون سے منبر و محراب کے وارث ہیں اور یہ کون سے کسی موچی دروازے کی یادگار ہیں ؎

شرار ہے تو یہ بھڑکے جو پھول ہے تو کھلے
طرح طرح کی طلب تیرے رنگ لب سے ہے

کچھ تو بولیں کچھ تو بتائیں۔ گزشتہ جمعہ کو یہ کیا حادثہ ہو گیا کہ ہماری ہر قسم کی قیادت یکایک عوام سے گم ہو گئی۔ وہ اب اس کی تلاش میں ہیں یا اس سے مایوس ہو کر چپکے سے بیٹھ گئے ہیں۔

سیاست دانوں کے پاس بھی بہانے اور معذرت نامے بہت ہیں اور فقیہہ شہر بھی قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا۔ بس اگر کوئی بے خبر ہے' بے علم ہے اور بے عقل ہے تو وہ اس ملک کا عام شہری ہے جس کے بغیر ان لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بہرحال اﷲ سے رحم کا طلب گار ہوں کہ وہ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے اس قوم کے گناہ معاف کر دے اور اسے اصحاب کہف کی نیند سے بیدار کر دے۔
Load Next Story