پاکستان ایک نظر میں اگلی حلیمہ رفیق کی موت تک

’’چچ، چچ۔۔۔ اوہو۔۔۔ بہت افسوس ہوا۔۔۔ بہت غلط ہوا‘‘ اور بس، اپنی زندگی میں کھو گئے۔

’’چچ، چچ۔۔۔ اوہو۔۔۔ بہت افسوس ہوا۔۔۔ بہت غلط ہوا‘‘ اور بس، اپنی زندگی میں کھو گئے۔

''انصاف'' ایسے بھی ہوتا ہے جیسے حلیمہ رفیق کے ساتھ ہوا!
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا!

خاتون کرکٹر حلیمہ رفیق نے تیزاب پی کر زندگی وار دی۔کارن اس کا ہوا عدالتی سمن اور عدالتی سمن کی وجہ، اس مصیبت کی ماری کی آہ وزاری، جو اس نے سماج کے ان درندہ صفت بھیڑیوں کے خلاف کی۔ وڈیرانہ ذہنیت کو بجا طور پر کالے انگریزوں کی کسی صنف سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ 2 کروڑ روپے ہرجانے کا دعوا کیا گیا تھا اس بیمارذہنیت نے، تاکہ کل کو کوئی بیٹی صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے بھی سو بار سوچے کہ عدالت الٹا اسے اس ہرجانے کے لیے کٹہرے میں بلائے گی، کہ اس کی نسلوں کی کل پونجی بھی اتنی قیمت کی نہ ہو گی۔ کیا ہوگا پھر؟ ہرجانہ نہ بھی دینا پڑے تو وکیل کرنے کے چکروں میں کتنی جان نکل جائے گی!۔

کھوکھلے نہیں ہو گئے، ہماری طرح ہمارے رویے بھی۔ انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی سانحہ ہو اور گریہ کرنے بیٹھ جائیں۔ نوحہ کہیں ، لفظوں سے الم کہیں، مگر سمجھ نہیں آتا کہ یہ لفاظی آخر جاتی کہاں ہے؟۔

پتھروں پر بھی کچھ نہ کچھ اثر ہو ہی جاتا ہے، میں نے پچھلے بلاگ میں یہی لکھا تھا کہ ہم اپنی بیٹیوں کو عربوں کے زمانہ جاہلیت کی طرح زندہ نہیں دفناتے، لیکن اسے جیون بھر کی موت ضرور دیتے ہیں۔ افسوس، چند ہی دن بیتے کہ ایک اور مثال سامنے آگئی۔ فرق اس میں یہ تھا کہ واردات بہ ذریعہ عدالت ہوئی!۔

خدا جانے یہ انصاف کے کارخانے کیا ہوئے۔ فرض ان کا یہ تھا کہ ظالم کو بیچ چوراہے پر ٹانگ دیں، نشان عبرت بنا دیں! مظلوم کی داد رسی ہو، سماج میں چین کا راج ہو۔ کمزور کی طرف اٹھنے والی طاقت ور کی میلی آنکھ نکال پھینکی جائے! مگر خدا جانے کہ قانون اور عدل کے یہ لگے بندھے اصول کیسے ہیں کہ لوگوں کو دعا دی جاتی ہے کہ اللہ عدالت، تھانہ، کچہری کے چکروں سے بچائے۔

لوگوں کا حافظہ کمزور نہ ہو تو انہیں یاد ہوگا کہ 2007ء میں ''آزاد عدلیہ'' کا شور ایسا مچا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ عوام پاگل ہوئے جاتے تھے، کہ چلو زندگی آسان ہوگی، مگر کیا ہوا؟ کیا ہوئی وہ آزاد عدلیہ؟ سماج کی کمزور حلیمہ کل بھی مر رہی تھی اور آج بھی وہ اپنی عزت بچانے کے جرم میں فنا کے گھاٹ اترنے پر مجبور ہے!۔

''ہمیں انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں!''

حقیقت ہے سیانے اُس وقت بھی کہہ رہے تھے کہ صاحبو، یہ عدلیہ کی نہیں اپنی آزادی کی جنگ ہے۔ تم جوان لوگ ہو ، نہیں جانتے کہ اتنی آسانی سے تبدیلی کسی پکے ہوئے پھل کی طرح جھولی میں آکر نہیں گرا کرتی! اب سمجھ میں آتا ہے کہ سارے ازخود نوٹس، عدالت طلبی، فرد جرم اور سلگتے ہوئے ریمارکس کس کی خوشنودی کے لیے تھے، نہیں پتا۔

حلیمہ مرگئی، نوحہ ہوگیا، کھاتے پیتے گھرانوں کی آنٹیاں شاید آج شام پریس کلب پر دیے بھی جلا ئیں۔ کل کوئی حقوق نسواں کی تنظیم موم بتیوں کی روشنیوں میں منرل واٹر کے جلو میں اس کی مذمت بھی کرے اور اللہ اللہ خیر صلا!

دوسروں پر کیا موقوف، اس لکھنے والے کی بساط اور اوقات بھی بس اتنی کہ جب بھی کوئی حلیمہ جبر کا شکار ہوئی اور قلم لے کر ماتم کیا اور یہ لکھی ہوئی سینہ کوبی آگے بڑھا دی۔ شائع ہو گئی، قارئین نے دل تھام کر پڑھی۔

''چچ، چچ۔۔۔ اوہو۔۔۔ بہت افسوس ہوا۔۔۔ بہت غلط ہوا'' اور بس، اپنی زندگی میں کھو گئے۔ حقیقت میں بے حسی اور غفلت کی نیند سو گئے۔ کسی اگلی حلیمہ رفیق کی موت ہو جانے تک۔۔۔



نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story