جسٹس طارق محمود جہانگیری ڈگری کیس جامعہ کراچی نے عدالت میں جواب جمع کروا دیا
حکومت کو جواب جمع کروانے کیلئے مہلت
سندھ ہائیکورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق کیس میں وفاقی حکومت اور پاکستان بار کونسل کی جواب جمع کروانے کی مہلت کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
ہائیکورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ بار، کراچی بار اور دیگر درخواستوں کی سماعت ہوئی۔
جامعہ کراچی اور پولیس نے عدالت میں جواب جمع کروا دیا۔ جامعہ کراچی نے جواب میں کہا ہے کہ درخواستگزار کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی پٹیشن دائر کرے۔ یونیورسٹی کی ڈگری کوئی پبلک ڈاکیومنٹس نہیں ہوتی جبکہ یہ صرف طالب علم کی ملکیت ہوتی ہے۔ درخواستگزار کو ڈگری کے جھوٹا ہونے کا اندیشہ تھا تو کراچی یونیورسٹی سے رابطہ کرسکتا تھا۔
جامعہ کراچی نے کہا کہ درخواستگزار نے یہ کوشش کی ہے کہ وہ طالب علم کی ڈگری کو عدلیہ کی آزادی سے منسلک کرے۔ کراچی یونیورسٹی کو سنے بغیر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یونیورسٹی نے غیر قانونی کام کیا ہے۔ درخواستگزار نے مفروضوں کو بنیاد بناکر درخواست دائر کی ہے۔ اس درخواست کے ذریعے یونیورسٹی کے معاملات میں دخل اندازی کی گئی ہے۔ کوئی بھی تعلیمی ادارہ سکھانے کا مرکز ہوتا ہے اور اپنے بنائے ہوئے اصولوں پر چلتا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کا حکم ان کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کا حکم کراچی یونیورسٹی کے اس ریکارڈ کے مطابق ہے جو انہیں مہیا کیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری منسوخی کا فیصلہ معطل
وفاقی حکومت اور پاکستان بار کونسل نے جواب جمع کروانے کے لئے مہلت کی استدعا کردی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اسلامیہ کالج پشاور کو درخواست میں فریق بنایا گیا ہے؟ درخواستگزار کے وکیل نے مؤقف دیا کہ اسلامیہ کالج کو بھی فریق بنا رہے ہیں۔
عدالت نے درخواستوں کی مزید سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔ عدالت نے ان فئیر مینز کمیٹی کی سفارشات اور سینڈیکیٹ کا فیصلہ معطل کرکے جامعہ کراچی کو معاملے پر کسی بھی کارروائی سے روک رکھا ہے۔
عدالت نے پیمرا کو ان فیئر مینز کمیٹی سے متعلق خبروں اور ایف آئی اے کو ڈگری سے متعلق تحقیقات سے بھی روک رکھا ہے۔
ہائیکورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ بار، کراچی بار اور دیگر درخواستوں کی سماعت ہوئی۔
جامعہ کراچی اور پولیس نے عدالت میں جواب جمع کروا دیا۔ جامعہ کراچی نے جواب میں کہا ہے کہ درخواستگزار کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی پٹیشن دائر کرے۔ یونیورسٹی کی ڈگری کوئی پبلک ڈاکیومنٹس نہیں ہوتی جبکہ یہ صرف طالب علم کی ملکیت ہوتی ہے۔ درخواستگزار کو ڈگری کے جھوٹا ہونے کا اندیشہ تھا تو کراچی یونیورسٹی سے رابطہ کرسکتا تھا۔
جامعہ کراچی نے کہا کہ درخواستگزار نے یہ کوشش کی ہے کہ وہ طالب علم کی ڈگری کو عدلیہ کی آزادی سے منسلک کرے۔ کراچی یونیورسٹی کو سنے بغیر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یونیورسٹی نے غیر قانونی کام کیا ہے۔ درخواستگزار نے مفروضوں کو بنیاد بناکر درخواست دائر کی ہے۔ اس درخواست کے ذریعے یونیورسٹی کے معاملات میں دخل اندازی کی گئی ہے۔ کوئی بھی تعلیمی ادارہ سکھانے کا مرکز ہوتا ہے اور اپنے بنائے ہوئے اصولوں پر چلتا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کا حکم ان کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کا حکم کراچی یونیورسٹی کے اس ریکارڈ کے مطابق ہے جو انہیں مہیا کیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری منسوخی کا فیصلہ معطل
وفاقی حکومت اور پاکستان بار کونسل نے جواب جمع کروانے کے لئے مہلت کی استدعا کردی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اسلامیہ کالج پشاور کو درخواست میں فریق بنایا گیا ہے؟ درخواستگزار کے وکیل نے مؤقف دیا کہ اسلامیہ کالج کو بھی فریق بنا رہے ہیں۔
عدالت نے درخواستوں کی مزید سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔ عدالت نے ان فئیر مینز کمیٹی کی سفارشات اور سینڈیکیٹ کا فیصلہ معطل کرکے جامعہ کراچی کو معاملے پر کسی بھی کارروائی سے روک رکھا ہے۔
عدالت نے پیمرا کو ان فیئر مینز کمیٹی سے متعلق خبروں اور ایف آئی اے کو ڈگری سے متعلق تحقیقات سے بھی روک رکھا ہے۔