بجلی کے بحران اور مہنگائی نے عوام کے کس بل نکال دیئے
شدید گرمی نے جو ستم ڈھائے لوڈ شیڈنگ نے اس پر مزید آگ چھڑک دی اور یوں رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ انتہائی۔۔۔
رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ اپنے جلو میں برکتیں ، سعادتیں اور رحمتیں لیے جاری ہے۔
اہل پاکستان نے اس ماہ مقدس میں زیادہ سے زیادہ ثواب کمانے کے لیے روزے رکھنے اور مساجد کو آباد کرنے کااہتمام کیا ۔ لیکن اہل اقتدار نے بھی اس ماہ صیام میں اپنے عوام کی آزمائش کا پورا پورا سامان کیا۔ بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ نے عوام کے تمام کس بل نکال دیے ۔ وہ جو استقبال رمضان میں بڑے جوش و جذبے کے ساتھ شریک تھے ان کی امیدوں پر اوس پڑگئی ۔ ان کے سحرو افطار کی بابرکت ساعتوں میں وہ کھنڈت پیدا ہوئی کہ ان کے لیے ذمہ داران کو سوائے بد دعائیں دینے کے کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا۔
شدید گرمی نے جو ستم ڈھائے لوڈ شیڈنگ نے اس پر مزید آگ چھڑک دی اور یوں رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ انتہائی تکلیف ، اذیت اور مشکلات میں گزرا۔ یہی نہیں یہاں پر اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے۔ وہ اشیاء جن کی قیمتیں رمضان المبارک سے پہلے ہی عوام کی پہنچ سے باہر تھیں رمضان المبارک میں ان میں بھی کئی گنا اضافہ کردیا گیا ۔ منافع خور تاجروں اور کرپٹ انتظامیہ کو بھی اس دوران کھل کھیلنے کا موقع میسر آیا۔ عوامی حکمرانوں نے بھی نام نہاد اصلاح احوال کے نام پر سٹیریو ٹائپ بیانات کا سلسلہ جاری رکھا اور حالات میں عملاً کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی۔
وزیر اعلی پنجاب جنھیں اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کامالک تصور کیا جاتا ہے اور جن کا دعویٰ ہے کہ انہیں فروری 2013 کے عام انتخابات میں عوام نے کامیاب ہی اس لیے کیا تھاکہ اس سے پہلے کے عرصہ اقتدار میں انہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا ۔ اس مرتبہ کاغذی کارروائیوں اور زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ سکے۔ ان کے مشیروں اور انتظا می مشینری نے شاید ان کو اس حد تک بے بس کرکے رکھ دیا کہ وہ اسی کارکردگی پر ہی مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی ترجیحات کے تعین ہی میں کہیں کوئی خرابی در آئی ہے جس کی وجہ سے وہ اہم امور جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت تھی وہ پس منظر میں چلے گئے اور وہ ایشوز جن کو فوری ایڈریس کرنے کی ضرورت نہ تھی وہ پہلی ترجیح میں جگہ پا گئے ہیں۔ اس وقت ملک کے عوام بجلی پانی کی عدم دستیابی اور گرانی اور مہنگائی کے ہاتھوں نالاں ہیں ۔ انہیں میٹرو بس میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی بڑے بڑے منصوبوں سے کوئی سروکار ۔ جب کھانے کو روٹی اور پینے کو پانی ہی میسر نہیں ہوگا تو یہ منصوبے انہیں کیا دیں گے۔ اب تو خیر سے وزیر پانی و بجلی یکے از خواجگانِ حکومت خواجہ محمد آصف نے بھی بجلی کے شدید بحران کو وعدوں کے مطابق ختم نہ کر سکنے کا اعتراف کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگ لی ہے اور ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ بحران صرف باران رحمت ہی کم کرسکتی ہے۔
اس اعتراف جرم کے بعد قانون شہادت کی رو سے کسی مزید شہادت یا گواہی کی گنجائش یا حاجت باقی نہیں رہ جاتی۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں پر نہ تو کسی کو غلطی پر کوئی سزا دیے جانے کی کوئی روایت ہے اور نہ ہی کسی قسم کا مواخذہ کرنے کا رواج ۔ بادی النظر میں تو اس اعتراف کے بعد موجودہ حکومت کو بالعموم اور وزیر موصوف کو بالخصوص اقتدار سے چمٹے رہنے کا کوئی حق یا استحقاق باتی نہیں رہ جاتا۔ لیکن ظاہر ہے یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ جب لوگ نااہل ثابت بھی ہو جائیں اور پھر انہیں ان کی نااہلی کی بنا پر مستوجب سزا ٹھہرایا گیا ہو ۔
ہر بار جب لوڈ شیڈنگ سے تنگ آئے لوگ سڑکوں پر احتجاج کرتے اور گھیراؤ جلاؤ کا راستہ اپنا کر حکمرانوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو حکمرانوں کی طرف سے یہ بیان جاری کردیا جاتاہے کہ ''وزیر اعظم (یا وزیر اعلیٰ ) نے صورت حال کا نوٹس لے لیا ہے ''۔ اور بس۔ حقیقت میں یہ نوٹِس (notice) نہیں ہوتا بلکہ (notes) ہوتا ہے محض عوام کو الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھایا جاتا ہے جس پر اعتبار کرکے عوام کی طرف سے چند دن کے لیے احتجاج ملتوی کر دیا جاتا ہے ۔ لیکن معاملات وہیں کے وہیں رہتے ہیں ۔ اور یہ سلسلہ ایک عرصہ سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے ۔
وزیر اعظم میاں نوازشریف ، وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف، وزیر مملکت برائے پانی وبجلی عابد شیر علی اور دیگر اعلیٰ عہدیدارن بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کے حل کے بارے میں کئی بار ڈیڈ لائن دے چکے ہیں لیکن نہ صرف یہ مسئلہ جوں کا تو ں برقرار ہے بلکہ اس کی شدت اور سنگینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح مہنگائی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں نہ رکنے والا اضافہ بھی حکومت کی گڈ گورننس کا منہ چڑا رہا ہے ۔ اس جانب بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ لیکن حکمرانوں کو شائد عوام کے یہ مسائل دکھائی نہیں دے رہے یا شائد انہیں وہ اپنی اولین ترجیحات میں جگہ نہیں دے پا رہی۔
اس وقت جبکہ افواج پاکستان ملک سے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہوں۔ ہمارے سپاہی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر میدان عمل میں نکلے ہوئے ہوں اور اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہوں اور اس آپریشن کے نتیجے میں آٹھ سے دس لاکھ کے قریب شہری بے خانماں ہوکر بے یارو مددگار سڑکوں پر پڑے ہوں ، ایسے میں ملک کے عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مشکل کی ان گھڑیوں میں آگے بڑھیں اور ان بے خانماں افراد کی اخلاقی، مالی امداد کے لیے مواخوات کا وہ عمل دہرائیں جو نبی مکرم حضرت محمد ﷺ کے دور باسعادت میں انصار نے مہاجرین کے لیے کیا تھا لیکن وہ ایسا نہیں کر پا رہے جس کی وجہ ان کی بے حسی نہیں وہ مسائل ہیں جن میں موجودہ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں نے انہیں گھیررکھا ہے۔
ایسے میں اگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے صرف انہی قومی ایشوز (یعنی بجلی و پانی کی عدم دستیابی اور ہوشربا مہنگائی) کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلا ف کوئی تحریک چلانے یا لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے تو اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ اب ''ہنوز دلی دور است والی'' صورت نہیں رہی ۔ اب آنکھیں کھول کر حقائق کو سمجھنا اور نوشتہ دیوار کو پڑھنا ہوگا ورنہ معاملات کو ٹرخانے کی موجودہ روش خطرنا ک ثابت ہو سکتی ہے۔ پانی سر سے گزرگیا تو اس پر قابو پانا ممکن نہ ہو سکے گا۔
اہل پاکستان نے اس ماہ مقدس میں زیادہ سے زیادہ ثواب کمانے کے لیے روزے رکھنے اور مساجد کو آباد کرنے کااہتمام کیا ۔ لیکن اہل اقتدار نے بھی اس ماہ صیام میں اپنے عوام کی آزمائش کا پورا پورا سامان کیا۔ بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ نے عوام کے تمام کس بل نکال دیے ۔ وہ جو استقبال رمضان میں بڑے جوش و جذبے کے ساتھ شریک تھے ان کی امیدوں پر اوس پڑگئی ۔ ان کے سحرو افطار کی بابرکت ساعتوں میں وہ کھنڈت پیدا ہوئی کہ ان کے لیے ذمہ داران کو سوائے بد دعائیں دینے کے کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا۔
شدید گرمی نے جو ستم ڈھائے لوڈ شیڈنگ نے اس پر مزید آگ چھڑک دی اور یوں رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ انتہائی تکلیف ، اذیت اور مشکلات میں گزرا۔ یہی نہیں یہاں پر اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے۔ وہ اشیاء جن کی قیمتیں رمضان المبارک سے پہلے ہی عوام کی پہنچ سے باہر تھیں رمضان المبارک میں ان میں بھی کئی گنا اضافہ کردیا گیا ۔ منافع خور تاجروں اور کرپٹ انتظامیہ کو بھی اس دوران کھل کھیلنے کا موقع میسر آیا۔ عوامی حکمرانوں نے بھی نام نہاد اصلاح احوال کے نام پر سٹیریو ٹائپ بیانات کا سلسلہ جاری رکھا اور حالات میں عملاً کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی۔
وزیر اعلی پنجاب جنھیں اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کامالک تصور کیا جاتا ہے اور جن کا دعویٰ ہے کہ انہیں فروری 2013 کے عام انتخابات میں عوام نے کامیاب ہی اس لیے کیا تھاکہ اس سے پہلے کے عرصہ اقتدار میں انہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا ۔ اس مرتبہ کاغذی کارروائیوں اور زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ سکے۔ ان کے مشیروں اور انتظا می مشینری نے شاید ان کو اس حد تک بے بس کرکے رکھ دیا کہ وہ اسی کارکردگی پر ہی مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی ترجیحات کے تعین ہی میں کہیں کوئی خرابی در آئی ہے جس کی وجہ سے وہ اہم امور جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت تھی وہ پس منظر میں چلے گئے اور وہ ایشوز جن کو فوری ایڈریس کرنے کی ضرورت نہ تھی وہ پہلی ترجیح میں جگہ پا گئے ہیں۔ اس وقت ملک کے عوام بجلی پانی کی عدم دستیابی اور گرانی اور مہنگائی کے ہاتھوں نالاں ہیں ۔ انہیں میٹرو بس میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی بڑے بڑے منصوبوں سے کوئی سروکار ۔ جب کھانے کو روٹی اور پینے کو پانی ہی میسر نہیں ہوگا تو یہ منصوبے انہیں کیا دیں گے۔ اب تو خیر سے وزیر پانی و بجلی یکے از خواجگانِ حکومت خواجہ محمد آصف نے بھی بجلی کے شدید بحران کو وعدوں کے مطابق ختم نہ کر سکنے کا اعتراف کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگ لی ہے اور ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ بحران صرف باران رحمت ہی کم کرسکتی ہے۔
اس اعتراف جرم کے بعد قانون شہادت کی رو سے کسی مزید شہادت یا گواہی کی گنجائش یا حاجت باقی نہیں رہ جاتی۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں پر نہ تو کسی کو غلطی پر کوئی سزا دیے جانے کی کوئی روایت ہے اور نہ ہی کسی قسم کا مواخذہ کرنے کا رواج ۔ بادی النظر میں تو اس اعتراف کے بعد موجودہ حکومت کو بالعموم اور وزیر موصوف کو بالخصوص اقتدار سے چمٹے رہنے کا کوئی حق یا استحقاق باتی نہیں رہ جاتا۔ لیکن ظاہر ہے یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ جب لوگ نااہل ثابت بھی ہو جائیں اور پھر انہیں ان کی نااہلی کی بنا پر مستوجب سزا ٹھہرایا گیا ہو ۔
ہر بار جب لوڈ شیڈنگ سے تنگ آئے لوگ سڑکوں پر احتجاج کرتے اور گھیراؤ جلاؤ کا راستہ اپنا کر حکمرانوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو حکمرانوں کی طرف سے یہ بیان جاری کردیا جاتاہے کہ ''وزیر اعظم (یا وزیر اعلیٰ ) نے صورت حال کا نوٹس لے لیا ہے ''۔ اور بس۔ حقیقت میں یہ نوٹِس (notice) نہیں ہوتا بلکہ (notes) ہوتا ہے محض عوام کو الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھایا جاتا ہے جس پر اعتبار کرکے عوام کی طرف سے چند دن کے لیے احتجاج ملتوی کر دیا جاتا ہے ۔ لیکن معاملات وہیں کے وہیں رہتے ہیں ۔ اور یہ سلسلہ ایک عرصہ سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے ۔
وزیر اعظم میاں نوازشریف ، وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف، وزیر مملکت برائے پانی وبجلی عابد شیر علی اور دیگر اعلیٰ عہدیدارن بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کے حل کے بارے میں کئی بار ڈیڈ لائن دے چکے ہیں لیکن نہ صرف یہ مسئلہ جوں کا تو ں برقرار ہے بلکہ اس کی شدت اور سنگینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح مہنگائی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں نہ رکنے والا اضافہ بھی حکومت کی گڈ گورننس کا منہ چڑا رہا ہے ۔ اس جانب بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ لیکن حکمرانوں کو شائد عوام کے یہ مسائل دکھائی نہیں دے رہے یا شائد انہیں وہ اپنی اولین ترجیحات میں جگہ نہیں دے پا رہی۔
اس وقت جبکہ افواج پاکستان ملک سے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہوں۔ ہمارے سپاہی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر میدان عمل میں نکلے ہوئے ہوں اور اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہوں اور اس آپریشن کے نتیجے میں آٹھ سے دس لاکھ کے قریب شہری بے خانماں ہوکر بے یارو مددگار سڑکوں پر پڑے ہوں ، ایسے میں ملک کے عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مشکل کی ان گھڑیوں میں آگے بڑھیں اور ان بے خانماں افراد کی اخلاقی، مالی امداد کے لیے مواخوات کا وہ عمل دہرائیں جو نبی مکرم حضرت محمد ﷺ کے دور باسعادت میں انصار نے مہاجرین کے لیے کیا تھا لیکن وہ ایسا نہیں کر پا رہے جس کی وجہ ان کی بے حسی نہیں وہ مسائل ہیں جن میں موجودہ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں نے انہیں گھیررکھا ہے۔
ایسے میں اگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے صرف انہی قومی ایشوز (یعنی بجلی و پانی کی عدم دستیابی اور ہوشربا مہنگائی) کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلا ف کوئی تحریک چلانے یا لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے تو اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ اب ''ہنوز دلی دور است والی'' صورت نہیں رہی ۔ اب آنکھیں کھول کر حقائق کو سمجھنا اور نوشتہ دیوار کو پڑھنا ہوگا ورنہ معاملات کو ٹرخانے کی موجودہ روش خطرنا ک ثابت ہو سکتی ہے۔ پانی سر سے گزرگیا تو اس پر قابو پانا ممکن نہ ہو سکے گا۔