غزوۂ بدر حق و باطل کا پہلا فیصلہ کن معرکہ

میدانِ بدر میں لشکر اسلام نے جراٗت و شجاعت اور جاں نثاری کی بے مثال یادگار قائم کی

میدانِ بدر میں لشکر اسلام نے جراٗت و شجاعت اور جاں نثاری کی بے مثال یادگار قائم کی۔ فوٹو : فائل

تین سو تیرہ کی تعداد امتِ مسلمہ کے لئے نہایت اہمیت رکھتی ہے ، ہر مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ کے تمام نبیوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے، ان نبیوں کی تعداد غیب کی خبریں دینے والے رحمت ِ عالم ﷺ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار یا کم و بیش بتائی ہے۔

ان نبیوں میں صرف تین سو تیرہ رسول ہوئے۔ حضور اکرم ﷺ کے صحابہ کرام کی تعداد بھی ایک لاکھ چوبیس ہزار بتائی گئی ہے ان میں سے تین سو تیرہ صحابی وہ ہیں جنہیں اصحاب ِ بدر کہا جاتا ہے۔ اس کا سبب عزوۂ بدر میں ان کی شمولیت ہے جو 2 ہجری میں مدینہ منورہ سے اَسّی میل کے فاصلے پر بدر نامی کنویں سے ملحق میدان میں حق و باطل کا پہلا فیصلہ کن معرکہ تھا۔ یہی وہ تین سو تیرہ افراد ہیں جن کے بارے میں زبانِ رسالت نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ اے اﷲ، اگر آج یہ باقی نہ رہے تو پھر تجھے معبود ماننے والا کوئی نہ ہوگا گویا ان تین سو تیرہ کی بقا دینِ اسلام اور مسلمانوں کی بقا قرار دی گئی۔ آج ہمارے معاشرے میں تین اور تیرہ کے عدد کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

یہ دشمنِ اسلام سازش ہے کیوں کہ تین سو تیرہ افراد کی تعداد نے میدانِ بدر میں منکرینِ نبوت کو ہزیمت اور شکست سے دوچار کیا اسی لئے غیر مسلم طبقہ کے لئے یہ عدد موافق ثابت نہ ہُوا۔ اﷲ کے نامِ پاک کے اعداد کا حاصل تین کا عدد ہے اور تین سو تیرہ کے اعداد کا حاصل سات کا عدد ہے۔

سات کے عدد کی جلوہ نمائی دیکھئے۔ رسولِ اکرم ﷺ کی اولادیں بھی سات ہیں۔ تین بیٹے اور چار بیٹیاں۔ حضرت قاسم، حضرت عبداﷲ، جن کا لقب طیب و طاہر ہے اور حضرت ابراہیم رضی اﷲ عنہم اور چار بیٹیاں سیدہ زینب، ام کلثوم، رقیہ اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اﷲ عنھن۔ سات آسمان ہیں اور زمینیں بھی سات ہیں۔ قرآن کی منزلیں بھی سات ہیں اور قرأتیں بھی سات ہیں۔ بیت اﷲ کے طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کے پھیرے بھی سات ہیں۔ ہفتے کے دن بھی سات ہیں۔ گائے اور اونٹ میں قربانی کے حصے بھی سات ہیں۔ جنتیں بھی سات ہیں۔ جنت الفردوس، جنت عدن، جنت ماوی، جنت نعیم، دارالخلم، دارالجناں، دارالسلام۔ عربی زبان میں سات کا لفظ کثیر عدد کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

عدد دو طرح کا ہوتا ہے طاق اور جفت۔ دو کا عدد پہلا جفت ہے اور تین کا پہلا طاق عدد ہے۔ سات کا عدد جفت اور طاق اعداد کا پہلا کثیر مجموعہ ہے اس میں تین طاق ہیں، تین ۔ پانچ ۔ سات اور تین ہی جفت ہیں دو ۔ چار ۔ چھ ۔ اسی طرح دھنک کے رنگ بھی سات ہیں۔ اسی طرح کی اور بھی مثالیں ہیں اس طور علمائے کرام نے تین سو تیرہ کی تعداد کو بہت مبارک قرار دیا ہے۔ تاریخِ اسلام میں یہ تین سو تیرہ افراد کی تعداد کا ہی کرشمہ ہے کہ دین باقی ہے یقینا غزوۂ بدر کا مرحلہ بہت اہم تھا۔ دشمن کس قدر مستعد تھا۔

بے سرو سامان مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے جب کہ مقابل لشکر تقریباً ایک ہزار افراد پر مشتمل تھا وہ سامانِ حرب سے بھرپور تھا اور مسلمانوں کو یکسر ختم کردینے کے ارادے سے آیا تھا اسی لئے ان تین سو تیرہ افراد کی بقا کو رحمت عالم ﷺ نے دین کی بقا قرار دیا۔ تاریخِ اسلام کے مطالعہ کرنے والے ہر شخص کے علم میں ہے کہ کفارِ مکہ نے شفیع عاصیاں رحمت ِ دوجہاں ﷺ اور آپ کے صحابۂ کرام پر مکہ مکرمہ میں تیرہ برس کے مسلسل دورانیے میں انسانیت سوز مظالم کی انتہا کردی تھی یہاں تک کہ عرصۂ حیات تنگ کردیا تھا مسلمانوں سے معاشرتی مقاطعہ کیا اور انہیں ایک لمحہ بھی سکون و آرام سے سانس نہیں لینے دیا۔

حکم ربّانی سے سرورِ عالم ﷺ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی اپنے مولد و موطن کو دین کے فروغ اور اﷲ کی رضا کے لئے چھوڑ دیا۔ مدینہ منورہ کو آباد کیا۔ حضور اکرم ﷺ کی ہجرت کے سبب مسلمانوں کا مکہ مکرمہ میں رہنا جائز نہیں رہا حالاں کہ بیت اﷲ، حجرِ اسود، چاہ زم زم، صفا و مروہ وغیرہ سب مکہ میں تھے۔ مگر ان سب کی جان بلکہ جانِ کائنات وہاں نہ رہے تو کسی صاحب ِ ایمان کا وہاں رہنا جائز نہ رہا۔ جب رسول اﷲ ﷺ نے اس شہر کو فتح کیا تو پھر اسی مکہ میں قیام جائز ہوگیا بلکہ برکت و رحمت کا موجب بھی ہُوا۔ اس سے ثابت ہُوا کہ شریعت کا مدار ذات ِ مصطفی ہے اور ان کی اداؤں اور گفتار و کردار ہی کا نام قانونِ الہی ہے۔ قرآن کی تفہیم و تعمیل بھی ان کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی لئے تمام مسلمان مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے ان ہجرت کرنے والوں کو قرآن میں مہاجرین کہا گیا ہے۔

یہ ہجرت صرف اﷲ اور اس کے رسول کے لئے تھی اور جس نے کوئی اور مقصد شامل کیا اسے مہاجر ام قیس قرار دیا گیا یقیناً اجر و ثواب کے لئے ضروری ہے کہ نیت اﷲ اور کے رسول کی رضا ہو۔ کفارِ مکہ نے مسلمانوں کو اتنی سہولت فراہم نہیں کی تھی کہ وہ اپنے مال و اسباب وغیرہ بھی لے جاسکتے۔ مسلمان اپنے دین و ایمان کو بچانے کے لئے سب کچھ چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔ مدینہ منورہ کے مسلمانوں نے مہاجرین کو رہنے کے لئے اپنے گھروں میں جگہ دی ان کے خورد و نوش کا اہتمام کیا اور انہیں سہارا دیا۔ قرآنِ کریم میں انہیں انصار کہا گیا۔ انصار جمع ہے ناصر کی جس کے معنی مددگار کے ہیں۔ قرآنِ کریم کی سورۂ فاتحہ میں ہے کہ ہم تجھی سے مدد چاہیں اور تیری ہی عبادت کریں۔

اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ اﷲ کے سِوا کوئی مددگار نہیں اور پھر قرآن ہی میں ہے کہ اے لوگوں اﷲ کے مددگار ہوجاؤ، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور اہلِ مدینہ کو بھی انصار کیا گیا تو علمائے مفسرین نے اس شبہ کو دُور کرتے ہوئے لکھا ہے ذاتی اور حقیقی طور پر ہر کمال صرف اﷲ کے لئے ہے اور نبیوں ولیوں اور مومن بندوں وغیرہ کے لئے ہر کمال و اختیار اﷲ کی عطا سے ہے اور معبود سمجھ کر مدد صرف اﷲ سے مانگی جاتی ہے اور نبیوں ولیوں سے انہیں اﷲ کا محبوب اور دوست سمجھ کر مدد مانگی جاتی ہے اگر اﷲ کے سِوا کسی کو مددگار مطلق نہ مانا جائے تو نہ قرآن پر ایمان قائم رہ سکتا ہے اور نہ زندگی گزر سکتی ہے۔ کیوں کہ زندگی کے ہر گوشے اور ہر مرحلے میں ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کے بغیر وقت نہیں گزارا جاسکتا۔

اﷲ کے بندوں کی مدد بھی اﷲ ہی کی مدد ہے کیوں کہ ان بندوں میں مدد کرنے کی قوت و صلاحیت اﷲ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے۔ یہ مددگار انصارِ مدینہ وہ ہیں جنہوں نے رحمت ِ عالم نورِ مجسم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے حسن سلوک کی یادگار مثالیں قائم کردیں۔ ابھی ہجرت کو دو برس ہی گزرے کہ کفار سے معرکہ آرائی کا مرحلہ آگیا۔ محسنِ انسانیت فخرِ عالم ﷺ نے انصار سے ان کی رائے پوچھی۔ انصار نے جواب دیا حضورِ اکرم نے اس پر انہیں معیت کی بشارت سنائی ۔ انصارِ مدینہ نے کہا ہم آپ کے امتی اور کلمہ خواں ہیں ہم ہر گز موسی علیہ السلام کے امتیوں کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ جاؤ تم اور تمہارا رب لڑے ۔ ہم بیٹھے مزے کریں گے۔ یارسول اﷲ ہم وہ ہیں کہ بدر کیا آپ کسی ایسے سفر پر ایسے راستے پر ہمیں لے جائیں جہاں سے پلٹنا ممکن نہ ہو ہم وہاں بھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے بلکہ اپنا سب کچھ آپ پر قربان کریں گے۔ صف بندی ہوئی۔

بوڑھے، جوان سب ہی جوش جہاد میں سرشار تیار ہیں۔ رحمتِ عالم ﷺ معائنہ فرما رہے ہیں۔ صف کے آخر میں دو بچے بھی کھڑے ہیں۔ معوذ اور معاذ، چھوٹی عمریں ہیں، دونوں حقیقی بھائی ہیں اور جوشِ جہاد سے سرشار ہیں۔ بڑے بھائی کے کندھے پر رسول اﷲ ﷺ نے ہاتھ رکھا اور فرمایا بیٹا ! تم تو بہت چھوٹے ہو، اس نو عمر نے پنجوں کے بل قدرے بلند ہوکے کہا مَیں چھوٹا تو نہیں ہوں۔ اس نے سچ کہا تھا جس کے کندھے پر دست ِ رسول ہو وہ کب چھوٹا ہوسکتا ہے اس کی یہ ادا بارگاہِ رسالت میں پسندیدہ ٹہری وہ لشکرِ اسلام میں شامل ہوگیا اس کے ساتھ ہی اس کا چھوٹا بھائی کھڑا تھا۔ رحمت ِ عالم ﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا تم تو بہت چھوٹے ہو اسے یہ خیال گزرا کہ کہیں رسول اﷲ مجھے چھوڑ نہ جائیں معاً عرض کی آپ نے میرے بھائی کو قبول کرلیا ہے۔

یہ عمر میں مجھ سے بڑا ہے مگر قوت و طاقت میں ہر گز میرا ہم پلہ نہیں، اگر چاہیں تو کشتی کرواکے دیکھ لیں یہ بات بھی منظور ہوگئی دونوں بھائی روبرو ہوئے۔ چھوٹے نے بڑے بھائی کی آنکھوں میں جھانکا۔ آنکھوں آنکھوں میں کوئی پیمان ہُوا اور چشمِ فلک نے دیکھا کہ چھوٹے نے بڑے کو زیر کرلیا اور اس کے سینے پر سوار زبانِ رسالت سے فیصلے کا منتظر ہوگیا۔ دل کی دھڑکنوں کا احوال جاننے والے آقا نے اس چھوٹے کا دل بھی نہیں توڑا۔ یہ تین سو تیرہ مدینہ منورہ سے میدانِ بدر پہنچے۔

بہ ظاہر پورے لشکرِ اسلام کے پاس سازو سامان کا عالم یہ تھا کہ دو گھوڑے، چھ زرہیں اور آٹھ شمشیریں تھیں، مگر تاریخ شاہد ہے کہ اہلِ اسلام نے افراد یا آلات ِ حرب کی کثرت پر کبھی بھروسا نہیں کیا ان تین سو تیرہ کے عقائد مستحکم اور عزائم راسخ تھے۔ انہیں بھروسا تھا تو اس سادی سی کالی کملی والے پر جس نے انہیں اﷲ کی معرفت عطا کی تھی۔ کافروں نے اپنے لئے اپنی دانست کے مطابق بہتر مقام کا انتخاب کیا اور لشکر کشی کی۔ ادھر سرکارِ دو عالم ﷺ نے میدانِ بدر میں جنگ سے ایک دن قبل ہی کافروں کے بڑے بڑے سرداروں کے نام لے کر ان کی قتل گاہ کو نشان زد کردیا۔ یہ خبر لشکرِ کفار تک بھی پہنچ گئی۔

ابوجہل نے جب سُنا کہ اس کا نام بھی مسلمانوں کے نبی نے قتل ہونے والوں میں لیا ہے تو اس کا رنگ زرد پڑگیا۔ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا اگر تم اجازت دو تو مجھے مکہ میں ایک ضروری کام ہے مَیں وہ کر آؤں۔ ساتھی حیران ہوئے کہ کچھ دیر قبل یہ ابوجہل بڑے کروفر میں ڈینگیں ماررہا تھا اور اب اچانک بدحواس اور دہشت زدہ سا ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا ایسا کون سا ضروری کام ہے جس کے لئے فوراً تجھے جانا پڑرہا ہے۔ مسلمانوں کو پتا چلے گا تو ہماری کتنی سبکی ہوگی ہم تمہیں نہیں جانے دیں گے وہ کام کسی اور کو بتادو وہ تمہاری جگہ بھیج دیا جائے گا۔ ابوجہل نے کہا اگر خود جاؤں تبھی وہ کام ہوگا بہرحال تسلی رکھو مَیں نہیں جاتا۔ چند سرداروں نے اسے علیحدگی میں لے جاکے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے؟ ابوجہل نے کہا سُنا ہے محمد ( ﷺ ) نے میدان میں کچھ جگہوں پر نشانی لگاتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہاں یہاں فلاں فلاں شخص کل قتل ہوگا اور باوجود اختلاف کے تم سب جانتے ہو کہ ہوتا وہی ہے جو یہ شخص کہتا ہے۔

مَیں نے خیال کیا تھا کہ مَیں یہاں سے چلا جاؤں مگر اب جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ ابوجہل کا یہ اعتراف عظمت و صداقت مصطفوی کی دلیل ہے اور مشہور مقولہ ہے کہ بزرگی وہی ہے جس کی دشمن بھی گواہی دے۔ رات ہوئی تو لشکرِ کفار اپنے احوال میں مست تھا اور اِدھر ایک عریش میں سرکارِ دوعالم ﷺ مشغولِ دعا تھے۔ مبارک شانوں پر چادر اوڑھے ہوئے بارگاہِ الہی میں ایک ہاتھ بلند کیے دعا فرما رہے تھے کبھی اس قدر گریہ و زاری فرماتے اور اس قدر ہاتھ پھیلاتے کہ چادر مبارک کندھوں سے نیچے گرجاتی۔ رفیقِ رسول سیدنا ابوبکر صدیقِؓ فرماتے ہیں، یارسول اﷲ، ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں جب اﷲ نے آپ نے فتح کا وعدہ کرلیا ہے پھر آپ کیوں فکر فرماتے ہیں مگر یہ عاجزی و زاری رسول اﷲ کو پسند تھی اور یہ تعلیمِ امت بھی تھی۔

پانی مسلمانوں کے لئے نایاب تھا۔ قدرت نے بارش برسادی۔ کفار نے جس حصے کو اپنے لئے پسند کیا وہ کیچڑ آلود ہوگیا اور مسلمانوں کے لئے بارش کے سبب میدان ہموار ہوگیا اور پانی بھی انہیں مہیا ہوگیا۔ سترہ رمضان المبارک کی صبح طلوع ہوئی۔ کافر اپنے کندھوں پر عزّٰی کا مجسمہ اٹھائے نعرہ زن ہوئے کہ ہمارے پاس عزّٰی ہے اور تمہارے پاس کوئی عزّٰی نہیں۔ صحابہؓ نے رسول اﷲ کو اس بات کی خبر دی فرمایا تم کہو ہمارا مددگار اور مولی اﷲ ہے اور تمہارا کوئی مولی و مددگار نہیں۔ میدانِ بدر میں حق و باطل کا معرکہ شروع ہُوا۔ بے سرو سامان صحابہ بے جگری سے لڑے۔ ایک صحابی کو سرکارِ دوعالم ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے مس کرکے ایک لاٹھی دی جو تلوار بن گئی۔

صحابۂ کرام نے جرأت و شجاعت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ چند ہی لمحوں میں کافروں کے بڑے بڑے سردار مارے گئے جس کے سبب لشکرِ کفار کی ہمتیں پست ہوگئیں۔ لشکرِ اسلام کے دونوں ننھے مجاہدوں نے محافظ دستے میں موجود ابوجہل پر حملہ کردیا اور اسے قتل کردیا۔ ابوجہل نے مرتے دم یہ افسوس کیا کہ اس کی موت کسی مرد جری کے بجائے بچوں کے ہاتھوں ہوئی۔ ابوجہل کے قتل ہوتے ہی کافروں کے پاؤں اکھڑ گئے ادھر مسلمانوں نے ایک بارگی بڑے زور سے حملہ کیا۔ گھمسان کی جنگ چھڑگئی۔ ستر کافر مارے گئے جن میں ابوجہل، عتبہ، شیبہ اور ولید جیسے سردار بھی شامل تھے۔ لشکرِ اسلام کے چودہ افراد نے جامِ شہادت نوش کیا جن میں سے چھ مہاجر اور آٹھ انصار صحابہ تھے۔

کافروں کے ستر افراد قیدی بنالئے گئے، باقی نے راہِ فرار اختیار کی۔ صحابہ کے بارگاہِ رسالت ( ﷺ ) میں عرض کی کہ لڑائی کے دوران جب ہم کسی کافر سے نبرد آزما ہوتے تو ادھر ہم ہاتھ اٹھاتے ادھر اس کا سَر کٹ جاتا تھا ہمیں سَر کاٹنے والا نظر بھی نہیں آتا تھا۔ رحمت ِ عالم ﷺ نے فرمایا وہ سَر کاٹنے والے اﷲ کے فرشتے تھے جو تمہاری مدد کو آئے تھے مگر وہ کافروں کو اُسی وقت ہلاک کرتے جب تم تلوار اٹھاتے تھے تاکہ تمہاری شجاعت کی دھاک بیٹھے اور اس کافر کے قتل کا اعزاز تمہیں ملے۔ رحمت ِ عالم ﷺ نے حکم دیا تھا تمام کافروں کی لاشیں ایک گڑھے میں ڈال دی جائیں جب تمام لاشیں کنویں میں ڈال دی گئیں تو سرکارِ دو عالم ﷺ نے کنویں کی منڈیر پر کھڑے ان کافروں کو مخاطب کرکے فرمایا کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو حق پایا بے شک ہم نے اپنے رب کے وعدے کو حق پایا۔ عدالت و صداقت کے پیکر حضرت عمرؓ نے تعجب کرتے ہوئے کہا یارسول اﷲ آپ ان جسموں سے مخاطب ہیں جن میں روح نہیں ہے۔ رسول اﷲ نے فرمایا اے عمر تم ان سے زیادہ نہیں سُن رہے فرق یہ ہے کہ یہ جواب نہیں دے سکتے۔

علمائے مفسرین اور محققین نے کہا کہ رسولِ اکرم کا مردہ لوگوں کو پکارنا اور حضرت عمر کو جواب دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ مردے سنتے ہیں اور کافر مردے جواب نہیں دے سکتے۔ جب عام افراد کا یہ احوال ہے تو اﷲ کے مقبول بندوں کی بعد از وفات سماعت میں کیسے شُبہ کیا جاسکتا ہے۔ قیدیوں کی مشکیں کَس دی گئی تھیں انہیں مدینہ منورہ لایا گیا۔ ان قیدیوں میں رسولِ اکرم ﷺ کے چچا حضرت عباس بھی تھے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ قیدی مشکیں کَسے جانے کی وجہ سے کراہنے لگے تو محسنِ انسانیت سے گوارا نہ ہُوا فرمایا ان کی مشکیں کھول دو۔ جن قیدیوں کے پاس کپڑے نہیں تھے انہیں رحمت ِ عالم ﷺ نے کپڑے دلوائے۔ انصارِ مدینہ خود بھوکے رہ جاتے مگر قیدیوں کو کھانا کھلاتے۔ قیدی اس حسنِ سلوک سے نہایت متاثر ہوئے۔ طے پایا کہ فدیہ لے کر قیدیوں کو رہا کردیا جائے۔ جو فدیہ ادا نہیں کرسکتے انہیں یہ کہا گیا کہ وہ دس دس بچوں کو لکھنا سکھادیں۔

انصارِ مدینہ نے عرض کی کہ عباس ہمارے بھانجے ہیں انہیں بغیر فدیے کے رہا کردیا جائے مگر رحمت ِ عالم ﷺ نے مساوات کی یادگار قائم کرتے ہوئے نہیں چھوڑا۔ حضورِ اکرمﷺ نے ان سے فرمایا چچا تم بھی فدیہ ادا کرو۔ حضرت عباس نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ حضور نے فرمایا بغیر فدیے کے تمہیں رہا نہیں کیا جائے گا۔ حضرت عباس نے مفلسی ظاہر کی تو غیب جاننے والے آقا نے فرمایا چچا جب مکہ سے روانہ ہوئے تھے کیا میری چچی کو گھر کا دروازہ بند کرکے سونے کی پوری اینٹ نہیں دے کر آئے تھے۔ حضرت عباس یہ بات سُن کر حیران ہوئے کہ جب مَیں نے وہ اینٹ اپنی بیوی کو دی تھی کوئی تیسرا وہاں موجود نہیں تھا آپ کو تین سو میل کے فاصلے پر کیسے خبر ہوگئی۔

حضورﷺ نے فرمایا چچا مجھے میرا پروردگار سب کچھ بتاتا ہے۔ حضرت عباس اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ حضرت ابوالعاص جو رحمت ِ عالم کے داماد تھے ان کے فدیے میں زمرد کا طلائی ہار آیا۔ رحمت ِ عالم اس ہار کو دیکھ کر آب دیدہ ہوگئے صحابہ سے فرمایا یہ ہار ایک ماں نے اپنی بیٹی کو جہیز میں دیا تھا وہ ہار حضرت خدیجۃ الکبری کا تھا حضرت ابوالعاص کے مسلمان ہوجانے پر وہ ہار ان کو لَوٹا دیا گیا۔

جو قیدی فدیہ نہیں دے سکتے تھے انہیں ویسے ہی رہا کردیا گیا ان کی اکثریت حسنِ سلوک پر حلقہ بگوش اسلام ہوگئی۔ غزوۂ بدر میں ہزیمت سے کفار پر مسلمانوں کی عظمت و شوکت کا رعب و دب دبہ قائم ہوگیا اور ادھر ان تین سو تیرہ جان نثاروں کو یہ مژدہ مل گیا کہ اب جو چاہو کرو اﷲ تعالیٰ نے تمہیں بخش دیا ہے۔ آج بھی ان کی عظمت کا یہ احوال ہے کہ علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کسی بھی جائز اور مشکل حاجت کے لئے اصحاب ِ بدر کے وسیلے سے فاتحہ خوانی کرکے ان کے نام کی منّت مان کر دعا کرے تو گوہر مراد حاصل کرے گا۔ ان اصحابِ بدر کو یہ عظمت دامنِ مصطفی کی بدولت ملی۔ اسی لئے علامہ اقبال نے کہا ہے

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

رحمت کائنات ﷺ کی زوجہ محترمہ صدیقۂ کائنات حضرت عائشہؓ

تاریخی روایات کے مطابق نبیؐ کریم نے 9 یا 11 نکاح فرمائے۔ یہ نبی ؐ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے ورنہ شریعت میں عام امتی کے لیے ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان نکاحوں میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا وہ خوش نصیب عورت ہیں جن کو نبیؐ کے لیے خود اﷲ تعالیٰ نے منتخب فرمایا، نکاح سے پہلے خواب میں آپ کو دکھلایا پھر آپ ﷺ کے نکاح میں آئیں۔ درآں حالیکہ آپ اس سے پہلے کسی اور مرد کے نکاح میں نہیں رہیں۔ ازواج مطہرات میں سے یہی وہ زوجہ محترمہ ہیں کہ جو اپنی کنواری حالت میں نبی ﷺ کے نکاح میں آئیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ اﷲ تعالیٰ کی اپنے اوپر ہونے والی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتی ہیں کہ مجھے اﷲ تعالیٰ نے نو خوبیاں ایسی عطا فرمائیں جو کسی عورت کو نہ ملیں:


1۔ میں آپ کے خلیفہ اور آپ کے صدیق کی صاحبزادی ہوں۔
2۔ مجھے پاکیزہ گھرانے میں پیدا فرمایا گیا۔
3۔ نکاح سے پہلے میری تصویر حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کی۔
4۔ نبی ﷺ نے میرے سوا کسی اور کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔
5۔ نبی ﷺ پر وحی اس حالت میں بھی نازل ہوجاتی تھی کہ آپ میرے لحاف میں ہوتے تھے۔
6۔ مجھ سے مغفرت اور رزق کا وعدہ اﷲ نے فرمایا ہے۔
7۔ میری برأت آسمان سے نازل ہوئی۔
8۔ بوقت وصال نبی اکرم ﷺ کا سرمبارک میری گود میں تھا۔
9۔ نبی کریم ﷺ کی تدفین میرے حجرے میں ہوئی۔

سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کی ولادت بعثت نبوی کے چار سال بعد ہوئی ہے۔ اور یہ بھی ایک اعزاز کی بات ہے کہ اس وقت تک آپ کے والدین اسلام قبول کرچکے تھے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے انتقال کے بعد آپ کا نکاح حضور ﷺ سے ہوا جس کے لیے چارسو درھم مہر مقرر ہوا۔ نکاح کے بعد حضور ﷺ تین سال مکہ مکرمہ میں مقیم رہے۔ اس کے بعد آپ نے ہجرت فرمائی جس میں حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی ساتھ تھے لیکن ان کے اہل و عیال مکہ ہی میں قیام پذیر رہے اور مدینہ ہجرت مکمل ہونے کے بعد جب وہاں تسلی بخش صورت حال سامنے آئی حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے اہل و عیال کو مدینے بلوا لیا یوں شوال کے مہینے میں حضرت عائشہؓ کی رخصتی عمل میں آئی۔

حضرت عائشہؓ نے اپنی ازدواجی زندگی اس خوب صورتی کے ساتھ گزاری کہ ایک مسلمان عورت کے لیے ان کی زندگی کے تمام پہلو قابل تقلید ہیں۔ شادی، رخصتی، شوہر کی خدمت و اطاعت، سوکن سے تعلقات، بیوگی، خانہ داری کے تمام پہلوؤں سے اتنی روشن ہے جن کی تقلید کرکے ایک مسلمان عورت دونوں جہاں میں اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے سرخرو ہوسکتی ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے شریعت اسلامیہ کے متعلق احکام و قوانین کے اعتبار سے اور اخلاق و آداب کی تعلیم کے حوالے سے نبی کریم ﷺ سے اتنا کچھ حاصل کرلیا تھا کہ علمی اعتبار سے کوئی مرد و عورت ان کی معلومات کے ہم پلہ نہیں تھا۔ آپ اپنی ذات میں فقیہ بھی تھی، مفسرہ اور مجتہدہ بھی تھیں۔ آپ کا شمار مدینہ منورہ کے ان علماء میں ہوتا تھا کہ جن کے فتاویٰ پر عام مسلمانوں کو مکمل اور بھرپور اعتماد تھا۔ آپ نے عورتوں، مردوں میں اسلام اور اس کے احکام و قوانین، اخلاق و آداب کی تعلیم دینے میں پوری زندگی گزار کر اسلام کی بہت بڑی خدمات انجام دیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا ہر سال حج کے لیے مکہ جاتیں آپ کے خیمے میں سائلین کا ہجوم ہوتا تھا، جن مسائل میں صحابہ میں اختلاف ہوتا تھا ان مسائل پر فیصلے کے لیے ام المومنینؓ سے رجوع کیا کرتے تھے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ علمی کمالات، دین کی خدمات اور حضور اکرم ﷺ کے احکام کی تبلیغ و اشاعت میں ام المومنین کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ابومسلم عبدالرحمن کا قول ہے کہ حضور ﷺ کی احادیث و سنن، فقہی آراء، آیات کے شان نزول اور فرائض (میراث) میں حضرت عائشہ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں تھا۔

نبی ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی مدح بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ حضرت عائشہؓ کو تمام عورتوں پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر حاصل ہے۔ (بخاری شریف)

حضرت عائشہ صدیقہ کائناتؓ کو عبادت الہٰی سے بھی بے انتہا شغف تھا، نہایت متقی اور حد درجہ خدا کا خوف رکھتی تھیں، اپنے پاس کبھی مال کو جمع نہیں ہونے دیا جیسے ہی کہیں سے کچھ آتا تھا فوراً ہی تقسیم کردیا جاتا۔

ازواج رسول ﷺ میں حضرت عائشہؓ وہ واحد خوش نصیب زوجۂ رسول ہیں، جنہیں رب کائنات نے آسمان سے سلام بھیجا۔ حضرت عائشہؓ سے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جبرائیل آتے ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں۔ آپ نے جواب میں کہا کہ ان پر بھی سلام اور اﷲ کی رحمت ہو۔

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی شانِ معصومیت کو قرآن مقدس نے ایک ایسے بھرپور اور پُراثر و پرکشش انداز میں بیان فرماتے ہوئے اپنا حصہ بنایا ہے جس سے بہتر انداز میں آپ کی معصومیت کو بیان ہی نہیں کیا جاسکتا اور یہ حضرت عائشہؓ کا اعزاز ہے کہ تاقیامت یہ آیات مبارکہ آپ کی طہارت، عفت، پاک دامنی اور پاکیزگی کی گواہی دیتی رہیں گی۔ کیا وجہ آخر میں مواقع ہوتے ہوئے جب نبی کریم ﷺ اپنی زبان اقدس سے ان آیات مبارکہ کی تلاوت فرماتے ہوں گے۔ کیا مسحور کن منظر ہوگا جب جنت الفردوس خود اﷲ رب العزت ان آیات مبارکہ کو جنتیوں کے سامنے اپنے شایان شان طور پر تلاوت فرماتے ہوئے سنائیں گے۔

نبی کریم ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد تقریباً اڑتالیس سال تک یہ امت کی محسنہ عالمہ اسلام کے شب و روز کو انوار الٰہی اور اسوۂ حسنہ سے مسلسل اور متواتر منور کرتے ہوئے سترہ رمضان المبارک 58ھ میں اپنی جان، جان آفرین کو پیش کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور پہنچ گئیں۔ نماز جنازہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے پڑھائی۔ آپ کے بھتیجوں اور بھانجوں نے لحد میں اُتارا اور اس وقت جنت البقیع (مدینہ منورہ) میں محو استراحت ہیں۔ اور علمی اعتبار سے ساری دنیا میں تاقیامت آپ کے فیوضات سے فائدہ اٹھاتی رہے گی۔ رضی اﷲ عنہا وارضاہ

غزوۂ بدر میںلشکر اسلام کے شہدائے کرام کے اسمائے گرامی

مہاجرین:
1۔ حضرت عیر بن ابی وقاص
2۔ حضرت صفوان بن وھب
3۔ حضرت ذوالشمالین بن عبد عمرو
4۔ حضرت مہجع بن صالح
5۔ حضرت عاقل بن الکبیر
6۔ حضرت عبیدۃ بن الحارث بن عبدالمطلب

انصار:
1۔ حضرت سعد بن خیثمہ ( اوس )
2۔ حضرت بشر بن عبدالمنذر ( اوس )
3۔ حضرت حارثہ بن سراقہ ( خزرجی )
4۔ حضرت رافع بن المعلا ( خزرجی )
5۔ حضرت عمیر بن الحام ( خزرجی )
6۔ حضرت یزید بن الحارث بن قیس (خزرجی )
7۔ حضرت عوف اور ان کے بھائی
8۔ حضرت معوذ ابنی الحارث بن رفاعہ
رضی اللّٰہ عنھم اجمعین وارضاہ عنا

سعودی حکومت کی طرف سے میدانِ بدر کے اطراف چار دیواری بنائی گئی ہے۔ اور اس کے دروازے کے سامنے یادگار کے طور پر ایک کنویں کا ماڈل بنایا گیا ہے جس کی دیواروں پر شہدائے بدر کے نام کندہ ہیں۔ اب میدانِ بدر کے اطراف میں ایک بڑا شہر آباد ہے۔
Load Next Story