ڈی چوک احتجاج کا اسکرپٹ
راولپنڈی کے احتجاج کی ناکامی کے بعد ہی 4اکتوبر کو ڈی چوک میں احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔
تحریک انصاف نے ڈی چوک میں احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ بانی تحریک انصا ف کے حوالہ سے ایسی خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ وہ راولپنڈی میں وزیر اعلیٰ کے پی گنڈا پور کے نہ پہنچنے پر ناراض ہیں۔ بانی تحریک انصاف کو اس بات پر بھی غصہ ہے کہ راولپنڈی میں احتجاج کیوں ختم کیا گیا۔ اس لیے انھوں نے تحریک انصاف کی قیادت سے شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ راولپنڈی کے احتجاج کی ناکامی کے بعد ہی 4اکتوبر کو ڈی چوک میں احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔ اور اس بار بانی تحریک انصاف کی جانب سے متنبہ کیا گیا ہے کہ احتجاج ختم کرنے کی کوئی کال نہیں دی جائے گی۔ چاہے ڈی چوک پہنچنے میں دو دن لگ جائیں ۔لیکن ڈی چوک پہنچا جائے۔
دوسری طرف وزیر اعلیٰ گنڈا پور بھی لیاقت باغ نہ پہنچنے پر شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ اسی لیے انھوں نے اپنے اوپر تنقید کو کم کرنے اور اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کے لیے اعلان کیا ہے کہ اب وہ بھی ناکام واپس نہیں آئیں گے۔ بلکہ انھوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر پنجاب پولیس نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو تو وہ پنجاب پولیس کے اہلکاروں کو کے پی لے جائیں گے اور ان کے ساتھ وہی سلوک کریںگے جو وہ کر رہے ہیں۔
اس لیے گنڈا پور کے لہجے اور گفتگو سے دو باتیں صاف ہیں پہلی لیاقت باغ نہ پہنچنے پر انھیں پارٹی کے اندر سے تنقید کا سامنا ہے دوسرا وہ شدید دباؤ میں بھی ہیں۔ اس لیے دباؤ میں کوئی انتہائی قدم اٹھانا چاہتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بانی تحریک انصاف نے لیاقت باغ نہ پہنچنے پر ان کی شدید سرزنش کی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ناراضی ان تک پہنچ گئی ہے۔ تحریک انصاف کے نئے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے بانی تحریک انصا ف کی جانب سے ناراضی کے اظہار اور چیئرمین بیر سٹر گوہر کو ڈرپوک اور بزدل کہنے کی تردید کی ہے۔ لیکن چار اکتوبر کے احتجاج کی تصدیق کی ہے۔
سوال اہم یہ ہے کہ بانی تحریک انصاف کے ذہن میں احتجاج کے حوالے سے کیا خاکہ ہے۔ ڈی چوک سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور لیاقت باغ سے کیا حاصل نہیں ہو سکا۔ میری سمجھ کے مطابق بانی تحریک انصاف حالات کو کے پی حکومت کی طاقت سے تصادم کی طرف لیجانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے گنڈا پور کو بار بار لشکر اور جتھہ لے کر پنجاب بلا رہے ہیں۔
شاید انھیں اندازہ ہے کہ پنجاب ابھی مزاحمت کے لیے تیار نہیں ہے۔ پنجاب تحریک انصاف مزاحمت کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ اس لیے وہ کے پی حکومت اور وہاں کی سیاسی طاقت کو پنجاب میں مزاحمت کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی اس حوالے سے تین کوششیں ناکام ہو ئی ہیں۔ سنگجانی میں ناکامی ہوئی۔ پھر ریاست مخالف تقاریر کے بعد خیال تھا کہ ریاست رد عمل دے گی جس کا سیاسی فائدہ اٹھا یا جائے گا۔ لیکن ریاست نے محدود رد عمل دیا اور تقاریر ضایع ہو گئیں۔ پھر خیال تھا کہ لاہور میں روکا جائے گا۔ لیکن پنجاب حکومت نے لاہور کے لیے راستے کھول دیے اور جلسہ جلدی ختم کرا دیا، تصادم نہیں ہو سکا۔ ماحول بھی خراب نہیں ہوا۔
شاید لیاقت باغ میں جلسہ ختم کر کے احتجاج کی کال ہی اس لیے دی گئی تھی کہ بانی تحریک انصاف کو سنگجانی اور لاہور کے جلسے کے بعد اندازہ ہو گیا کہ جلسے کی اجازت مل جاتی ہے۔ راستے بھی کھول دیے جاتے ہیں۔ جلسہ ہو جاتا ہے، نہ تصادم ہوتا ہے نہ ہی کوئی لڑائی ہوتی ہے۔ اسی لیے اب جلسوں کو احتجاج میں بدل دیا گیا ہے۔ لیاقت باغ میں بھی تصاد م کا پلان کامیاب نہیں ہوا۔ گنڈاپور واپس چلے گئے، حالات نارمل ہوگئے۔ اس لیے اب ڈی چوک کی فوری دوبارہ کال دی گئی ہے۔ خواہش اور پلان تصادم اور حالات خراب کرنا ہی ہے۔
حکومت گنڈاپور کو ڈی چوک نہیں پہنچنے دی گی۔ انھیں حکم ہے کہ واپس نہیں جانا۔ ڈی چوک پہنچنا ہے۔انھیں روکا جائے گا۔ وہ مزاحمت کریں گے۔ میری اطلاعات کے مطابق ا نہیں کہا جا رہا ہے کہ ایسے لوگ ساتھ لائیں جو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ہم لاہور میں بانی پی ٹی آئی کی رہائش گاہ زمان پارک میں دیکھ چکے ہیں جب پولیس پر پٹرول بم پھینکے جاتے تھے۔
پولیس سے لڑائی کی جاتی تھی۔ پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگائی جاتی تھی اور زمان پارک کو ایک نو گو ایریا بنا دیا گیا تھا۔ اب بھی یہی اسکرپٹ نظر آرہا ہے کہ کے پی سے آنے والے لوگ ایسی تیاری سے آئیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے باقاعدہ لڑائی کر سکیں۔ آنسو گیس کے مقابلے میں پٹرول بم پھینکیں۔ اور تصادم کو یقینی بنائیں۔ کرین لانے کا تجربہ ناکام ہو گیا۔ کرین آنسو گیس کی شیلنگ کے سامنے بے بس ہے۔ اس لیے اب لڑا ئی کی حکمت عملی نظر آرہی ہے۔
آپ سوال کر سکتے ہیں کہ اگر حکومت تصادم نہیں چاہتی تو ڈی چوک آنے دے۔ ڈی چوک آبھی جائیں گے تو کیا ہوگا۔ ایک منظر نامہ یہ بھی ہے کہ چند ہزار لوگ ڈی چوک لائے جائیں۔ پھر وہاں ماحول خراب کیا جائے۔ سامنے پارلیمنٹ ہے۔ اس میں یہ چند ہزار لوگ گھس جائیں۔ اور پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا جائے۔ پھر کہا جائے کہ عوام نے جعلی پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیا جب تک پارلیمنٹ میں حقیقی نمایندے نہیں آئیں گے قبضہ رہے گا۔
ساتھ ایوان صدر ہے۔ ساتھ وزیر اعظم ہاؤس ہے۔ آپ کو یاد نہیں 2014 میں بھی پارلیمنٹ کے گیٹ پر قبضہ کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ججز پچھلے گیٹ سے آتے تھے اور وزیر عظم ہاؤس میں گھسنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اس لیے اس بار بھی ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن میری رائے مین ہد ف سپریم کورٹ ہے۔ کیونکہ ڈر بھی سپریم کورٹ سے ہے، وہاں کام روکنا ہے۔
اس لیے ڈی چوک پہنچ گئے تو کھیل بانی تحریک انصاف کی رائے میں ان کے ہاتھ میں آسکتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں حالات اتنے خراب ہو جائیں۔ تصادم اتنا شدید ہو جائے کہ جانیں ضایع ہو جائیں۔ لوگ قبضہ کرلیں جیسے سری لنکا میں کیا ۔ جیسے بنگلہ دیش میں کیا۔ ویسے ہی ڈی چوک میں ہو جائے۔ اس لیے گنڈا پور سے بار بارلوگ لانے کا کہا جارہا ہے۔ تصادم کا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شدید تصادم ہی اصل ہد ف ہے۔ ریاست کو تصادم کی طرف لیجانا ہی مقصود ہے۔ بانی تحریک انصاف اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ چاہے پہنچنے میں دو تین دن لگ جائیں لیکن پہنچنا ہے۔ کیونکہ انھیں اندازہ ہے کہ دو تین دن کے تصادم میں نقصان زیادہ ہوگا۔ اس لیے زیادہ نقصان ہی اصل ہد ف ہے۔ سپریم کورٹ ہد ف ہے۔ پہلے بھی سپریم کورٹ کے باہر وکلاء کے احتجاج کی کال دی گئی لیکن مطلوبہ تعداد میں وکیل نہیں آئے کہ سپریم کورٹ پر قبضہ کیا جا سکتا۔
لیکن ایسا بانی تحریک انصاف پہلی بار نہیں سوچ رہے۔ انھوں نے پہلے بھی کئی بار تصادم کی سیاست کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اب بھی وہ یہی سوچ رہے ہیں کہ حالات اتنے خراب کیے جائیں کہ ریاست اور بالخصوص اسٹبلشمنٹ انھیں جیل سے نکالنے پر مجبور ہو جائے۔سپریم کورٹ مفلوج ہو جائے۔
دوسری طرف وزیر اعلیٰ گنڈا پور بھی لیاقت باغ نہ پہنچنے پر شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ اسی لیے انھوں نے اپنے اوپر تنقید کو کم کرنے اور اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کے لیے اعلان کیا ہے کہ اب وہ بھی ناکام واپس نہیں آئیں گے۔ بلکہ انھوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر پنجاب پولیس نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو تو وہ پنجاب پولیس کے اہلکاروں کو کے پی لے جائیں گے اور ان کے ساتھ وہی سلوک کریںگے جو وہ کر رہے ہیں۔
اس لیے گنڈا پور کے لہجے اور گفتگو سے دو باتیں صاف ہیں پہلی لیاقت باغ نہ پہنچنے پر انھیں پارٹی کے اندر سے تنقید کا سامنا ہے دوسرا وہ شدید دباؤ میں بھی ہیں۔ اس لیے دباؤ میں کوئی انتہائی قدم اٹھانا چاہتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بانی تحریک انصاف نے لیاقت باغ نہ پہنچنے پر ان کی شدید سرزنش کی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ناراضی ان تک پہنچ گئی ہے۔ تحریک انصاف کے نئے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے بانی تحریک انصا ف کی جانب سے ناراضی کے اظہار اور چیئرمین بیر سٹر گوہر کو ڈرپوک اور بزدل کہنے کی تردید کی ہے۔ لیکن چار اکتوبر کے احتجاج کی تصدیق کی ہے۔
سوال اہم یہ ہے کہ بانی تحریک انصاف کے ذہن میں احتجاج کے حوالے سے کیا خاکہ ہے۔ ڈی چوک سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور لیاقت باغ سے کیا حاصل نہیں ہو سکا۔ میری سمجھ کے مطابق بانی تحریک انصاف حالات کو کے پی حکومت کی طاقت سے تصادم کی طرف لیجانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے گنڈا پور کو بار بار لشکر اور جتھہ لے کر پنجاب بلا رہے ہیں۔
شاید انھیں اندازہ ہے کہ پنجاب ابھی مزاحمت کے لیے تیار نہیں ہے۔ پنجاب تحریک انصاف مزاحمت کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ اس لیے وہ کے پی حکومت اور وہاں کی سیاسی طاقت کو پنجاب میں مزاحمت کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی اس حوالے سے تین کوششیں ناکام ہو ئی ہیں۔ سنگجانی میں ناکامی ہوئی۔ پھر ریاست مخالف تقاریر کے بعد خیال تھا کہ ریاست رد عمل دے گی جس کا سیاسی فائدہ اٹھا یا جائے گا۔ لیکن ریاست نے محدود رد عمل دیا اور تقاریر ضایع ہو گئیں۔ پھر خیال تھا کہ لاہور میں روکا جائے گا۔ لیکن پنجاب حکومت نے لاہور کے لیے راستے کھول دیے اور جلسہ جلدی ختم کرا دیا، تصادم نہیں ہو سکا۔ ماحول بھی خراب نہیں ہوا۔
شاید لیاقت باغ میں جلسہ ختم کر کے احتجاج کی کال ہی اس لیے دی گئی تھی کہ بانی تحریک انصاف کو سنگجانی اور لاہور کے جلسے کے بعد اندازہ ہو گیا کہ جلسے کی اجازت مل جاتی ہے۔ راستے بھی کھول دیے جاتے ہیں۔ جلسہ ہو جاتا ہے، نہ تصادم ہوتا ہے نہ ہی کوئی لڑائی ہوتی ہے۔ اسی لیے اب جلسوں کو احتجاج میں بدل دیا گیا ہے۔ لیاقت باغ میں بھی تصاد م کا پلان کامیاب نہیں ہوا۔ گنڈاپور واپس چلے گئے، حالات نارمل ہوگئے۔ اس لیے اب ڈی چوک کی فوری دوبارہ کال دی گئی ہے۔ خواہش اور پلان تصادم اور حالات خراب کرنا ہی ہے۔
حکومت گنڈاپور کو ڈی چوک نہیں پہنچنے دی گی۔ انھیں حکم ہے کہ واپس نہیں جانا۔ ڈی چوک پہنچنا ہے۔انھیں روکا جائے گا۔ وہ مزاحمت کریں گے۔ میری اطلاعات کے مطابق ا نہیں کہا جا رہا ہے کہ ایسے لوگ ساتھ لائیں جو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ہم لاہور میں بانی پی ٹی آئی کی رہائش گاہ زمان پارک میں دیکھ چکے ہیں جب پولیس پر پٹرول بم پھینکے جاتے تھے۔
پولیس سے لڑائی کی جاتی تھی۔ پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگائی جاتی تھی اور زمان پارک کو ایک نو گو ایریا بنا دیا گیا تھا۔ اب بھی یہی اسکرپٹ نظر آرہا ہے کہ کے پی سے آنے والے لوگ ایسی تیاری سے آئیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے باقاعدہ لڑائی کر سکیں۔ آنسو گیس کے مقابلے میں پٹرول بم پھینکیں۔ اور تصادم کو یقینی بنائیں۔ کرین لانے کا تجربہ ناکام ہو گیا۔ کرین آنسو گیس کی شیلنگ کے سامنے بے بس ہے۔ اس لیے اب لڑا ئی کی حکمت عملی نظر آرہی ہے۔
آپ سوال کر سکتے ہیں کہ اگر حکومت تصادم نہیں چاہتی تو ڈی چوک آنے دے۔ ڈی چوک آبھی جائیں گے تو کیا ہوگا۔ ایک منظر نامہ یہ بھی ہے کہ چند ہزار لوگ ڈی چوک لائے جائیں۔ پھر وہاں ماحول خراب کیا جائے۔ سامنے پارلیمنٹ ہے۔ اس میں یہ چند ہزار لوگ گھس جائیں۔ اور پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا جائے۔ پھر کہا جائے کہ عوام نے جعلی پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیا جب تک پارلیمنٹ میں حقیقی نمایندے نہیں آئیں گے قبضہ رہے گا۔
ساتھ ایوان صدر ہے۔ ساتھ وزیر اعظم ہاؤس ہے۔ آپ کو یاد نہیں 2014 میں بھی پارلیمنٹ کے گیٹ پر قبضہ کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ججز پچھلے گیٹ سے آتے تھے اور وزیر عظم ہاؤس میں گھسنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اس لیے اس بار بھی ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن میری رائے مین ہد ف سپریم کورٹ ہے۔ کیونکہ ڈر بھی سپریم کورٹ سے ہے، وہاں کام روکنا ہے۔
اس لیے ڈی چوک پہنچ گئے تو کھیل بانی تحریک انصاف کی رائے میں ان کے ہاتھ میں آسکتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں حالات اتنے خراب ہو جائیں۔ تصادم اتنا شدید ہو جائے کہ جانیں ضایع ہو جائیں۔ لوگ قبضہ کرلیں جیسے سری لنکا میں کیا ۔ جیسے بنگلہ دیش میں کیا۔ ویسے ہی ڈی چوک میں ہو جائے۔ اس لیے گنڈا پور سے بار بارلوگ لانے کا کہا جارہا ہے۔ تصادم کا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شدید تصادم ہی اصل ہد ف ہے۔ ریاست کو تصادم کی طرف لیجانا ہی مقصود ہے۔ بانی تحریک انصاف اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ چاہے پہنچنے میں دو تین دن لگ جائیں لیکن پہنچنا ہے۔ کیونکہ انھیں اندازہ ہے کہ دو تین دن کے تصادم میں نقصان زیادہ ہوگا۔ اس لیے زیادہ نقصان ہی اصل ہد ف ہے۔ سپریم کورٹ ہد ف ہے۔ پہلے بھی سپریم کورٹ کے باہر وکلاء کے احتجاج کی کال دی گئی لیکن مطلوبہ تعداد میں وکیل نہیں آئے کہ سپریم کورٹ پر قبضہ کیا جا سکتا۔
لیکن ایسا بانی تحریک انصاف پہلی بار نہیں سوچ رہے۔ انھوں نے پہلے بھی کئی بار تصادم کی سیاست کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اب بھی وہ یہی سوچ رہے ہیں کہ حالات اتنے خراب کیے جائیں کہ ریاست اور بالخصوص اسٹبلشمنٹ انھیں جیل سے نکالنے پر مجبور ہو جائے۔سپریم کورٹ مفلوج ہو جائے۔