چنگاریاں
ملک کے اہم تجارتی مرکز اور سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی 1992 آپریشن کے دوران درجنوں افراد لاپتا ہوگئے تھے۔۔۔
گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے ایک ورکنگ گروپ برائے لاپتا افراد نے پاکستان کا دورہ کیا۔
پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص بلوچستان میں لاپتا ہونیوالے افراد کے حوالے سے معلومات حاصل کیں۔
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے یو این وفد سے ملاقات کے دوران لاپتا افراد کی تلاش کے حوالے سے حکومتی کوششوں اور اقدامات سے آگاہ کیا۔ وفد کے ارکان نے گورنر پنجاب لطیف کھوسہ اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے علاوہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے بھی ملاقاتیں کیں، بعد ازاں چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری سے بھی ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔
تاہم چیف جسٹس نے یو این وفد سے ملنے سے اس بنیاد پر انکار کردیا کہ لاپتا افراد کے حوالے سے مقدمہ عدالتِ عظمیٰ میں زیرِ سماعت ہے اور اس ضمن میں وہ علیحدہ سے کوئی بحث اور تبادلہ خیال نہیں کرسکتے۔ قبل ازیں چیف جسٹس نے لاپتا افراد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ باہر کے لوگ ہمارے معاملات دیکھنے آئے تو اقتدارِ اعلیٰ کے لیے خطرناک ہوگا۔
ملک کے مختلف علاقوں بالخصوص بلوچستان سے لاپتا ہونے والے سیکڑوں افراد کی بازیابی کے حوالے سے مقدمہ عدالتِ عظمیٰ میں زیرِ سماعت ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ نہایت سنجیدہ اور حسّاس ہوتا جارہا ہے اور اس حوالے سے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیوں اور کارکردگی کے حوالے سے متعدد سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
ملک کے اہم تجارتی مرکز اور سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی 1992 آپریشن کے دوران درجنوں افراد لاپتا ہوگئے تھے جن کا آج تک سراغ نہ مل سکا۔ کراچی کی طرح اب بلوچستان کے لاپتا ہونے والے افراد کے لواحقین بھی اپنے پیاروں کی بازیابی کے منتظر ہیں۔
ہفتہ بھر قبل کوئٹہ میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ''بلوچستان کا مسئلہ، اس کا حل اور پیش رفت'' کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس میں وکلا اور سیاسی رہنماؤں نے بلوچستان کے مخدوش حالات اور لاپتا افراد کے مسئلے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان میں خفیہ اداروں کی مداخلت کو ختم کیا جائے اور علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کے لیے ایک بااختیار ایکشن گروپ بنایا جائے۔
کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، لاپتا افراد کی لاشیں مل رہی ہیں، لوگوں کو غائب کرنے اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور نواب اکبر بگٹی کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ وطنِ عزیز کے طول و عرض میں امن وامان کا قیام گزشتہ کئی برسوں سے حکومت کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے، بالخصوص 9/11 کے بعد آنے والی تبدیلی اور افغانستان میں امریکی فوجوں کی یلغار،طالبان کی مزاحمتی تحریک اور پاک افغان سرحد پر دراندازی کے واقعات نے اندرونِ وطن صورت حال کو مزیدگمبھیر بنادیا ہے۔
ہر چند کہ پاک فوج اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکار بلوچستان، فاٹا کے علاقوں میں امن قائم کرنے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف ہیں لیکن مزاحمتی گروپ کی سرگرمیاں بھی بدستور جاری ہیں اور وہ ردّعمل میں خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ مذہبی منافرت اورفرقہ واریت کو ہوا دی جارہی ہے، بالخصوص کراچی و بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال ناگفتہ بہ ہوتی جارہی ہے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں معروف بلوچ سردار نواب اکبر بگٹی کی 26 اگست 2006 کو ان کے 37 ساتھیوں سمیت پہاڑیوں میں جس طرح ہلاکت ہوئی، اس نے بلوچستان کے احساسِ محرومی کو نفرت و انتقام کی تحریک میں بدل دیا، نتیجتاً بلوچستان کے حالات نہایت سنگین رخ اختیار کرتے جارہے ہیں اور بعض علیحدگی پسند گروپ اور بلوچستان کے جلاوطن قبائلی رہنما اپنی تحریک کو مہمیز کرنے کے لیے بیرونی قوتوں سے بھی رابطے پیدا کررہے ہیں۔
اس حوالے سے چند ماہ پیشتر امریکی کانگریس کے رہنما ڈانا روہرا بیکر نے اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں صوبہ بلوچستان میں حق خودارادیت کا سوال اٹھایا گیا تھا اور صوبے کے حالات کی خوف ناک منظرکشی کرتے ہوئے بلوچستان کے علیحدگی پسند گروپوں کی حمایت کا بھی فیصلہ کیا گیا جو بلاشبہ ہماری آزادی، سلامتی اور خودمختاری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بلوچستان کے حوالے سے خاصے سنجیدہ اور فکرمند ہیں۔
راجہ پرویز اشرف نے چین روانگی سے قبل واضح طور پر قوم کو یہ یقین دہانی کرائی کہ بلوچستان کے مسئلے پر سپریم کورٹ کے احکامات و ہدایات پر سنجیدگی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔ صدر آصف علی زرداری بھی واضح کرچکے ہیں کہ حکومت بلوچستان کے مسائل سے آگاہ ہے۔
بلوچوں کے ساتھ پورا انصاف ہوگا، حکومت انھیں تنہا نہیں چھوڑے گی۔ صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ناراض بلوچ رہنمائوں سے خود جا کر ملنے کو تیار ہیں۔ صدر زرداری بلوچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر معافی بھی مانگ چکے ہیں۔ قوم پرست بلوچ رہنمائوں براہمداغ بگٹی اور حربیار مری اور دیگر بلوچ رہنمائوں کے خلاف قائم مقدمات کو آغاز حقوق بلوچستان کمیٹی کے تحت ختم اور عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے چند ماہ قبل وزیر داخلہ رحمن ملک، جلاوطن بلوچ رہنمائوں کو وطن واپسی اور مذاکرات کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔
بلوچستان میں امن و امان کا قیام حکومت کے لیے یقیناً ایک کڑا امتحان ہے کیونکہ ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں صرف عام شہری ہی نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی نشانہ بن رہے ہیں۔
2009 میں بلوچستان میں تعینات آئی جی پولیس آصف نواز وڑائچ کے مطابق پانچ ماہ کے مختصر عرصے میں پولیس پر حملوں کے 32 واقعات میں 22 پولیس اہلکار جاں بحق اور 25 زخمی ہوئے اور دہشت گردی کے واقعات میں ایف سی کے 16 اہلکار جاں بحق اور 95 زخمی ہوئے جب کہ لاپتا افراد کی تعداد بھی درجنوں میں ہے۔
حکومت نے یو این وفد کو گمشدہ افراد کے حوالے سے دی گئی بریفنگ میں بتایا ہے کہ سرکاری اداروں کی کوششوں سے 2010-11 کے دوران 814 لاپتا افراد میں سے 240 کو بازیاب کرایا گیا اور 34 افراد کا کچھ پتا نہ چل سکا۔ وفد کو بتایا گیا کہ عدالتِ عظمیٰ کے ایک سینئر جج کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیشن لاپتا افراد کی بازیابی کے حوالے سے کام کررہا ہے اور حکومت اس حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کررہی ہے۔
بہرحال حالات کی سنگینی کا تقاضا یہ ہے کہ بلوچوں کے دکھوں کا مداوا کیا جائے، ان کے زخموں پر مرہم رکھا جائے، ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے ورنہ بلوچوں کے احساس محرومی کی چنگاریاں شعلہ بن کر ہماری جغرافیائی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص بلوچستان میں لاپتا ہونیوالے افراد کے حوالے سے معلومات حاصل کیں۔
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے یو این وفد سے ملاقات کے دوران لاپتا افراد کی تلاش کے حوالے سے حکومتی کوششوں اور اقدامات سے آگاہ کیا۔ وفد کے ارکان نے گورنر پنجاب لطیف کھوسہ اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے علاوہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے بھی ملاقاتیں کیں، بعد ازاں چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری سے بھی ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔
تاہم چیف جسٹس نے یو این وفد سے ملنے سے اس بنیاد پر انکار کردیا کہ لاپتا افراد کے حوالے سے مقدمہ عدالتِ عظمیٰ میں زیرِ سماعت ہے اور اس ضمن میں وہ علیحدہ سے کوئی بحث اور تبادلہ خیال نہیں کرسکتے۔ قبل ازیں چیف جسٹس نے لاپتا افراد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ باہر کے لوگ ہمارے معاملات دیکھنے آئے تو اقتدارِ اعلیٰ کے لیے خطرناک ہوگا۔
ملک کے مختلف علاقوں بالخصوص بلوچستان سے لاپتا ہونے والے سیکڑوں افراد کی بازیابی کے حوالے سے مقدمہ عدالتِ عظمیٰ میں زیرِ سماعت ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ نہایت سنجیدہ اور حسّاس ہوتا جارہا ہے اور اس حوالے سے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیوں اور کارکردگی کے حوالے سے متعدد سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
ملک کے اہم تجارتی مرکز اور سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی 1992 آپریشن کے دوران درجنوں افراد لاپتا ہوگئے تھے جن کا آج تک سراغ نہ مل سکا۔ کراچی کی طرح اب بلوچستان کے لاپتا ہونے والے افراد کے لواحقین بھی اپنے پیاروں کی بازیابی کے منتظر ہیں۔
ہفتہ بھر قبل کوئٹہ میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ''بلوچستان کا مسئلہ، اس کا حل اور پیش رفت'' کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس میں وکلا اور سیاسی رہنماؤں نے بلوچستان کے مخدوش حالات اور لاپتا افراد کے مسئلے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان میں خفیہ اداروں کی مداخلت کو ختم کیا جائے اور علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کے لیے ایک بااختیار ایکشن گروپ بنایا جائے۔
کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، لاپتا افراد کی لاشیں مل رہی ہیں، لوگوں کو غائب کرنے اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور نواب اکبر بگٹی کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ وطنِ عزیز کے طول و عرض میں امن وامان کا قیام گزشتہ کئی برسوں سے حکومت کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے، بالخصوص 9/11 کے بعد آنے والی تبدیلی اور افغانستان میں امریکی فوجوں کی یلغار،طالبان کی مزاحمتی تحریک اور پاک افغان سرحد پر دراندازی کے واقعات نے اندرونِ وطن صورت حال کو مزیدگمبھیر بنادیا ہے۔
ہر چند کہ پاک فوج اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکار بلوچستان، فاٹا کے علاقوں میں امن قائم کرنے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف ہیں لیکن مزاحمتی گروپ کی سرگرمیاں بھی بدستور جاری ہیں اور وہ ردّعمل میں خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ مذہبی منافرت اورفرقہ واریت کو ہوا دی جارہی ہے، بالخصوص کراچی و بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال ناگفتہ بہ ہوتی جارہی ہے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں معروف بلوچ سردار نواب اکبر بگٹی کی 26 اگست 2006 کو ان کے 37 ساتھیوں سمیت پہاڑیوں میں جس طرح ہلاکت ہوئی، اس نے بلوچستان کے احساسِ محرومی کو نفرت و انتقام کی تحریک میں بدل دیا، نتیجتاً بلوچستان کے حالات نہایت سنگین رخ اختیار کرتے جارہے ہیں اور بعض علیحدگی پسند گروپ اور بلوچستان کے جلاوطن قبائلی رہنما اپنی تحریک کو مہمیز کرنے کے لیے بیرونی قوتوں سے بھی رابطے پیدا کررہے ہیں۔
اس حوالے سے چند ماہ پیشتر امریکی کانگریس کے رہنما ڈانا روہرا بیکر نے اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں صوبہ بلوچستان میں حق خودارادیت کا سوال اٹھایا گیا تھا اور صوبے کے حالات کی خوف ناک منظرکشی کرتے ہوئے بلوچستان کے علیحدگی پسند گروپوں کی حمایت کا بھی فیصلہ کیا گیا جو بلاشبہ ہماری آزادی، سلامتی اور خودمختاری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بلوچستان کے حوالے سے خاصے سنجیدہ اور فکرمند ہیں۔
راجہ پرویز اشرف نے چین روانگی سے قبل واضح طور پر قوم کو یہ یقین دہانی کرائی کہ بلوچستان کے مسئلے پر سپریم کورٹ کے احکامات و ہدایات پر سنجیدگی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔ صدر آصف علی زرداری بھی واضح کرچکے ہیں کہ حکومت بلوچستان کے مسائل سے آگاہ ہے۔
بلوچوں کے ساتھ پورا انصاف ہوگا، حکومت انھیں تنہا نہیں چھوڑے گی۔ صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ناراض بلوچ رہنمائوں سے خود جا کر ملنے کو تیار ہیں۔ صدر زرداری بلوچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر معافی بھی مانگ چکے ہیں۔ قوم پرست بلوچ رہنمائوں براہمداغ بگٹی اور حربیار مری اور دیگر بلوچ رہنمائوں کے خلاف قائم مقدمات کو آغاز حقوق بلوچستان کمیٹی کے تحت ختم اور عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے چند ماہ قبل وزیر داخلہ رحمن ملک، جلاوطن بلوچ رہنمائوں کو وطن واپسی اور مذاکرات کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔
بلوچستان میں امن و امان کا قیام حکومت کے لیے یقیناً ایک کڑا امتحان ہے کیونکہ ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں صرف عام شہری ہی نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی نشانہ بن رہے ہیں۔
2009 میں بلوچستان میں تعینات آئی جی پولیس آصف نواز وڑائچ کے مطابق پانچ ماہ کے مختصر عرصے میں پولیس پر حملوں کے 32 واقعات میں 22 پولیس اہلکار جاں بحق اور 25 زخمی ہوئے اور دہشت گردی کے واقعات میں ایف سی کے 16 اہلکار جاں بحق اور 95 زخمی ہوئے جب کہ لاپتا افراد کی تعداد بھی درجنوں میں ہے۔
حکومت نے یو این وفد کو گمشدہ افراد کے حوالے سے دی گئی بریفنگ میں بتایا ہے کہ سرکاری اداروں کی کوششوں سے 2010-11 کے دوران 814 لاپتا افراد میں سے 240 کو بازیاب کرایا گیا اور 34 افراد کا کچھ پتا نہ چل سکا۔ وفد کو بتایا گیا کہ عدالتِ عظمیٰ کے ایک سینئر جج کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیشن لاپتا افراد کی بازیابی کے حوالے سے کام کررہا ہے اور حکومت اس حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کررہی ہے۔
بہرحال حالات کی سنگینی کا تقاضا یہ ہے کہ بلوچوں کے دکھوں کا مداوا کیا جائے، ان کے زخموں پر مرہم رکھا جائے، ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے ورنہ بلوچوں کے احساس محرومی کی چنگاریاں شعلہ بن کر ہماری جغرافیائی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔