آئینی پیکیج پیپلز پارٹی کی ق لیگ اوراے این پی سے مشاورت
یہ تصور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے دیا تھا، جو چارٹر آف ڈیموکریسی کا بھی حصہ تھا
مجوزہ آئینی پیکیج پر مشاورت کے سلسلے میں سینیٹر شیری رحمن کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے وفد نے مسلم لیگ (ق)کے رہنما چوہدری سالک حسین اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹر ہدایت اللہ سے ملاقاتیں کیں ہیں، شیری رحمن کے ہمراہ پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما نیئر حسین بخاری اور سینیٹر شہادت اعوان بھی تھے۔
سینیٹرشیری رحمن کا کہناتھا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی رہنمائی میں ہونے والی یہ مشاورت ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام میں پارٹی کی کاوشوں کی نشاندہی کرتی ہے جس میں صوبائی نمائندگی بھی شامل ہوگی تاکہ یقنی بنایا جائے کہ عدالتی نظام منصفانہ رہے۔
بعدازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شیری رحمن کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں یہ ترامیم تمام سٹیک ہولڈرز کے اتفاق کے بعد ہوں، سینیٹرشیری رحمن نے کہا کہ آئینی عدالت کا تصور نیا نہیں ہے، یہ تصور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے دیا تھا، جو چارٹر آف ڈیموکریسی کا بھی حصہ تھاجس پر مئی 2006 میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کیے تھے، ہمارا مقصد 2006 کے میثاق جمہوریت کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کا قیام ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ آئینی اور سیاسی مقدمات کو اس عدالت میں منتقل کرنے سے اعلی عدلیہ کا قیمتی وقت بچے گا، مجوزہ عدالت سیاسی معاملات میں عدلیہ کے ملوث ہونے کے خدشات کو کم کرنے میں بھی مدد کرے گی۔
سینیٹرشیری رحمن کا کہناتھا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی رہنمائی میں ہونے والی یہ مشاورت ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام میں پارٹی کی کاوشوں کی نشاندہی کرتی ہے جس میں صوبائی نمائندگی بھی شامل ہوگی تاکہ یقنی بنایا جائے کہ عدالتی نظام منصفانہ رہے۔
بعدازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شیری رحمن کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں یہ ترامیم تمام سٹیک ہولڈرز کے اتفاق کے بعد ہوں، سینیٹرشیری رحمن نے کہا کہ آئینی عدالت کا تصور نیا نہیں ہے، یہ تصور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے دیا تھا، جو چارٹر آف ڈیموکریسی کا بھی حصہ تھاجس پر مئی 2006 میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کیے تھے، ہمارا مقصد 2006 کے میثاق جمہوریت کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کا قیام ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ آئینی اور سیاسی مقدمات کو اس عدالت میں منتقل کرنے سے اعلی عدلیہ کا قیمتی وقت بچے گا، مجوزہ عدالت سیاسی معاملات میں عدلیہ کے ملوث ہونے کے خدشات کو کم کرنے میں بھی مدد کرے گی۔