اولمپکس باکسرجان محمد بلوچ کی یاد میں
ان کی نماز جنازہ جمعہ 3 اگست 2012 کی صبح 10 بجے لیاری میں ادا کی گئی اور انھیں میوہ شاہ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
LONDON:
انتہائی کسمپرسی کے عالم میں قومی باکسنگ چیمپئن کا ایک اورسورج غروب ہوگیا اور حسب روایت ہماری قومی بے حسی ایک مرتبہ پھر عیاں ہوئی کہ ہمارا معاشرہ ''چڑھتے سورج کا پجاری'' ہے۔
سابق پاکستانی اولمپیئن باکسر جان محمد بلوچ 72 سال کی عمر میں عروس البلاد کراچی کے علاقے لیاری کے محلے ''عیدو لین'' میں انتقال کرگئے۔
جان محمد بلوچ کافی عرصے سے جگر کے عارضے میں مبتلا تھے۔ کھیل کے رِنگ میں اپنے مد مقابل باکسروں کو ناک آئوٹ کرنے والا لیاری کا یہ فرزند باکسر بالآخر زندگی کی بازی بے رحم موت کے ہاتھوں ہارگیا۔
ان کی نماز جنازہ جمعہ 3 اگست 2012 کی صبح 10 بجے لیاری میں ادا کی گئی اور انھیں میوہ شاہ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اس طرح قومی باکسنگ کا ایک سنہرا باب بند ہوگیا۔جان محمد بلوچ نے 1972 میں جرمنی میں منعقد ہونے والے میونخ اولمپکس میں پاکستان کی نمایندگی کی تھی اور چوتھے نمبر پر رہے تھے۔
وہ 1970 میں پاکستان کے قومی باکسنگ چیمپئن تھے، اسی سال انھوں نے بنکاک تھائی لینڈ میں منعقد ہونیوالے ایشین گیمز میں اپنے ملک پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے سلور میڈل حاصل کیا۔ 1971 میں انھوں نے سائوتھ کوریا میں منعقد ہونے والی ایشین چیمپئن شپ میں پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے حصّہ لیا اور اپنے سخت ترین حریفوں کو ہرا کر سونے کا تمغہ (گولڈ میڈل) حاصل کیا۔ بعد ازاں سائوتھ کوریا ہی میں پاکستان، کوریا باکسنگ سیریز میں پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔
1973 میں کولمبو میں ہلالی باکسنگ کپ میں پھر گولڈ میڈل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 1974 میں ایران کے دارالخلافہ تہران میں منعقدہ ایشین گیمز میں کانسی کا تمغہ جب کہ ترکی (انقرہ) میں منعقد ہونے والے فرسٹ آر سی ڈی باکسنگ چیمپئن شپ میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔
دوسرے سال اسی ٹورنامنٹ میں جو کہ استنبول میں ہوا، انھوں نے پھر گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 1977 میں انڈونیشیا (جکارتا) میں ایشین گیمز میں دوسری پوزیشن میں رہے اور سلور میڈل حاصل کیا۔ بعد ازاں پاکستان میں قومی چیمپئن شپ میں حاصل کرنے والا گولڈ میڈل ان کے لیے آخری اعزاز ثابت ہوا۔جان محمد بلوچ 1950 میں لیاری میں پیدا ہوئے، انھیں بچپن ہی سے باکسنگ سیکھنے کا شوق تھا، علاقائی سطح پر تربیت حاصل کی اور بہت جلد قومی چیمپئن باکسر بن گئے۔
1982 سے 2002 تک قومی باکسنگ کوچ رہے اور زندگی کے آخری ایّام تک نشتر روڈ، کے ایم سی ورکشاپ کے عقب میں واقع آر سی ڈی باکسنگ کلب میں نوجوان باکسروں کو تربیت دیتے رہے، انھوں نے ہمیشہ باکسنگ کے میدان میں امریکی لیجنڈ باکسر محمد علی کی پیروی کی۔جان محمد بلوچ کو اس تلخ حقیقت کا احساس تھا کہ معاشرے کے وہ لوگ جو ان کی ہر جیت پر واہ واہ کرتے ہوئے ان کو اپنے کندھوں پر اٹھاتے تھے لیکن اب انھوں نے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ انھوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ''میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم حاصل کرنے میں کوتاہی کی اور یہی خامی میری زندگی کی پریشانیوں کا سبب بن گئی ۔''
مرحوم جان محمد بلوچ کے دس بچّے ہیں جن میں ایک بچّی پولیو زدہ ہے۔ زندگی کے آخری دنوں میں وہ اپنے بڑے بیٹوں کے لیے نوکری حاصل کرنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے ہیں، انھوں نے سرکاری حکام سے فریاد کی تھی کہ وہ اپنے لیے کچھ بھی طلب نہیں کررہا، میں تو صرف حکام سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے بیٹوں کو کوئی عزت مندانہ نوکری دی جائے، یہ میرے بچّے ہیں جن کے مستقبل کے بارے میں میں بہت پریشان ہوں۔''
بلاشبہ جان محمد بلوچ نے اتنے سارے میڈلز حاصل کرکے ملک و قوم کا نام روشن کیا لیکن وہ اپنے کنبے کا مستقبل روشن کر نہ سکے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بین الاقوامی پاکستانی باکسر کے اتنے سارے میڈلوں کے شاندار ریکارڈ کے مدنظر اسے سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا، اس کی قدر کی جاتی اور اسے مراعات دی جاتیں تاکہ اس کی اور اس کے کنبے کی زندگی آسودہ حال ہوتی لیکن چونکہ ہمارے یہاں ایسا نظام رائج نہیں ہے۔
جس کے تحت ایک غریب باصلاحیت کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو۔ ہمارا ملکی نظام وی آئی پیز کلچر کا دلدادہ ہے، جہاں غریبوں کی حیثیت ایک رینگنے والے کیڑے کے جیسی ہے، جنھیں پائوں تلے کچلا تو جاسکتا ہے لیکن سر آنکھوں پر بٹھایا نہیں جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کھیل کے میدان میں آج پاکستان سب سے پیچھے ہے۔
اسپورٹس کی دنیا میں اور نہ جانے کتنے جان محمد بلوچ جیسے ہوں گے جو اپنی شاندار کارکردگی کے میڈل لیے اس بے حس معاشرے سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب بڑے سرکار کی نظر کرم ان پر بھی پڑے گی کہ ''ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں۔''جان محمد بلوچ دنیا سے سدھار گئے، نہ جانے ہم کب سدھریں گے؟ ہم چونکہ مردہ پرست واقع ہوئے ہیں، زندگی میں اس کی قدر نہ کی، شاید اس کے مرنے کے بعد اسے (جان محمد بلوچ کو) صدارتی ایوارڈ سے نوازا جائے۔
انتہائی کسمپرسی کے عالم میں قومی باکسنگ چیمپئن کا ایک اورسورج غروب ہوگیا اور حسب روایت ہماری قومی بے حسی ایک مرتبہ پھر عیاں ہوئی کہ ہمارا معاشرہ ''چڑھتے سورج کا پجاری'' ہے۔
سابق پاکستانی اولمپیئن باکسر جان محمد بلوچ 72 سال کی عمر میں عروس البلاد کراچی کے علاقے لیاری کے محلے ''عیدو لین'' میں انتقال کرگئے۔
جان محمد بلوچ کافی عرصے سے جگر کے عارضے میں مبتلا تھے۔ کھیل کے رِنگ میں اپنے مد مقابل باکسروں کو ناک آئوٹ کرنے والا لیاری کا یہ فرزند باکسر بالآخر زندگی کی بازی بے رحم موت کے ہاتھوں ہارگیا۔
ان کی نماز جنازہ جمعہ 3 اگست 2012 کی صبح 10 بجے لیاری میں ادا کی گئی اور انھیں میوہ شاہ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اس طرح قومی باکسنگ کا ایک سنہرا باب بند ہوگیا۔جان محمد بلوچ نے 1972 میں جرمنی میں منعقد ہونے والے میونخ اولمپکس میں پاکستان کی نمایندگی کی تھی اور چوتھے نمبر پر رہے تھے۔
وہ 1970 میں پاکستان کے قومی باکسنگ چیمپئن تھے، اسی سال انھوں نے بنکاک تھائی لینڈ میں منعقد ہونیوالے ایشین گیمز میں اپنے ملک پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے سلور میڈل حاصل کیا۔ 1971 میں انھوں نے سائوتھ کوریا میں منعقد ہونے والی ایشین چیمپئن شپ میں پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے حصّہ لیا اور اپنے سخت ترین حریفوں کو ہرا کر سونے کا تمغہ (گولڈ میڈل) حاصل کیا۔ بعد ازاں سائوتھ کوریا ہی میں پاکستان، کوریا باکسنگ سیریز میں پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔
1973 میں کولمبو میں ہلالی باکسنگ کپ میں پھر گولڈ میڈل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 1974 میں ایران کے دارالخلافہ تہران میں منعقدہ ایشین گیمز میں کانسی کا تمغہ جب کہ ترکی (انقرہ) میں منعقد ہونے والے فرسٹ آر سی ڈی باکسنگ چیمپئن شپ میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔
دوسرے سال اسی ٹورنامنٹ میں جو کہ استنبول میں ہوا، انھوں نے پھر گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 1977 میں انڈونیشیا (جکارتا) میں ایشین گیمز میں دوسری پوزیشن میں رہے اور سلور میڈل حاصل کیا۔ بعد ازاں پاکستان میں قومی چیمپئن شپ میں حاصل کرنے والا گولڈ میڈل ان کے لیے آخری اعزاز ثابت ہوا۔جان محمد بلوچ 1950 میں لیاری میں پیدا ہوئے، انھیں بچپن ہی سے باکسنگ سیکھنے کا شوق تھا، علاقائی سطح پر تربیت حاصل کی اور بہت جلد قومی چیمپئن باکسر بن گئے۔
1982 سے 2002 تک قومی باکسنگ کوچ رہے اور زندگی کے آخری ایّام تک نشتر روڈ، کے ایم سی ورکشاپ کے عقب میں واقع آر سی ڈی باکسنگ کلب میں نوجوان باکسروں کو تربیت دیتے رہے، انھوں نے ہمیشہ باکسنگ کے میدان میں امریکی لیجنڈ باکسر محمد علی کی پیروی کی۔جان محمد بلوچ کو اس تلخ حقیقت کا احساس تھا کہ معاشرے کے وہ لوگ جو ان کی ہر جیت پر واہ واہ کرتے ہوئے ان کو اپنے کندھوں پر اٹھاتے تھے لیکن اب انھوں نے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ انھوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ''میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم حاصل کرنے میں کوتاہی کی اور یہی خامی میری زندگی کی پریشانیوں کا سبب بن گئی ۔''
مرحوم جان محمد بلوچ کے دس بچّے ہیں جن میں ایک بچّی پولیو زدہ ہے۔ زندگی کے آخری دنوں میں وہ اپنے بڑے بیٹوں کے لیے نوکری حاصل کرنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے ہیں، انھوں نے سرکاری حکام سے فریاد کی تھی کہ وہ اپنے لیے کچھ بھی طلب نہیں کررہا، میں تو صرف حکام سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے بیٹوں کو کوئی عزت مندانہ نوکری دی جائے، یہ میرے بچّے ہیں جن کے مستقبل کے بارے میں میں بہت پریشان ہوں۔''
بلاشبہ جان محمد بلوچ نے اتنے سارے میڈلز حاصل کرکے ملک و قوم کا نام روشن کیا لیکن وہ اپنے کنبے کا مستقبل روشن کر نہ سکے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بین الاقوامی پاکستانی باکسر کے اتنے سارے میڈلوں کے شاندار ریکارڈ کے مدنظر اسے سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا، اس کی قدر کی جاتی اور اسے مراعات دی جاتیں تاکہ اس کی اور اس کے کنبے کی زندگی آسودہ حال ہوتی لیکن چونکہ ہمارے یہاں ایسا نظام رائج نہیں ہے۔
جس کے تحت ایک غریب باصلاحیت کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو۔ ہمارا ملکی نظام وی آئی پیز کلچر کا دلدادہ ہے، جہاں غریبوں کی حیثیت ایک رینگنے والے کیڑے کے جیسی ہے، جنھیں پائوں تلے کچلا تو جاسکتا ہے لیکن سر آنکھوں پر بٹھایا نہیں جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کھیل کے میدان میں آج پاکستان سب سے پیچھے ہے۔
اسپورٹس کی دنیا میں اور نہ جانے کتنے جان محمد بلوچ جیسے ہوں گے جو اپنی شاندار کارکردگی کے میڈل لیے اس بے حس معاشرے سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب بڑے سرکار کی نظر کرم ان پر بھی پڑے گی کہ ''ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں۔''جان محمد بلوچ دنیا سے سدھار گئے، نہ جانے ہم کب سدھریں گے؟ ہم چونکہ مردہ پرست واقع ہوئے ہیں، زندگی میں اس کی قدر نہ کی، شاید اس کے مرنے کے بعد اسے (جان محمد بلوچ کو) صدارتی ایوارڈ سے نوازا جائے۔