ملک کو درپیش نئے اور پرانے چیلنجز
لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک صاحب مذکورہ ادارے کے 31 ویں ڈی جی ہیں
یہ حسین اتفاق ہے کہ افواجِ پاکستان کے اہم ترین عہدے ہم ناموں کے پاس آگئے ہیں ۔ جنرل عاصم منیر صاحب پاک فوج کے سربراہ ہیں جب کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک نے ڈی جی آئی ایس آئی کا چارج سنبھال لیا ہے ۔لفظ ''عاصم'' کے معنی ہیں: نگہبان، محافظ۔یوں دیکھا جائے تو دونوں شخصیات نام کے حوالے سے بھی وطنِ عزیز کی سرحدوں کے نگہبان اور محافظ ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک صاحب 30 ستمبر2024ء کو پاکستان کے حساس ترین عہدے کا چارج سنبھال چکے ہیں۔ یہ بھی کیسا حسین اتفاق ہے کہ ان کے والد گرامی، جی ایم ملک، بھی لیفٹیننٹ جنرل اور کور کمانڈر تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک صاحب مذکورہ ادارے کے 31 ویں ڈی جی ہیں ۔ کبھی اِس عہدے پر میجر اور کرنل بھی فائز ہوتے رہے ہیں ۔ پھر دو ایک بار میجر جنرل بھی (مثال کے طور پر میجر جنرل غلام جیلانی خان) مگر پچھلے 45 برسوں سے لیفٹیننٹ جنرل کو تعینات کیا جارہا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں کے دوران مذکورہ عہدے پر فائز شخصیات پر خواہ مخواہ عوام اور میڈیا میں بحثیں ہوتی رہی ہیں ۔ حالانکہ یہ عہدہ ایسا نازک ہے کہ اِس پر فائز کسی بھی شخص کو خاموشی سے ملک وقوم کی خدمت کرنا ہوتی ہے۔
کیا اِسے بدقسمتی سے معنون کیا جائے کہ ہمارے ہاں مگر ایسا ، بوجوہ، نہ ہو سکا ۔ اِس عہدے پر فائز کئی سابقہ صاحبان کو متنازع بنانے کی جسارت بھی کی گئی ۔ لوگوں کو کم کم معلوم ہے کہ ہمارے چاروں ہمسایہ ممالک میں حساس ترین عہدے پر کون صاحب فائز ہیں ؟ اگرچہ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ بھارتی ''را'' کے سربراہ روی سنہا ہیں، افغانستان خفیہ ایجنسی کے سربراہ مظہر الحق واثق، ایرانی ادارے کے سربراہ اسماعیل خطیب اور چینی خفیہ ایجنسی کے ڈی جی شین وین چنگ ہیں۔
اِن ممالک میں مگر میڈیا پرسنز عمومی طور پر اِن صاحبان سے لاتعلق ہی رہتے ہیں ۔ ہمارے ہاں تو گنگا ہی اُلٹی بہہ رہی ہے ۔ شائد اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مبینہ طور پر ماضی قریب میں ہمارے ہاں اِس عہدے پر فائز بعض بڑے صاحبان کچھ سیاسی معاملات میں ، بوجوہ، دخیل پائے گئے ۔ اِس دخل اندازی کے کارن ہی تو آجکل ایک ریٹائرڈ صاحب اپنے مبینہ ''کارناموں'' کی بدولت آرمی کے زیر نگرانی پرسش کے مراحل سے گزررہے ہیں ۔
مملکتِ خداداد پاکستان کو کئی پرانے اور نئے چیلنجوں اورخطرات کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں شر اور فساد پھیلانے سے نہ پاکستان کا ازلی دشمن، بھارت، باز آ رہا ہے اور نہ طالبان حکام کا افغانستان۔ اِس وقت پاکستان کو جو بڑے چیلنجز اور خطرات ہیں ، وہ یوں گنوائے جا سکتے ہیں(1) ملک بھر میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کا خاتمہ(2)بلوچستان میں سرکش مفسد عناصر سے حکمت کے ساتھ نمٹنا(3) کے پی اور بلوچستان میں ٹی ٹی پی کی قاتلانہ وارداتوں کو لگام ڈالنا (4) فوری چیلنج کے طور پر4اکتوبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں پی ٹی آئی کے دھرنے کا اعلان (6)15اکتوبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی SCOکی عالمی سربراہی کانفرنس کو سلامتی سے منعقد کرانا کہ وفاقی وزیر اطلاعات اشارہ دے چکے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت اِسے سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔ ''شنگھائی تعاون تنظیم'' کانفرنس کی کامیابی پاکستان کو بے حد عزیز ہے اور مطلوب بھی۔ اِس میں کوئی رخنہ ڈالے جانے کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کو پرانے اور نئے سنگین مسائل ورثے میں ملے ہیں' یہ مسائل درحقیقت چیلنجز ہیں۔ حال ہی میں سوات میں دہشت گردوں نے جو ایک گھناؤنی حرکت کی ہے ، یہ دراصل دہشت گردوں نے ایک بڑا چیلنج دیا ہے۔ پچھلے ماہ کے تیسرے ہفتے پاکستان میں تعینات مبینہ طور پر درجن بھر غیر ملکی سفارتکار اور اتاشی جب سوات میں ''مالم جبہ'' سیر وتفریح کے لیے جا رہے تھے، دہشت گردوں نے اچانک سفارتکاروں کی گاڑی کے آگے آگے جانے والی پولیس وین پر بم دھماکہ کر دیا۔
اِس بزدلانہ اور دہشت گردانہ حملے میں اگرچہ ایک اہلکار شہید اور چار زخمی ہو گئے ، مگر خدا کا شکر ہے کہ سبھی سفارتکار محفوظ و مامون رہے ۔ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر اس قافلے میں شریک انڈونیشیا، پرتگال، قزاقستان، بوسنیا، زمبابوے، روانڈا، ترکمانستان، ویتنام، ایران، رُوس اور تاجکستان وغیرہ کے کسی بھی سفارتکار کو، خدانخواستہ، کوئی گزند پہنچ جاتا تو دُنیا بھر میں پاکستان بارے کیا تاثرات پھیلتے ؟
مالم جبہ خبیر پختونخوا میں واقع ہے ۔ حیرت کی بات ہے کہ اِس غیر معمولی واقعہ پر اِس صوبے کے وزیر اعلیٰ نے کم سے کم تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ اُن کے مشیروں اور وزیروں کی جانب سے البتہ یہ کہا گیا ہے کہ غیر ملکی سفارتکاروں کے مالم جبہ آنے کی خبر صرف مقامی پولیس اور خفیہ اداروں کے پاس تھی ، ہمیں تو اعتماد میں ہی نہیں لیا گیا تھا۔
یہ بیان عوام میں مزید کنفیوژن پھیلانے اور کے پی کے میں سینئر صوبائی حکام کی جانب سے ذمے داری نہ اُٹھانے کے مترادف ہے۔ کیا یہ رویہ کے پی حکومت اور ہمارے اداروں کے باہمی نان کوارڈی نیشن کی نشاندہی نہیں کرتا ؟ کے پی حکومت کے وزیر اور مشیر یہ کہتے بھی پائے گئے ہیں کہ غیر ملکی سفارتکاروں کے مالم جبہ آنے کی ہمیں تو خبر نہیں تھی تو پھر اِس کی خبر حملہ آور دہشت گردوں کو کیسے ہو گئی؟ بھارتی میڈیا نے حسبِ معمول اِس واقعہ کی اساس پر پاکستان کی سلامتی اور سیکیورٹی اداروں پر سوالات کی مفسدانہ بوچھاڑ کر ڈالی ہے ۔ بھارت کو پاکستان کے خلاف شر انگیزی کا بس موقع ملنا چاہیے ۔
اطلاعات ہیں کہ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ، اسحاق ڈار صاحب، نے سیکرٹری خارجہ، آمنہ بلوچ، کے ساتھ اِس واقعہ کے عینی شاہد تمام سفارتکاروں سے وزارتِ خارجہ کے دفتر میں ملاقات کرکے اظہارِ افسوس کیا ہے ۔ سوات کا یہ واقعہ ایک بار پھر باور کروا گیا ہے کہ وطن عزیز کو درپیش مسائل خاصے بھاری بھر کم اور سنگین ہیں۔ ح
ال ہی میں بھارتی وزیر داخلہ ، امِت شاہ، اور وزیر دفاع، راجناتھ سنگھ ،نے پاکستان کے خلاف جو دریدہ دہنی کی ہے، ایسے بیانات کی ضرررسانی سے نتیجہ خیز اسلوب میں نمٹنا ضروری ہے۔ سوات کا واقعہ مگر ایک نیا پُر خطر اشارہ ہے ۔ سابق سیکرٹری داخلہ ، اختر شاہ، کا کہنا ہے کہ جب کئی سال قبل سوات میں دہشت گردی کی آگ بھڑکی تھی تو اِس کا آغاز بھی سوات ایسے واقعات سے ہُوا تھا۔ہم ہی نہیں بلکہ ساری قوم اُمید کرتی ہے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے قوم و ملک کے تحفظ وسلامتی کے لیے جان لڑا دیں گے ۔ قوم کی دعائیں اُن کے ساتھ ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک صاحب مذکورہ ادارے کے 31 ویں ڈی جی ہیں ۔ کبھی اِس عہدے پر میجر اور کرنل بھی فائز ہوتے رہے ہیں ۔ پھر دو ایک بار میجر جنرل بھی (مثال کے طور پر میجر جنرل غلام جیلانی خان) مگر پچھلے 45 برسوں سے لیفٹیننٹ جنرل کو تعینات کیا جارہا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں کے دوران مذکورہ عہدے پر فائز شخصیات پر خواہ مخواہ عوام اور میڈیا میں بحثیں ہوتی رہی ہیں ۔ حالانکہ یہ عہدہ ایسا نازک ہے کہ اِس پر فائز کسی بھی شخص کو خاموشی سے ملک وقوم کی خدمت کرنا ہوتی ہے۔
کیا اِسے بدقسمتی سے معنون کیا جائے کہ ہمارے ہاں مگر ایسا ، بوجوہ، نہ ہو سکا ۔ اِس عہدے پر فائز کئی سابقہ صاحبان کو متنازع بنانے کی جسارت بھی کی گئی ۔ لوگوں کو کم کم معلوم ہے کہ ہمارے چاروں ہمسایہ ممالک میں حساس ترین عہدے پر کون صاحب فائز ہیں ؟ اگرچہ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ بھارتی ''را'' کے سربراہ روی سنہا ہیں، افغانستان خفیہ ایجنسی کے سربراہ مظہر الحق واثق، ایرانی ادارے کے سربراہ اسماعیل خطیب اور چینی خفیہ ایجنسی کے ڈی جی شین وین چنگ ہیں۔
اِن ممالک میں مگر میڈیا پرسنز عمومی طور پر اِن صاحبان سے لاتعلق ہی رہتے ہیں ۔ ہمارے ہاں تو گنگا ہی اُلٹی بہہ رہی ہے ۔ شائد اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مبینہ طور پر ماضی قریب میں ہمارے ہاں اِس عہدے پر فائز بعض بڑے صاحبان کچھ سیاسی معاملات میں ، بوجوہ، دخیل پائے گئے ۔ اِس دخل اندازی کے کارن ہی تو آجکل ایک ریٹائرڈ صاحب اپنے مبینہ ''کارناموں'' کی بدولت آرمی کے زیر نگرانی پرسش کے مراحل سے گزررہے ہیں ۔
مملکتِ خداداد پاکستان کو کئی پرانے اور نئے چیلنجوں اورخطرات کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں شر اور فساد پھیلانے سے نہ پاکستان کا ازلی دشمن، بھارت، باز آ رہا ہے اور نہ طالبان حکام کا افغانستان۔ اِس وقت پاکستان کو جو بڑے چیلنجز اور خطرات ہیں ، وہ یوں گنوائے جا سکتے ہیں(1) ملک بھر میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کا خاتمہ(2)بلوچستان میں سرکش مفسد عناصر سے حکمت کے ساتھ نمٹنا(3) کے پی اور بلوچستان میں ٹی ٹی پی کی قاتلانہ وارداتوں کو لگام ڈالنا (4) فوری چیلنج کے طور پر4اکتوبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں پی ٹی آئی کے دھرنے کا اعلان (6)15اکتوبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی SCOکی عالمی سربراہی کانفرنس کو سلامتی سے منعقد کرانا کہ وفاقی وزیر اطلاعات اشارہ دے چکے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت اِسے سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔ ''شنگھائی تعاون تنظیم'' کانفرنس کی کامیابی پاکستان کو بے حد عزیز ہے اور مطلوب بھی۔ اِس میں کوئی رخنہ ڈالے جانے کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کو پرانے اور نئے سنگین مسائل ورثے میں ملے ہیں' یہ مسائل درحقیقت چیلنجز ہیں۔ حال ہی میں سوات میں دہشت گردوں نے جو ایک گھناؤنی حرکت کی ہے ، یہ دراصل دہشت گردوں نے ایک بڑا چیلنج دیا ہے۔ پچھلے ماہ کے تیسرے ہفتے پاکستان میں تعینات مبینہ طور پر درجن بھر غیر ملکی سفارتکار اور اتاشی جب سوات میں ''مالم جبہ'' سیر وتفریح کے لیے جا رہے تھے، دہشت گردوں نے اچانک سفارتکاروں کی گاڑی کے آگے آگے جانے والی پولیس وین پر بم دھماکہ کر دیا۔
اِس بزدلانہ اور دہشت گردانہ حملے میں اگرچہ ایک اہلکار شہید اور چار زخمی ہو گئے ، مگر خدا کا شکر ہے کہ سبھی سفارتکار محفوظ و مامون رہے ۔ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر اس قافلے میں شریک انڈونیشیا، پرتگال، قزاقستان، بوسنیا، زمبابوے، روانڈا، ترکمانستان، ویتنام، ایران، رُوس اور تاجکستان وغیرہ کے کسی بھی سفارتکار کو، خدانخواستہ، کوئی گزند پہنچ جاتا تو دُنیا بھر میں پاکستان بارے کیا تاثرات پھیلتے ؟
مالم جبہ خبیر پختونخوا میں واقع ہے ۔ حیرت کی بات ہے کہ اِس غیر معمولی واقعہ پر اِس صوبے کے وزیر اعلیٰ نے کم سے کم تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ اُن کے مشیروں اور وزیروں کی جانب سے البتہ یہ کہا گیا ہے کہ غیر ملکی سفارتکاروں کے مالم جبہ آنے کی خبر صرف مقامی پولیس اور خفیہ اداروں کے پاس تھی ، ہمیں تو اعتماد میں ہی نہیں لیا گیا تھا۔
یہ بیان عوام میں مزید کنفیوژن پھیلانے اور کے پی کے میں سینئر صوبائی حکام کی جانب سے ذمے داری نہ اُٹھانے کے مترادف ہے۔ کیا یہ رویہ کے پی حکومت اور ہمارے اداروں کے باہمی نان کوارڈی نیشن کی نشاندہی نہیں کرتا ؟ کے پی حکومت کے وزیر اور مشیر یہ کہتے بھی پائے گئے ہیں کہ غیر ملکی سفارتکاروں کے مالم جبہ آنے کی ہمیں تو خبر نہیں تھی تو پھر اِس کی خبر حملہ آور دہشت گردوں کو کیسے ہو گئی؟ بھارتی میڈیا نے حسبِ معمول اِس واقعہ کی اساس پر پاکستان کی سلامتی اور سیکیورٹی اداروں پر سوالات کی مفسدانہ بوچھاڑ کر ڈالی ہے ۔ بھارت کو پاکستان کے خلاف شر انگیزی کا بس موقع ملنا چاہیے ۔
اطلاعات ہیں کہ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ، اسحاق ڈار صاحب، نے سیکرٹری خارجہ، آمنہ بلوچ، کے ساتھ اِس واقعہ کے عینی شاہد تمام سفارتکاروں سے وزارتِ خارجہ کے دفتر میں ملاقات کرکے اظہارِ افسوس کیا ہے ۔ سوات کا یہ واقعہ ایک بار پھر باور کروا گیا ہے کہ وطن عزیز کو درپیش مسائل خاصے بھاری بھر کم اور سنگین ہیں۔ ح
ال ہی میں بھارتی وزیر داخلہ ، امِت شاہ، اور وزیر دفاع، راجناتھ سنگھ ،نے پاکستان کے خلاف جو دریدہ دہنی کی ہے، ایسے بیانات کی ضرررسانی سے نتیجہ خیز اسلوب میں نمٹنا ضروری ہے۔ سوات کا واقعہ مگر ایک نیا پُر خطر اشارہ ہے ۔ سابق سیکرٹری داخلہ ، اختر شاہ، کا کہنا ہے کہ جب کئی سال قبل سوات میں دہشت گردی کی آگ بھڑکی تھی تو اِس کا آغاز بھی سوات ایسے واقعات سے ہُوا تھا۔ہم ہی نہیں بلکہ ساری قوم اُمید کرتی ہے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے قوم و ملک کے تحفظ وسلامتی کے لیے جان لڑا دیں گے ۔ قوم کی دعائیں اُن کے ساتھ ہیں۔