فیصلے کے باوجود مجوزہ آئینی ترمیم پر غیر یقینی صورتحال برقرار
حکومت نے آئینی ترمیم کی ان شقوں کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن پر جے یو آئی اور پیپلز پارٹی نے سوال اٹھایا ہے
آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے باوجود مجوزہ وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔ مجوزہ آئینی عدالت کے لیے آئینی ترمیم لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز تذبذب میں ہیں اور کسی کو یقین نہیں ہے کہ یہ دوسروں پر غالب آ جائے گا۔ مجوزہ جوڈیشل پیکیج کی نقاب کشائی کے بعد حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب نہ ہوا تو اسے اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے حکومت آئینی ترمیم کے ذریعے ایف سی سی کے قیام کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔
ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو انکشاف کیا کہ حکومت نے آئینی ترمیم کی ان شقوں کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن پر جے یو آئی اور پیپلز پارٹی نے سوال اٹھایا ہے۔ اسی لیے ہائی کورٹ کے ایک جج کے دوسری عدالت میں تبادلے کی تجویز کو خارج کر دیا جائے گا۔ اسی طرح قومی سلامتی کے معاملات پر آئین کے آرٹیکل 199 میں ترمیم کے تحت ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار ختم نہیں کیا جائے گا۔
عام شہریوں کے مقدمے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کا امکان بھی ختم کردیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت صرف ایف سی سی کی تشکیل پر توجہ مرکوز کر رہی ہے جسے آئینی معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے ملک کی سپریم کورٹ کے طور پر تجویز کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ وہ مجوزہ جوڈیشل پیکج کے کسی بھی منصوبے میں انہیں شامل نہ کرے کیونکہ وہ 25 اکتوبر کو ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اگرچہ قانونی برادری میں ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس عیسیٰ کا طرز عمل کسی اور چیز کی عکاسی کر رہا ہے۔ خاص طور پر اس فیصلے کی تبدیلی جس میں کہا گیا تھا کہ منحرف قانون ساز کا ووٹ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت شمار نہیں کیا جائے گا سے کچھ مختلف صورت حال دکھائی دے رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جے یو آئی نے عوامی سطح پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی کسی بھی شکل میں توسیع کی مخالفت کی ہے۔ بلاول نے کہ دیا ہے کہ 25 اکتوبر سے پہلے آئینی ترمیم منظور کرانا چاہتے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا حکومت آئینی ترمیم کو منظور کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتی ہے یا نہیں ۔حکومت کے اندر ایک طبقہ یہ سمجھ رہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی نظام کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ اس کی موجودگی مجوزہ آئینی عدالت کے برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے۔
دوسری جانب آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس میں شارٹ آرڈر کے اعلان کے بعد اکثریتی ججوں نے سپریم کورٹ کے احاطے میں غیر رسمی میٹنگ کی۔ بعض وکلا نے تجویز دی ہے کہ اس ادارے کے وقار کے لیے اکثریتی ججوں کو پیش بندی کے بجائے صورتحال کو احتیاط سے ہینڈل کرنا چاہیے۔
تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز تذبذب میں ہیں اور کسی کو یقین نہیں ہے کہ یہ دوسروں پر غالب آ جائے گا۔ مجوزہ جوڈیشل پیکیج کی نقاب کشائی کے بعد حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب نہ ہوا تو اسے اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے حکومت آئینی ترمیم کے ذریعے ایف سی سی کے قیام کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔
ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو انکشاف کیا کہ حکومت نے آئینی ترمیم کی ان شقوں کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن پر جے یو آئی اور پیپلز پارٹی نے سوال اٹھایا ہے۔ اسی لیے ہائی کورٹ کے ایک جج کے دوسری عدالت میں تبادلے کی تجویز کو خارج کر دیا جائے گا۔ اسی طرح قومی سلامتی کے معاملات پر آئین کے آرٹیکل 199 میں ترمیم کے تحت ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار ختم نہیں کیا جائے گا۔
عام شہریوں کے مقدمے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کا امکان بھی ختم کردیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت صرف ایف سی سی کی تشکیل پر توجہ مرکوز کر رہی ہے جسے آئینی معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے ملک کی سپریم کورٹ کے طور پر تجویز کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ وہ مجوزہ جوڈیشل پیکج کے کسی بھی منصوبے میں انہیں شامل نہ کرے کیونکہ وہ 25 اکتوبر کو ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اگرچہ قانونی برادری میں ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس عیسیٰ کا طرز عمل کسی اور چیز کی عکاسی کر رہا ہے۔ خاص طور پر اس فیصلے کی تبدیلی جس میں کہا گیا تھا کہ منحرف قانون ساز کا ووٹ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت شمار نہیں کیا جائے گا سے کچھ مختلف صورت حال دکھائی دے رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جے یو آئی نے عوامی سطح پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی کسی بھی شکل میں توسیع کی مخالفت کی ہے۔ بلاول نے کہ دیا ہے کہ 25 اکتوبر سے پہلے آئینی ترمیم منظور کرانا چاہتے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا حکومت آئینی ترمیم کو منظور کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتی ہے یا نہیں ۔حکومت کے اندر ایک طبقہ یہ سمجھ رہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی نظام کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ اس کی موجودگی مجوزہ آئینی عدالت کے برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے۔
دوسری جانب آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس میں شارٹ آرڈر کے اعلان کے بعد اکثریتی ججوں نے سپریم کورٹ کے احاطے میں غیر رسمی میٹنگ کی۔ بعض وکلا نے تجویز دی ہے کہ اس ادارے کے وقار کے لیے اکثریتی ججوں کو پیش بندی کے بجائے صورتحال کو احتیاط سے ہینڈل کرنا چاہیے۔