پاکستان ایک نظر میں آئیے سب ملکر دعا کریں
یہ دنیا کی پہلی حکومت ہے جو عوام کو ریلیف دینے کے بجائے خدا سے دعا مانگنے کی ترغیب دے رہی ہے۔
خواجہ آصف کی کیا ہی بات ہے جب بھی بولتے ہیں لوگوں کو ورطٔہ حیرت میں ڈال جاتے ہیں ۔ اب بھی روایت برقرار رکھتے ہوئےفرمارہے ہیں کہ رمضان کا دوسرا عشرہ شروع ہوتے ہی لوڈشیڈنگ ہمارے قابو سے باہر ہوچکی ہے لہذا ہم قوم سے معافی مانگتے ہیں ، ساتھ ہی قوم کو دعا اور بارش کیلئے نماز استسقاء کا مشورہ بھی دے گئے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ گزشتہ کئی دنوں سے اللہ کے کرم سے موسم بہتر تھا تو لوڈشیڈنگ میں کمی واقعی ہوئی تھی مگر اب گرمی بڑھ چکی ہے لہذا ہمیں اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ موسم بہتر ہوجائے تو گرمی پھر کم ہوجائیگی اور ہمارا مسئلہ کسی حد تک کم ہوسکتا ہے۔
وفاقی وزیر کی سادگی پر ہنسا جائےیا رویا جائے ، سمجھ نہیں آتا ۔ لوڈشیڈنگ کا حل نکالنا حکومت کا کام ہے۔ رمضان سے پہلے وزارت پانی و بجلی نے کیا تیاری کی تھی ؟ لوڈ منجمٹ کا موثر نظام ہی نہ بنایا جاسکا تو یہی عالم ہونا تھا ۔ تپتی گرمیوں میں پندرہ گھنٹے سے زائد کا روزہ اوپر سے بجلی کا آنا جانا ، کم وولٹیج عوام کو اذیت میں مبتلا کئے ہوئے ہیں ۔
الیکشن سے قبل ن لیگ لوڈشیڈنگ سے نجات کی باقاعدہ تاریخیں دیتی تھی ،آج معذرت سے کام چلایا جارہا ہے ۔ شاید یہ دنیا کی پہلی حکومت ہے جو عوام کو ریلیف دینے کے بجائے خدا سے دعا مانگنے کی ترغیب دے رہی ہے ۔ بےشک دعا ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہے لیکن حکمومتی نااہلی کو دعا کے پردے میں کسطرح چھپایا جاسکتا ہےیہ فن کم ہی لوگ جانتے ہیں ۔ اگر مملکت پاکستان کا سارا انتظام براہ راست دعا پر منتقل کردینا ہے تو بندوں کو ووٹ مانگ کر اسمبلی میں آنے کی کیا ضرورت ہے ۔
مسئلہ وہی ازلی ہے نااہلی ، کوتاہی ،ذمہ داری کا فقدان ۔ جب تمام وزراء کی توجہ طاہرالقادری اور عمران خان کے مارچ پر ہوگی اور بیان داغنے کا سلسلہ دن رات جاری رہیگا تو اپنے محکمہ میں جھانکنے کی فرصت کیسے ملے گی ۔ کسی سے ٹرین نہیں چل رہی تو کسی سے بجلی نہیں بن پارہی مگر زبانی جمع خرچ اور بیان بازی میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کے چکر نے عوام کو ہی چکرادیا ہے ۔
ملک اسطرح نہیں چلتے اس کیلئے نظام کی ضرورت ہوتی ہےاور حکومت کا نظام میں بہت بڑا حصہ ہوتا ہے ۔ حکومت کی قوت اسکی کارکردگی میں پنہاں جبکہ کارکردگی وزراء کی صلاحیتوں کی متقاضی ہوتی ہے ۔ورنہ کاروبار حکومت ٹھپ ہوجاتا ہے ۔ بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کا مسئلئہ ہمیشہ کارکردگی اور ناقص حکومتی ٹیم رہی ہے ۔بھارت ڈیم بھی بنارہا ہے ، ہمارا پانی بھی روک رہا ہے جبکہ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود بھارت سے سبزیاں امپورٹ کررہے ہیں ۔ یہ ہے ہماری کارکردگی ۔ آبادی کے دباو اورناقص حکمت عملی کےباعث مسائل گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔
خواجہ صاحب نے شاید سوچا نہیں کہ اگر اس دفعہ بارشیں کم ہوئیں اور گرمی برقرار رہی تو عوام انکی معافی کا کیا کریں گے ۔یا اگر بارشیں معمول سے زیادہ ہوگئی تو بھی ناقص انتظامات کے باعث پانی ضائع ہوجایگا البتہ غریب عوام ضرور زیر آب آجائیگی ۔لیکن شاید وہ اسکا حل بھی یقیناً دعا ہی کو بتائیں گے کیونکہ بندوں نے تو ہاتھ کھڑے کردیے ہیں ۔
مہذب ممالک میں حکومتوں کا یہ وطیرہ نہیں ہوتا ۔ وہاں یا تو کام کیا جاتا ہے یا استعفیٰ دیکر دوسرے کو جگہ دی جاتی ہے ۔ یہ کیسا طرز حکمرانی ہے کہ اپنی نااہلی کا بوجھ بھی عوام کی پیٹھ پر لاد کر اسے رجوع الٰہی کا مشورہ دیکر اپنی جان چھڑائی جاررہی ہے ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
وفاقی وزیر کی سادگی پر ہنسا جائےیا رویا جائے ، سمجھ نہیں آتا ۔ لوڈشیڈنگ کا حل نکالنا حکومت کا کام ہے۔ رمضان سے پہلے وزارت پانی و بجلی نے کیا تیاری کی تھی ؟ لوڈ منجمٹ کا موثر نظام ہی نہ بنایا جاسکا تو یہی عالم ہونا تھا ۔ تپتی گرمیوں میں پندرہ گھنٹے سے زائد کا روزہ اوپر سے بجلی کا آنا جانا ، کم وولٹیج عوام کو اذیت میں مبتلا کئے ہوئے ہیں ۔
الیکشن سے قبل ن لیگ لوڈشیڈنگ سے نجات کی باقاعدہ تاریخیں دیتی تھی ،آج معذرت سے کام چلایا جارہا ہے ۔ شاید یہ دنیا کی پہلی حکومت ہے جو عوام کو ریلیف دینے کے بجائے خدا سے دعا مانگنے کی ترغیب دے رہی ہے ۔ بےشک دعا ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہے لیکن حکمومتی نااہلی کو دعا کے پردے میں کسطرح چھپایا جاسکتا ہےیہ فن کم ہی لوگ جانتے ہیں ۔ اگر مملکت پاکستان کا سارا انتظام براہ راست دعا پر منتقل کردینا ہے تو بندوں کو ووٹ مانگ کر اسمبلی میں آنے کی کیا ضرورت ہے ۔
مسئلہ وہی ازلی ہے نااہلی ، کوتاہی ،ذمہ داری کا فقدان ۔ جب تمام وزراء کی توجہ طاہرالقادری اور عمران خان کے مارچ پر ہوگی اور بیان داغنے کا سلسلہ دن رات جاری رہیگا تو اپنے محکمہ میں جھانکنے کی فرصت کیسے ملے گی ۔ کسی سے ٹرین نہیں چل رہی تو کسی سے بجلی نہیں بن پارہی مگر زبانی جمع خرچ اور بیان بازی میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کے چکر نے عوام کو ہی چکرادیا ہے ۔
ملک اسطرح نہیں چلتے اس کیلئے نظام کی ضرورت ہوتی ہےاور حکومت کا نظام میں بہت بڑا حصہ ہوتا ہے ۔ حکومت کی قوت اسکی کارکردگی میں پنہاں جبکہ کارکردگی وزراء کی صلاحیتوں کی متقاضی ہوتی ہے ۔ورنہ کاروبار حکومت ٹھپ ہوجاتا ہے ۔ بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کا مسئلئہ ہمیشہ کارکردگی اور ناقص حکومتی ٹیم رہی ہے ۔بھارت ڈیم بھی بنارہا ہے ، ہمارا پانی بھی روک رہا ہے جبکہ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود بھارت سے سبزیاں امپورٹ کررہے ہیں ۔ یہ ہے ہماری کارکردگی ۔ آبادی کے دباو اورناقص حکمت عملی کےباعث مسائل گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔
خواجہ صاحب نے شاید سوچا نہیں کہ اگر اس دفعہ بارشیں کم ہوئیں اور گرمی برقرار رہی تو عوام انکی معافی کا کیا کریں گے ۔یا اگر بارشیں معمول سے زیادہ ہوگئی تو بھی ناقص انتظامات کے باعث پانی ضائع ہوجایگا البتہ غریب عوام ضرور زیر آب آجائیگی ۔لیکن شاید وہ اسکا حل بھی یقیناً دعا ہی کو بتائیں گے کیونکہ بندوں نے تو ہاتھ کھڑے کردیے ہیں ۔
مہذب ممالک میں حکومتوں کا یہ وطیرہ نہیں ہوتا ۔ وہاں یا تو کام کیا جاتا ہے یا استعفیٰ دیکر دوسرے کو جگہ دی جاتی ہے ۔ یہ کیسا طرز حکمرانی ہے کہ اپنی نااہلی کا بوجھ بھی عوام کی پیٹھ پر لاد کر اسے رجوع الٰہی کا مشورہ دیکر اپنی جان چھڑائی جاررہی ہے ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔