اُفتادگان خاک
ساٹھ کی دہائی میں فرانز فینن (FrantzFanon) کی مشہور کتاب Wretched of the Earth کا ترجمہ
ساٹھ کی دہائی میں فرانز فینن (FrantzFanon) کی مشہور کتاب Wretched of the Earth کا ترجمہ ''اُفتاد گان خاک'' کے نام سے سامنے آیا تو یہ نام عجیب سا لگا کتاب پڑھی تو معلوم ہوا کہ اس میں تیسری دنیا کے مظلوم' مقہور' پسماندہ اور انسانی حقوق سے محروم انسانوں اور معاشروں کو موضوع بنایا گیا ہے سو یہ عنوان ان کی صورت حال پر بہت فٹ بیٹھتا محسوس ہوا۔
گزشتہ دنوں ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کی تنظیم اخوت کے زیر اہتمام دو ایسی تقریبات میں شمولیت کا موقع ملا جس کے بیشتر حاضرین کے لیے بھی یہی اصطلاح ذہن میں آتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ یہ لوگ تیسری دنیا کے ساتھ ساتھ تیسری جنس سے بھی تعلق رکھتے ہیں جنھیں عام طور پر از راہ تحقیر ہیجڑے یا کھسرے اور قدرے بہتر الفاظ میں ''خواجہ سرا'' کہا جاتا ہے۔
چند دن قبل جب ایک ملاقات کے دوران باتوں باتوں میں ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا کہ وہ فائونٹین ہائوس میں خواجہ سرائوں کے ساتھ ایک شام منا رہے ہیں تاکہ معاشرے کے ان مظلوم اور راندہ درگاہ لوگوں کے ساتھ محبت ہمدردی اور یک جہتی کا اظہار کیا جائے کہ یہ مخلوق ہر اعتبار سے بے انتہا قابل رحم اور لائق توجہ ہے تو میں نے ان کی ہاں میں ہاں تو ملائی مگر اس وقت تک نہ مجھے اس مسئلے کی بہت سی تفصیلات کا علم تھا اور نہ ہی یہ اندازہ تھا کہ ان کی مدد کس طرح سے کی جا سکتی ہے۔
جہاں تک ایسے افراد کا تعلق ہے جو پیدائشی طور پر نہ تو پورے مرد ہوتے ہیں اور نہ عورت تو اس کی سائنس یا genetics کے ماہرین جو بھی وجہ بتائیں وہ اپنی جگہ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسی بدنصیبی ہے جو ان لوگوں کے لیے زندگی کو ایک مستقل عذاب بنا دیتی ہے کہ معاشرہ تو ایک طرف خود ان کے خاندان انھیں OWN کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان کی ایک اور قسم ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جنھیں ان کے بچپن میں کسی مصنوعی اور سفاکانہ طریقے سے بعض مخصوص اعضا سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
ایک تیسری قسم ان gay کہلانے والے افراد کی ہے جن کو ایک حد تک ہم جنس پرست کہا جا سکتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ ان کی ہم جنس پرستی اختیاری سے زیادہ مجبوری کے تابع ہوتی ہے اس معاملے کی مزید تفصیلات کا تعلق چونکہ ''خواجہ سرائی'' سے براہ راست نہیں ہے اس لیے میں اس سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں خواجہ سرائوں کے مسائل اور ان کو درپیش صورت حال کی طرف واپس آتا ہوں، یہ بے نام'بے چہرہ اور مستقبل سے محروم لوگ ہمارے یہاں عام طور پر ناچ گا کر کسی اچھی اور خوش آیند تقریب کے حوالے سے لوگوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور اس ''پرفارمنس'' سے حاصل ہونے والی بخشیش نما آمدنی سے اپنی روٹی پانی اور دیگر ضروریات مثلاً کپڑوں اور رہائش وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں۔
مسلسل ذلت' بے چارگی اور معاشی بدحالی کی وجہ سے ان کی زندگی ایک ایسا پستی سے پستی تک کا سفر بن جاتی ہے کہ ان خاک نشینوں کا خون رزق خاک تو ہوتا ہے مگر اس پر رونے والا کوئی نہیں ہوتا اس اعتبار سے ان کا مقام افتاد گان خاک کی بھی سب سے نچلی اور آخری صف میں بنتا ہے۔
اخوت نے چودہ برس کے مختصر عرصے میں مائیکرو فنانس کے حوالے سے جو مثالیں قائم کی ہیں وہ ناقابل یقین حد تک حیرت انگیز ہیں کہ چند ہم خیال دوستوں کے تعاون سے چند لاکھ روپوں اور چند انتہائی مفلس خاندانوں کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے اور محنت سے حق حلال کی روزی کمانے میں مدد دینے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا اب اس کا گردشی سرمایہ 9 ارب اور امداد حاصل کرنے والے خاندانوں کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور اس کی شفافیت' طریق کار کی اعلیٰ اور منظم سطح اور باہمی اعتماد کی عملی صورت کا ثبوت یہ ہے کہ قرضہ واپس کرنے والوں کی شرح 99% سے بھی زیادہ ہے اور یہ کام ایک ایسے ملک میں ہوا ہے جہاں کے کروڑ اور ارب پتی لوگ مالیاتی اداروں سے لیے ہوئے بڑے بڑے قرضے شیر مادر سمجھ کر ہضم کر جاتے ہیں۔
ان کی مالی اور طبی امداد اور انھیں معاشرے کے دیگر افراد کی طرح ایک باعزت مقام دلانے کے لیے نہ صرف رجسٹرڈ اور ضرورت مند خواجہ سرائوں کو ماہانہ ایک رقم بطور وظیفہ دی جاتی ہے اور انھیں مفت طبی امداد فراہم کی جاتی ہے بلکہ انھیں مختلف ہنر سکھا کر اپنی روٹی باعزت طریقے سے' محنت کر کے' کمانے کے قابل بھی بنایا جاتا ہے تاکہ تقدیر کے فیصلے کی دی ہوئی گرہ کو کم از کم اتنا ڈھیلا ضرور کر دیا جائے کہ یہ لوگ کھل کر سانس لے سکیں۔
فاؤنٹین ہاؤس کی انتظامیہ میں ڈاکٹر رشید چوہدری اور ان کے جواں مرگ بیٹے ڈاکٹر ہارون رشید کی وفات کے بعد ان کی فیملی کے کچھ اور افراد اس عظیم کام کو آگے بڑھا رہے ہیں لیکن ڈاکٹر امجد ثاقب کی شمولیت نے اس میں ایک نئی روح پھونک دی ہے، ذہنی اعتبار سے پسماندہ افراد کے لیے بنائے گئے اس ادارے میں معاشرتی طور پر ٹھکرائے ہوئے ان خواجہ سرائوں کا یہ اجتماع یقیناً انسان دوستی کے حوالے سے ایک اہم اور مستحسن اقدام ہے۔
دوسری تقریب براہ راست اخوت کے زیر اہتمام اس کے مرکزی دفتر کے بالمقابل ایک وسیع گرائونڈ میں افطار پارٹی کی شکل میں منعقد ہوئی جس میں خواجہ سرائوں کے ساتھ ساتھ اخوت سے امداد لے کر اپنے پائوں پر کھڑے ہونے والے تین سو خاندان اور عطیات دینے والوں کی بھی ایک بھاری تعداد نے شرکت کی سب سے خوش آیند بات یہ تھی کہ تقریب کا تمام تر اہتمام اخوت کے والنٹیرز نے کیا جن میں پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کی اکثریت تھی۔
ان نوجوانوں نے جس منظم انداز میں جوش و جذبے سے تقریباً آٹھ سو لوگوں کی افطاری اور کھانے کا انتظام کیا اسے دیکھ کر علامہ صاحب کا ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی''والا مصرعہ بار بار یاد آیا جس محبت اور سلیقے سے میلے کچیلے اور معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے ان خواجہ سرائوں اور غربت کی لکیر سے خاصا نیچے زندگی گزارنے والے باہمت اور ذمے دار افراد اور ان کے بیوی بچوں کی خدمت کے لیے یہ نوجوان بغیر کسی جھجک اور کامپیلکس کے مصروف تھے وہ ایک انتہائی خوش آیند منظر تھا جس ذوق و شوق اور محبت سے ان لوگوں نے مہمانوں کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور جس منظم اور مہذب انداز میں مل کر کھانا کھایا وہ ہمارے لیڈروں اور سیاسی ورکروں' دونوں کے لیے ایک سبق تھا۔ میں نے اپنے کسی ڈرامے میں لکھا تھا کہ غریب ہونے اور غربت پر گفتگو کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔
ان غریب لوگوں اور بالخصوص ان خواجہ سرائوں کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے اور ان کے مسائل کو سمجھنے کا سب سے مثبت اور تعمیری اثر جو مجھ سمیت ان تقریبات میں شامل بہت سے احباب پر ہوا اور جس کا وہاں اظہار بھی کیا گیا۔ یہی ہے کہ اب یہ خواجہ سرا اپنے زنانہ شوخ میک اپ' بھڑکدار لباسوں اور مخصوص حرکات اور طرز گفتار کے باوجود تمسخر اور حقارت کی جیتی جاگتی تصویریں نہیں رہے ان کی مجبوریوں اور بے چارگی کا جو رخ ان دو ملاقاتوں میں سامنے آیا ہے اس نے یقیناً اس عمومی معاشرتی رویے اور mind set میں ایک ایسی تعمیری تبدیلی کی بنیاد رکھ دی ہے جو ہمیں بہتر انسان بنانے کے عمل میں دیر تک اور دور تک ہمارے ساتھ ساتھ رہے گی۔
گزشتہ دنوں ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کی تنظیم اخوت کے زیر اہتمام دو ایسی تقریبات میں شمولیت کا موقع ملا جس کے بیشتر حاضرین کے لیے بھی یہی اصطلاح ذہن میں آتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ یہ لوگ تیسری دنیا کے ساتھ ساتھ تیسری جنس سے بھی تعلق رکھتے ہیں جنھیں عام طور پر از راہ تحقیر ہیجڑے یا کھسرے اور قدرے بہتر الفاظ میں ''خواجہ سرا'' کہا جاتا ہے۔
چند دن قبل جب ایک ملاقات کے دوران باتوں باتوں میں ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا کہ وہ فائونٹین ہائوس میں خواجہ سرائوں کے ساتھ ایک شام منا رہے ہیں تاکہ معاشرے کے ان مظلوم اور راندہ درگاہ لوگوں کے ساتھ محبت ہمدردی اور یک جہتی کا اظہار کیا جائے کہ یہ مخلوق ہر اعتبار سے بے انتہا قابل رحم اور لائق توجہ ہے تو میں نے ان کی ہاں میں ہاں تو ملائی مگر اس وقت تک نہ مجھے اس مسئلے کی بہت سی تفصیلات کا علم تھا اور نہ ہی یہ اندازہ تھا کہ ان کی مدد کس طرح سے کی جا سکتی ہے۔
جہاں تک ایسے افراد کا تعلق ہے جو پیدائشی طور پر نہ تو پورے مرد ہوتے ہیں اور نہ عورت تو اس کی سائنس یا genetics کے ماہرین جو بھی وجہ بتائیں وہ اپنی جگہ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسی بدنصیبی ہے جو ان لوگوں کے لیے زندگی کو ایک مستقل عذاب بنا دیتی ہے کہ معاشرہ تو ایک طرف خود ان کے خاندان انھیں OWN کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان کی ایک اور قسم ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جنھیں ان کے بچپن میں کسی مصنوعی اور سفاکانہ طریقے سے بعض مخصوص اعضا سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
ایک تیسری قسم ان gay کہلانے والے افراد کی ہے جن کو ایک حد تک ہم جنس پرست کہا جا سکتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ ان کی ہم جنس پرستی اختیاری سے زیادہ مجبوری کے تابع ہوتی ہے اس معاملے کی مزید تفصیلات کا تعلق چونکہ ''خواجہ سرائی'' سے براہ راست نہیں ہے اس لیے میں اس سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں خواجہ سرائوں کے مسائل اور ان کو درپیش صورت حال کی طرف واپس آتا ہوں، یہ بے نام'بے چہرہ اور مستقبل سے محروم لوگ ہمارے یہاں عام طور پر ناچ گا کر کسی اچھی اور خوش آیند تقریب کے حوالے سے لوگوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور اس ''پرفارمنس'' سے حاصل ہونے والی بخشیش نما آمدنی سے اپنی روٹی پانی اور دیگر ضروریات مثلاً کپڑوں اور رہائش وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں۔
مسلسل ذلت' بے چارگی اور معاشی بدحالی کی وجہ سے ان کی زندگی ایک ایسا پستی سے پستی تک کا سفر بن جاتی ہے کہ ان خاک نشینوں کا خون رزق خاک تو ہوتا ہے مگر اس پر رونے والا کوئی نہیں ہوتا اس اعتبار سے ان کا مقام افتاد گان خاک کی بھی سب سے نچلی اور آخری صف میں بنتا ہے۔
اخوت نے چودہ برس کے مختصر عرصے میں مائیکرو فنانس کے حوالے سے جو مثالیں قائم کی ہیں وہ ناقابل یقین حد تک حیرت انگیز ہیں کہ چند ہم خیال دوستوں کے تعاون سے چند لاکھ روپوں اور چند انتہائی مفلس خاندانوں کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے اور محنت سے حق حلال کی روزی کمانے میں مدد دینے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا اب اس کا گردشی سرمایہ 9 ارب اور امداد حاصل کرنے والے خاندانوں کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور اس کی شفافیت' طریق کار کی اعلیٰ اور منظم سطح اور باہمی اعتماد کی عملی صورت کا ثبوت یہ ہے کہ قرضہ واپس کرنے والوں کی شرح 99% سے بھی زیادہ ہے اور یہ کام ایک ایسے ملک میں ہوا ہے جہاں کے کروڑ اور ارب پتی لوگ مالیاتی اداروں سے لیے ہوئے بڑے بڑے قرضے شیر مادر سمجھ کر ہضم کر جاتے ہیں۔
ان کی مالی اور طبی امداد اور انھیں معاشرے کے دیگر افراد کی طرح ایک باعزت مقام دلانے کے لیے نہ صرف رجسٹرڈ اور ضرورت مند خواجہ سرائوں کو ماہانہ ایک رقم بطور وظیفہ دی جاتی ہے اور انھیں مفت طبی امداد فراہم کی جاتی ہے بلکہ انھیں مختلف ہنر سکھا کر اپنی روٹی باعزت طریقے سے' محنت کر کے' کمانے کے قابل بھی بنایا جاتا ہے تاکہ تقدیر کے فیصلے کی دی ہوئی گرہ کو کم از کم اتنا ڈھیلا ضرور کر دیا جائے کہ یہ لوگ کھل کر سانس لے سکیں۔
فاؤنٹین ہاؤس کی انتظامیہ میں ڈاکٹر رشید چوہدری اور ان کے جواں مرگ بیٹے ڈاکٹر ہارون رشید کی وفات کے بعد ان کی فیملی کے کچھ اور افراد اس عظیم کام کو آگے بڑھا رہے ہیں لیکن ڈاکٹر امجد ثاقب کی شمولیت نے اس میں ایک نئی روح پھونک دی ہے، ذہنی اعتبار سے پسماندہ افراد کے لیے بنائے گئے اس ادارے میں معاشرتی طور پر ٹھکرائے ہوئے ان خواجہ سرائوں کا یہ اجتماع یقیناً انسان دوستی کے حوالے سے ایک اہم اور مستحسن اقدام ہے۔
دوسری تقریب براہ راست اخوت کے زیر اہتمام اس کے مرکزی دفتر کے بالمقابل ایک وسیع گرائونڈ میں افطار پارٹی کی شکل میں منعقد ہوئی جس میں خواجہ سرائوں کے ساتھ ساتھ اخوت سے امداد لے کر اپنے پائوں پر کھڑے ہونے والے تین سو خاندان اور عطیات دینے والوں کی بھی ایک بھاری تعداد نے شرکت کی سب سے خوش آیند بات یہ تھی کہ تقریب کا تمام تر اہتمام اخوت کے والنٹیرز نے کیا جن میں پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کی اکثریت تھی۔
ان نوجوانوں نے جس منظم انداز میں جوش و جذبے سے تقریباً آٹھ سو لوگوں کی افطاری اور کھانے کا انتظام کیا اسے دیکھ کر علامہ صاحب کا ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی''والا مصرعہ بار بار یاد آیا جس محبت اور سلیقے سے میلے کچیلے اور معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے ان خواجہ سرائوں اور غربت کی لکیر سے خاصا نیچے زندگی گزارنے والے باہمت اور ذمے دار افراد اور ان کے بیوی بچوں کی خدمت کے لیے یہ نوجوان بغیر کسی جھجک اور کامپیلکس کے مصروف تھے وہ ایک انتہائی خوش آیند منظر تھا جس ذوق و شوق اور محبت سے ان لوگوں نے مہمانوں کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور جس منظم اور مہذب انداز میں مل کر کھانا کھایا وہ ہمارے لیڈروں اور سیاسی ورکروں' دونوں کے لیے ایک سبق تھا۔ میں نے اپنے کسی ڈرامے میں لکھا تھا کہ غریب ہونے اور غربت پر گفتگو کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔
ان غریب لوگوں اور بالخصوص ان خواجہ سرائوں کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے اور ان کے مسائل کو سمجھنے کا سب سے مثبت اور تعمیری اثر جو مجھ سمیت ان تقریبات میں شامل بہت سے احباب پر ہوا اور جس کا وہاں اظہار بھی کیا گیا۔ یہی ہے کہ اب یہ خواجہ سرا اپنے زنانہ شوخ میک اپ' بھڑکدار لباسوں اور مخصوص حرکات اور طرز گفتار کے باوجود تمسخر اور حقارت کی جیتی جاگتی تصویریں نہیں رہے ان کی مجبوریوں اور بے چارگی کا جو رخ ان دو ملاقاتوں میں سامنے آیا ہے اس نے یقیناً اس عمومی معاشرتی رویے اور mind set میں ایک ایسی تعمیری تبدیلی کی بنیاد رکھ دی ہے جو ہمیں بہتر انسان بنانے کے عمل میں دیر تک اور دور تک ہمارے ساتھ ساتھ رہے گی۔