میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں
اپنی عظمت کے لیے اکھٹے ہوگئے اور یہ ثابت کر نے لگے کہ انسان تدبیر کے ذریعے اپنے حالات بدل سکتا ہے۔
وکٹر ہیوگوکہتا ہے '' مرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، زندہ نہ رہنا خوفناک ہے۔ اور پھر بھی، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں پہلے ہی مرچکا ہوں، ایک بھوت ایسی زندگی کا شکار ہے، جسے میں اب پہچان نہیں سکتا۔ دن ایک دوسرے میں دھندلا جاتے ہیں، معنی سے خالی۔ میں دنیا کو اپنے بغیرآگے بڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں اور میں حیران ہوں کہ یہ کیسے جاری رہتا ہے جب کہ میں وقت میں منجمد رہتا ہوں، اپنی ہی مایوسی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوں۔ ہر سانس ایک وزن کی طرح محسوس ہوتا ہے، ہر لمحہ میرے اندرکے خالی پن کی ظالمانہ یاد دہانی۔''
ہم سب خوف کے مارے ہوئے ہیں نہ تو ہمیں اپنے آپ پر یقین ہے اور نہ ہی اس بات پرکہ ہم اپنے خیالات خود بدل سکتے ہیں جوکچھ بھی تھوڑا بہت ہمارے پاس باقی بچ گیا ہے ہم کسی صورت بھی اسے داؤ پر لگانا نہیں چاہتے اور ساتھ ساتھ اس پر یقین کیے بیٹھے ہیں کہ یہ ہی ہمارے نصیب میں لکھا ہوا ہے یہ ہی ہمارا مقدر ہے۔ ترکی کے شاعر ناظم حکمت اپنی نظم میں لکھتا ہے '' جس لمحے تم نے جنم لیا، انھوں نے تمہارے چار سو ایسی چکیاں لگادی ہیں جو جھوٹ پیستی ہیں، ایسے جھوٹ جو تمہارے ساتھ زندگی بھر رہ سکیں۔'' چا ڈوک کہتا ہے '' اگر انسان یہ سوچے کہ حالات ناقابل برداشت ہیں اور یہ دیکھیے کہ ان کا کوئی علاج نہیں ہے تو وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے لیکن اگر وہ مسائل کا کوئی حل دیکھتا ہے تو اس نظام کو الٹ دیتا ہے کہ جو اس کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔
16 ویں اور سترھویں صدی میں بادشاہوں اور آمروں نے پوری دنیا کے وسائل پر قبضہ کر کے کروڑوں انسانوں کو معاشی و سیاسی آزادی سے محروم کردیا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا اور دلیل کے دورکا آغاز ہوگیا، لوگ سماج کو بدلنے والے معاشی حقوق کے ساتھ ساتھ سیاسی حقوق کا مطالبہ کرنے لگے، قدامت پسند خیالات ہر جگہ شکست سے دوچار ہونے لگ گئے اور یورپ کے لوگوں نے ایک نئے انداز سے رہنے کا ڈھنگ سیکھنا شروع کر دیا اور وہ یہ جان گئے کہ انسان اپنی شخصیت اور وجود کا تعمیر کندہ ہے یورپ میں بسنے والے لاکھوں افراد جنہیں دھرتی کے نظر انداز بچے کہا جاتا تھا، اپنی عظمت کے لیے اکھٹے ہوگئے اور یہ ثابت کر نے لگے کہ انسان تدبیر کے ذریعے اپنے حالات بدل سکتا ہے۔ 1848 میں نفرتوں کا آتش فشاں پھٹ پڑا سارا یورپ انقلابی لہرکی لپیٹ میں آگیا سب سے پہلے انقلاب سسلی میں پھوٹا، قابل نفرت یاریون بادشاہ فریڈنڈ دوئم جو انقلابی تحریکوں کو کچلنے میں شہرت رکھتا تھا وہ اپنے تاج و تخت سے محروم کردیے جانے کی فکر میں تھا اور بڑی عجلت کے ساتھ کئی ایک رعایتیں دینے کو تیار ہوگیا تمام رجعت پرست وزراء کو دستبردارکردیا گیا اور نئے آئین کا وعدہ کیا گیا۔
24,22 فروری فرانس میں انقلاب اٹھ کھڑا ہوا، ایک معمولی سا واقعہ ہزاروں مزدوروں کو سڑکوں پر لے آیا، اس سے پہلے کہ کئی قصبوں پر انقلابیوں کا قبضہ ہوجاتا زبردست ناکہ بندی کردی گئی۔ گیوزٹ جو اس انقلاب کو چائے کی پیالی میں انقلاب کہہ رہا تھا وہ آخرکار فرانس سے بھاگ جانے پر مجبور ہوا، وہ بھی ایک عورت کے روپ میں اگلے دن لوئیس فلپ نے بھی ایسا ہی کیا فرانس کے باغی شاہی محل توڑکر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔13 مارچ کو ویانا کی گلیوں کی ناکہ بندی کردی گئی، سٹرنچ بھاگ گیا بدھا پیٹ اور پراگ میں بھی ویانا کی طرح ہوا اور جلد ہی آسٹریا کی کثیر القومیتی حکومت انقلابی تحریکوں کی لپیٹ میں آگئی۔
18 مارچ کو جرمنی میں بھی انقلابی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی اس کی کامیابی دراصل کئی ایک جرمن ریاستوں میں انقلابی تحریکوں کا باعث بنی۔ ایک عظیم الشان انقلابی تحریک پورے اٹلی میں پھیل گئی، لومیارڈی میں باغی اطالیوں نے قابض آسٹریاؤں کو شکست دے دی اور مارسل راوئے ذکائے کو جدوجہد کے دوران بہت شہرت حاصل ہوئی۔ آسٹریا والوں کو وینٹیا سے نکال باہرکردیا گیا، جسے بعد میں ایک آزاد ریاست قرار دے دیا گیا۔ انگلستان میں چار ٹرسٹ تحریک اپنے زوروں پر تھی۔ اسپین میں بھی انقلابی تحریک پھیل گئی۔ سوئزر لینڈ اور بلجیم میں بھی یہ ہی صورتحال تھی پولینڈ والے ملک کی تقسیم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انقلابی تحریک پورے یورپ میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی، جو ناقابل نفرت سیاسی حکومتوں اور بادشاہت کے زوال کا باعث بن رہی تھی۔ محلات اور تحت و تاج لزر رہے تھے۔ طوفان کی آمد کی گونج صاف سنائی دے رہی تھی۔
انسانیت کے دوبارہ پیدا ہونے کا نور اور حساب کتاب کا دن، نئی قوتوں نے انسانی قلب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ پرانی امیدیں ایک بار پھر اٹھ کھڑی ہوگئی تھیں اور جرأت اس دورکا پیغام تھا۔ انقلاب فرانس نے فرانس اور بعد میں یورپ کے دیگر ممالک کے معاشروں کو یکسر پلٹ کے رکھ دیا، اس نے جو زبان ونعرے دیے وہ بعد میں آنے والے تمام انقلاب میں موثر ہتھیارکے طورپر استعمال ہوئے۔ آزادی، مساوات اور اخوت ان ہی تین نعروں نے غیر مراعات یافتہ اورکچلے ہوئے طبقات کو اپنی قسمت تبدیل کرنے پر اکسایا۔
آج یہی تین نعرے آزادی، مساوات اور اخوت آپ کو اور مجھے اپنی قسمت تبدیل کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ ہم اپنے اندر سے اور یورپ سے آنیوالی آوازوں کو کیوں نہیں سن رہے ہیں۔ کیوں بہرے اور انجان بنے ہوئے ہیں۔بادشاہ لوئی چہار دہم کہا کرتا تھا '' میں ریاست ہوں'' آؤ ہم سب مل کر یہ نعرہ لگائیں کہ ہم ریاست ہیں۔ اس لیے کہ ہم اس ملک کے اصل مالک ہیں پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ دو چار لٹیرے جنھوں نے ہمیں دوزخ میں ڈال رکھا ہے، کس طرح بھاگتے ہیں۔
یہ ناجائز قابضین کس طرح آپ سے اپنی جان بخشی کی بھیک مانگتے ہیں جو کہتے پھرتے ہیں کہ ''ہم ریاست ہیں'' آؤ،کہ ہم سب ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھیں جہاں سکون اور اطمینان ہو جہاں آزادی، مساوات اور اخوت ہو جہاں ہر شخص اپنے دائرہ کار میں خوش ہو، جہاں اخلاقی اقدار اپنی جڑیں پکڑی ہوئی ہوں جہاں کرپشن، لوٹ مار، عدم رواداری، عدم برداشت، بے ایمانی گناہ سمجھے جائیں۔ آؤ، جرأت کرو اٹھو میرے گلتے سڑتے، افلاس اور ذلتوں کے مارے ہم وطنوں ہم نے ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں تاریخ بننا ہے یا تاریخ بنانی ہے۔ ڈیکارٹ نے کہا تھا ''میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں'' آئیں! ہم بھی سوچیں اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے اپنے ملک کے لیے اپنی قوم کے لیے۔آپ ہی وہ واحد فرد ہیں جو تبدیلی لاسکتے ہیں۔
ہم سب خوف کے مارے ہوئے ہیں نہ تو ہمیں اپنے آپ پر یقین ہے اور نہ ہی اس بات پرکہ ہم اپنے خیالات خود بدل سکتے ہیں جوکچھ بھی تھوڑا بہت ہمارے پاس باقی بچ گیا ہے ہم کسی صورت بھی اسے داؤ پر لگانا نہیں چاہتے اور ساتھ ساتھ اس پر یقین کیے بیٹھے ہیں کہ یہ ہی ہمارے نصیب میں لکھا ہوا ہے یہ ہی ہمارا مقدر ہے۔ ترکی کے شاعر ناظم حکمت اپنی نظم میں لکھتا ہے '' جس لمحے تم نے جنم لیا، انھوں نے تمہارے چار سو ایسی چکیاں لگادی ہیں جو جھوٹ پیستی ہیں، ایسے جھوٹ جو تمہارے ساتھ زندگی بھر رہ سکیں۔'' چا ڈوک کہتا ہے '' اگر انسان یہ سوچے کہ حالات ناقابل برداشت ہیں اور یہ دیکھیے کہ ان کا کوئی علاج نہیں ہے تو وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے لیکن اگر وہ مسائل کا کوئی حل دیکھتا ہے تو اس نظام کو الٹ دیتا ہے کہ جو اس کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔
16 ویں اور سترھویں صدی میں بادشاہوں اور آمروں نے پوری دنیا کے وسائل پر قبضہ کر کے کروڑوں انسانوں کو معاشی و سیاسی آزادی سے محروم کردیا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا اور دلیل کے دورکا آغاز ہوگیا، لوگ سماج کو بدلنے والے معاشی حقوق کے ساتھ ساتھ سیاسی حقوق کا مطالبہ کرنے لگے، قدامت پسند خیالات ہر جگہ شکست سے دوچار ہونے لگ گئے اور یورپ کے لوگوں نے ایک نئے انداز سے رہنے کا ڈھنگ سیکھنا شروع کر دیا اور وہ یہ جان گئے کہ انسان اپنی شخصیت اور وجود کا تعمیر کندہ ہے یورپ میں بسنے والے لاکھوں افراد جنہیں دھرتی کے نظر انداز بچے کہا جاتا تھا، اپنی عظمت کے لیے اکھٹے ہوگئے اور یہ ثابت کر نے لگے کہ انسان تدبیر کے ذریعے اپنے حالات بدل سکتا ہے۔ 1848 میں نفرتوں کا آتش فشاں پھٹ پڑا سارا یورپ انقلابی لہرکی لپیٹ میں آگیا سب سے پہلے انقلاب سسلی میں پھوٹا، قابل نفرت یاریون بادشاہ فریڈنڈ دوئم جو انقلابی تحریکوں کو کچلنے میں شہرت رکھتا تھا وہ اپنے تاج و تخت سے محروم کردیے جانے کی فکر میں تھا اور بڑی عجلت کے ساتھ کئی ایک رعایتیں دینے کو تیار ہوگیا تمام رجعت پرست وزراء کو دستبردارکردیا گیا اور نئے آئین کا وعدہ کیا گیا۔
24,22 فروری فرانس میں انقلاب اٹھ کھڑا ہوا، ایک معمولی سا واقعہ ہزاروں مزدوروں کو سڑکوں پر لے آیا، اس سے پہلے کہ کئی قصبوں پر انقلابیوں کا قبضہ ہوجاتا زبردست ناکہ بندی کردی گئی۔ گیوزٹ جو اس انقلاب کو چائے کی پیالی میں انقلاب کہہ رہا تھا وہ آخرکار فرانس سے بھاگ جانے پر مجبور ہوا، وہ بھی ایک عورت کے روپ میں اگلے دن لوئیس فلپ نے بھی ایسا ہی کیا فرانس کے باغی شاہی محل توڑکر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔13 مارچ کو ویانا کی گلیوں کی ناکہ بندی کردی گئی، سٹرنچ بھاگ گیا بدھا پیٹ اور پراگ میں بھی ویانا کی طرح ہوا اور جلد ہی آسٹریا کی کثیر القومیتی حکومت انقلابی تحریکوں کی لپیٹ میں آگئی۔
18 مارچ کو جرمنی میں بھی انقلابی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی اس کی کامیابی دراصل کئی ایک جرمن ریاستوں میں انقلابی تحریکوں کا باعث بنی۔ ایک عظیم الشان انقلابی تحریک پورے اٹلی میں پھیل گئی، لومیارڈی میں باغی اطالیوں نے قابض آسٹریاؤں کو شکست دے دی اور مارسل راوئے ذکائے کو جدوجہد کے دوران بہت شہرت حاصل ہوئی۔ آسٹریا والوں کو وینٹیا سے نکال باہرکردیا گیا، جسے بعد میں ایک آزاد ریاست قرار دے دیا گیا۔ انگلستان میں چار ٹرسٹ تحریک اپنے زوروں پر تھی۔ اسپین میں بھی انقلابی تحریک پھیل گئی۔ سوئزر لینڈ اور بلجیم میں بھی یہ ہی صورتحال تھی پولینڈ والے ملک کی تقسیم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انقلابی تحریک پورے یورپ میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی، جو ناقابل نفرت سیاسی حکومتوں اور بادشاہت کے زوال کا باعث بن رہی تھی۔ محلات اور تحت و تاج لزر رہے تھے۔ طوفان کی آمد کی گونج صاف سنائی دے رہی تھی۔
انسانیت کے دوبارہ پیدا ہونے کا نور اور حساب کتاب کا دن، نئی قوتوں نے انسانی قلب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ پرانی امیدیں ایک بار پھر اٹھ کھڑی ہوگئی تھیں اور جرأت اس دورکا پیغام تھا۔ انقلاب فرانس نے فرانس اور بعد میں یورپ کے دیگر ممالک کے معاشروں کو یکسر پلٹ کے رکھ دیا، اس نے جو زبان ونعرے دیے وہ بعد میں آنے والے تمام انقلاب میں موثر ہتھیارکے طورپر استعمال ہوئے۔ آزادی، مساوات اور اخوت ان ہی تین نعروں نے غیر مراعات یافتہ اورکچلے ہوئے طبقات کو اپنی قسمت تبدیل کرنے پر اکسایا۔
آج یہی تین نعرے آزادی، مساوات اور اخوت آپ کو اور مجھے اپنی قسمت تبدیل کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ ہم اپنے اندر سے اور یورپ سے آنیوالی آوازوں کو کیوں نہیں سن رہے ہیں۔ کیوں بہرے اور انجان بنے ہوئے ہیں۔بادشاہ لوئی چہار دہم کہا کرتا تھا '' میں ریاست ہوں'' آؤ ہم سب مل کر یہ نعرہ لگائیں کہ ہم ریاست ہیں۔ اس لیے کہ ہم اس ملک کے اصل مالک ہیں پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ دو چار لٹیرے جنھوں نے ہمیں دوزخ میں ڈال رکھا ہے، کس طرح بھاگتے ہیں۔
یہ ناجائز قابضین کس طرح آپ سے اپنی جان بخشی کی بھیک مانگتے ہیں جو کہتے پھرتے ہیں کہ ''ہم ریاست ہیں'' آؤ،کہ ہم سب ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھیں جہاں سکون اور اطمینان ہو جہاں آزادی، مساوات اور اخوت ہو جہاں ہر شخص اپنے دائرہ کار میں خوش ہو، جہاں اخلاقی اقدار اپنی جڑیں پکڑی ہوئی ہوں جہاں کرپشن، لوٹ مار، عدم رواداری، عدم برداشت، بے ایمانی گناہ سمجھے جائیں۔ آؤ، جرأت کرو اٹھو میرے گلتے سڑتے، افلاس اور ذلتوں کے مارے ہم وطنوں ہم نے ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں تاریخ بننا ہے یا تاریخ بنانی ہے۔ ڈیکارٹ نے کہا تھا ''میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں'' آئیں! ہم بھی سوچیں اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے اپنے ملک کے لیے اپنی قوم کے لیے۔آپ ہی وہ واحد فرد ہیں جو تبدیلی لاسکتے ہیں۔