شکستوں کا داغ دھونے کیلئے پاکستان کو فتوحات کی تلاش
دورہ آسٹریلیا اور پھر بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز میں تاریخی ناکامیاں داغ کی مانند ہیں
پاکستان کرکٹ ٹیم مختلف شکستوں اور بحرانوں کا سامنا کرنے کے بعد اب اپنے میدانوں پر زیادہ مضبوط نہیں لگتی، اس سے کہیں زیادہ بہتر انگلینڈ کی ٹیم اہم سیریز کے لیے تیار نظر آرہی ہے، تین ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز کے لیے آنے والی مہمان ٹیم سے مقابلے کے لیے کشمکش میں مبتلا پاکستان کرکٹ ٹیم کا انتخاب بھی بے شمار سوالات اٹھا رہا ہے۔
روایتی انداز میں سیریز کے بجائے محض پہلے ٹیسٹ کے لیے 15 رکنی قومی اسکواڈ کا اعلان اور پھر اس کے لیے اضافی کھلاڑیوں کی شمولیت کا فیصلہ پی سی بی کے حواس باختہ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، گذشتہ ٹیسٹ سیریز میں عبرتناک شکستوں کا سامنا کرنے والی پاکستان کرکٹ ٹیم کو اس وقت مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، چیمپئنز ٹرافی کی شایان شان میزبانی اور ایونٹ میں اچھے نتائج کے خواہاں پی سی بی کی پریشانی فطری عمل ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم سیریز کے آغاز سے قبل ہی مختلف قسم کے دباؤ کا شکار نظر آرہی ہے، کامیابی کے مدارج طے کرنے کے لیے ہم آہنگی اور اتحاد کلیدی کردار ادا کرتا ہے، بدقسمتی سے پاکستان کرکٹ ٹیم میں اس کا فقدان ہے۔
دورہ آسٹریلیا اور پھر بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز میں تاریخی ناکامیاں داغ کی مانند ہیں جسے دھونے کے لیے میزبان ٹیم کو انگلینڈ کے خلاف لازمی طور پر فتوحات درکار ہیں، ورنہ مزید شکستوں کے سبب پاکستان کرکٹ ٹیم کا مورال گرنے کا احتمال ہے جس کے نتائج مستقبل کے مقابلوں پر بھی اثر انداز ہوں گے،بیزبال کی اصطلاح کے ساتھ تیز کھیلتے ہوئے جارحانہ انداز اپنانے کی حکمت عملی کے ساتھ پاکستان کا رخ کرنے والی انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی بظاہر نفسیاتی طور پر زیادہ مضبوط نظر نہیں آ رہے۔
اپنی انتظامیہ سے ناخوش مہمان کرکٹرز کنڈیشنز کے ساتھ مقامی سطح پر درپیش سیاسی حالات کی وجہ سے بھی کافی متفکر لگ رہے ہیں، گذشتہ دورئہ پاکستان کی تاریخ دہرانے کی خواہاں انگلینڈ کرکٹ ٹیم میں جذبے کا بھی فقدان نظر آرہا ہے، پچھلی مرتبہ ٹیم کے ہمراہ پاکستان کا رخ کرنے والے چار فاسٹ بولرز اسکواڈ میں شامل نہیں، کپتان و آل راؤنڈر بین اسٹوکس کی فٹنس مسائل کے سبب پہلے ٹیسٹ میں شرکت مشکوک نظر آرہی ہے، گرم موسم میں نوجوان فاسٹ بولرز سے اچھے نتائج کی توقع رکھنے والی انگلش کرکٹ ٹیم کو اسپنرز سے کافی امیدیں ہیں، پاکستان اس شعبے میں کبھی ممتاز تھا لیکن آج ملک کو اعلیٰ اسپنرز کی کمی کا سامنا ہے۔
اسپنرز کو استعمال کرنے کا انحصار ملتان میں کھیلے جانے والے ابتدائی دونوں ٹیسٹ کے ساتھ پنڈی میں شیڈول تیسرے اور آخری ٹیسٹ کے لیے بنائی جانے والی پچز پر ہوگا، پہلا ٹیسٹ 7سے 11، دوسرا ٹیسٹ 15 سے 19 اور تیسرا اور آخری 24 سے 28 اکتوبر تک شیڈول ہے، یہ تینوں میچز آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ ہیں، اس طرح پوائنٹس ٹیبل پر آٹھویں پوزیشن پر موجود پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے یہ سیریز بہت اہم ہوگی، آخری مرتبہ فروری 2021 میں جنوبی افریقہ کے خلاف پنڈی ٹیسٹ میں کامیابی پانے والی پاکستان ٹیم ہوم گراؤنڈ پر جیت کی متلاشی ہے، چیمپئنز ٹرافی سے قبل نومبر، دسمبر میں آسٹریلیا اور پھر زمبابوے کے خلاف وائٹ بال سیریز کے بعد جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز اور بعدازاں ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم ٹیسٹ سیریز کی میزبانی کے لیے تیار پاکستان کرکٹ ٹیم مسلسل ناقص کارکردگی کے سبب شدید تنقید کا شکار ہے۔
پی سی بی میں بار بار کی تبدیلیاں اور قیادت کی لڑائی کی وجہ سے اتحاد کا پارہ پارہ ہونا پاکستان کرکٹ ٹیم کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے، امکان ہے کہ پی سی بی خود کو درپیش مسائل اور دباؤ سے نکالنے کے لیے انگلینڈ کی ٹیم میں اہم فاسٹ بولرز کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پچز سے پوری طرح گھاس کاٹنے سے اجتناب کرے گا تاکہ اہم ہتھیار شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ سمیت دیگرفاسٹ بولرز سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے، البتہ پاکستان کو یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ انگلینڈ کے پاس میتھیو پولٹس، اولی اسٹون، گس اٹکنسن اور بریڈن کارلس کی شکل میں معیاری پیس اٹیک موجود ہے، دوسری جانب وائٹ بال کی کپتانی سے دستبرداری کے بعد بابرعظم کے پاس تمام تر دباؤ سے آزاد ہو کر خود کو بہتر بیٹر ثابت کرنے کا اہم موقع ہوگا، پاکستان کے لیے بیٹنگ میں محمد رضوان کی کارکردگی بھی اہم ہے،سیریز میں سرفراز احمد کو موقع ملا تو یہ کسی اچھنبے سے ہر گز کم نہ ہوگا۔
سب سے اہم شعبہ فیلڈنگ نتائج پر اثر انداز ہوگا، ملنے والے مواقعوں سے فائدہ اٹھانے والی ٹیم ہی کامیابی پائے گی،یہ سیریز بہت سے کھلاڑیوں کے مستقبل کا فیصلہ بھی کرے گی، پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود بظاہر پْرعزم نظر آرہے ہیں، وہ اپنے کھلاڑیوں کو مکمل اعتماد دینے کے حق میں ہیں، البتہ شان مسعود کو اپنے کھلاڑیوں کی ذہنی اور جسمانی فٹنس کے حوالے سے خطرات ہیں،وہ فاسٹ بولرز کی سپر فٹنس اور بیٹنگ لائن خاص طور پر اوپنرز کی کارکردگی کو اہم قرار دیتے ہیں، ملتان کے دونوں ٹیسٹ میچز کے لیے 11 میں سے ایک پچ کا انتخاب کیا جا چکا، دیکھنا ہوگا کہ وہ کیسا کردار ادا کرتی ہے، دونوں ممالک نے پلیئرز کے حتمی انتخاب پر محتاط رویہ اپنایا ہے، یہ سیریز دونوں ٹیموں کے لیے کسی بھی مشکل چیلنج سے ہر گز کم نہیں ہوگی۔
روایتی انداز میں سیریز کے بجائے محض پہلے ٹیسٹ کے لیے 15 رکنی قومی اسکواڈ کا اعلان اور پھر اس کے لیے اضافی کھلاڑیوں کی شمولیت کا فیصلہ پی سی بی کے حواس باختہ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، گذشتہ ٹیسٹ سیریز میں عبرتناک شکستوں کا سامنا کرنے والی پاکستان کرکٹ ٹیم کو اس وقت مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، چیمپئنز ٹرافی کی شایان شان میزبانی اور ایونٹ میں اچھے نتائج کے خواہاں پی سی بی کی پریشانی فطری عمل ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم سیریز کے آغاز سے قبل ہی مختلف قسم کے دباؤ کا شکار نظر آرہی ہے، کامیابی کے مدارج طے کرنے کے لیے ہم آہنگی اور اتحاد کلیدی کردار ادا کرتا ہے، بدقسمتی سے پاکستان کرکٹ ٹیم میں اس کا فقدان ہے۔
دورہ آسٹریلیا اور پھر بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز میں تاریخی ناکامیاں داغ کی مانند ہیں جسے دھونے کے لیے میزبان ٹیم کو انگلینڈ کے خلاف لازمی طور پر فتوحات درکار ہیں، ورنہ مزید شکستوں کے سبب پاکستان کرکٹ ٹیم کا مورال گرنے کا احتمال ہے جس کے نتائج مستقبل کے مقابلوں پر بھی اثر انداز ہوں گے،بیزبال کی اصطلاح کے ساتھ تیز کھیلتے ہوئے جارحانہ انداز اپنانے کی حکمت عملی کے ساتھ پاکستان کا رخ کرنے والی انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی بظاہر نفسیاتی طور پر زیادہ مضبوط نظر نہیں آ رہے۔
اپنی انتظامیہ سے ناخوش مہمان کرکٹرز کنڈیشنز کے ساتھ مقامی سطح پر درپیش سیاسی حالات کی وجہ سے بھی کافی متفکر لگ رہے ہیں، گذشتہ دورئہ پاکستان کی تاریخ دہرانے کی خواہاں انگلینڈ کرکٹ ٹیم میں جذبے کا بھی فقدان نظر آرہا ہے، پچھلی مرتبہ ٹیم کے ہمراہ پاکستان کا رخ کرنے والے چار فاسٹ بولرز اسکواڈ میں شامل نہیں، کپتان و آل راؤنڈر بین اسٹوکس کی فٹنس مسائل کے سبب پہلے ٹیسٹ میں شرکت مشکوک نظر آرہی ہے، گرم موسم میں نوجوان فاسٹ بولرز سے اچھے نتائج کی توقع رکھنے والی انگلش کرکٹ ٹیم کو اسپنرز سے کافی امیدیں ہیں، پاکستان اس شعبے میں کبھی ممتاز تھا لیکن آج ملک کو اعلیٰ اسپنرز کی کمی کا سامنا ہے۔
اسپنرز کو استعمال کرنے کا انحصار ملتان میں کھیلے جانے والے ابتدائی دونوں ٹیسٹ کے ساتھ پنڈی میں شیڈول تیسرے اور آخری ٹیسٹ کے لیے بنائی جانے والی پچز پر ہوگا، پہلا ٹیسٹ 7سے 11، دوسرا ٹیسٹ 15 سے 19 اور تیسرا اور آخری 24 سے 28 اکتوبر تک شیڈول ہے، یہ تینوں میچز آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ ہیں، اس طرح پوائنٹس ٹیبل پر آٹھویں پوزیشن پر موجود پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے یہ سیریز بہت اہم ہوگی، آخری مرتبہ فروری 2021 میں جنوبی افریقہ کے خلاف پنڈی ٹیسٹ میں کامیابی پانے والی پاکستان ٹیم ہوم گراؤنڈ پر جیت کی متلاشی ہے، چیمپئنز ٹرافی سے قبل نومبر، دسمبر میں آسٹریلیا اور پھر زمبابوے کے خلاف وائٹ بال سیریز کے بعد جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز اور بعدازاں ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم ٹیسٹ سیریز کی میزبانی کے لیے تیار پاکستان کرکٹ ٹیم مسلسل ناقص کارکردگی کے سبب شدید تنقید کا شکار ہے۔
پی سی بی میں بار بار کی تبدیلیاں اور قیادت کی لڑائی کی وجہ سے اتحاد کا پارہ پارہ ہونا پاکستان کرکٹ ٹیم کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے، امکان ہے کہ پی سی بی خود کو درپیش مسائل اور دباؤ سے نکالنے کے لیے انگلینڈ کی ٹیم میں اہم فاسٹ بولرز کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پچز سے پوری طرح گھاس کاٹنے سے اجتناب کرے گا تاکہ اہم ہتھیار شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ سمیت دیگرفاسٹ بولرز سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے، البتہ پاکستان کو یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ انگلینڈ کے پاس میتھیو پولٹس، اولی اسٹون، گس اٹکنسن اور بریڈن کارلس کی شکل میں معیاری پیس اٹیک موجود ہے، دوسری جانب وائٹ بال کی کپتانی سے دستبرداری کے بعد بابرعظم کے پاس تمام تر دباؤ سے آزاد ہو کر خود کو بہتر بیٹر ثابت کرنے کا اہم موقع ہوگا، پاکستان کے لیے بیٹنگ میں محمد رضوان کی کارکردگی بھی اہم ہے،سیریز میں سرفراز احمد کو موقع ملا تو یہ کسی اچھنبے سے ہر گز کم نہ ہوگا۔
سب سے اہم شعبہ فیلڈنگ نتائج پر اثر انداز ہوگا، ملنے والے مواقعوں سے فائدہ اٹھانے والی ٹیم ہی کامیابی پائے گی،یہ سیریز بہت سے کھلاڑیوں کے مستقبل کا فیصلہ بھی کرے گی، پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود بظاہر پْرعزم نظر آرہے ہیں، وہ اپنے کھلاڑیوں کو مکمل اعتماد دینے کے حق میں ہیں، البتہ شان مسعود کو اپنے کھلاڑیوں کی ذہنی اور جسمانی فٹنس کے حوالے سے خطرات ہیں،وہ فاسٹ بولرز کی سپر فٹنس اور بیٹنگ لائن خاص طور پر اوپنرز کی کارکردگی کو اہم قرار دیتے ہیں، ملتان کے دونوں ٹیسٹ میچز کے لیے 11 میں سے ایک پچ کا انتخاب کیا جا چکا، دیکھنا ہوگا کہ وہ کیسا کردار ادا کرتی ہے، دونوں ممالک نے پلیئرز کے حتمی انتخاب پر محتاط رویہ اپنایا ہے، یہ سیریز دونوں ٹیموں کے لیے کسی بھی مشکل چیلنج سے ہر گز کم نہیں ہوگی۔