دنیا میں قیمتی ترین کاغذی کرنسی ڈالر کی قیمت پاکستان میں زیادہ کیوں
امریکی کرنسی کی قدر بڑھنے کے باعث بھی وطن عزیز میں مہنگائی میں اضافہ ہوگیا اور عام آدمی کی مشکلات بڑھ گئیں
دنیا کی طاقتور کرنسیوں میں امریکی کرنسی، ڈالر سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ امریکا دنیا میں سب سے زیادہ برآمدات منگواتا ہے ۔ اس کی درآمدات بھی چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔
اسی لیے بیشتر ممالک اپنی امپورٹ ایکسپورٹ کے لیے ڈالر ہی استعمال کرتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس امریکی کرنسی کی دنیا بھر میں مانگ ہے۔ یہ مگر دور جدید کا عجوبہ ہے کہ جس ملک کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں جتنی کمزور ہو گی، اس کو اتنے ہی زیادہ معاشی مسائل میں گرفتار ہونا پڑے گا۔ اس ملک کے عوام پر سب سے پہلی آفت تو یہ ٹوٹتی ہے کہ درآمدی اشیا بہت مہنگی ہو جاتی ہیں کیونکہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کے باعث وہ زیادہ رقم دے کر خریدنا پڑتی ہیں۔
پاکستان میں 2018ء سے یہی عجوبہ جنم لے چکا۔ اس وقت جب ماہ جون میں بجٹ پیش کیا گیا تو ایک ڈالر کے بدلے122 روپے ملتے تھے۔ جب پی ٹی آئی حکومت آئی تو ڈالر کی قدر میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا جو ن لیگی حکومت آنے کے بعد بھی جاری رہا۔ ستمبر 2023ء میں وہ306 تک جا پہنچا۔ یہ سرکاری شرح تبادلہ ہے، اوپن مارکیٹ میں تو تب ڈالر تین سو ساٹھ روپے تک مل رہا تھا۔ اس کے بعد ڈالر کی قدر میں کمی آنے لگی اور اب سرکاری شرح تبادلہ کے مطابق ایک ڈالر کے 277.70 روپے ملتے ہیں جو ماہرین کے نزدیک اب بھی غیر فطری طور پہ زیادہ ہے۔ ہمارے خطے میں ایران اور سری لنکا کے بعد پاکستانی کرنسی ہی ڈالر کے مقابلے میں کمزور ترین کرنسی ہے۔
ایران تو عرصہ دراز سے امریکی و یورپی معاشی پابندیوں کا شکار ہے، اس لیے وہاں معیشت کی حالت خاصی خراب ہے۔ درآمدات بہت مہنگی ہیں، اس لیے ایرانی مقامی اشیا ہی استعمال کرتے ہیں ۔ مقامی اشیا سبھی ایرانیوں کی ضرورت پوری نہیں کر پاتیں، اس لیے منڈی کے اصول کی رو سے وہ بھی مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ایران میں دیگر ممالک کے برعکس خاصی مہنگائی ہے، حالانکہ وہ تیل و گیس کے کثیر ذخائر رکھتا ہے۔ مگر ایران یہ ایندھن عالمی مارکیٹ میں کھلے عام فروخت نہیں کر سکتا، اسی لیے گنے چنے دوست ممالک کو بیچ کر اسے محدود آمدن ہی ہوتی ہے ۔
سری لنکا اپنے حکمران طبقے کی نااہلی اور کوتاہ اندیشی کے سبب معاشی مسائل میں گرفتار ہوا۔ حکمران طبقے نے ایسے کئی غلط اقدمات کیے جنھوں نے قومی معیشت کمزور کر دی۔اوپر سے کوویڈ وبا اور روس و یوکرین کی جنگ نے اس کی معیشت کو نقصان پہنچایا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ حکومت کے پاس امپورٹس کے لیے ڈالر نہیں رہے۔ ملک بھر میں پٹرول ، گیس اور اشیائے خور کی شدید قلت نے جنم لیا۔ عوام کڑی مشکلات میں گھر گئے۔ تبھی انھوں نے اس وقت کے حکمرانوں کا بوریا بستر گول کر دیا۔ اب حال ہی میں سری لنکا میں سوشلسٹ صدر اقتدار میں آیا ہے۔ دیکھئے، وہ کس قسم کے عوام دوست اقدام کرتا ہے۔ فی الوقت توڈالر کے مقابلے میں سری لنکن روپیہ کافی کمزور ہے۔اس لیے ملک میں مہنگائی زوروں پر ہے۔ غریب خصوصاً ایک وقت کھانا کھا کر ہی بہ مشکل گزارا کر رہے ہیں۔
اس وقت ہمارے خطے میں ایک ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسیوں کی سرکاری شرح تبادلہ کچھ یوں ہے (اوپن مارکیٹ میں یہ زیادہ ہو سکتی ہے) َ:
٭ایران 42,105 ہزار ریال٭سری لنکا 298.54 روپے ٭پاکستان 277.70 روپے ٭نیپال 133.87 روپے٭بنگلہ دیش119.48 ٹکہ٭بھارت 83.72 روپے ٭بھوٹان 83.67 نگولترم ٭افغانستان 68 افغانی ٭مالدیپ 15.36 روفیہ
درج بالا ڈیٹا کی رو سے ڈالر کے بالمقابل ایرانی کرنسی سب سے کمزور اور مالدیپی کرنسی سے سے زیادہ طاقتور ہے۔ ایرانی کرنسی کمزور ہونے کی وجوہ بیان کی جا چکیں، مالدیپی کرنسی اس لیے مضبوط ہے کہ مملکت کا شعبہ سیاحت بہت سرگرم ہے۔ اس شعبے کے باعث دنیا بھر سے لاکھوں سیاح مالدیپ آتے اور ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ گویا ملک میں ڈالر کی فراوانی ہے۔ پھر حکومت کی آمدن زیادہ ہے اور خرچ کم، نیز ملک پر قرضے بھی کم ہیں۔ مذید براں ملکی آبادی صرف سوا پانچ لاکھ ہے جن میں اکثریت امیر و متوسط طبقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر ڈالر کے مقابلے میں مالدیپی روفیہ کافی طاقتور ہے۔
افغانستان کی کرنسی پڑوسی ممالک کی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کے سامنے اس لیے مضبوط ہے کہ مملکت کی درآمدات بہت کم ہیں۔ چونکہ حکومت کو کاروبار مملکت چلانے کے لیے زیادہ ڈالر درکار نہیں لہذا افغانستان میں ڈالر کی طلب بھی کم ہے۔ اسی لیے افغانی ڈالر کے مقابلے میں کافی مضبوط ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ افغانستان کی معیشت بھی مضبوط ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ افغانوں کی اکثریت غربت کے چنگل میں پھنس کر زندگیاں گزار رہی ہے۔ ان کو بنیادی ضروریات زندگی مثلاً اچھا ٹھکانہ، صاف پانی، عمدہ غذا، اچھے کپڑے، سیوریج لائن وغیرہ میّسر نہیں۔ تعلیم اور علاج کی سہولتیں بھی ندارک ہیں۔ صرف اشیائے خورونوش کی برآمد ہی سے افغانی کچھ ڈالر یا دیگر کرنسیاں حاصل کر پاتے ہیں۔
ڈیٹا سے عیاں ہے کہ پاکستانی کرنسی اپنے معاصرین کی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کے سامنے کافی کمزور ہے۔ اس کمزوری نے مختلف وجوہ کی بنا پر جنم لیا ورنہ جب 1947ء میں پاکستان آزاد ہوا تو پاکستانی روپیہ اور ڈالر تقریباً برابر تھے۔ حتی کہ ان کے مابین قدر 1990ء تک اتنی زیادہ نہیں بڑھی۔ 1980ء میں دس روپے دے کر ایک ڈالر مل جاتا تھا۔ 1990ء میں ڈالر پونے بائیس روپے کا ہو گیا۔
اگلے دس برس بعد 2000ء میں یہ عدد 51.90 روپے جا پہنچا۔ 2010ء میں 85.75 روپے کے بدلے ایک ڈالر ملتا تھا۔ 2020ء میں یہ عدد 168.88روپے ہو گیا۔ جبکہ پچھلے چار برس کے دوران ڈالر کی قدر میں اضافے نے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اکثر ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستانی حکومتوں نے متفرق اقدامات کے ذریعے ڈالر کی قیمت میں اضافہ روک رکھا تھا۔ جب یہ اقدامات ختم کیے گئے کیونکہ وہ معیشت کو نقصان پہنچا رہے تھے تو ڈالر کی قیمت میں یک دم زیادہ اضافہ ہو گیا۔
ڈالر کی قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ منفی اثرات عوام پہ پڑتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ امپورٹ مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اور بدقسمتی سے پاکستان کا انحصار امپورٹ پر ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ پاکستان اب تیل وکوئلہ ہی نہیں کھانے پینے کی چیزیں مثلاً دالیں، گندم، مسالہ جات ، بعض سبزیاں اور پھل باہر سے منگواتا ہے۔ لہذا جب بھی ڈالر کی قیمت بڑھے تو تیل ، بجلی اور باہر سے آنے والی خوراک مہنگی ہو جاتی ہیں۔ پھر مرے پہ کوڑے مارنے کے مصداق حکومت نے پاکستانی گوشت ، سبزیاں ، پھل اور چاول ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اشیائے خوراک کی مہنگی امپورٹ اور مقامی ایکسپورٹ کا نتیجہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزیں مسلسل مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔
حکمران طبقہ اور امرا تو مہنگی اشیائے خورونوش خرید لیتے ہیں ، نچلے اور متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی اب کھانے پینے کی کئی چیزیں سال میں چند بار ہی کھا پاتے ہیں کیونکہ وہ بہت مہنگی ہو چکیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ زبردست مہنگائی کی وجہ سے غریب پاکستانی خودکشیاں کر رہے ہیں۔ نمود ونمائش کے ماحول نے صبر وقناعت جیسی خوبیوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ سادہ زندگی گذارنے والے کو پاگل سمجھا جاتا ہے۔ اس انداز ِ فکر نے بھی خواہشات بڑھا کر لوگوں کو خودکشیاں کرنے پر مجبور کیا ہے کیونکہ وہ اپنے اہل خانہ اور دوست احباب کے طعنے برداشت نہیں کر پاتے۔
ایک ملک میں ڈالر حاصل کرنے کے پانچ ممکنہ ذرائع ہیں: برآمدات، بیرون ملک مقیم شہریوں کی ترسیلات، غیر ملکی سرمایہ کاری، غیر ملکی امداد، اور غیر ملکی قرضے۔ دوسری طرف چار اعمال کے لیے ڈالر کی ضرورت پڑتی ہے : درآمدات، غیر ملکی قرضوں اور سود کی ادائیگی، غیر ملکی کمپنیوں کے منافع کی ترسیلات اور شہریوں کی جانب سے بین الاقوامی سفر، تعلیم، رہائش اور خریداری کے لیے ادائیگیاں۔عام طور پر ڈالر کی قیمت کا تعین طلب اور رسد کے سنگم پر ہوتا ہے۔ اگر طلب بڑھ جائے تو ڈالر کی قیمت بھی بڑھتی ہے اور ملکی کرنسی کمزور ہونے لگتی ہے۔
پاکستان کی امپورٹ ہمیشہ ایکسپورٹ کی نسبت زیادہ رہی ہیں۔ تاہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات، غیر ملکی سرمایہ کاری، غیر ملکی امداد، اور غیر ملکی قرضے ڈالر ملک میں لاتے رہے۔ یہی وجہ ہے، دونوں کرنسیوں کی قدر میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔ 2018 ء میں اور خاص طور پر افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد دو اہم پیش رفتیں سامنے آئیں۔ ایک تو بین الاقوامی قرضوں اور امداد تک ہماری رسائی میں رکاوٹ آ گئی جس کی وجہ پاکستان کی جیوسٹریٹیجک اہمیت کا گھٹ جانا ہے۔ دوسرے پچھلے کئی برسوں سے ہمارا جو جمع شدہ قرض تھا، وہ اب واجب الادا ہونے لگا۔
2001 ء میں اسی طرح کے معاشی حالات میں نائن الیون کا واقعہ پیش آگیا۔تب ہم دیوالیہ ہونے کے قریب تھے ۔ مگر پھر پاکستان کی جیوسٹریٹیجک اہمیت بڑھ جانے سے ہم پر ڈالروں کی بارش ہونے لگی۔ مگر 2018ء میں ایسا کوئی کرشمے نے جنم نہیں لیا۔ اس دوران کرائے کے بجلی گھروں یعنی آئی پی پیز کا عذاب نازل ہونے لگا جو ڈالروں کے پیاسے تھے۔ حکمران طبقے نے سوچے سمجھے بغیر یہ آئی پی پیز لگائی تھیں تاکہ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہو سکے۔ یوں بجلی تو زیادہ مل گئی مگر وہ تیل کی قیمت بڑھتے ہی بتدریج مہنگی ہونے لگی۔ نیز ان کے اکثر اخراجات حکومت پاکستان نے برداشت کرنا تھے۔ یوں ڈالر کی طلب میں اضافہ ہونے لگا۔
اس تمام افراتفری کے درمیان ڈالر کی طلب میں نمایاں اضافہ ہمارے امیر شہریوں کی جانب سے اپنی رقم کو ڈالر میں تبدیل کرنے کی وجہ سے بھی سامنے آیا ۔ کاروباری افراد اور متمول افراد نے اپنے سرمائے اور بچت سے ڈالر خرید لیے۔ ان کو نہ جانے کس طرح معلوم ہو گیا کہ روپے کی قیمت گرنے اور ڈالر کی بڑھنے والی ہے۔ روپے کی گراوٹ سے ان امیر پاکستانیوں کو فائدہ پہنچا کیونکہ ان کے زیرقبضہ ڈالروں کی قیمت راتوں رات بڑھ گئی۔
ڈالر اور روپے کی قیمت کے اتار چڑھاؤ سے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ 2018ء کے بعد 5 سے 10 ارب ڈالر پاکستان کے اندر اور باہر ذخیرہ کیے گئے ۔ ڈالر حاصل کرنے کے لیے کرپٹ امیر طبقے نے حوالہ اور ہنڈی کے لین دین کے علاوہ درآمدات کی انڈر انوائسنگ اور برآمدات کی اوور انوائسنگ کا سہارا بھی لیا۔ اس بے ایمانی کی ایک مثال سولر پینلوں اور دیگر متعلقہ سامان کی امپورٹ ہے جس میں بہت زیادہ اوور انوائسنگ کی گئی۔
پاکستان سے ڈالر غیرقانونی طور پہ باہر لے جانے میں لنڈی کوتل، چمن اور تفتان کی مارکیٹوں کے کرپٹ اور لالچی عناصر نے بھی کردار ادا کیا۔ مزید برآں، عمرہ، حج اور زیارتوں کی آڑ میں بھی ڈالر کی منتقلی کی گئی ۔ بہت سے ڈالر اب بھی پاکستانیوں کے گھر میں سیف، بینک لاکرز اور خزانوں میں محفوظ ہیں۔ جب فروری 2022ء سے روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہوئی تو اس نے ڈالر کی قیمت بڑھانے اور پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔
غرض پاکستان میں ڈالر کی اضافی مانگ نے امریکی کرنسی کو بہت اوپر دھکیل دیا۔ امیر پاکستانیوں نے اس مانگ کو اب تک برقرار رکھا ہوا ہے کیونکہ اسی چلن کے باعث ان کو مالی فائدہ ہوتا ہے۔ اگر ڈالر کی مانگ کم ہو جائے تو اس کی قیمت بھی کم ہونے لگے گی۔ امریکی مالیاتی ادارے موڈیز کے مطابق پاکستان میں ایک ڈالر زیادہ سے زیادہ 245 روپے پر ہونا چاہیے۔ مگر بیرونی قرض و سود کی بھاری ادائیگی، آئی پی پیز کو ڈالر دینے اور امرا کے لالچ کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کی قیمت مسلسل اوپر رہتی ہے ...اور عوام اس عمل سے پیدا کردہ مہنگائی کا عذاب برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ مگر تابکے؟ جب بھی عام آدمی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا، وہ حکمران طبقے کے محلوں کا رخ کر سکتا ہے۔
حکومت مقامی بینکوں کو قرضے و سود دینے کے لیے مسلسل نوٹ چھاپ رہی ہے۔ یوں ملک میں افراط زر جنم لے چکا۔ اس رجحان نے بھی مہنگائی میں اضافہ کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق 2014ء کی نسبت آج کئی کھرب روپے زیادہ مارکیٹ میں زیرگردش ہیں۔ یہ عمل مگر مملکت میں چیزیں مسلسل مہنگی کرتا رہتا ہے۔ اور پاکستانی یہ عمل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ بہت سی اشیاکے دام راتوں رات بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستانی حکومت مسلسل اندرون و بیرون ملک کے مالیاتی اداروں سے قرضے لے رہی ہے کیونکہ پاکستان کے امرا اپنے حصے کا ٹیکس نہیں دیتے۔ چناں چہ حکومت زیادہ ٹیکس لگا کر اور مروجہ شرح بڑھا کر اپنی آمدن میں اضافہ کر رہی ہے۔ لیکن اس چلن نے بھی پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ کر دیا اور غریبوں کی کمزور کمروں پر مزید بوجھ ڈال دیا۔ تجارتی خسارہ یعنی زیادہ امپورٹ اور کم ایکسپورٹ بھی ڈالر پاکستان میں نہیں لا پاتا اور امریکی کرنسی متواتر اپنی قدر بڑھا رہی ہے۔ ڈالر کی کمی کے باعث حکمران طبقے کا یہ حال ہو چکا کہ اب وہ آئی ایم ایف سے قرض ملنے پر یوں خوشیاں مناتا ہے جیسے اسے کوئی بہت بڑی کامیابی مل گئی ہو۔ حالانکہ یہ قرض غریب پاکستانیوں کی حالت بہتر بنانے میں کام نہیں آتا بلکہ حکمران طبقے کے سرکل ہی میں کھپ جاتا ہے۔ یہ قرض اور اس کا سود پھر پاکستانی عوام کی آنے والی نسلیں اتارتی ہیں۔
ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو جائے تو اس سے پاکستان کو ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بیٹھے بیٹھائے ریاست کے قرضوں کی مالیت بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً ڈالر کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ ہوا اور پاکستان نے دو سو ارب ڈالر کے قرضے ادا کرنے ہیں تو اسے دو سو ارب روپے مزید دینا ہوں گے۔
ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے سے پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی کمی آئی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے زیادہ محتاط ہو رہے ہیں کیونکہ انھیں زیادہ مالی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے، پچھلے دس برسوں کے دوران پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کافی کم ہو چکی۔ ان کی اکثریت ڈالر خریدتی رہی یا اس نے مستحکم و مضبوط ممالک کی اسٹاک ایکسچینجوں یا کمپنیوں میں سرمایہ لگایا۔ اب امریکا کا متعلقہ ادارہ ڈالر کی شرح منافع کم کر رہا ہے۔ اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید غیرملکی سرمایہ کار واپس پاکستان آ جائیں۔
حکومت پاکستان مختلف اقدامات کے ذریعے ڈالر کی قیمت کم کر سکتی ہے۔ اس طرح ملک میں مہنگائی میں کمی آئے گی اور عام آدمی کو فائدہ پہنچے گا۔ بہترین حکومت بھی وہی ہوتی ہے جس میں عوام سکون سے زندگی گذاریں اور ان کو کم از کم سبھی بنیادی ضروریات میسّر ہوں ۔ مثال کے طور پر یہ اقدام کیا جا سکتا ہے کہ زرمبادلہ کی نقل و حرکت کی دستاویزات سے ضابطہ بندی کی جائے۔ زرمبادلہ میں اضافے کو قومی آمدنی میں اضافے کے ساتھ رکھا جائے اور پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جائے تاکہ برآمدات بھی بڑھ سکیں۔
یہ ضروری ہے کہ پاکستانی زیادہ سے زیادہ مقامی سامان خریدیں تاکہ امپورٹ پر انحصار کم ہو سکے۔ زندگی کے ہر شعبے میں خودانحصاری حاصل کرنے کا کام بلاشبہ چیلنجنگ ہے لیکن ویتنام سمیت کئی ممالک نے یہ سب کچھ صرف ایک دو دہائیوں میں پانے کا عملی مظاہرہ کر دکھایا ہے۔ پھر پاکستان کی معاشی صورت حال اتنی بھیانک نہیں جتنی 2010 ء میں زمبابوے میں تھی یا اس وقت وینزویلا میں ہے جہاں ڈالر مقامی کرنسی کے مقابلے میں اربوں اور کھربوں تک پہنچ چکا۔
کچھ عرصہ قبل افشا ہوا کہ پاکستان میں کمرشل بینکوں نے زیادہ نرخ پر ڈالر فروخت کرکے 65 ارب روپے کمائے۔اس بات کا انکشاف سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت کے اجلاس میں ہوا جس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حکام نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میںجے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی کمرشل بینکوں نے امریکی ڈالر مہنگے داموں فروخت کرکے 65 ارب روپے کمائے۔ اس پر سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا ''یہ عوام کا پیسہ ہے اور اسے واپس کیا جانا چاہیے۔"
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سوال کیا کہ کیا مہنگے داموں ڈالر بیچنے پر کسی کا احتساب ہوا؟ اسٹیٹ بینک کے حکام نے تصدیق کی کہ ریگولیٹری کی خلاف ورزیاں ہوئیں، اور بینکوں کے خلاف تعزیری کارروائی کی گئی۔ملوث کمرشل بینکوں پر 1.4 ارب روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ تاہم سینیٹر کامران مرتضی ٰ نے اس تفاوت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ بینکوں نے 65 ارب روپے کمائے لیکن ان پر صرف 1.4 ارب روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ کمیٹی نے سٹیٹ بنک سے 65 ارب روپے کے سکینڈل کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی. رپورٹ کے نتائج کی بنیاد پر ملوث بینکوں کے خلاف مزید کارروائی کی جائے گی۔
ماضی میں چین اور پاکستان کی جانب سے ڈالر پر انحصار کم کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں ۔تب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرتے ہوئے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارت کرنے اور امریکی ڈالر کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ چین کے ساتھ ساتھ ترکی نے بھی اس حکمت عملی کی منظوری ظاہر کی کیونکہ یہ امر امریکی ڈالر کے غلبے کے خاتمے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ پاکستان میں شہری درآمدی مصنوعات کی خریداری کی حوصلہ شکنی کرکے اور مارکیٹ میں مناسب قیمتوں پر دستیاب مقامی مصنوعات کا انتخاب کرکے قومی معیشت کو فروغ دینے میں مدد کرسکتے ہیں۔
اگر ہم اپنے روزمرہ طرز زندگی پر نظر ڈالیں تو یہ افسوس ناک انکشاف ہوتا ہے کہ درآمد شدہ مصنوعات ہمارے گھرانوں میں ضروری اشیاء بن چکی۔ کھانے پینے کی اشیا سے لے کر گھریلو سامان اور کپڑے تک ہم باہر کی چیزوں پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ یہ اشیا ہم اپنی محنت کی کمائی سے خریدتے ہیں مگر ہمارا عمل ہمارے ملک کی کرنسی کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔ آخری بات یہ کہ اگر ہم نے اپنے گھروں یا بینک کھاتوں میں ڈالر جمع کر رکھے ہیں، تو ہمیں وہ اپنی کرنسی میں بدل لینے چاہیں۔ اس رقم کو مقامی کاروبار پر سرمایہ کاری کرنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ فری لانسرز کو بھی مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی روپے میں اپنا پیسہ بدل لیں۔ اس سے قومی معیشت کو فائدہ ہو گا اور پاکستانی روپیہ بھی مضبوط ہونے لگے گا۔
اسی لیے بیشتر ممالک اپنی امپورٹ ایکسپورٹ کے لیے ڈالر ہی استعمال کرتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس امریکی کرنسی کی دنیا بھر میں مانگ ہے۔ یہ مگر دور جدید کا عجوبہ ہے کہ جس ملک کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں جتنی کمزور ہو گی، اس کو اتنے ہی زیادہ معاشی مسائل میں گرفتار ہونا پڑے گا۔ اس ملک کے عوام پر سب سے پہلی آفت تو یہ ٹوٹتی ہے کہ درآمدی اشیا بہت مہنگی ہو جاتی ہیں کیونکہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کے باعث وہ زیادہ رقم دے کر خریدنا پڑتی ہیں۔
پاکستان میں 2018ء سے یہی عجوبہ جنم لے چکا۔ اس وقت جب ماہ جون میں بجٹ پیش کیا گیا تو ایک ڈالر کے بدلے122 روپے ملتے تھے۔ جب پی ٹی آئی حکومت آئی تو ڈالر کی قدر میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا جو ن لیگی حکومت آنے کے بعد بھی جاری رہا۔ ستمبر 2023ء میں وہ306 تک جا پہنچا۔ یہ سرکاری شرح تبادلہ ہے، اوپن مارکیٹ میں تو تب ڈالر تین سو ساٹھ روپے تک مل رہا تھا۔ اس کے بعد ڈالر کی قدر میں کمی آنے لگی اور اب سرکاری شرح تبادلہ کے مطابق ایک ڈالر کے 277.70 روپے ملتے ہیں جو ماہرین کے نزدیک اب بھی غیر فطری طور پہ زیادہ ہے۔ ہمارے خطے میں ایران اور سری لنکا کے بعد پاکستانی کرنسی ہی ڈالر کے مقابلے میں کمزور ترین کرنسی ہے۔
ایران تو عرصہ دراز سے امریکی و یورپی معاشی پابندیوں کا شکار ہے، اس لیے وہاں معیشت کی حالت خاصی خراب ہے۔ درآمدات بہت مہنگی ہیں، اس لیے ایرانی مقامی اشیا ہی استعمال کرتے ہیں ۔ مقامی اشیا سبھی ایرانیوں کی ضرورت پوری نہیں کر پاتیں، اس لیے منڈی کے اصول کی رو سے وہ بھی مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ایران میں دیگر ممالک کے برعکس خاصی مہنگائی ہے، حالانکہ وہ تیل و گیس کے کثیر ذخائر رکھتا ہے۔ مگر ایران یہ ایندھن عالمی مارکیٹ میں کھلے عام فروخت نہیں کر سکتا، اسی لیے گنے چنے دوست ممالک کو بیچ کر اسے محدود آمدن ہی ہوتی ہے ۔
سری لنکا اپنے حکمران طبقے کی نااہلی اور کوتاہ اندیشی کے سبب معاشی مسائل میں گرفتار ہوا۔ حکمران طبقے نے ایسے کئی غلط اقدمات کیے جنھوں نے قومی معیشت کمزور کر دی۔اوپر سے کوویڈ وبا اور روس و یوکرین کی جنگ نے اس کی معیشت کو نقصان پہنچایا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ حکومت کے پاس امپورٹس کے لیے ڈالر نہیں رہے۔ ملک بھر میں پٹرول ، گیس اور اشیائے خور کی شدید قلت نے جنم لیا۔ عوام کڑی مشکلات میں گھر گئے۔ تبھی انھوں نے اس وقت کے حکمرانوں کا بوریا بستر گول کر دیا۔ اب حال ہی میں سری لنکا میں سوشلسٹ صدر اقتدار میں آیا ہے۔ دیکھئے، وہ کس قسم کے عوام دوست اقدام کرتا ہے۔ فی الوقت توڈالر کے مقابلے میں سری لنکن روپیہ کافی کمزور ہے۔اس لیے ملک میں مہنگائی زوروں پر ہے۔ غریب خصوصاً ایک وقت کھانا کھا کر ہی بہ مشکل گزارا کر رہے ہیں۔
اس وقت ہمارے خطے میں ایک ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسیوں کی سرکاری شرح تبادلہ کچھ یوں ہے (اوپن مارکیٹ میں یہ زیادہ ہو سکتی ہے) َ:
٭ایران 42,105 ہزار ریال٭سری لنکا 298.54 روپے ٭پاکستان 277.70 روپے ٭نیپال 133.87 روپے٭بنگلہ دیش119.48 ٹکہ٭بھارت 83.72 روپے ٭بھوٹان 83.67 نگولترم ٭افغانستان 68 افغانی ٭مالدیپ 15.36 روفیہ
درج بالا ڈیٹا کی رو سے ڈالر کے بالمقابل ایرانی کرنسی سب سے کمزور اور مالدیپی کرنسی سے سے زیادہ طاقتور ہے۔ ایرانی کرنسی کمزور ہونے کی وجوہ بیان کی جا چکیں، مالدیپی کرنسی اس لیے مضبوط ہے کہ مملکت کا شعبہ سیاحت بہت سرگرم ہے۔ اس شعبے کے باعث دنیا بھر سے لاکھوں سیاح مالدیپ آتے اور ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ گویا ملک میں ڈالر کی فراوانی ہے۔ پھر حکومت کی آمدن زیادہ ہے اور خرچ کم، نیز ملک پر قرضے بھی کم ہیں۔ مذید براں ملکی آبادی صرف سوا پانچ لاکھ ہے جن میں اکثریت امیر و متوسط طبقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر ڈالر کے مقابلے میں مالدیپی روفیہ کافی طاقتور ہے۔
افغانستان کی کرنسی پڑوسی ممالک کی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کے سامنے اس لیے مضبوط ہے کہ مملکت کی درآمدات بہت کم ہیں۔ چونکہ حکومت کو کاروبار مملکت چلانے کے لیے زیادہ ڈالر درکار نہیں لہذا افغانستان میں ڈالر کی طلب بھی کم ہے۔ اسی لیے افغانی ڈالر کے مقابلے میں کافی مضبوط ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ افغانستان کی معیشت بھی مضبوط ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ افغانوں کی اکثریت غربت کے چنگل میں پھنس کر زندگیاں گزار رہی ہے۔ ان کو بنیادی ضروریات زندگی مثلاً اچھا ٹھکانہ، صاف پانی، عمدہ غذا، اچھے کپڑے، سیوریج لائن وغیرہ میّسر نہیں۔ تعلیم اور علاج کی سہولتیں بھی ندارک ہیں۔ صرف اشیائے خورونوش کی برآمد ہی سے افغانی کچھ ڈالر یا دیگر کرنسیاں حاصل کر پاتے ہیں۔
ڈیٹا سے عیاں ہے کہ پاکستانی کرنسی اپنے معاصرین کی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کے سامنے کافی کمزور ہے۔ اس کمزوری نے مختلف وجوہ کی بنا پر جنم لیا ورنہ جب 1947ء میں پاکستان آزاد ہوا تو پاکستانی روپیہ اور ڈالر تقریباً برابر تھے۔ حتی کہ ان کے مابین قدر 1990ء تک اتنی زیادہ نہیں بڑھی۔ 1980ء میں دس روپے دے کر ایک ڈالر مل جاتا تھا۔ 1990ء میں ڈالر پونے بائیس روپے کا ہو گیا۔
اگلے دس برس بعد 2000ء میں یہ عدد 51.90 روپے جا پہنچا۔ 2010ء میں 85.75 روپے کے بدلے ایک ڈالر ملتا تھا۔ 2020ء میں یہ عدد 168.88روپے ہو گیا۔ جبکہ پچھلے چار برس کے دوران ڈالر کی قدر میں اضافے نے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اکثر ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستانی حکومتوں نے متفرق اقدامات کے ذریعے ڈالر کی قیمت میں اضافہ روک رکھا تھا۔ جب یہ اقدامات ختم کیے گئے کیونکہ وہ معیشت کو نقصان پہنچا رہے تھے تو ڈالر کی قیمت میں یک دم زیادہ اضافہ ہو گیا۔
ڈالر کی قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ منفی اثرات عوام پہ پڑتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ امپورٹ مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اور بدقسمتی سے پاکستان کا انحصار امپورٹ پر ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ پاکستان اب تیل وکوئلہ ہی نہیں کھانے پینے کی چیزیں مثلاً دالیں، گندم، مسالہ جات ، بعض سبزیاں اور پھل باہر سے منگواتا ہے۔ لہذا جب بھی ڈالر کی قیمت بڑھے تو تیل ، بجلی اور باہر سے آنے والی خوراک مہنگی ہو جاتی ہیں۔ پھر مرے پہ کوڑے مارنے کے مصداق حکومت نے پاکستانی گوشت ، سبزیاں ، پھل اور چاول ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اشیائے خوراک کی مہنگی امپورٹ اور مقامی ایکسپورٹ کا نتیجہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزیں مسلسل مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔
حکمران طبقہ اور امرا تو مہنگی اشیائے خورونوش خرید لیتے ہیں ، نچلے اور متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی اب کھانے پینے کی کئی چیزیں سال میں چند بار ہی کھا پاتے ہیں کیونکہ وہ بہت مہنگی ہو چکیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ زبردست مہنگائی کی وجہ سے غریب پاکستانی خودکشیاں کر رہے ہیں۔ نمود ونمائش کے ماحول نے صبر وقناعت جیسی خوبیوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ سادہ زندگی گذارنے والے کو پاگل سمجھا جاتا ہے۔ اس انداز ِ فکر نے بھی خواہشات بڑھا کر لوگوں کو خودکشیاں کرنے پر مجبور کیا ہے کیونکہ وہ اپنے اہل خانہ اور دوست احباب کے طعنے برداشت نہیں کر پاتے۔
ایک ملک میں ڈالر حاصل کرنے کے پانچ ممکنہ ذرائع ہیں: برآمدات، بیرون ملک مقیم شہریوں کی ترسیلات، غیر ملکی سرمایہ کاری، غیر ملکی امداد، اور غیر ملکی قرضے۔ دوسری طرف چار اعمال کے لیے ڈالر کی ضرورت پڑتی ہے : درآمدات، غیر ملکی قرضوں اور سود کی ادائیگی، غیر ملکی کمپنیوں کے منافع کی ترسیلات اور شہریوں کی جانب سے بین الاقوامی سفر، تعلیم، رہائش اور خریداری کے لیے ادائیگیاں۔عام طور پر ڈالر کی قیمت کا تعین طلب اور رسد کے سنگم پر ہوتا ہے۔ اگر طلب بڑھ جائے تو ڈالر کی قیمت بھی بڑھتی ہے اور ملکی کرنسی کمزور ہونے لگتی ہے۔
پاکستان کی امپورٹ ہمیشہ ایکسپورٹ کی نسبت زیادہ رہی ہیں۔ تاہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات، غیر ملکی سرمایہ کاری، غیر ملکی امداد، اور غیر ملکی قرضے ڈالر ملک میں لاتے رہے۔ یہی وجہ ہے، دونوں کرنسیوں کی قدر میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔ 2018 ء میں اور خاص طور پر افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد دو اہم پیش رفتیں سامنے آئیں۔ ایک تو بین الاقوامی قرضوں اور امداد تک ہماری رسائی میں رکاوٹ آ گئی جس کی وجہ پاکستان کی جیوسٹریٹیجک اہمیت کا گھٹ جانا ہے۔ دوسرے پچھلے کئی برسوں سے ہمارا جو جمع شدہ قرض تھا، وہ اب واجب الادا ہونے لگا۔
2001 ء میں اسی طرح کے معاشی حالات میں نائن الیون کا واقعہ پیش آگیا۔تب ہم دیوالیہ ہونے کے قریب تھے ۔ مگر پھر پاکستان کی جیوسٹریٹیجک اہمیت بڑھ جانے سے ہم پر ڈالروں کی بارش ہونے لگی۔ مگر 2018ء میں ایسا کوئی کرشمے نے جنم نہیں لیا۔ اس دوران کرائے کے بجلی گھروں یعنی آئی پی پیز کا عذاب نازل ہونے لگا جو ڈالروں کے پیاسے تھے۔ حکمران طبقے نے سوچے سمجھے بغیر یہ آئی پی پیز لگائی تھیں تاکہ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہو سکے۔ یوں بجلی تو زیادہ مل گئی مگر وہ تیل کی قیمت بڑھتے ہی بتدریج مہنگی ہونے لگی۔ نیز ان کے اکثر اخراجات حکومت پاکستان نے برداشت کرنا تھے۔ یوں ڈالر کی طلب میں اضافہ ہونے لگا۔
اس تمام افراتفری کے درمیان ڈالر کی طلب میں نمایاں اضافہ ہمارے امیر شہریوں کی جانب سے اپنی رقم کو ڈالر میں تبدیل کرنے کی وجہ سے بھی سامنے آیا ۔ کاروباری افراد اور متمول افراد نے اپنے سرمائے اور بچت سے ڈالر خرید لیے۔ ان کو نہ جانے کس طرح معلوم ہو گیا کہ روپے کی قیمت گرنے اور ڈالر کی بڑھنے والی ہے۔ روپے کی گراوٹ سے ان امیر پاکستانیوں کو فائدہ پہنچا کیونکہ ان کے زیرقبضہ ڈالروں کی قیمت راتوں رات بڑھ گئی۔
ڈالر اور روپے کی قیمت کے اتار چڑھاؤ سے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ 2018ء کے بعد 5 سے 10 ارب ڈالر پاکستان کے اندر اور باہر ذخیرہ کیے گئے ۔ ڈالر حاصل کرنے کے لیے کرپٹ امیر طبقے نے حوالہ اور ہنڈی کے لین دین کے علاوہ درآمدات کی انڈر انوائسنگ اور برآمدات کی اوور انوائسنگ کا سہارا بھی لیا۔ اس بے ایمانی کی ایک مثال سولر پینلوں اور دیگر متعلقہ سامان کی امپورٹ ہے جس میں بہت زیادہ اوور انوائسنگ کی گئی۔
پاکستان سے ڈالر غیرقانونی طور پہ باہر لے جانے میں لنڈی کوتل، چمن اور تفتان کی مارکیٹوں کے کرپٹ اور لالچی عناصر نے بھی کردار ادا کیا۔ مزید برآں، عمرہ، حج اور زیارتوں کی آڑ میں بھی ڈالر کی منتقلی کی گئی ۔ بہت سے ڈالر اب بھی پاکستانیوں کے گھر میں سیف، بینک لاکرز اور خزانوں میں محفوظ ہیں۔ جب فروری 2022ء سے روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہوئی تو اس نے ڈالر کی قیمت بڑھانے اور پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔
غرض پاکستان میں ڈالر کی اضافی مانگ نے امریکی کرنسی کو بہت اوپر دھکیل دیا۔ امیر پاکستانیوں نے اس مانگ کو اب تک برقرار رکھا ہوا ہے کیونکہ اسی چلن کے باعث ان کو مالی فائدہ ہوتا ہے۔ اگر ڈالر کی مانگ کم ہو جائے تو اس کی قیمت بھی کم ہونے لگے گی۔ امریکی مالیاتی ادارے موڈیز کے مطابق پاکستان میں ایک ڈالر زیادہ سے زیادہ 245 روپے پر ہونا چاہیے۔ مگر بیرونی قرض و سود کی بھاری ادائیگی، آئی پی پیز کو ڈالر دینے اور امرا کے لالچ کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کی قیمت مسلسل اوپر رہتی ہے ...اور عوام اس عمل سے پیدا کردہ مہنگائی کا عذاب برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ مگر تابکے؟ جب بھی عام آدمی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا، وہ حکمران طبقے کے محلوں کا رخ کر سکتا ہے۔
حکومت مقامی بینکوں کو قرضے و سود دینے کے لیے مسلسل نوٹ چھاپ رہی ہے۔ یوں ملک میں افراط زر جنم لے چکا۔ اس رجحان نے بھی مہنگائی میں اضافہ کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق 2014ء کی نسبت آج کئی کھرب روپے زیادہ مارکیٹ میں زیرگردش ہیں۔ یہ عمل مگر مملکت میں چیزیں مسلسل مہنگی کرتا رہتا ہے۔ اور پاکستانی یہ عمل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ بہت سی اشیاکے دام راتوں رات بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستانی حکومت مسلسل اندرون و بیرون ملک کے مالیاتی اداروں سے قرضے لے رہی ہے کیونکہ پاکستان کے امرا اپنے حصے کا ٹیکس نہیں دیتے۔ چناں چہ حکومت زیادہ ٹیکس لگا کر اور مروجہ شرح بڑھا کر اپنی آمدن میں اضافہ کر رہی ہے۔ لیکن اس چلن نے بھی پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ کر دیا اور غریبوں کی کمزور کمروں پر مزید بوجھ ڈال دیا۔ تجارتی خسارہ یعنی زیادہ امپورٹ اور کم ایکسپورٹ بھی ڈالر پاکستان میں نہیں لا پاتا اور امریکی کرنسی متواتر اپنی قدر بڑھا رہی ہے۔ ڈالر کی کمی کے باعث حکمران طبقے کا یہ حال ہو چکا کہ اب وہ آئی ایم ایف سے قرض ملنے پر یوں خوشیاں مناتا ہے جیسے اسے کوئی بہت بڑی کامیابی مل گئی ہو۔ حالانکہ یہ قرض غریب پاکستانیوں کی حالت بہتر بنانے میں کام نہیں آتا بلکہ حکمران طبقے کے سرکل ہی میں کھپ جاتا ہے۔ یہ قرض اور اس کا سود پھر پاکستانی عوام کی آنے والی نسلیں اتارتی ہیں۔
ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو جائے تو اس سے پاکستان کو ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بیٹھے بیٹھائے ریاست کے قرضوں کی مالیت بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً ڈالر کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ ہوا اور پاکستان نے دو سو ارب ڈالر کے قرضے ادا کرنے ہیں تو اسے دو سو ارب روپے مزید دینا ہوں گے۔
ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے سے پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی کمی آئی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے زیادہ محتاط ہو رہے ہیں کیونکہ انھیں زیادہ مالی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے، پچھلے دس برسوں کے دوران پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کافی کم ہو چکی۔ ان کی اکثریت ڈالر خریدتی رہی یا اس نے مستحکم و مضبوط ممالک کی اسٹاک ایکسچینجوں یا کمپنیوں میں سرمایہ لگایا۔ اب امریکا کا متعلقہ ادارہ ڈالر کی شرح منافع کم کر رہا ہے۔ اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید غیرملکی سرمایہ کار واپس پاکستان آ جائیں۔
حکومت پاکستان مختلف اقدامات کے ذریعے ڈالر کی قیمت کم کر سکتی ہے۔ اس طرح ملک میں مہنگائی میں کمی آئے گی اور عام آدمی کو فائدہ پہنچے گا۔ بہترین حکومت بھی وہی ہوتی ہے جس میں عوام سکون سے زندگی گذاریں اور ان کو کم از کم سبھی بنیادی ضروریات میسّر ہوں ۔ مثال کے طور پر یہ اقدام کیا جا سکتا ہے کہ زرمبادلہ کی نقل و حرکت کی دستاویزات سے ضابطہ بندی کی جائے۔ زرمبادلہ میں اضافے کو قومی آمدنی میں اضافے کے ساتھ رکھا جائے اور پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جائے تاکہ برآمدات بھی بڑھ سکیں۔
یہ ضروری ہے کہ پاکستانی زیادہ سے زیادہ مقامی سامان خریدیں تاکہ امپورٹ پر انحصار کم ہو سکے۔ زندگی کے ہر شعبے میں خودانحصاری حاصل کرنے کا کام بلاشبہ چیلنجنگ ہے لیکن ویتنام سمیت کئی ممالک نے یہ سب کچھ صرف ایک دو دہائیوں میں پانے کا عملی مظاہرہ کر دکھایا ہے۔ پھر پاکستان کی معاشی صورت حال اتنی بھیانک نہیں جتنی 2010 ء میں زمبابوے میں تھی یا اس وقت وینزویلا میں ہے جہاں ڈالر مقامی کرنسی کے مقابلے میں اربوں اور کھربوں تک پہنچ چکا۔
کچھ عرصہ قبل افشا ہوا کہ پاکستان میں کمرشل بینکوں نے زیادہ نرخ پر ڈالر فروخت کرکے 65 ارب روپے کمائے۔اس بات کا انکشاف سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت کے اجلاس میں ہوا جس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حکام نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میںجے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی کمرشل بینکوں نے امریکی ڈالر مہنگے داموں فروخت کرکے 65 ارب روپے کمائے۔ اس پر سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا ''یہ عوام کا پیسہ ہے اور اسے واپس کیا جانا چاہیے۔"
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سوال کیا کہ کیا مہنگے داموں ڈالر بیچنے پر کسی کا احتساب ہوا؟ اسٹیٹ بینک کے حکام نے تصدیق کی کہ ریگولیٹری کی خلاف ورزیاں ہوئیں، اور بینکوں کے خلاف تعزیری کارروائی کی گئی۔ملوث کمرشل بینکوں پر 1.4 ارب روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ تاہم سینیٹر کامران مرتضی ٰ نے اس تفاوت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ بینکوں نے 65 ارب روپے کمائے لیکن ان پر صرف 1.4 ارب روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ کمیٹی نے سٹیٹ بنک سے 65 ارب روپے کے سکینڈل کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی. رپورٹ کے نتائج کی بنیاد پر ملوث بینکوں کے خلاف مزید کارروائی کی جائے گی۔
ماضی میں چین اور پاکستان کی جانب سے ڈالر پر انحصار کم کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں ۔تب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرتے ہوئے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارت کرنے اور امریکی ڈالر کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ چین کے ساتھ ساتھ ترکی نے بھی اس حکمت عملی کی منظوری ظاہر کی کیونکہ یہ امر امریکی ڈالر کے غلبے کے خاتمے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ پاکستان میں شہری درآمدی مصنوعات کی خریداری کی حوصلہ شکنی کرکے اور مارکیٹ میں مناسب قیمتوں پر دستیاب مقامی مصنوعات کا انتخاب کرکے قومی معیشت کو فروغ دینے میں مدد کرسکتے ہیں۔
اگر ہم اپنے روزمرہ طرز زندگی پر نظر ڈالیں تو یہ افسوس ناک انکشاف ہوتا ہے کہ درآمد شدہ مصنوعات ہمارے گھرانوں میں ضروری اشیاء بن چکی۔ کھانے پینے کی اشیا سے لے کر گھریلو سامان اور کپڑے تک ہم باہر کی چیزوں پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ یہ اشیا ہم اپنی محنت کی کمائی سے خریدتے ہیں مگر ہمارا عمل ہمارے ملک کی کرنسی کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔ آخری بات یہ کہ اگر ہم نے اپنے گھروں یا بینک کھاتوں میں ڈالر جمع کر رکھے ہیں، تو ہمیں وہ اپنی کرنسی میں بدل لینے چاہیں۔ اس رقم کو مقامی کاروبار پر سرمایہ کاری کرنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ فری لانسرز کو بھی مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی روپے میں اپنا پیسہ بدل لیں۔ اس سے قومی معیشت کو فائدہ ہو گا اور پاکستانی روپیہ بھی مضبوط ہونے لگے گا۔