احمد شاہ درانیایشیا کے بہادر جرنیل
ان کا سب سے بڑا تاریخی کارنامہ پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو شکست دینا ہے
احمد شاہ ابدالی جنہیں ساری دنیا احمد شاہ درانی کے نام سے جانتی ہے اور جنہوں نے اپنے زمانے میں سخت روایتی اور منقسم قبائلی پختون معاشرے کو اپنی دانش حکمت اور تدبر سے یکجا کر کے اسے عملی طور پر ایک مضبوط قوم کی شکل دی تھی اور پختونوں کی تاریخ میں پہلی بار ان کے لئے ایک آزاد و خودمختار مملکت افغانستان کی بنیاد رکھی۔
احمد شاہ درانی نے نہ صرف سکھوں،جاٹوں اور راجپوتوں کو اپنی بہادری اور جنگی حکمت عملی کے ذریعے زیر کر کے دکھایا تھا بلکہ ان کا سب سے بڑا تاریخی کارنامہ پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو شکست دینا اور اس زمانے کے متحدہ ہندوستان پر حکومت کرنا ہے اور یہ سب کچھ انہوں نے اپنی ذہانت ،خاندانی تربیت اور اپنی قوم کی پوری تاریخ سے آگاہی اور اس کی نفسیات اور مزاج سے گہری واقفیت کے بناء پر کیا تھا جس میں وہ کامیاب ہوئے تھے اس کے علاوہ چونکہ احمد شاہ درانی نے ایک ایسے خاندان اور قبیلے میں آنکھ کھولی تھی جو اس زمانے میں ایک با اثر اور زور آور قبیلہ اور حکمران خاندان سمجھا جاتا تھا کیونکہ ان کے دادا دولت خان اور والد زمان خان ہرات کے حکمران رہ چکے تھے۔
اس وجہ سے بھی سرداری اور اپنے قبیلے کے دیگر افراد پر حکمرانی کرنے کا مزاج و اندازا نہیں وراثت میں ملا تھا اور اپنے بڑے بھائی ذوالفقار خان کی حکمرانی بھی دیکھی تھی اور ان کے ساتھ ایک دو لڑائیوں میں بھی تقریباً 16 سال کی عمر میںشریک رہے، لہٰذا ان واقعات اور خاندانی پس منظر میںاحمد خان سے بادشاہ احمد شاہ درانی بننا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ احمد شاہ درانی 1722ء میں پیدا ہوئے جس وقت ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے 1738ء میں قندھار کا محاصرہ کیا اور اس شہر سے آخری غلجی حکمران مہر سلطان حسین کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا تو اس وقت احمد شاہ ابدالی اور ان کے بھائی ذوالفقار خان دونوں غلجیوں کی پناہ میں موجود تھے۔
اکثر مورخین کے خیال میں اس وقت احمد شاہ ابدالی کی عمر 16 برس تھی نادر شاہ ان کے ساتھ بڑی فیاضی سے پیش آیا اور دونوں بھائیوں کو وطن سے دور ''زندراں'' بھیج دیا، تھوڑے دنوں کے بعد احمد خان نادرشاہ کی فوج میں بھرتی ہوا، یہ افغان دستہ اخامنشیوں کے دستہ کی طرح نادرشاہ کی فوج کا سب سے زیادہ معتمد دستہ بن گیا جس کی کمانڈ احمد شاہ ابدالی نے سنبھال رکھی تھی اور جب 1745ء میں نادر شاہ کو اپنے خیمے میں قزلباشوں نے قتل کر دیا، ان دنوں افغانی فوج کے ابدالی دستہ کی کمان بھی احمد شاہ ابدالی کے ہاتھ میں تھی جب 'قندہار میں نئے بادشاہ کے انتخاب کے لئے ایک بہت بڑا جرگہ منعقد ہوا جس میں غلجی'ابدالی ازبک'تاجک ہزارہ اور بلوچ تمام قبیلے شریک تھے، نور محمد خان نے بادشاہ کے انتخاب کی تجویز پیش کی۔
یہ جرگہ 1747ء میں شیرسرخ کے مقام پر منعقد ہوا تھا اور ہر قبیلے کا سردار بادشاہ بننے کے لئے پرتول رہا تھا جس میں اس وقت کے بڑے بڑے خوانین وسردار محبت خان پوپلزئی'نور محمد خان غلجی' نصر اللہ نوازئی اور حاجی جمال خان بارکزئی قابل ذکر ہیں، ان تمام بڑے بڑے خوانین و سرداروں کی موجودگی میں واحد احمد خان بالکل خاموش بیٹھا رہا اور حالات کا بغور جائزہ لے رہا تھا کیونکہ جرگہ میں ان کے قبیلہ سدوزئی کی تعداد بھی کم تھی، 9 دنوں تک جرگہ کافی بحث و مباحثہ کے بعد کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا، اس دوران وہاں جرگہ میں شامل ایک بزرگ صابر شاہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے احمد خان ابدالی کا نام پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس تمام لا یعنی گفتگو کا کیا فائدہ؟ خدا نے احمد خان کو تم سب سے کہیں زیادہ بڑا آدمی پیدا کیا ہے۔
تمام افغان خاندانوں میں اس کا خاندان شریف ہے اس لئے خدا کا واسطہ ہے احمد خان کو اپنا نیا بادشاہ تسلیم کر لو۔ صابر شاہ نے گندم کا ایک خوشہ احمد خان کی پگڑی میں لگا دیا اور کہا کہ آج سے یہ تمام ملت افاغنہ کا بادشاہ ہے۔ بادشاہ بننے کے بعد احمد خان نے مختلف قبیلوں کو جو آپس میں ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہتے تھے باہم متحد کر کے اسے ایک قوم کے قالب میں ڈھالا اور اپنی قوم کو دوسروں کی غلامی سے نجات دلا کر بادشاہی تحت پر بٹھا دیا احمد خان کا سب سے بڑا نا قابل فراموش تاریخی کارنامہ ایک متحد ملک افغانستان کی بنیاد ڈالنا ہے۔
چونکہ وہ خود بھی ایک پختون تھے اور اپنے اردگرد کے ماحول اور اپنے قبائلی نظام اور معاشرتی زندگی کے تمام پہلوؤں سے بخوبی واقف تھے اس لئے انہوں نے اپنی قوم کی نفسیات اور مزاج کو مدنظر رکھ کر اسی طرح اپنی طرزحکمرانی چلائی، انہوں نے حکومت کے چند اور اہم امور اپنے اختیار میں رکھے اور قبائل کا نظم و نسق ان کے اپنے سرداروںکے ہاتھ چھوڑ دیا کیونکہ بحیثیت ایک عالم شاعر و ادیب اور اپنی قوم کی گزشتہ تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے احمد خان اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ شخصیت بنیادی طور پر تاریخی عمل میں عوام کے ایک ذرے کی حیثیت سے حصہ لیتی ہے اور تاریخ الگ الگ افراد کی نہیں بلکہ عوام کی کوششوں سے تربیت پاتی ہے اور عوام ہی ایک فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ مضبوط رعیت کے بغیر بادشاہ یا سپاہ کے بغیر ایک سالار کی کیا قیمت اور حیثیت ہو سکتی ہے؟
وہ کچھ صرف اس وقت ہی کر سکتے ہیں جب ان کے پاس ضروری عوامی اور معاشرتی قوت ہو یہی وجہ تھی کہ جب ایک دفعہ نیشاپورکے محاصرہ میں اس کے سپاہیوں کی حالت بہت بری ہو گئی اور انہوں نے شاہی خزانہ پر ہاتھ ڈالا خزانچی نے اس بات کی شکایت احمد شاہ درانی کو کی تو انہوں نے خزانچی کی طرف غصیلی آنکھوں سے دیکھا اور سخت لہجے میں کہا کہ احمق کہیں کے کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں بھی ان میں سے ایک ہوں اور یہ کہ ان کے اتفاق رائے اور ان کی تلواروں کی مدد سے میں اس اعلیٰ ترین منصب پر پہنچا ہوں مجھے یقیناً اپنے سپاہیوں کو اس طرح دیکھنا چاہیے کہ وہ میری دولت کے حصہ دار ہیں اور وہ میری اس دولت کا مطالبہ کرتے ہیں جو اصل میں ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ہندوستان پر حملہ کرنے سے پہلے وہاں کے سیاسی حالات اور سماجی پس منظر نے بھی احمد شاہ درانی کے لئے راستہ ہموار کر رکھا تھا۔
مغلیہ سلطنت روبہ زوال تھی ہندوستان کے مختلف حکمران قومیت کے تصور سے نا آشنا خود آپس میں برسرپیکار تھے جبکہ مغربی اقوام جدید علوم اور ٹیکنالوجی کی مدد سے براعظم ایشیا وافریقہ پر تیزی سے یلغار کر رہی تھیں مغربی سامراج کے تسلط و قبضے سے پہلے شاہ ولی اللہ نے بھی مسلمانوں کی زبوں حالی پر افسوس کا اظہار کیا، امراء کا طبقہ جس عیش و عشرت میں مگن تھا اس سے اب یہ امید کم رہ گئی تھی کہ وہ آنے والے حالات کا مقابلہ کر سکے، شاہ ولی اللہ نے اپنی تحریک کے ذریعے امراء سلاطین کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ خطرہ ان کے سر پر منڈلا رہا ہے کہ مغربی سامراجی قوتیں سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھرنے کے انتظار میں ہیں۔
احمدشاہ کی تحریک کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی مذہبی اصلاح تھی وہ ہر قیمت پر ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کو مستحکم و برقرار دیکھنا چاہتے تھے ان کے اپنے انداز فکر اور سیاسی بصیرت کے پیش نظر مغربی طاقتوں سے انگریزوں سے زیادہ خطرناک وہ پریشان کن مسئلہ مرہٹہ قوت کے ابھرنے کا تھا شاہ ولی اللہ کی تحریک پر احمد شاہ ابدالی مغل سلطنت کی ساکھ کو بچانے اور اس کے وجود کو درپیش خطرات سے نجات دلانے کے لئے ہندوستان آئے، پانی پت کی تیسری جنگ کے ذریعے احمد شاہ ابدالی نے مرہٹہ قوت کو کچل کر رکھ دیا اور ان کی سیاسی وفوجی قوت کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا لیکن تیزی سے روبہ زوال مغلیہ سلطنت کو قائم رکھنا تو کجا اس سلطنت کو برقرار رکھنا بھی ممکن نہ رہا تھا، احمد شاہ ابدالی اور شاہ ولی اللہ کی جدوجہد مغلیہ سلطنت کے اندر ہی لگے ہوئے گھن کو ختم نہ کر سکی۔
شاہ ولی اللہ اور اس دور کے دیگر رہنماؤں نے بدلتے ہوئے حالات اور تقاضوں پر توجہ نہ دی اور مغل سلطنت کو ہی اپنی فکر کا مرکزی نکتہ بنائے رہے جبکہ یہ سلطنت اپنی حیات کے آخری مرحلوں میں تھی زمانہ تیزی سے بدل رہا تھا آخری عہد مغلیہ کا ہندوستان جس افراتفری سیاسی سماجی و معاشی کشمکش میں مبتلا تھا اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ احیاء کی تمام تر جدوجہد محض ایک سعئی بیکار ہو گی، قتل غارتگری ،لوٹ مار کا ایک ایسا دور شروع ہو چکا تھا کہ قانون کی حکمرانی کا تصور ایک سراب بن چکا تھا، راجے مہاراجے نواب و جاگیردار مغلیہ سطنت کی کسمپرسی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی جدوجہد میں مصروف تھے اور اپنے مفادات کے حصول کے سلسلے میں سامراجی طاقتوں سے ہر طرح کا ساز باز اور تعاون کر رہے تھے امراء کا طبقہ رنگ رلیوں میں مصروف تھا اور دربار شاہی کی جو حالت تھی وہ ایسی کہ کوئی امید قائم نہیں ہونے دیتی جو مغلیہ سلطنت کیلئے ایک خوش آئند مستقبل کی ضمانت فراہم کرے، احمد شاہ ابدالی کو حملہ کی دعوت دے کر بیشتر علاقوں سے مغل اقتدار کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا گیا آگے چل کر سکھ حکمرانوں نے بالخصوص پنجاب کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا وہ تاریخ کا ایک اندوہناک باب ہے۔
احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت کوئی نئی بات نہ تھی اس طرح اس سے قبل بھی مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کو بھی ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی گئی تھی غیر ملکی قوتوں پر اس قدر اعتماد کہ وہ ہندوستانی عوام کے نجات دہندہ ہوں گے ایک عجوبہ سے کم نہیں، دوسروں پر تکیہ کرنا ایک ایسے ذہن کی عکاسی کرتا ہے جو دیوالیہ ہو چکا ہو۔
پانی پت کے میدان پر لڑی جانے والی جنگ میں احمد شاہ درانی کا فوجی اڈہ دہلی سے کم از کم ایک ہزار میل دور تھا جنگی نقطہ نگاہ سے بھی یہ لڑائی بہت اہمیت رکھتی تھی احمد شاہ جو اپنے دور کا ایک بہترین ایشیائی جرنیل تھا اس نے سیاسی بندوبستی اور فوجی حالات کا مکمل جائزہ لینے کے بعد پیش قدمی کی تھی اور پانی پت کے مقام پر 14 جنوری 1761ء کو مرہٹوں کو شکست سے دوچار کر دیا تھا ان کی کامیابی و کامرانی کا اصل راز حالات کے مطابق قدم اٹھانا تھا جو ایک تجربہ کار نڈر اور ہوشیار جرنیل ہی کر سکتا تھا، عام طور پر اسی لڑائی کو دنیا کی فیصلہ کن لڑائیوں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس سے شمالی ہندوستان مرہٹوں کی دست برد سے بچ گیا۔
1762-66ء کے درمیان احمد شاہ کے آخری تین حملوں کا مقصد سرکش سکھوں کو قابو میں لانا تھا سکھ اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکے سکھوں نے مساجد کی جو بے حرمتی کی تھی اس کا انتقام لینے کے لئے امرت سر میں سکھوں کے دربار کو تباہ کر دیا لیکن احمد شاہ خود زیادہ عرصہ ہندوستان میں قیام نہیں کر سکتا تھا اس کی صحت گرتی جا رہی تھی اور جب وہ آخری بار کابل واپس ہوئے تو اس کے بعد سکھ بھی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے چلے گئے احمد خان میں قدرت نے لیڈر شپ کی خصوصیات رکھے تھے اس لئے انہوں نے واقعات و حالات کی رفتار پر گہری نظر رکھ کر وقت کو اپنے حق میں استعمال کیا اور احمد خان کی بجائے احمد شاہ درانی کے نام سے قندہار کے تخت پر بادشاہ بن کر جلوہ افروز ہو گئے اور ''دُردراں'' کا لقب اختیار کیا اس لقب کی وجہ تسمیہ اور پس منظر پر بتائی جاتی ہے کہ احمد خان کو موتیوں کی بنی ہوئی کانوں کی بالی پہننے کا شوق تھا اپنے 26 سالہ 1745-73ء دور حکومت میں احمد شاہ نے سندھ پار کے علاقہ پر کل آٹھ حملے کئے اور پنجاب کے تمام بڑے شہروں ملتان'لاہور اور راولپنڈی پر بھی اپنا اقتدار قائم رکھا اور پنجاب سے دہلی تک پہنچا۔
پاکستان کی مشرقی سرحد سے آگے سرہند کے مقام پر اپنی سلطنت کی سرحد قائم کی اور اس طرح درانی کشمیر کے بھی مالک بن گئے، احمد شاہ نے افغان سلطنت کی بنیاد ڈالی جو پائیدار ثابت ہوئی۔ 1773ء کے موسم گرما میں شاہ کے مرض (ناک کا کینسر) نے شدت اختیار کر لی وہ سلیمان کی پہاڑیوں میں اپنے محل میں چلا گیا، یہ جگہ قندہار سے کوئی 90 میل دور ہے، حاذق طبیبوں سے علاج کروایا گیا تاہم موت کا ایک دن معین ہے کہ مصداق جمعہ کی رات 23 اکتوبر 1773ء کو اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور اسے قندہار میں دفن کر دیا گیا، احمد شاہ درانی کی قبر پر ایک مقبرہ ہے جو بہت زیادہ مشہور ہے لیکن افسوس کہ آج بھی پختونوں کی اکثریت کو اس بات کا علم تک نہیں کہ ان کے کے اتنے بڑے سردار بادشاہ اور جدید افغانستان کے بانی کب پیدا ہوئے تھے اور کب وفات پائے گئے ہیں ۔
حالانکہ پختون قوم نے اسے'' بابا'' کا خطاب بھی دے رکھا ہے اور ہر پختون احمد شاہ درانی کے کارناموں پر بہت زیادہ فخر کرتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی تاریخ پیدائش اور وفات یا ان کی زندگی اور جدوجہد سے پختونوں کی اکثریت لاعلم ہے لہذا پوری قوم کو اپنی اس کم علمی پر اپنے گریباں میں جھانکنا ہوگا کہ احمدشاہ درانی صرف افغانیوں کے نہیں بلکہ پورے ایشیا کے ایک بہادر جرنیل گزرے ہیں۔
احمد شاہ درانی نے نہ صرف سکھوں،جاٹوں اور راجپوتوں کو اپنی بہادری اور جنگی حکمت عملی کے ذریعے زیر کر کے دکھایا تھا بلکہ ان کا سب سے بڑا تاریخی کارنامہ پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو شکست دینا اور اس زمانے کے متحدہ ہندوستان پر حکومت کرنا ہے اور یہ سب کچھ انہوں نے اپنی ذہانت ،خاندانی تربیت اور اپنی قوم کی پوری تاریخ سے آگاہی اور اس کی نفسیات اور مزاج سے گہری واقفیت کے بناء پر کیا تھا جس میں وہ کامیاب ہوئے تھے اس کے علاوہ چونکہ احمد شاہ درانی نے ایک ایسے خاندان اور قبیلے میں آنکھ کھولی تھی جو اس زمانے میں ایک با اثر اور زور آور قبیلہ اور حکمران خاندان سمجھا جاتا تھا کیونکہ ان کے دادا دولت خان اور والد زمان خان ہرات کے حکمران رہ چکے تھے۔
اس وجہ سے بھی سرداری اور اپنے قبیلے کے دیگر افراد پر حکمرانی کرنے کا مزاج و اندازا نہیں وراثت میں ملا تھا اور اپنے بڑے بھائی ذوالفقار خان کی حکمرانی بھی دیکھی تھی اور ان کے ساتھ ایک دو لڑائیوں میں بھی تقریباً 16 سال کی عمر میںشریک رہے، لہٰذا ان واقعات اور خاندانی پس منظر میںاحمد خان سے بادشاہ احمد شاہ درانی بننا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ احمد شاہ درانی 1722ء میں پیدا ہوئے جس وقت ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے 1738ء میں قندھار کا محاصرہ کیا اور اس شہر سے آخری غلجی حکمران مہر سلطان حسین کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا تو اس وقت احمد شاہ ابدالی اور ان کے بھائی ذوالفقار خان دونوں غلجیوں کی پناہ میں موجود تھے۔
اکثر مورخین کے خیال میں اس وقت احمد شاہ ابدالی کی عمر 16 برس تھی نادر شاہ ان کے ساتھ بڑی فیاضی سے پیش آیا اور دونوں بھائیوں کو وطن سے دور ''زندراں'' بھیج دیا، تھوڑے دنوں کے بعد احمد خان نادرشاہ کی فوج میں بھرتی ہوا، یہ افغان دستہ اخامنشیوں کے دستہ کی طرح نادرشاہ کی فوج کا سب سے زیادہ معتمد دستہ بن گیا جس کی کمانڈ احمد شاہ ابدالی نے سنبھال رکھی تھی اور جب 1745ء میں نادر شاہ کو اپنے خیمے میں قزلباشوں نے قتل کر دیا، ان دنوں افغانی فوج کے ابدالی دستہ کی کمان بھی احمد شاہ ابدالی کے ہاتھ میں تھی جب 'قندہار میں نئے بادشاہ کے انتخاب کے لئے ایک بہت بڑا جرگہ منعقد ہوا جس میں غلجی'ابدالی ازبک'تاجک ہزارہ اور بلوچ تمام قبیلے شریک تھے، نور محمد خان نے بادشاہ کے انتخاب کی تجویز پیش کی۔
یہ جرگہ 1747ء میں شیرسرخ کے مقام پر منعقد ہوا تھا اور ہر قبیلے کا سردار بادشاہ بننے کے لئے پرتول رہا تھا جس میں اس وقت کے بڑے بڑے خوانین وسردار محبت خان پوپلزئی'نور محمد خان غلجی' نصر اللہ نوازئی اور حاجی جمال خان بارکزئی قابل ذکر ہیں، ان تمام بڑے بڑے خوانین و سرداروں کی موجودگی میں واحد احمد خان بالکل خاموش بیٹھا رہا اور حالات کا بغور جائزہ لے رہا تھا کیونکہ جرگہ میں ان کے قبیلہ سدوزئی کی تعداد بھی کم تھی، 9 دنوں تک جرگہ کافی بحث و مباحثہ کے بعد کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا، اس دوران وہاں جرگہ میں شامل ایک بزرگ صابر شاہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے احمد خان ابدالی کا نام پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس تمام لا یعنی گفتگو کا کیا فائدہ؟ خدا نے احمد خان کو تم سب سے کہیں زیادہ بڑا آدمی پیدا کیا ہے۔
تمام افغان خاندانوں میں اس کا خاندان شریف ہے اس لئے خدا کا واسطہ ہے احمد خان کو اپنا نیا بادشاہ تسلیم کر لو۔ صابر شاہ نے گندم کا ایک خوشہ احمد خان کی پگڑی میں لگا دیا اور کہا کہ آج سے یہ تمام ملت افاغنہ کا بادشاہ ہے۔ بادشاہ بننے کے بعد احمد خان نے مختلف قبیلوں کو جو آپس میں ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہتے تھے باہم متحد کر کے اسے ایک قوم کے قالب میں ڈھالا اور اپنی قوم کو دوسروں کی غلامی سے نجات دلا کر بادشاہی تحت پر بٹھا دیا احمد خان کا سب سے بڑا نا قابل فراموش تاریخی کارنامہ ایک متحد ملک افغانستان کی بنیاد ڈالنا ہے۔
چونکہ وہ خود بھی ایک پختون تھے اور اپنے اردگرد کے ماحول اور اپنے قبائلی نظام اور معاشرتی زندگی کے تمام پہلوؤں سے بخوبی واقف تھے اس لئے انہوں نے اپنی قوم کی نفسیات اور مزاج کو مدنظر رکھ کر اسی طرح اپنی طرزحکمرانی چلائی، انہوں نے حکومت کے چند اور اہم امور اپنے اختیار میں رکھے اور قبائل کا نظم و نسق ان کے اپنے سرداروںکے ہاتھ چھوڑ دیا کیونکہ بحیثیت ایک عالم شاعر و ادیب اور اپنی قوم کی گزشتہ تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے احمد خان اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ شخصیت بنیادی طور پر تاریخی عمل میں عوام کے ایک ذرے کی حیثیت سے حصہ لیتی ہے اور تاریخ الگ الگ افراد کی نہیں بلکہ عوام کی کوششوں سے تربیت پاتی ہے اور عوام ہی ایک فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ مضبوط رعیت کے بغیر بادشاہ یا سپاہ کے بغیر ایک سالار کی کیا قیمت اور حیثیت ہو سکتی ہے؟
وہ کچھ صرف اس وقت ہی کر سکتے ہیں جب ان کے پاس ضروری عوامی اور معاشرتی قوت ہو یہی وجہ تھی کہ جب ایک دفعہ نیشاپورکے محاصرہ میں اس کے سپاہیوں کی حالت بہت بری ہو گئی اور انہوں نے شاہی خزانہ پر ہاتھ ڈالا خزانچی نے اس بات کی شکایت احمد شاہ درانی کو کی تو انہوں نے خزانچی کی طرف غصیلی آنکھوں سے دیکھا اور سخت لہجے میں کہا کہ احمق کہیں کے کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں بھی ان میں سے ایک ہوں اور یہ کہ ان کے اتفاق رائے اور ان کی تلواروں کی مدد سے میں اس اعلیٰ ترین منصب پر پہنچا ہوں مجھے یقیناً اپنے سپاہیوں کو اس طرح دیکھنا چاہیے کہ وہ میری دولت کے حصہ دار ہیں اور وہ میری اس دولت کا مطالبہ کرتے ہیں جو اصل میں ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ہندوستان پر حملہ کرنے سے پہلے وہاں کے سیاسی حالات اور سماجی پس منظر نے بھی احمد شاہ درانی کے لئے راستہ ہموار کر رکھا تھا۔
مغلیہ سلطنت روبہ زوال تھی ہندوستان کے مختلف حکمران قومیت کے تصور سے نا آشنا خود آپس میں برسرپیکار تھے جبکہ مغربی اقوام جدید علوم اور ٹیکنالوجی کی مدد سے براعظم ایشیا وافریقہ پر تیزی سے یلغار کر رہی تھیں مغربی سامراج کے تسلط و قبضے سے پہلے شاہ ولی اللہ نے بھی مسلمانوں کی زبوں حالی پر افسوس کا اظہار کیا، امراء کا طبقہ جس عیش و عشرت میں مگن تھا اس سے اب یہ امید کم رہ گئی تھی کہ وہ آنے والے حالات کا مقابلہ کر سکے، شاہ ولی اللہ نے اپنی تحریک کے ذریعے امراء سلاطین کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ خطرہ ان کے سر پر منڈلا رہا ہے کہ مغربی سامراجی قوتیں سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھرنے کے انتظار میں ہیں۔
احمدشاہ کی تحریک کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی مذہبی اصلاح تھی وہ ہر قیمت پر ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کو مستحکم و برقرار دیکھنا چاہتے تھے ان کے اپنے انداز فکر اور سیاسی بصیرت کے پیش نظر مغربی طاقتوں سے انگریزوں سے زیادہ خطرناک وہ پریشان کن مسئلہ مرہٹہ قوت کے ابھرنے کا تھا شاہ ولی اللہ کی تحریک پر احمد شاہ ابدالی مغل سلطنت کی ساکھ کو بچانے اور اس کے وجود کو درپیش خطرات سے نجات دلانے کے لئے ہندوستان آئے، پانی پت کی تیسری جنگ کے ذریعے احمد شاہ ابدالی نے مرہٹہ قوت کو کچل کر رکھ دیا اور ان کی سیاسی وفوجی قوت کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا لیکن تیزی سے روبہ زوال مغلیہ سلطنت کو قائم رکھنا تو کجا اس سلطنت کو برقرار رکھنا بھی ممکن نہ رہا تھا، احمد شاہ ابدالی اور شاہ ولی اللہ کی جدوجہد مغلیہ سلطنت کے اندر ہی لگے ہوئے گھن کو ختم نہ کر سکی۔
شاہ ولی اللہ اور اس دور کے دیگر رہنماؤں نے بدلتے ہوئے حالات اور تقاضوں پر توجہ نہ دی اور مغل سلطنت کو ہی اپنی فکر کا مرکزی نکتہ بنائے رہے جبکہ یہ سلطنت اپنی حیات کے آخری مرحلوں میں تھی زمانہ تیزی سے بدل رہا تھا آخری عہد مغلیہ کا ہندوستان جس افراتفری سیاسی سماجی و معاشی کشمکش میں مبتلا تھا اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ احیاء کی تمام تر جدوجہد محض ایک سعئی بیکار ہو گی، قتل غارتگری ،لوٹ مار کا ایک ایسا دور شروع ہو چکا تھا کہ قانون کی حکمرانی کا تصور ایک سراب بن چکا تھا، راجے مہاراجے نواب و جاگیردار مغلیہ سطنت کی کسمپرسی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی جدوجہد میں مصروف تھے اور اپنے مفادات کے حصول کے سلسلے میں سامراجی طاقتوں سے ہر طرح کا ساز باز اور تعاون کر رہے تھے امراء کا طبقہ رنگ رلیوں میں مصروف تھا اور دربار شاہی کی جو حالت تھی وہ ایسی کہ کوئی امید قائم نہیں ہونے دیتی جو مغلیہ سلطنت کیلئے ایک خوش آئند مستقبل کی ضمانت فراہم کرے، احمد شاہ ابدالی کو حملہ کی دعوت دے کر بیشتر علاقوں سے مغل اقتدار کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا گیا آگے چل کر سکھ حکمرانوں نے بالخصوص پنجاب کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا وہ تاریخ کا ایک اندوہناک باب ہے۔
احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت کوئی نئی بات نہ تھی اس طرح اس سے قبل بھی مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کو بھی ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی گئی تھی غیر ملکی قوتوں پر اس قدر اعتماد کہ وہ ہندوستانی عوام کے نجات دہندہ ہوں گے ایک عجوبہ سے کم نہیں، دوسروں پر تکیہ کرنا ایک ایسے ذہن کی عکاسی کرتا ہے جو دیوالیہ ہو چکا ہو۔
پانی پت کے میدان پر لڑی جانے والی جنگ میں احمد شاہ درانی کا فوجی اڈہ دہلی سے کم از کم ایک ہزار میل دور تھا جنگی نقطہ نگاہ سے بھی یہ لڑائی بہت اہمیت رکھتی تھی احمد شاہ جو اپنے دور کا ایک بہترین ایشیائی جرنیل تھا اس نے سیاسی بندوبستی اور فوجی حالات کا مکمل جائزہ لینے کے بعد پیش قدمی کی تھی اور پانی پت کے مقام پر 14 جنوری 1761ء کو مرہٹوں کو شکست سے دوچار کر دیا تھا ان کی کامیابی و کامرانی کا اصل راز حالات کے مطابق قدم اٹھانا تھا جو ایک تجربہ کار نڈر اور ہوشیار جرنیل ہی کر سکتا تھا، عام طور پر اسی لڑائی کو دنیا کی فیصلہ کن لڑائیوں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس سے شمالی ہندوستان مرہٹوں کی دست برد سے بچ گیا۔
1762-66ء کے درمیان احمد شاہ کے آخری تین حملوں کا مقصد سرکش سکھوں کو قابو میں لانا تھا سکھ اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکے سکھوں نے مساجد کی جو بے حرمتی کی تھی اس کا انتقام لینے کے لئے امرت سر میں سکھوں کے دربار کو تباہ کر دیا لیکن احمد شاہ خود زیادہ عرصہ ہندوستان میں قیام نہیں کر سکتا تھا اس کی صحت گرتی جا رہی تھی اور جب وہ آخری بار کابل واپس ہوئے تو اس کے بعد سکھ بھی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے چلے گئے احمد خان میں قدرت نے لیڈر شپ کی خصوصیات رکھے تھے اس لئے انہوں نے واقعات و حالات کی رفتار پر گہری نظر رکھ کر وقت کو اپنے حق میں استعمال کیا اور احمد خان کی بجائے احمد شاہ درانی کے نام سے قندہار کے تخت پر بادشاہ بن کر جلوہ افروز ہو گئے اور ''دُردراں'' کا لقب اختیار کیا اس لقب کی وجہ تسمیہ اور پس منظر پر بتائی جاتی ہے کہ احمد خان کو موتیوں کی بنی ہوئی کانوں کی بالی پہننے کا شوق تھا اپنے 26 سالہ 1745-73ء دور حکومت میں احمد شاہ نے سندھ پار کے علاقہ پر کل آٹھ حملے کئے اور پنجاب کے تمام بڑے شہروں ملتان'لاہور اور راولپنڈی پر بھی اپنا اقتدار قائم رکھا اور پنجاب سے دہلی تک پہنچا۔
پاکستان کی مشرقی سرحد سے آگے سرہند کے مقام پر اپنی سلطنت کی سرحد قائم کی اور اس طرح درانی کشمیر کے بھی مالک بن گئے، احمد شاہ نے افغان سلطنت کی بنیاد ڈالی جو پائیدار ثابت ہوئی۔ 1773ء کے موسم گرما میں شاہ کے مرض (ناک کا کینسر) نے شدت اختیار کر لی وہ سلیمان کی پہاڑیوں میں اپنے محل میں چلا گیا، یہ جگہ قندہار سے کوئی 90 میل دور ہے، حاذق طبیبوں سے علاج کروایا گیا تاہم موت کا ایک دن معین ہے کہ مصداق جمعہ کی رات 23 اکتوبر 1773ء کو اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور اسے قندہار میں دفن کر دیا گیا، احمد شاہ درانی کی قبر پر ایک مقبرہ ہے جو بہت زیادہ مشہور ہے لیکن افسوس کہ آج بھی پختونوں کی اکثریت کو اس بات کا علم تک نہیں کہ ان کے کے اتنے بڑے سردار بادشاہ اور جدید افغانستان کے بانی کب پیدا ہوئے تھے اور کب وفات پائے گئے ہیں ۔
حالانکہ پختون قوم نے اسے'' بابا'' کا خطاب بھی دے رکھا ہے اور ہر پختون احمد شاہ درانی کے کارناموں پر بہت زیادہ فخر کرتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی تاریخ پیدائش اور وفات یا ان کی زندگی اور جدوجہد سے پختونوں کی اکثریت لاعلم ہے لہذا پوری قوم کو اپنی اس کم علمی پر اپنے گریباں میں جھانکنا ہوگا کہ احمدشاہ درانی صرف افغانیوں کے نہیں بلکہ پورے ایشیا کے ایک بہادر جرنیل گزرے ہیں۔