ماضی کے فیصلوں کا مداوا
ماضی میں کیے جانے والے غلط فیصلے کا کسی صورت مداوا نہیں ہو سکتا
کوئٹہ میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے جو کہا اس کی غیر جانبدار صحافتی حلقے بھی تعریف کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے واضح کر دیا ہے کہ آئینی عدالت کا قیام بہت ضروری ہے جس کا سربراہ کوئی بھی ہو ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں، ہم کسی جج کو توسیع دینے کے لیے آئین سازی نہیں کر رہے، ہمارا مقصد عام آدمی کو فوری طور انصاف کی فراہمی ہے۔
ہم عدالتی اصلاحات اور ججز تقرری کا طریقہ درست کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ عدلیہ میں من پسند ججوں کی تقرریاں نہ ہوں کیونکہ اب تک ججزکی تقرریوں میں وکیلوں کے چیمبرز اور ججزکے خاندان والوں اور دوستوں کی تقرریاں ہوئیں جس سے نظام انصاف متاثر ہوا۔ من پسند غیر آئینی فیصلوں سے ملک کے جمہوری نظام کو شدید نقصان ہوا۔ متنازعہ عدالتی فیصلوں سے ملک کو نقصان پہنچا ہے۔ قوم کھلے عام کی جانے والی عدالتی سماعتیں دیکھ رہی ہے اور چیمبرز میں اب کوئی بھی فیصلے نہیں ہو رہے جہاں ججزکے ریمارکس اور وکیلوں کے دلائل بھی قوم سن رہی ہے اور بقول ہر چیز ظاہر ہے کوئی خفیہ فیصلے نہیں ہو رہے۔
عدالتی تاریخ میں چیف جسٹس منیر نے جو فیصلے سالوں قبل دیے تھے ان پر اب بھی تنقید جاری ہے اور نظریہ ضرورت کا جو طریقہ جسٹس منیر نے رائج کیا تھا وہ اب بھی جاری ہے اور متعدد ایسے فیصلے آئے ہیں جو سراسر آئین کے خلاف تھے جن کو درست کرنے کی بھی کوششیں ہوئیں جو بعض افراد کی مرضی کے خلاف تھیں۔
ماضی میں کیے جانے والے غلط فیصلے کا کسی صورت مداوا نہیں ہو سکتا، نہ بے گناہ واپس آ سکتا ہے۔ آصف زرداری نے پہلی بار صدر بننے کے بعد اس سلسلے میں سپریم کورٹ کو جو ریفرنس بھیجا تھا، ماضی میں اس پر عدالتی توجہ ہی نہیں دی گئی تھی جس کی وجہ سے ریفرنس کئی سال تک زیر سماعت نہیں آیا ، کیونکہ کوئی ایسا قانون ہی موجود نہیں کہ کسی سے پوچھا جائے کہ صدارتی ریفرنس کئی سال سماعت کے لیے کیوں مقرر نہیں ہوا؟ عدالتوں میں سالوں تک مقدمات سماعت مقرر نہ کرنے والوں کے لیے کوئی مدت مقرر ہونی چاہیے مگر ایسا نہیں ہے۔
موجودہ عدالتی نظام سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو شکایات زیادہ ہیں، کیونکہ 2013 سے قبل ملکی تاریخ میں کبھی کوئی وزیر اعظم سپریم کورٹ کے فیصلے سے برطرف نہیں ہوا بلکہ 1973 کے بعد ملک میں جتنے بھی وزیر اعظم برطرف ہوئے جنرلوں کے ہاتھوں ہوئے تھے اور پہلی بار چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور میاں ثاقب نثار نے ملک کے دو منتخب وزیر اعظم برطرف کیے تھے اور معمولی وجوہات کی بنیاد پر یہ برطرفیاں قانونی نہیں بلکہ ذاتی وجوہات اور سیاسی تھیں اور وہ فیصلے متنازع تھے مگر غیر آئینی، غیر قانونی اور متنازع فیصلے کرنے والوں کو پوچھنے کا کوئی قانون ہی نہیں موجود، تو ان فیصلوں کا مداوا کیسے ہو سکتا ہے۔
حال ہی میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر 2022 کی سپریم کورٹ کا فیصلہ واپس لے لیا ہے اور حکومتی نظرثانی کی A-63 کی اپیل منظور کر لی۔ جو فیصلہ دیا گیا تھا اس کے تحت اگر کوئی رکن اسمبلی پارٹی کی ہدایت پر عمل نہ کرتے ہوئے ووٹ کاسٹ کیے بغیر ہی رکنیت سے نااہل قرار پا جاتا ہے جو جرم اس نے ابھی کیا ہی نہیں اس کی سزا یہ مقررکی گئی تھی کہ اس کا ووٹ نہیں گنا جائے گا اور وہ نااہل بھی ہو جائے گا۔ مذکورہ فیصلے کے تحت وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف کی حکومت ختم کی گئی تھی۔
اس عدالتی فیصلے پر تنقید ہوئی تھی کہ آئین میں کہیں ایسا نہیں لکھا کہ منحرف رکن کا ووٹ گنے بغیر اسے نا اہلی کی سزا مل جائے۔ عدالت نے اب وہ فیصلہ واپس لے لیا ہے مگر سابقہ فیصلے کے تحت حمزہ شہباز کی حکومت ختم کی گئی تھی اور بعد میں عمران خان نے پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب سے زبردستی پنجاب اسمبلی بھی کے پی اسمبلی کی طرح خوامخواہ تڑوا دی تھی اور دونوں اسمبلیاں مدت مکمل کرائے بغیر ہی جو ختم کرا دی گئی تھیں اس کا مداوا بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ ڈھائی سال قبل اسی فیصلے پر عمل ہو گیا تھا اور وزیر اعلیٰ اور اسمبلی مدت پوری نہیں کر سکی تھی۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ 45 سال بعد غلط تو قرار پا گیا مگر غلط فیصلہ دینے والوں کے خلاف تو کارروائی ہوئی نہ ہوگی، اور بے گناہ پھانسی چڑھ گیا تھا۔ سندھ کے وزیر شرجیل انعام میمن نے ایک پریس کانفرنس میں ذاتی طور پر مطالبہ کیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا مداوا تو ہو ہی نہیں سکتا مگر گزشتہ چند سالوں میں غیر آئینی فیصلے دینے والوں کے خلاف تو عدالتی فیصلہ ہونا چاہیے جنھوں نے ذاتی مفاد کے باعث جو غلط فیصلے دیے تھے ان پر ان کی گرفت ہونی چاہیے۔
یہ بھی ہو چکا ہے کہ عدالتوں میں بے گناہوں کی اپیلوں کی سماعت سالوں میں نہیں ہوئی اور جب اپیل کی سماعت ہوئی تو وہ بے گناہ قرار پائے مگر ہمارے نظام انصاف میں تاخیر کرنے والوں کو کوئی پوچھ ہی نہیں سکتا۔ جن مقدمات میں عدالتی فیصلے سالوں بعد آئے تو ان متاثرین کے ساتھ جو ہوا یا انھوں نے ناحق سزا بھگتی اس کا مداوا ہوا ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ غلط فیصلے کرنے والے بعض فوت ہو چکے اکثر حیات ہیں اور مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ پاناما کے بجائے اقامہ پر غیر قانونی نااہل ہونے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف سات سال بعد بھی جواب مانگ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا گیا تھا اس سوال کا بھی تو جواب آئے کہ ایسا کیوں ہوا تھا جس کا مداوا ممکن ہی نہیں۔
ہم عدالتی اصلاحات اور ججز تقرری کا طریقہ درست کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ عدلیہ میں من پسند ججوں کی تقرریاں نہ ہوں کیونکہ اب تک ججزکی تقرریوں میں وکیلوں کے چیمبرز اور ججزکے خاندان والوں اور دوستوں کی تقرریاں ہوئیں جس سے نظام انصاف متاثر ہوا۔ من پسند غیر آئینی فیصلوں سے ملک کے جمہوری نظام کو شدید نقصان ہوا۔ متنازعہ عدالتی فیصلوں سے ملک کو نقصان پہنچا ہے۔ قوم کھلے عام کی جانے والی عدالتی سماعتیں دیکھ رہی ہے اور چیمبرز میں اب کوئی بھی فیصلے نہیں ہو رہے جہاں ججزکے ریمارکس اور وکیلوں کے دلائل بھی قوم سن رہی ہے اور بقول ہر چیز ظاہر ہے کوئی خفیہ فیصلے نہیں ہو رہے۔
عدالتی تاریخ میں چیف جسٹس منیر نے جو فیصلے سالوں قبل دیے تھے ان پر اب بھی تنقید جاری ہے اور نظریہ ضرورت کا جو طریقہ جسٹس منیر نے رائج کیا تھا وہ اب بھی جاری ہے اور متعدد ایسے فیصلے آئے ہیں جو سراسر آئین کے خلاف تھے جن کو درست کرنے کی بھی کوششیں ہوئیں جو بعض افراد کی مرضی کے خلاف تھیں۔
ماضی میں کیے جانے والے غلط فیصلے کا کسی صورت مداوا نہیں ہو سکتا، نہ بے گناہ واپس آ سکتا ہے۔ آصف زرداری نے پہلی بار صدر بننے کے بعد اس سلسلے میں سپریم کورٹ کو جو ریفرنس بھیجا تھا، ماضی میں اس پر عدالتی توجہ ہی نہیں دی گئی تھی جس کی وجہ سے ریفرنس کئی سال تک زیر سماعت نہیں آیا ، کیونکہ کوئی ایسا قانون ہی موجود نہیں کہ کسی سے پوچھا جائے کہ صدارتی ریفرنس کئی سال سماعت کے لیے کیوں مقرر نہیں ہوا؟ عدالتوں میں سالوں تک مقدمات سماعت مقرر نہ کرنے والوں کے لیے کوئی مدت مقرر ہونی چاہیے مگر ایسا نہیں ہے۔
موجودہ عدالتی نظام سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو شکایات زیادہ ہیں، کیونکہ 2013 سے قبل ملکی تاریخ میں کبھی کوئی وزیر اعظم سپریم کورٹ کے فیصلے سے برطرف نہیں ہوا بلکہ 1973 کے بعد ملک میں جتنے بھی وزیر اعظم برطرف ہوئے جنرلوں کے ہاتھوں ہوئے تھے اور پہلی بار چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور میاں ثاقب نثار نے ملک کے دو منتخب وزیر اعظم برطرف کیے تھے اور معمولی وجوہات کی بنیاد پر یہ برطرفیاں قانونی نہیں بلکہ ذاتی وجوہات اور سیاسی تھیں اور وہ فیصلے متنازع تھے مگر غیر آئینی، غیر قانونی اور متنازع فیصلے کرنے والوں کو پوچھنے کا کوئی قانون ہی نہیں موجود، تو ان فیصلوں کا مداوا کیسے ہو سکتا ہے۔
حال ہی میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر 2022 کی سپریم کورٹ کا فیصلہ واپس لے لیا ہے اور حکومتی نظرثانی کی A-63 کی اپیل منظور کر لی۔ جو فیصلہ دیا گیا تھا اس کے تحت اگر کوئی رکن اسمبلی پارٹی کی ہدایت پر عمل نہ کرتے ہوئے ووٹ کاسٹ کیے بغیر ہی رکنیت سے نااہل قرار پا جاتا ہے جو جرم اس نے ابھی کیا ہی نہیں اس کی سزا یہ مقررکی گئی تھی کہ اس کا ووٹ نہیں گنا جائے گا اور وہ نااہل بھی ہو جائے گا۔ مذکورہ فیصلے کے تحت وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف کی حکومت ختم کی گئی تھی۔
اس عدالتی فیصلے پر تنقید ہوئی تھی کہ آئین میں کہیں ایسا نہیں لکھا کہ منحرف رکن کا ووٹ گنے بغیر اسے نا اہلی کی سزا مل جائے۔ عدالت نے اب وہ فیصلہ واپس لے لیا ہے مگر سابقہ فیصلے کے تحت حمزہ شہباز کی حکومت ختم کی گئی تھی اور بعد میں عمران خان نے پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب سے زبردستی پنجاب اسمبلی بھی کے پی اسمبلی کی طرح خوامخواہ تڑوا دی تھی اور دونوں اسمبلیاں مدت مکمل کرائے بغیر ہی جو ختم کرا دی گئی تھیں اس کا مداوا بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ ڈھائی سال قبل اسی فیصلے پر عمل ہو گیا تھا اور وزیر اعلیٰ اور اسمبلی مدت پوری نہیں کر سکی تھی۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ 45 سال بعد غلط تو قرار پا گیا مگر غلط فیصلہ دینے والوں کے خلاف تو کارروائی ہوئی نہ ہوگی، اور بے گناہ پھانسی چڑھ گیا تھا۔ سندھ کے وزیر شرجیل انعام میمن نے ایک پریس کانفرنس میں ذاتی طور پر مطالبہ کیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا مداوا تو ہو ہی نہیں سکتا مگر گزشتہ چند سالوں میں غیر آئینی فیصلے دینے والوں کے خلاف تو عدالتی فیصلہ ہونا چاہیے جنھوں نے ذاتی مفاد کے باعث جو غلط فیصلے دیے تھے ان پر ان کی گرفت ہونی چاہیے۔
یہ بھی ہو چکا ہے کہ عدالتوں میں بے گناہوں کی اپیلوں کی سماعت سالوں میں نہیں ہوئی اور جب اپیل کی سماعت ہوئی تو وہ بے گناہ قرار پائے مگر ہمارے نظام انصاف میں تاخیر کرنے والوں کو کوئی پوچھ ہی نہیں سکتا۔ جن مقدمات میں عدالتی فیصلے سالوں بعد آئے تو ان متاثرین کے ساتھ جو ہوا یا انھوں نے ناحق سزا بھگتی اس کا مداوا ہوا ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ غلط فیصلے کرنے والے بعض فوت ہو چکے اکثر حیات ہیں اور مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ پاناما کے بجائے اقامہ پر غیر قانونی نااہل ہونے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف سات سال بعد بھی جواب مانگ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا گیا تھا اس سوال کا بھی تو جواب آئے کہ ایسا کیوں ہوا تھا جس کا مداوا ممکن ہی نہیں۔