کوچۂ سخن

کندن بنا کے اور نکھارا گیا ہمیں<br /> شعلوں سے جتنی بار گزارا گیا ہمیں

فوٹو: فائل

غزل
کندن بنا کے اور نکھارا گیا ہمیں
شعلوں سے جتنی بار گزارا گیا ہمیں
ہم رقص کرتے آگئے مقتل کے سامنے
یہ کس کا نام لے کے پکارا گیا ہمیں
مانگی مراد ملتی ہے اب اُس جگہ جہاں
پاداشِ جرمِ عشق میں مارا گیا ہمیں
دیکھا کیے تھے چاند کا رستہ کنارِ جو
پھر آنکھ مار کر وہ ستارا گیا ہمیں
کافور ہونے والے نشّے اور تھے میاں
سر کو اتار کر ہی اتارا گیا ہمیں
بستی ہم اک بسانے لگے تھے خلا کے پار
پیغام پھر زمیں سے دوبارہ گیا ہمیں
ہم زندگی کی جیب کے سکّے نہ تھے اسدؔ
پھر کیوں بساطِ مرگ پہ ہارا گیا ہمیں
(اسد رحمان پپلاں۔ لیاقت آباد،پنجاب)


غزل
ہر سماعت نے تبھی تو مری عزت کی ہے
میں نے اک عمر اس آواز پہ محنت کی ہے
دوسری بار اسے دیکھنے والے نے اگر
دوسری بار بھی دیکھا ہے تو ہمت کی ہے
جو پہاڑوں کی دعائوں پہ یقیں رکھتا تھا
اس نے ٹیلوں کی طرح ریتلی ہجرت کی ہے
اس قدر فائدہ دینے لگی زنجیر دراز
میں نے زندان کے ہر گوشے کی بیعت کی ہے
اونچا سنتے تھے جہاں لوگ وہاں چپ رہ کر
غیر محسوس طریقے سے وضاحت کی ہے
دوڑ کر بات سنی تیری بجا لایا حکم
یہ الگ بات بہت دل نے شکایت کی ہے
شرم آتی ہے دیا کہتے ہوئے خود کو زمانؔ
روشنی اتنی نہیں جتنی حرارت کی ہے
(دانیال زمان۔ خوشاب)


غزل
باغ کی سیر سے دشت کی سمت جانے کا رستہ نہیں مل رہا
تیری جانب سے ہٹتے ہوئے خود میں آنے کا رستہ نہیں مل رہا
ان کے چہروں پہ پڑتی خراشوں سے نقشے کی صورت نمایاں ہوئی
وہ جنہیں اک زمانہ ہوا ہے، زمانے کا رستہ نہیں مل رہا
راہِ دل ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس کی آنکھوں میں ہم اس طرح کھو گئے
سمجھیے اک سمندر میں ہیں اور خزانے کا رستہ نہیں مل رہا
اک تھکا خواب جو خواب گاہوں کو چھونے کی دھن میں بھٹکتا پھرے
اک بھٹکتا پرندہ جسے آشیانے کا رستہ نہیں مل رہا
کتنی ہی خواہشیں ہیں کہ ہم نے جنہیں دل میں چپ چاپ دفنا دیا
اور کچھ حسرتیں ہیں جنہیں سردخانے کا رستہ نہیں مل رہا
(توقیر احمد۔ منڈی بہائُ الدّین)


غزل
میری میخواری کے سامان ہوئے جاتے ہیں
ترکِ بادہ کے بھی اعلان ہوئے جاتے ہیں
دنیا داری کے قرینے بھی مجھے ازبر ہیں
دل لگانے کے بھی پیمان ہوئے جاتے ہیں
یہ طبیعت تو کوئی دن میں سنبھل جائے گی
آپ کس فکر میں غلطان ہوئے جاتے ہیں
فکرِ دنیا کی بھی یارو کوئی کوشش کر لیں
راہِ الفت میں تو نقصان ہوئے جاتے ہیں
ہجر کے دن تھے مرا درد بڑھانے والے
اب یہی درد کا درمان ہوئے جاتے ہیں
مشکلیں راہ کی جتنی بھی فزوں ہوتی ہیں
راستے اور بھی آسان ہوئے جاتے ہیں
ترکِ الفت کے تھے شبہات مسلسل مجھ پر
ایک دو دن سے وہ بہتان ہوئے جاتے ہیں
زندہ رہنے کے جو اسباب بہم تھے ساجدؔ
ایک ایک کر کے پریشان ہوئے جاتے ہیں
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)


غزل
دو عناصر سے یہ دنیا ابد آباد ہوئی
اک مرا ذہن ہوا، ایک تری یاد ہوئی
پھر کہاں عشق سے آتش میں جنوں زاد ہوا
پھر کہاں شرم سے پانی وہ پری زاد ہوئی
تیری پازیب کی جھنکار سنائی گئی اور
ساز دریافت ہوئے، شاعری ایجاد ہوئی
ڈھونڈ ہی لیتی تھی ہم خانہ بدوشوں کا پتہ
کوئی آفت بھی ہوئی، کوئی بھی افتاد ہوئی
ہم کہیں قصۂ افلاس بھی یوں، جیسے یہ
کسی شہزادۂ عیاش کی روداد ہوئی
کس لیے رخنہ پڑے تیری تباہی میں کہ ہاتھ
اُس نے روکا ہے تو لے غیب سے امداد ہوئی
اور وہ مور نہ آزاد مرے بعد ہوئے
اور وہ نہر نہ آباد مرے بعد ہوئی
(زبیرحمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ)


غزل
فقط اک اسی کی رضا کے لیے
مرا ہر عمل ہے خدا کے لیے
جہاں کی نظر سے چھپا کے لیے
لیے پھول جب دلربا کے لیے
ترا ہر ستم ہے گوارا مجھے
نہ جا روٹھ کر یوں خدا کے لیے
بنایا گیا مجھ کو اس خاک سے
جو گوندھی گئی تھی وفا کے لیے
اگر جرم ہے پیار کرنا یہاں
میں حاضر ہوں ہر اک سزا کے لیے
مزاروں پہ ہیں چادریں چڑھ رہیں
اِدھر لوگ ترسیں قبا کے لیے
خدا سے تری خیر مانگی سدا
اٹھے ہاتھ جب بھی دعا کے لیے
مری موت پر کیسی آہ و فغاں
میں پیدا ہوا تھا فنا کے لیے
عدو مارنا حالتِ جنگ میں
ضروری ہے راحلؔ بقا کے لیے
(علی راحل۔ بورے والا)


غزل
کوئی بھی لمحہ سکون والا نہ دیکھا ہم نے


اندھیرے دیکھے کہیں اجالا نہ دیکھا ہم نے
اسی کو کہتے ہیں زندگانی، کوئی بتاؤ؟
کبھی بھی راحت بھرا نوالہ نہ دیکھا ہم نے
کبھی کہیں عورتیں اکٹھی اگر ہوئی ہیں
سکوت کا ان کے لب پہ تالا نہ دیکھا ہم نے
ہمیں ہے تسلیم دل پرانی حویلی جیسا
مگر کدورت کا اس میں جالا نہ دیکھا ہم نے
اسی کی رعنائیوں سے جیون میں رنگ اترے
وہ چاند ایسا کہ گرد ہالہ نہ دیکھا ہم نے
بچھڑنا اس کا بڑا ہی نقصان زندگی کا
یہ وہ خسارہ کہ پھر ازالہ نہ دیکھا ہم نے
فقط تھپیڑے تھے سخت لہجوں کے اور ہم تھے
کسی محبت کا نرم گالہ نہ دیکھا ہم نے
تمہیں تو سب کچھ کیا تھا واپس، مگر یہ یادیں
ہمیں ہی تڑپائیں گی غزالؔہ نہ دیکھا ہم نے
رشیدؔ الفت کے سخت موسم بہت ہی دیکھے
پڑا ستم کا جو اب کے ژالہ نہ دیکھا ہم نے
(رشید حسرت، کوئٹہ)


غزل
شکل تو بعد میں سنواری گئی
پہلے اُس کی نظر اتاری گئی
اور کیا حسنِ زندگی ہو گا
اُن کے پہلو میں شب گزاری گئی
بے لباسی کو حسن کرنا تھا
زور سے ایک چیخ ماری گئی
عمر بھر من پسند لوگ ملے
زندگی پُرسکوں گزاری گئی
ایک ہی دن ملا محبت کو
سال بھر کی تھکن اتاری گئی
(توحید زیب ۔ترنڈہ میر خان، لیاقت پور)


غزل
دل ہوا بارِ دگر پھر آباد
یعنی پھر سے ہے ستمگر آباد
مثلِ دلی اجڑتا رہتا ہے
خواہشِ دل ہے ہو نگر آباد
ایک سنساں مکان ہے یہ بدن
کوئی آ کر کرے یہ گھر آباد
پھر سے دیدارِ یار ہو جائے
پھر سے ہو جائے یہ نظر آباد
لے کے آیا ہوں شیشۂ دل کیوں
سنگ ہی سنگ ہیں ادھر آباد
ہر خس و خاک پر فنا لکھ دی
پیڑ آباد، نہ بشر آباد
یاد آئی تھی تیری رات گئے
آنسوؤں میں ہوئے بھنور آباد
(عامر معان۔ کوئٹہ)


غزل
اک تمازت خیز پیشانی میسر ہے مجھے
اس حسیں چہرے کی تابانی میسر ہے مجھے
تم سے جادوئی محبت کیسے کر سکتا ہوں میں
جب طلسماتی پریشانی میسر ہے مجھے
اس نے تصویریں بنا کر بھیج دینا ہوتی ہیں
دیکھ لینے کی یہ آسانی میسر ہے مجھے
آج پھر بندِ قبا کھولوں گا میں دندان سے
مہ جبینوں کی فراوانی میسر ہے مجھے
پارساؤں سے مرا کوئی تعلق ہی نہیں
گل بدن جسموں کی عریانی میسر ہے مجھے
میرے دشتِ قلب میں خیمہ زنی کر لے کوئی
خوبصورت طرزِ ویرانی میسر ہے مجھے
اس جہانِ خاک میں اب قحط پڑ سکتا نہیں
اس کے بحرِ چشم کا پانی میسر ہے مجھے
(نعمان عارب۔ حافط آباد)


غزل
خوف ہے جس کا وہی بات ہوئی جاتی ہے
آئے دن، دن کی جگہ رات ہوئی جاتی ہے
اُن سے نسبت کا کرشمہ ہے کسی فن کے بغیر
قابلِ دید مری ذات ہوئی جاتی ہے
زہر اترا جو بدن میں تو یہ سمجھی وہ کلی
سانپ ہے جس سے ملاقات ہوئی جاتی ہے
اب ضرورت نہ تمنّا نہ بھروسہ باقی
مفلسی قبلۂ حاجات ہوئی جاتی ہے
سبز کھیتوں پہ نہ اِترا ہے یہ صدقہ تھل کا
جو تری نہر پہ برسات ہوئی جاتی ہے
یاد اُس کی ہے دلہن ہجر ہے دولہا اُس کا
اپنی تنہائی بھی بارات ہوئی جاتی ہے
روز ابھر آتا ہے کربل کا کوئی نقش نثار
زندگی خیمۂ سادات ہوئی جاتی ہے
(نثاراحمدنثار۔ ماڑی سرگودھا)


غزل
ہم محبت کے جو مرید ہوئے
احتمالاً تبھی سوید ہوئے
کیا کہوں زندگی کی بھٹی سے
کس طرح دن مرے کشید ہوئے
حلقہ احباب ہو گیا ہے وسیع
یعنی دشمن مرے مزید ہوئے
ان کی آنکھوں میں تشنگی دیکھی
جن کے چہرے کہ آب دید ہوئے
یوں نچاتا ہے عشق انگلی پر
جیسے ہم کوئی سر کلید ہوئے
دل میں زندہ ہیں آج بھی شوکتؔ
وہ جو ارمان سر برید ہوئے
(شوکت جلالپوری۔جلالپور جٹاں)


غزل
مظلوموں سے رشتہ توڑا جاتا ہے
ہر ظالم سے ناتا جوڑا جاتا ہے
حق کی باتیں کرنے والی ہستی کا
سر بھاری پتّھر سے پھوڑا جاتا ہے
ساتھ وطن کے خیر اندیشوں کا صاحب!
آدھے رستے میں ہی چھوڑا جاتا ہے
جو مفلس کے حق میں بہتر ثابت ہوں
رخ ایسی باتوں کا موڑا جاتا ہے
(محبوب الرّحمان۔سینے،میاندم،سوات)

Load Next Story