شکار پور میں بدامنی کا راج

دن ہو یا رات شکارپور ضلع قبائلی جھگڑوں اور اغوا برائے تاوان کا مرکز بنا ہوا ہے۔

m_saeedarain@hotmail.com

پیپلزپارٹی کی مسلسل 16 برس سے جاری حکومت میں، ملک کا سب سے بڑا شہرکراچی اور اندرون سندھ کا کوئی علاقہ محفوظ نہ ہونے پر ہر جگہ چھوٹے چھوٹے احتجاج جاری تھے مگر حکومت نے خاموشی اختیارکر رکھی ہے اور وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ دکھاوے کے بیانات دیتے آ رہے ہیں جس سے عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوگیا اور سندھ میں شدید بدامنی کے خلاف جدوجہد کا آغاز سندھ کا پیرس کہلانے والے شہر شکارپور کے کراچی میں رہنے والے مکینوں کو کرنا پڑگیا اور اپنی آواز اعلیٰ حکومتی حلقوں تک پہنچانے کے لیے کراچی سول سوسائٹی شکارپور کے تحت کراچی پریس کلب کے سامنے بڑا احتجاجی اجتماع ہوا، جس میں کراچی کے مختلف علاقوں کے علاوہ حیدرآباد میں رہنے والے شکارپور کے رہائیشیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

کراچی کے مختلف علاقوں سچل گوٹھ، نیو کراچی، گلستان جوہر،گلشن اقبال، ملیر کے علاقوں میں رہنے والے شکارپور کے مکینوں نے ریلیوں کی شکل میں شرکت کی۔ اس موقع پر مقررین نے سندھ بھر اور خاص کر شکارپور ضلع میں شدید بدامنی کے خلاف سندھ حکومت پرکڑی تنقید کی اور بدامنی کے خلاف نعرے لگائے۔

اب سندھ کا کوئی علاقہ قبائلی جھگڑوں، باہمی خونریزی، ڈکیتیوں اور مختلف جرائم سے محفوظ نہیں رہا مگر حکومت کی طرف سے موثر اقدام نہیں کیے جا رہے اور ضلع پولیس صرف ضلع میں بڑے بڑے بنگلوں میں رہنے والوں کی ہدایات پر چل رہی ہے اور انھی کے کہنے پر ایف آئی آر درج کی جاتی ہیں۔ اغوا کی وارداتیں شکار پور ضلع میں معمول بنی ہوئی ہیں۔ بچوں،کاروباری افراد، مزدوروں اور ملازمت پیشہ افراد ہی نہیں پولیس افسرو اہلکار اغوا کیے جا رہے ہیں اور ان سے تاوان وصول کیا جا رہا ہے۔ ڈاکوؤں کی طرف سے مسلسل بھتے کی پرچیاں بھیجی جا رہی ہیں جس سے ضلع میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔

شکارپور سول سوسائٹی کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ سندھ کا پیرس کہلانے والا شکار پور ماضی میں دنیا بھر میں کاروبار کے لیے مشہور تھا جہاں کامرس و ٹریڈ کے جدید اصولوں کے مطابق ہیروں تک کا کاروبار ہوتا تھا۔ تعلیم و صحت کی سہولتوں کے علاوہ دنیا بھر سے تجارتی قافلے شکار پور کے مشہور قلعے میں آ کر ٹھہرا کرتے تھے اور امن و امان کا گہوارہ کہلانے والے شہر میں آج بدامنی کی وجہ سے کوئی محفوظ نہیں ہے۔

یہاں کے شعرا، دانشوروں اور لکھاریوں نے اپنے شہر میں چرند پرند، جانوروں،پھولوں اور پودوں سے محبت کی داستانیں لکھی تھیں اور اب شہر کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ جہاں انسانوں کا خون بہانا کھیل بن گیا ہے۔ دن ہو یا رات شکارپور ضلع قبائلی جھگڑوں اور اغوا برائے تاوان کا مرکز بنا ہوا ہے۔ لوگوں کی عزت، جان و مال غیر محفوظ اور لوگ غیر یقینی کا شکار ہیں اور اپنا شہر چھوڑ کر محفوظ علاقوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔


شکار پور سول سوسائٹی کراچی کا کہنا ہے کہ شہر کے معززین کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ ضلع میں بدامنی کی صورتحال سنگین ہو چکی ہے۔ اس لیے حکومت فوری طور پر ایکشن لے اور دیگر ادارے بھی شکار پور ضلع میں امن و امان کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ لوگ سکھ کا سانس لیں اور شہر ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن سکے۔

اتوار کی سہ پہر،کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرے میں شکارپور سے تعلق رکھنے والے وکیلوں، ڈاکٹروں، صحافیوں،ادیبوں اور دانشوروں ہی نے نہیں بلکہ مشہور فنکارہ شیما کرمانی، پریا کماری، ودیگر سماجی رہنماؤں نے بھی شرکت کی اور کراچی پریس کلب کی طرف سے بھی شکارپور میں امن و امان کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے احتجاج کرنے والوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا اور حکومت کی توجہ سندھ اور شکارپور کی بدامنی کی طرف مبذول کرائی گئی۔

کراچی پریس کلب کے سامنے جمع سیکڑوں مظاہرین سے دوران خطاب مقررین کا کہنا تھا کہ اس احتجاج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، ہم یہاں سندھ اور خاص طور پر ضلع شکارپور میں امن کے لیے جمع ہوئے ہیں اور ہمارا مطالبہ صرف امن کا قیام ہے اور ہم اپنے آبائی شہر میں امن چاہتے ہیں۔ اس موقع پر لوگوں نے '' ہمیں شکارپور میں امن چاہیے'' کہ نعرے لگائے۔ مظاہرین نے بینر اور پوسٹر اٹھائے ہوئے تھے جن پر ''ہمیں امن چاہیے'' کے نعرے درج تھے۔

مقررین میں شامل بیرسٹر شہاب اویتو، ایڈووکیٹ حسن پٹھان، محمد یونس مہر، سابق رکن قومی اسمبلی نثار پنہور، سابق رکن سندھ اسمبلی مہیش کمار، آغا قمر خان، محمد پریل مری اور دیگر نے اپنی تقاریر میں کہا کہ سندھ میں 16برسوں سے پی پی پی کی حکومت ہے مگر سندھ دہائیوں سے بدامنی کا شکار ہے۔ آج امن کے قیام کے لیے شکار پور سے جدوجہد کا آغاز کردیا ہے اور شکارپور کے کراچی میں رہنے والے سندھ کی آواز بن کر سندھ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ سندھ میں امن قائم کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔ سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں نے سندھ کی شاہراہوں کو غیر محفوظ کر رکھا ہے۔

بعض مقررین نے نشان دہی کی کہ 1971 تک شکارپور ایک پرامن شہر تھا جس کے بعد بدامنی بڑھتی گئی اور 1990 میں لسانی بنیاد پر اردو بولنے والوں نے اپنا شہر چھوڑا تھا اور اب کئی سالوں سے ضلع شکار پور میں کوئی محفوظ نہیں اور لوگ بدامنی کے باعث اپنا آبائی شہر چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ کاروبار ختم ہوتا جا رہا ہے بعض علاقوں میں لوگ شام 5 بجے کے بعد اپنے گھروں سے نہیں نکل رہے اور پولیس اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہی اور سیاست کا شکار ہے جس کی وجہ سے عوام کا پولیس پر اعتماد نہیں رہا۔ پولیس بڑے لوگوں کی حفاظت کر رہی ہے اور بڑے لوگ اپنے ووٹروں کو بھول چکے ہیں۔

شکارپور پیپلز پارٹی کا گڑھ رہا ہے جس کے تمام عوامی نمایندے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں مگر کسی کو اپنے ضلع کی فکر نہیں اور ضلع امن سے محروم ہو چکا ہے۔
Load Next Story