بھارت دہشت گرد ملک نہیں بن سکتا
بھارت کے حالیہ انتخابات میں بھارت کی انتہا پسند جماعت بی جے پی کی کامیابی
بھارت کے حالیہ انتخابات میں بھارت کی انتہا پسند جماعت بی جے پی کی کامیابی اور نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے فروغ کے جو خدشات پیدا ہو گئے تھے وہ اگرچہ کہ غلط نہ تھے لیکن بھارت کی مذہبی انتہا پسندی کے نہ دہشت گردی میں بدلنے کے امکانات ہیں نہ یہاں خودکش بمباروں کے پیدا ہونے کے امکان ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جو نظام بے لگام دہشت گردی اور خودکش بمباروں کو جنم دیتا ہے وہ بھارت میں موجود نہیں یعنی بھارت میں وہ کٹر قبائلی اور جاگیردارانہ نظام موجود نہیں جو سادہ لوح عوام میں جنت کے ٹکٹ بانٹتا ہے اور لمبی لمبی لائنیں لگا کر عقل سے پیدل نوجوان جنت کے پروانے حاصل کرتے ہیں۔
خودکش حملے مذہب اور مذہبی اکابرین پر اندھے عقیدے کے ایسے مظاہر ہیں جن میں خودکش بمبار پیٹ سے بارودی جیکٹ باندھ کر یہ جانتے ہوئے نکلتا ہے کہ خودکش حملے کے نتیجے میں اس کے جسم کے چیتھڑے اڑ جائیں گے وہ اس بھیانک موت کے لیے خوشی اور رضا سے اس لیے تیار ہوتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد سیدھا جنت میں جائے گا۔
ہندو مذہب پر ہندو قوم کا اعتقاد اگرچہ کہ پختہ ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے علم اور شعور میں اضافہ ہوتا رہا ہے ویسے ویسے ہندو قوم پر مذہب کی گرفت ڈھیلی ہوتی رہی ہے۔ بتوں کی پوجا کرنے بتوں کو خدا ماننے والے تعلیم یافتہ اور ناخواندہ دونوں قسم کے ہندو خدا کا نام لیتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور اوپر والے ہی کو خدا مانتے ہیں لیکن نیچے والے اور اوپر والے بھگوان کے چکر میں وہ نیچے والے خداؤں پر وہ یقین اور عقیدہ نہیں رکھتے جو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا اوپر والے پر ہوتا ہے عقیدے کی اس کمزوری اور تعلیم اور شعور نے ہندو قوم کو اس قدر باشعور بنا دیا ہے کہ نہ وہ خودکش بمبار بن سکتے ہیں نہ سورگ کے ٹکٹ حاصل کرنے پر اعتقاد رکھتے ہیں۔
بھارت میں بی جے پی کے علاوہ جن سنگھ بجرنگ دل اور آر ایس ایس جیسی مذہبی انتہا پسند جماعتیں موجود ہیں لیکن ان کی انتہا پسندی عموماً چھوٹے موٹے فرقہ وارانہ فسادات مسلمانوں سے تعصب اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے تک محدود ہے۔ پاکستان کے مذہبی انتہا پسند اس مقام پر کھڑے ہیں کہ خود مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہا رہے ہیں خود ایک اذیت ناک موت کا شکار ہو رہے ہیں اور اپنے بے گناہ ہم مذہبوں اور ہم وطنوں کو بھی اذیت ناک موت سے دوچار کر رہے ہیں۔
ہماری مذہبی انتہا پسندی اب فقہی نفرتوں میں بدل کر اس قدر سفاک ہو گئی ہے کہ نہ وہ بچوں کو بخشتی ہے نہ بوڑھوں کو نہ خواتین کو وہ ایک ایسی کالی ماتا بن گئی ہے جس کا منہ خون سے بھرا رہتا ہے اس کی وجہ وہ جہل ہے جو قبائلی کلچر کا ایک ناگزیر حصہ بن گیا ہے۔ اور یہ جہل اس وقت تک باقی رہے گا جب تک قبائلی نظام باقی ہے اور عوام تعلیم اور شعور سے محروم ہیں۔ غالباً اسی حقیقت کے پیش نظر مفکرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے تعلیم لازمی اور مفت کرنا ضروری ہے کیونکہ علم اور شعور کے بغیر انسان انسان نہیں رہتا حیوان بن جاتا ہے۔
بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کے اہداف میں رام راجیہ مہا بھارت گریٹر انڈیا شامل ہیں۔ بھارت کے تعلقات عرب اور مسلم ملکوں سے پاکستان کے مقابلے میں زیادہ قریبی ہیں اور معاشی مفادات کی وجہ عرب اور دوسرے مسلم ممالک بھارت سے تعلقات استوار کرنے کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں اس تناظر میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بھارت کی دشمنی اور انتہا پسندی کا رخ پاکستان کی طرف ہے اس کی ایک وجہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کشمیر میں ہونے والی کارروائیاں ہیں اور دوسری وجہ ہندوستان پر مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت ہے بھارتی ہندو کے ذہن میں یہ شکایت اور غصہ موجود ہے کہ 88 فیصد ہندوؤں پر 12 فیصد مسلمانوں کا ایک ہزار سال تک حکومت کرنا ایسا ظلم ہے جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ بھارتی ہندو کی یہ نفسیات بھی برصغیر کے مسلمانوں سے مخاصمت کی ایک بڑی وجہ ہے۔
بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے پیچھے بھی ایک اہم محرک ہندوستان پر مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت ہے۔ بی جے پی بھارت کو ہندو ریاست رام راجیہ بنانے کے ایجنڈے پر یقین تو رکھتی ہے لیکن رام راجیہ یا ہندو ریاست کا مطلب کیا ہے غالباً اس حوالے سے بی جے پی کا ذہن بھی صاف نہیں۔ ہندو مذہب کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے ہندو قوم کے پاس کوئی آسمانی کتاب ہے نہ خدا کا بھیجا ہوا کوئی پیغمبر ہے جو کتابیں رگ وید وغیرہ کی شکل میں موجود ہیں ان میں ہدایات موجود ہیں۔ جب کہ کسی نظام حکومت کے لیے ایک مکمل معاشی سماجی اور سیاسی نظام کی ضرورت ہے۔
بھارت کے انتہا پسندوں کے لیے ایک مشکل یہ ہے کہ ہندو ریاست کی راہ میں بھارت کا سیکولرزم کھڑا ہے جسے آئینی تحفظ بھی حاصل ہے بی جے پی اپنی تمام تر مذہبی انتہا پسندی کے باوجود ریاست کے سیکولر کردار کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے ان حالات میں بی جے پی جو کچھ کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ بھارت کو ایشیا کی منی سپر یا گریٹر انڈیا بنانے کے ایجنڈے پر کام کرے بی جے پی کو ووٹ دینے والوں میں مختلف الخیال لوگ شامل ہیں۔
ووٹ دینے والوں کا ایک حصہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو کانگریس اور اس کے اتحادیوں کی کارکردگی سے مایوس ہیں کانگریس کے دور حکومت میں چونکہ عوامی مسائل حل ہونے کے بجائے ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا لہٰذا یہ طبقے نے اس امید پر بے جے پی کو ووٹ دیا کہ شاید بی جے پی اس کے مسائل حل کر دے بی جے پی کو ووٹ دینے والا دوسرا حصہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو اس کے رام راجیہ کے پروگرام سے متاثر تھا اور مذہبی انتہا پسندی کو بھارت کے مستقبل کے لیے ضروری سمجھتا تھا۔ بھارت کی 66 سالہ زندگی میں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی کہ عوام کی ایک بھاری اکثریت رام راجیہ کے نعرے کی حامی بن گئی۔
اگرچہ کہ بی جے پی اس سے پہلے بھی اقتدار میں آئی تھی لیکن اس وقت واجپائی جیسا سلجھا ہوا اور اعتدال پسند رہنما بھارت کا وزیر اعظم تھا اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کو بھارت اور جنوبی ایشیا کے عوام کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری سمجھتا تھا۔ اب اس اعتدال پسند رہنما کی جگہ ایک ایسے شخص نریندر مودی نے لے لی ہے جو مذہبی تعصب اور انتہا پسندی کے حوالے سے بدنام ہے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام نریندر مودی کی سرپرستی میں ہوا۔
گجرات کے اس المیے سے بھارت ساری دنیا میں بدنام ہوا خود مودی کے ہم مذہب اس بربریت کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہوئے قلمکاروں اور شاعروں نے گجرات کے المیے پر نریندر مودی کو وحشی ٹھہرایا الٰہ آباد کے ایک نوجوان ہندو شاعر کی گجرات کے المیے پر لکھی گئی نظم ''ماں'' پورے برصغیر میں بے انتہا مقبول ہوئی۔ لیکن نریندر مودی اپنی اس ضد پر اڑا رہا کہ وہ گجرات کے قتل عام پر معافی نہیں مانگے گا۔ ایسے کٹر نیتی اور بدنام زمانہ شخص کی عوام کی طرف سے بھاری حمایت بھارتی عوام کی بدلتی سوچ کی عکاسی کرتی ہے بھارتی سیاست میں یہ ایک بڑی منفی اور خطرناک تبدیلی ہے۔
نریندر مودی اور اس جیسی سوچ رکھنے والوں کی سب سے بڑی کمزوری اور مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنے ملک کو مذہبی ریاست بنانے کا پروپیگنڈا تو کر سکتے ہیں لیکن مذہبی ریاست نہیں بنا سکتے کیونکہ اس قسم کے لوگوں کی نظریاتی پٹاری خالی ہوتی ہے نریندر مودی بھی بابری مسجد جیسے مسائل کھڑے کر کے عوام کو بے وقوف بناتا رہے گا اور یہ تاثر دیتا رہے گا کہ وہ بھارت کو رام راجیہ بنانے کے وعدے پر قائم ہے وہ بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات بھی نہیں کرا سکتا کہ اس کی کامیابی میں مسلم ووٹ کا بھی ایک کردار ہے وہ بھارت کو مہا بھارت بنانے کے لیے اس کی فوجی قوت میں اضافہ کر سکتا ہے یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر وہ رام راجیہ کو دھوکہ دے سکتا ہے لیکن فوجی طاقت میں اضافے کے مضمرات بڑے خطرناک ہو سکتے ہیں ۔
خودکش حملے مذہب اور مذہبی اکابرین پر اندھے عقیدے کے ایسے مظاہر ہیں جن میں خودکش بمبار پیٹ سے بارودی جیکٹ باندھ کر یہ جانتے ہوئے نکلتا ہے کہ خودکش حملے کے نتیجے میں اس کے جسم کے چیتھڑے اڑ جائیں گے وہ اس بھیانک موت کے لیے خوشی اور رضا سے اس لیے تیار ہوتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد سیدھا جنت میں جائے گا۔
ہندو مذہب پر ہندو قوم کا اعتقاد اگرچہ کہ پختہ ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے علم اور شعور میں اضافہ ہوتا رہا ہے ویسے ویسے ہندو قوم پر مذہب کی گرفت ڈھیلی ہوتی رہی ہے۔ بتوں کی پوجا کرنے بتوں کو خدا ماننے والے تعلیم یافتہ اور ناخواندہ دونوں قسم کے ہندو خدا کا نام لیتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور اوپر والے ہی کو خدا مانتے ہیں لیکن نیچے والے اور اوپر والے بھگوان کے چکر میں وہ نیچے والے خداؤں پر وہ یقین اور عقیدہ نہیں رکھتے جو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا اوپر والے پر ہوتا ہے عقیدے کی اس کمزوری اور تعلیم اور شعور نے ہندو قوم کو اس قدر باشعور بنا دیا ہے کہ نہ وہ خودکش بمبار بن سکتے ہیں نہ سورگ کے ٹکٹ حاصل کرنے پر اعتقاد رکھتے ہیں۔
بھارت میں بی جے پی کے علاوہ جن سنگھ بجرنگ دل اور آر ایس ایس جیسی مذہبی انتہا پسند جماعتیں موجود ہیں لیکن ان کی انتہا پسندی عموماً چھوٹے موٹے فرقہ وارانہ فسادات مسلمانوں سے تعصب اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے تک محدود ہے۔ پاکستان کے مذہبی انتہا پسند اس مقام پر کھڑے ہیں کہ خود مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہا رہے ہیں خود ایک اذیت ناک موت کا شکار ہو رہے ہیں اور اپنے بے گناہ ہم مذہبوں اور ہم وطنوں کو بھی اذیت ناک موت سے دوچار کر رہے ہیں۔
ہماری مذہبی انتہا پسندی اب فقہی نفرتوں میں بدل کر اس قدر سفاک ہو گئی ہے کہ نہ وہ بچوں کو بخشتی ہے نہ بوڑھوں کو نہ خواتین کو وہ ایک ایسی کالی ماتا بن گئی ہے جس کا منہ خون سے بھرا رہتا ہے اس کی وجہ وہ جہل ہے جو قبائلی کلچر کا ایک ناگزیر حصہ بن گیا ہے۔ اور یہ جہل اس وقت تک باقی رہے گا جب تک قبائلی نظام باقی ہے اور عوام تعلیم اور شعور سے محروم ہیں۔ غالباً اسی حقیقت کے پیش نظر مفکرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے تعلیم لازمی اور مفت کرنا ضروری ہے کیونکہ علم اور شعور کے بغیر انسان انسان نہیں رہتا حیوان بن جاتا ہے۔
بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کے اہداف میں رام راجیہ مہا بھارت گریٹر انڈیا شامل ہیں۔ بھارت کے تعلقات عرب اور مسلم ملکوں سے پاکستان کے مقابلے میں زیادہ قریبی ہیں اور معاشی مفادات کی وجہ عرب اور دوسرے مسلم ممالک بھارت سے تعلقات استوار کرنے کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں اس تناظر میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بھارت کی دشمنی اور انتہا پسندی کا رخ پاکستان کی طرف ہے اس کی ایک وجہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کشمیر میں ہونے والی کارروائیاں ہیں اور دوسری وجہ ہندوستان پر مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت ہے بھارتی ہندو کے ذہن میں یہ شکایت اور غصہ موجود ہے کہ 88 فیصد ہندوؤں پر 12 فیصد مسلمانوں کا ایک ہزار سال تک حکومت کرنا ایسا ظلم ہے جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ بھارتی ہندو کی یہ نفسیات بھی برصغیر کے مسلمانوں سے مخاصمت کی ایک بڑی وجہ ہے۔
بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے پیچھے بھی ایک اہم محرک ہندوستان پر مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت ہے۔ بی جے پی بھارت کو ہندو ریاست رام راجیہ بنانے کے ایجنڈے پر یقین تو رکھتی ہے لیکن رام راجیہ یا ہندو ریاست کا مطلب کیا ہے غالباً اس حوالے سے بی جے پی کا ذہن بھی صاف نہیں۔ ہندو مذہب کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے ہندو قوم کے پاس کوئی آسمانی کتاب ہے نہ خدا کا بھیجا ہوا کوئی پیغمبر ہے جو کتابیں رگ وید وغیرہ کی شکل میں موجود ہیں ان میں ہدایات موجود ہیں۔ جب کہ کسی نظام حکومت کے لیے ایک مکمل معاشی سماجی اور سیاسی نظام کی ضرورت ہے۔
بھارت کے انتہا پسندوں کے لیے ایک مشکل یہ ہے کہ ہندو ریاست کی راہ میں بھارت کا سیکولرزم کھڑا ہے جسے آئینی تحفظ بھی حاصل ہے بی جے پی اپنی تمام تر مذہبی انتہا پسندی کے باوجود ریاست کے سیکولر کردار کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے ان حالات میں بی جے پی جو کچھ کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ بھارت کو ایشیا کی منی سپر یا گریٹر انڈیا بنانے کے ایجنڈے پر کام کرے بی جے پی کو ووٹ دینے والوں میں مختلف الخیال لوگ شامل ہیں۔
ووٹ دینے والوں کا ایک حصہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو کانگریس اور اس کے اتحادیوں کی کارکردگی سے مایوس ہیں کانگریس کے دور حکومت میں چونکہ عوامی مسائل حل ہونے کے بجائے ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا لہٰذا یہ طبقے نے اس امید پر بے جے پی کو ووٹ دیا کہ شاید بی جے پی اس کے مسائل حل کر دے بی جے پی کو ووٹ دینے والا دوسرا حصہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو اس کے رام راجیہ کے پروگرام سے متاثر تھا اور مذہبی انتہا پسندی کو بھارت کے مستقبل کے لیے ضروری سمجھتا تھا۔ بھارت کی 66 سالہ زندگی میں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی کہ عوام کی ایک بھاری اکثریت رام راجیہ کے نعرے کی حامی بن گئی۔
اگرچہ کہ بی جے پی اس سے پہلے بھی اقتدار میں آئی تھی لیکن اس وقت واجپائی جیسا سلجھا ہوا اور اعتدال پسند رہنما بھارت کا وزیر اعظم تھا اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کو بھارت اور جنوبی ایشیا کے عوام کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری سمجھتا تھا۔ اب اس اعتدال پسند رہنما کی جگہ ایک ایسے شخص نریندر مودی نے لے لی ہے جو مذہبی تعصب اور انتہا پسندی کے حوالے سے بدنام ہے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام نریندر مودی کی سرپرستی میں ہوا۔
گجرات کے اس المیے سے بھارت ساری دنیا میں بدنام ہوا خود مودی کے ہم مذہب اس بربریت کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہوئے قلمکاروں اور شاعروں نے گجرات کے المیے پر نریندر مودی کو وحشی ٹھہرایا الٰہ آباد کے ایک نوجوان ہندو شاعر کی گجرات کے المیے پر لکھی گئی نظم ''ماں'' پورے برصغیر میں بے انتہا مقبول ہوئی۔ لیکن نریندر مودی اپنی اس ضد پر اڑا رہا کہ وہ گجرات کے قتل عام پر معافی نہیں مانگے گا۔ ایسے کٹر نیتی اور بدنام زمانہ شخص کی عوام کی طرف سے بھاری حمایت بھارتی عوام کی بدلتی سوچ کی عکاسی کرتی ہے بھارتی سیاست میں یہ ایک بڑی منفی اور خطرناک تبدیلی ہے۔
نریندر مودی اور اس جیسی سوچ رکھنے والوں کی سب سے بڑی کمزوری اور مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنے ملک کو مذہبی ریاست بنانے کا پروپیگنڈا تو کر سکتے ہیں لیکن مذہبی ریاست نہیں بنا سکتے کیونکہ اس قسم کے لوگوں کی نظریاتی پٹاری خالی ہوتی ہے نریندر مودی بھی بابری مسجد جیسے مسائل کھڑے کر کے عوام کو بے وقوف بناتا رہے گا اور یہ تاثر دیتا رہے گا کہ وہ بھارت کو رام راجیہ بنانے کے وعدے پر قائم ہے وہ بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات بھی نہیں کرا سکتا کہ اس کی کامیابی میں مسلم ووٹ کا بھی ایک کردار ہے وہ بھارت کو مہا بھارت بنانے کے لیے اس کی فوجی قوت میں اضافہ کر سکتا ہے یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر وہ رام راجیہ کو دھوکہ دے سکتا ہے لیکن فوجی طاقت میں اضافے کے مضمرات بڑے خطرناک ہو سکتے ہیں ۔