عراق میں خلافت ایک نئی بحث۔۔۔

لگ بھگ دس۔ ساڑھے دس بجے کا وقت تھا۔ دفتر میں بیٹھے خبر کی تلاش جاری تھی کہ ایک چینل پر ٹکر چلا

لگ بھگ دس۔ ساڑھے دس بجے کا وقت تھا۔ دفتر میں بیٹھے خبر کی تلاش جاری تھی کہ ایک چینل پر ٹکر چلا "داعش نے شام و عراق میں خلافت کا اعلان کردیا"۔ ٹکر پڑھنے کی دیر تھی کہ کچھ ہی دیر میں تبصرے شروع ہو گئے۔ کسی کا ردعمل انتہائی حیران کن تھا تو کوئی دل کی خوشی کو زباں سے بیان کرنے لگا۔ اورکسی نے یاد دلایا کہ نوے برس بعد آج دوبارہ خلافت قائم ہوگئی۔ اس کیفیت کو ایک جملے میں یوں بیان کیا جائے تو بہتر ہے کہ اْس چیز کا اعلان ہوچکا تھا جس کا بے چینی سے انتظار تھا۔


عسکری تنظیم دولۃ اسلامیہ عراق و شام کی جانب سے خلافت کے اعلان پر جہاں کہیں جشن کا سماں ہے تو وہیں کچھ انگلیاں بھی اٹھی ہیں۔ کسی نے اس دعوے کو من و عن قبول کیا تو کسی نے دعوے کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ جشن کی وجوہات اور دعوے پرتنقید کی بنیاد دونوں ایک طرف۔ عراق میں باغیوں کی حالیہ پیش قدمی۔ محض 800 باغیوں کے آگے 30 ہزار سرکاری فورسز کا بغیر مزاحمت ہتھیار ڈال دینا۔ بار بار باغیوں کے حملے سے متعلق انٹیلی جنس رپورٹس ملنے کے باوجود اوباما انتظامیہ کا ناقص ردعمل اور مغربی میڈیا کی جانب سے صرف ایک ہی گروہ پر توجہ مرکوز رکھنا یقیناً قابل تشویش امر ہے۔


عراق میں جاری حالیہ لڑائی کا باقاعدہ آغاز 7 جون سے ہوتا ہے جس روز باغیوں نے انبار یونیورسٹی پر حملہ کرکے درجنوں اساتذہ اور طلبا کو یرغمال بنالیا تاہم حملے میں تمام اساتذہ اورطلبا محفوظ رہے۔ 11جون کو اہم ترین کارروائی میں عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضے کے ساتھ ہی صوبہ نینوا کے 85 فیصد علاقے پر باغیوں نے کنٹرول حاصل کیا اور حملے کے نتیجے میں 3 ہیلی کاپٹر، کئی بکتر بندگاڑیاں اور چالیس کروڑ ڈالرز بھی ہاتھ لگے۔ اسی روز صوبہ صلاح الدین پر دھاوا بولا گیا اور تکریت شہر کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی بیجی آئل ریفائنری کے بیشتر حصہ پر بھی قبضہ مکمل ہوا۔


12 جون تک باغیوں نے صوبہ صلاح الدین کے 70 فیصد رقبے پر بھی قبضہ مکمل کر لیا۔ جب کہ بغداد پر سخت حملے کو اپنا اگلا ہدف بھی قرار دیا گیا (جس کا تاحال انتظار ہے)۔ 13 جون کو صوبہ دیالا کے دو قصبوں جلولا اور سعدیہ پر قبضے کا دعویٰ کیا گیا۔ مگر 18جون کو ہی کرد جنگجوؤں نے قبضہ چھین لیا۔ 17 جولائی کی خبر ہے کہ عراق میں تکریت کے مقام پر فورسز اور داعش میں گھمسان کی جنگ جاری ہے 26 افراد ہلاک۔


اس تمام تر سنگین صورتحال کے پیش نظر برطانوی حکومت نے عراقی حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر تیس لاکھ پاؤنڈ امداد کی پیشکش کی جب کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی عراقی حکومت کی مدد کا فیصلہ کرتے ہوئے دو ہزار فوجی اہلکار عراق بھیج دیے۔ 17 جون تک باغی دارالحکومت بغداد کے شمال سے صرف 37 میل کی دوری پر پہنچے تو امریکا نے بغداد میں سفارتخانے کے تحفظ کے لیے 275 سے زیادہ امریکی فوجی تعینات کر دیے۔ باغیوں نے 21 جون کو شامی سرحد سے ملحقہ عراق کے مغربی صوبے انبار کے اہم ترین قصبے القائم پر جب کہ 23 جون کو اردن سے ملحقہ سرحد تربیل پربھی قبضہ کرلیا۔


24 جون کو باغیوں نے ملک کی سب سے بڑی بیجی آئل ریفائنری پر مکمل قبضے کا دعویٰ کیا مگر صرف دو ہی روز کے اندر سیکیورٹی فورسز نے تمام دعوؤں پر پانی پھیر دیا۔ 28 جون سے سیکیورٹی فورسز نے ایک بار پھر صف بندی کر کے باغیوں کے زیر انتظام علاقوں کی جانب پیش قدمی شروع کی۔ اور ایک ہی دن میں تکریت شہر کے متعدد علاقوں پردوبارہ قبضہ جما لیا۔ اور اسی نفسہ نفسی، ہار جیت کے عالم میں خبر ملی کہ عراق اور شام کے زیر قبضہ علاقوں پر خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔



1924 میں خلافت کا انہدام ہونے کے بعد پورے 90 برس بعد 29 جون 2014 کو دوبارہ خلافت کے قیام کا اعلان اتنی عجلت اور جلدبازی میں کیوں کیا گیا اس پر کئی سوال اٹھائے جا چکے ہیں۔ سوال کرنے والے کہتے ہیں ابھی تو عراقی سرکاری فورسز سے لڑائی جاری ہے۔ کہیں ہار ہے تو کہیں جیت۔ ابھی تو باغیوں کے پاس صوبہ انبار میں شامی فضائیہ کی بمباری کو روکنے کی بھی اہلیت نہیں کہ جس میں ستاون شہری جاں بحق ہوئے تھے، ریاست کی سرحدوں کی حفاظت تو دور کی بات ہے، بیجی آئل ریفائنری پر دو دن بھی قبضہ برقرار رکھنا محال تھا۔


تکریت بھی ہاتھ سے نکلنے کو ہے۔ تو پھر شامی صوبے حلب سے عراقی صوبے دیالہ تک ریاست خلافت کا اعلان کیسے؟ کیوں؟ کسی نے کہا کہ یہ تو بالکل ایسا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اْٹھے۔ پشاور اور کوئٹہ سمیت خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے دیگر شہروں پر جزوی قبضہ کرے اور ملک گیر خلافت کا اعلان کردے۔2004 میں "جماعت توحید و جہاد "۔کچھ ہی عرصے بعد "تنظیم قاعدہ جہاد بلاد الرافدین "اور پھر 2006 میں" دولۃ اسلامیہ عراق"۔


سات برس بعد "دولۃ اسلامیہ عراق و شام۔ (رپورٹس کے مطابق کوڑے مارنے کی سزا طے کی جاچکی ہے) اور اب بالآخر دولۃ اسلامیہ کی جانب سے خلافت کے اعلان اور ابراہیم بن عواد ابن ابراہیم بن علی بن محمد البدری السامرائی عرف ابوبکر البغدادی کی بطور خلیفہ تقرری کے دعوے پر جہاں دولۃ اسلامیہ کو عالمی میڈیا میں خاصی پزیرائی ملی وہیں عالمی اسلامی تنظیموں نے بھی اس اعلان پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔ شام میں مصروف عمل جہادی تنظیموں جبھۃ النصرہ۔ انصار الاسلام اور جبھۃ الاسلام سمیت دیگر اہم تنظیموں نے اس اعلان کی شدید مخالفت کی ہے۔


جب کہ اخوان المسلمون کے سابق فکری قائدین میں شمار کیے جانے والے یوسف القرضاوی، مصری مذہبی رہنما ہانی السباعی، معروف مذہبی عالم عبداللہ بن محمد المحسنی اور سلفی مسلمانوں کے سب سے بااثر رہنما شیخ ابو محمد المقدسی نے بھی ابوبکر البغدادی کے خلافت کے دعوے کی سخت ترین مذمت کی۔ چیچن جہادی لیڈر شیخ ابو محمد نے بھی شام میں لڑنے والے چیچن جہادیوں کو دولۃ اسلامیہ سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے۔


تاہم اس حوالے سے سب سے مفصل اور جامع جواب حزب التحریر کی جانب سے پریس ریلیز کی صورت میں موصول ہوا جس میں تنظیم کے امیر شیخ عطا بن خلیل ابو الرشتہ نے کہا کہ خلافت کا اعلان کرنے والے کسی بھی گروہ کے لیے ضروری ہے کہ اْسے زمین پر نظرآنے والا واضح اختیار حاصل ہو تاکہ وہ اس جگہ پر اندرونی و بیرونی سلامتی کو برقرار رکھ سکے۔ اور اس جگہ ایک ریاست کی تمام خصوصیات (متعین سرحدیں، سیاسی خودمختاری، حکومتی عملداری)موجود ہوں۔ کیا ابو بکر البغدادی کو مقامی قبائل سمیت دیگر اہل حل و عقد سے بیعت کا شرف حاصل ہوچکا ہے۔ کیا اس کو اندرونی و بیرونی سلامتی کو برقرار رکھنے کی صلاحیت حاصل ہے؟


مگر اب جب ماضی میں مختلف عسکری و غیر عسکری اسلامی تنظیموں کی طرح دولۃ اسلامیہ عراق و شام نے بھی اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کر ہی دیا ہے تو اسے ثابت بھی کرنا ہو گا۔ کیوں کہ اسلامی ریاست کوئی جمہوری ریاست تو ہے نہیں کہ جس کا حسن خود بخود اعلان کے فوری بعد ہی سے جھلکنا شروع ہوجائے، اور نہ ہی یہ کوئی جمہوری تماشہ ہے کہ کبھی پانچ سال کوئی حاکم تو اگلے پانچ سال کوئی اور۔


دولۃ اسلامیہ تب ہی حقیقی کہلائے جانے کی مستحق ہوگی جب وہ ثابت کرے کہ ریاست میں اسلام مکمل طور پر نافذ العمل ہے۔ اور ریاست کی امان بھی مسلمانوں ہی کے ہاتھوں میں ہو۔ خلیفہ کا منصب سنبھالنے کی سات بنیادی شرائط (مسلمان، مرد، بالغ، عاقل، عادل، آزاد)میں سے ایک شرط اہلیت بھی ہے۔ چنانچہ دولۃ اسلامیہ کو جلد از جلد اسلامی ریاست کی پالیسیز کا اجراء لازم ہے۔ مگر ابھی تک کی خبروں پر نظر ڈالیے تو وہی سننے کو ملتا ہے جو ریاست کے قیام کے دعوے سے پہلے سنتے تھے۔


کبھی شام میں کسی باغی گروہ سے لڑائی تو کبھی عراق میں کسی علاقے سے پسپائی۔ کہیں درگاہیں تباہ ہونا شروع ہوگئی ہیں تو کہیں پہلے ہی روز سے گردنیں اْڑنے لگیں۔ ترجیح بشار الاسد سے دمشق کا، اور نوری المالکی سے بغداد کا قبضہ چھڑانے پر ہونی چاہیے مگر ابھی تک زیادہ تر توانائی باہمی لڑائیوں میں ہی صَرف ہوتی نظرآئی ہے۔ اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا۔ تو خلافت کے قیام کا نعرہ محض جذباتی نعرہ ہی تصور کیا جائے گا۔

Load Next Story