مضبوط جمہوریت مضبوط اداروں کی مرہون منت

جب کسی ملک کی فوج بیرونی و اندرونی محاذ پر اپنی قومی بقا اور سلامتی کی جنگ میں باقاعدہ طور پر مصروف ہو

syediftikharshah66@hotmail.com

جب کسی ملک کی فوج بیرونی و اندرونی محاذ پر اپنی قومی بقا اور سلامتی کی جنگ میں باقاعدہ طور پر مصروف ہو اپنے ہزاروں فوجی شہید کروا رہی ہو اور اندرونی محاذ پر موجود خطرناک اور سنگین فتنے کا سدباب کرنے میں کسی بھی قسم کی جانی اور مالی قربانی دینے کے لیے دل و جان سے تیار ہو تو قومی سطح پر موجود معزز اداروں کے سربراہ خواہ ان کا تعلق حزب اقتدار سے ہو یا حزب اختلاف سے اپنے باہمی سیاسی اختلاف کو بھلا کر قوم کو اس فتنے کے خاتمے تک متحد اور منظم کرکے اپنی افواج کو ہر قسم کی سپورٹ اور قوت عطا کرتے ہیں۔

قوم کو درپیش اس خطرناک فتنے سے پیدا شدہ انتہائی مخدوش حالات کا تجزیہ کرتے ہیں اور اپنے انتہائی وطن پرستی کے جذبے کو بروئے کار لاکر قومی سطح پر موجود سول اداروں میں معدوم ہوتے ہوئے حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دے کر ان کی کارکردگی کو بہتر سے بہترین بنانے کی بھرپور کوشش کرکے انھیں عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کے قابل بناتے ہیں یہ نہیں کہ ایسی جنگی صورت حال میں اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہوکر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا شروع کردیں۔ ماضی میں کی گئی سابقہ فوجی جرنیلوں کی خرابیوں کو عملی وژن کے ٹاک شوز کا محور اور مرکز بناکر نان ایشوز کو ایشوز بنائیں۔

چونکہ جب قومیں باقاعدہ جنگ میں مصروف ہوں تو معزز اداروں پر براجمان سیاسی رہنما کے غیر سنجیدہ اور غیر پختہ رویے وطن عزیز کو ناقابل نقصان پہنچانے کا باعث بن جاتے ہیں جوکہ ماضی میں بحیثیت قوم ہم بھگت چکے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آنے والی دنیا میں وطن سے بڑھ کر کوئی نایاب چیز نہیں ۔ یہی وہ چار دیواری ہے جس میں مستقل رہنے والے ہر شہری کو اس وطن کے قوانین کا احترام کرنے، ہر زندگی کی حفاظت، رہائش، خوراک، لباس جیسی انسانی بنیادی ضرورت کے حصول کو ریاست ممکن بناتی ہے تحریر اور تقریر کی آزادی، ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہونے، کاروبار کرنے، جلسہ کرنے، پرامن احتجاج کرنے اور ایسے بہت سے حقوق اور آزادیاں حاصل ہوتی ہیں۔

ثابت ہوا کہ ایک کامیاب ریاست ہی ایک کامیاب اور خوشحال اور ترقی پاتا ہوا معاشرہ تشکیل دیتی ہے۔ پھر ایسے کامیاب معاشرے ہی کامیاب اداروں کو جنم دیتے ہیں اور پھر وہ کامیاب ادارے اپنی کارکردگی سے کامیاب شخصیات کو جنم دیتے ہیں اور پھر وہ شخصیات اپنی محنت سے اپنی قوم کی ترقی کی کوششوں میں مصروف ہوجاتے ہیں یہ سرکل جاری رہتا ہے اور چند سالوں میں ایک عام سی ریاست اپنے اداروں میں پائی جانے والی مخلص، ایماندار، بے خوف اور وطن پرستی کی انتہا کو چھوتی ہوئی شخصیات کی کوششوں اور کاوشوں سے دنیا کی ترقی یافتہ قوم بن جاتی ہے لہٰذا مضبوط ادارے ہی کسی بھی ریاست کی مضبوطی کی ضمانت ہیں۔ مگر افسوس کہ اپنی آزادی کے 67 سال بعد بھی میرا وطن پاکستان سیاسی آئینی معاشی اور نہ ہی تہذیبی لحاظ سے ایک کامیاب فلاحی ریاست کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکا۔

اور اگر ہم نے اور ہمارے اداروں کے فیصلہ سازی پر فائز حکمرانوں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو وطن عزیز کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہونے کے لیے مزید کئی سال انتظار کرنا ہوگا۔ وہ قومیں جو وطن پرستی کے عظیم جذبات سے محروم ہوجائیں تو اجتماعیت سے انفرادیت کا سفر شروع ہوجاتا ہے ہر فرد مایوسی، الجھن اور خوف کے اندھیروں میں غرق ہوکر بے شمار نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے اور پھر ان بیماریوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے صرف اور صرف دولت ہی کو اپنی بقا اور اپنے وجود کو قائم رکھنے کی دوا سمجھ بیٹھتا ہے۔


وطن پرستی، بلند اخلاق، قومی و انسانی ہمدردی، معاشرتی اجتماعی بھائی چارہ، احساس ملی کے جذبات اتنے مفقود ہوجاتے ہیں کہ انسان انفرادیت کی راہ پر گامزن ہوکر اس پختہ یقین کی کیفیت میں ایک اہم فیصلہ کرلیتا ہے کہ دولت ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ دولت سے ایمان، انسانی خودداری، عزت و وقار سب کچھ خریدا جاسکتا ہے۔ دولت ہی انسان کا سب سے بہترین اور قابل بھروسہ دوست اور ساتھی ہے۔ کچھ رہے نہ رہے میری دولت باقی رہنی اور بڑھتی رہنی چاہیے۔

جب قوم کی تقدیر کی فیصلہ سازی پر مامور شخصیات اس روش اور راستے پر چلنے کو اپنا سب سے بڑا مقصد سمجھ کر اسے پانے کی جستجو میں مگن ہوجائیں اور روز قیامت کے دن کو ایک ناقابل عمل مفروضہ تصور کرلیں ان کے دل روز محشر کے خوف سے کانپنے کے بجائے اس حقیقت سے ہی منہ موڑے بیٹھے ہوں تو بھلا ایسی قومیں کہاں ترقی کے زینے طے کرکے اپنے عالمی برادری میں اعلیٰ مقام حاصل کرپاتی ہیں۔

جمہوریت اداروں کے وجود سے کام کرنے کا بہترین نظام حکمرانی ہے۔ملکی ادارے جس قدر منظم اور People Relief Oriented ہوں گے۔ عوام کا اعتماد اسی قدر جمہوریت پر مضبوط ہوگا عوامی فلاح اور بہبود کو سامنے رکھ کر بنائے گئے جمہوری ادارے اور ان کے محترم سربراہان جب تک عوام کی خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لیے تیزی سے سرگرم عمل رہیں گے عوام کا اعتماد ان پر مزید مستحکم ہوتا جائے گا مگر انتہائی شرمندگی کا مقام ہے کہ ہمارے ملک میں عوامی ترقی و خوشحالی سے متعلق تمام ادارے موجود ہیں مگر اس کے باوجود پوری قوم بحیثیت مجموعی تنزلی کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔

مثلاً محکمہ داخلہ کا پورا انتظامی اسٹرکچر اور اربوں روپوں کے اخراجات کے باوجود لا اینڈ آرڈر کی حالت انتہائی خوفناک، محکمہ انصاف ہوتے ہوئے بھی لاکھوں پاکستانی انصاف کے منتظر، بجلی، گیس جو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے اس کے ادارے موجود اربوں روپوں کے انتظامی اخراجات مگر شدید بحران کا شکار، زراعت کا محکمہ موجود اربوں روپوں کے اخراجات فصلیں Per-Acre پیداوار نہایت کم، پانی ہماری ضروریات کے مطابق موجود ادارے موجود اربوں روپوں کے انتظامی اخراجات مگر نشیبی علاقوں کی زمینیں بنجر، ہر دوسرے تیسرے سال میں سیلاب لاکھوں کیوسک پانی سمندر برد کردیتا ہے مگر اس پانی کو جمع کرکے ملک کی زمینوں کو سیراب کرنے کا بندوبست ہی نہیں کیا گیا۔

محکمہ خزانہ کا ادارہ جوکہ ملک سے اربوں ڈالر ٹیکس وصول کرنے کے اختیارات لیے بیٹھا، اربوں روپوں کے انتظامی اختیارات کا استحقاق رکھتا ہے مگر ٹیکس ان ہی پر مزید بڑھا دیتا ہے جو ریگولر دیتے ہیں کیا مجال ہے کہ وہ ان ارب پتیوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی حقیقی کوششیں کریں جو اپنی دولت اور اثاثوں کو فرضی ناموں پر منتقل کرکے اپنے اوپر واجب الادا ٹیکس دینے سے عشروں سے گریزاں اور قابل سزا عمل کیے بیٹھے ہیں۔ بینکنگ سسٹم موجود ہے عام پاکستانی اپنی رقوم پر سالانہ 8 فیصد کماکر بینک کو پندرہ سولہ فیصد منافع دینے کے بعد بھی شدید گرمی اور سردی میں طویل قطاروں میں کھڑے رہنے پر مجبور ہیں۔

صحت کے تو کیا کہنے اربوں روپوں کے انتظامی خرچوں کے باوجود عام پاکستانی کو اچھی صحت، اچھا علاج نہ دینے کے مجرمانہ فعل کا ارتکاب کرنے میں عشروں سے مصروف ہے۔ عوام کی کئی دفعہ خونی جدوجہد کے بدلے میں قائم ہونے والے جمہوری ادارے اربوں روپوں کے انتظامی اختیارات کا حق استعمال کرنے کے باوجود عوام کو حقیقی جمہوریت کے ثمرات پہنچانے میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔ منتخب رہنما جمہوری طریقہ کار کو اپنا کر عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے سڑکوں اور میڈیا پر بیٹھ کر عوامی خدمت میں مصروف عمل ہیں اور ایسے بیسیوں ادارے ہیں جو صرف عوامی دکھ درد کا ازالہ کرنے کے لیے ہی قائم کیے گئے تھے چند ایک کو چھوڑ کر تمام کے تمام اپنے حقیقی فرائض منصبی ادا کرنے میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔

جمہوریت اداروں کے ذریعے عوامی فلاح و بہبود ، ترقی اور خوشحالی دینے ہی کا نام ہے کوئی بھی حکومت جو عوام کے ووٹوں سے وجود میں آئی ہو اگر اس کے ادارے عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں ناکام ہوجائیں اور عوام الناس بھوک، پیاس، بے روزگاری کی آگ میں سلگتے رہیں تو ایسی حکومتی زیادہ دیر تک مسند اقتدار پر فائز رہنے کا اخلاقی اور جمہوری حق کھو دیتی ہیں لہٰذا ایسا کچھ کیا جائے جس سے پاکستانی قوم کو مایوسی سے نکلنے کی راہ ہموار ہوسکے۔ ورنہ بہت دیر ہوجائے گی!
Load Next Story