میاں صاحب کے مختصر مکالمے کا مطلب

'میں آپ کے لئے دعاگو ہوں اور آپ بھی مجھے اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔'

farooq.adilbhuta@gmail.com

میاں محمد نواز شریف ایوان صدر سے برآمد ہونے تو انھیں خوش گوار حیرت نے آ لیا۔ انھیں وہ زمانہ یاد آیا جب وہ باغ جناح لاہور میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ ایوان صدر کے مرکزی دروازے پر دکھائی دینے والے نے کبھی ان کی بیٹنگ میں بال کرائی تھی اور کبھی ان کی بالنگ میں بیٹنگ کا لطف لیا تھا۔ یہ سہیل چودھری تھے۔ سہیل چودھری کی صحافت لاہور سے شروع ہوئی۔ یوں انھیں پنجاب کی سیاست نیز مسلم لیگ ن و میاں صاحبان کے انداز سیاست کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا اور ان کے درمیان اعتماد کے رشتے بنے۔ یہ اعتماد کا رشتہ ہی تھا کہ میاں صاحب نے پہلی جلاوطنی ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو ابتدا میں جن دوستوں سے مشورہ کیا، ان میں ان کے علاوہ پرویز بشیر بھی شامل تھے۔ میاں محمد شہباز شریف نے ان دونوں کو ذاتی طور پر لندن مدعو کیا تھا۔

میاں صاحب نے آگے بڑھ کر سہیل چودھری کا ہاتھ بڑی گرم جوشی کے ساتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس اچانک ملاقات پر مسرت کا اظہار کیا۔ سہیل نے اس موقع پر انھیں خبر دی کہ اسلام آباد ان کی کمی محسوس کرتا ہے۔ سہیل جب یہ بات کہہ رہے تھے، میاں صاحب چلتے چلتے رک گئے اور ان کی طرف دیکھا۔ اس نظر میں مسرت تھی، سنجیدگی تھی یا اداسی؟ سہیل چودھری کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ اس لمحاتی کیفیت کے بعد میاں صاحب نے کہا:

'میں آپ کے لئے دعاگو ہوں اور آپ بھی مجھے اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔'

ممکن ہے کہ میاں صاحب اس دعا گوئی اور دعا خواہی کے بارے میں بھی زبان کھولتے لیکن اسی دوران میں صحافیوں کا ہجوم آمڈ آیا۔ صحافی دوستوں کو 26 ویں آئینی ترمیم کی پریشانی زیادہ تھی۔ انھوں نے اس بارے میں پے در پے سوال کر دیے تو میاں صاحب نے نگاہ اٹھا کر ان کی طرف دیکھا پھر کچھ کہے سنے بغیر گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔

میاں صاحب کافی عرصہ سے خاموش ہیں۔ کبھی کبھی بات کرتے بھی ہیں تو اس میں نا خوش گوار ماضی کی کچھ یادیں ہوتی ہیں اور کچھ میٹھا میٹھا سا شکوہ۔ ان کی ایسی باتوںکو کئی معنی پہنائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر یہ وہ خفا ہیں، مایوس ہیں یا جانے کیا۔ ان کی اس گفتگو کو بھی ایسے معنوں میں ہی لیا گیا۔ بعض دوستوں نے تو اسے حکومت کی کارکردگی سے بھی جوڑنے کی کوشش کی۔ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے لیکن کیا واقعی ایسا ہے کہ وہ خفا ہیں اور خود اپنے بھائی کی حکومت سے؟


سوالات جب بہت ہوں اور واضح جوابات موجود نہ ہوں تو ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟ اساتذہ کہتے ہیں کہ اشارے کنایے سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جوابات موجود بھی ہوں تو پھربھی کم از کم صحافیوں کی توجہ اشارے کنایوں پر ضرورہونی چاہیے۔ زبان سے نکلنے والے الفاظ اور گرد و پیش میں بے زبانی سے کلام کرتے ہوئے حوادث کے باہم تال میل ہی حقیقت واقعہ کی تفہیم ہوسکتی ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ جب کسی صحافی کا مشاہدہ اس سطح پر جا پہنچے، رپورٹنگ کی معراج اس کا خیر مقدم کرتی ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے میاں محمد نواز شریف ہمیں کیا سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ بچہ جب کچھ سمجھ دار ہونے لگتا ہے تو وہ اپنے بزرگوں سے ایک اصول سیکھتا ہے، یہ رازداری کا اصول ہے۔ رازداری یہ نہیں ہے کہ انسان پتھر بن جائے بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنے دل کی بات حقیقت بننے تک دل میں رکھنے کا اہل ہو یا پھر اس میں انسانوں کی پہچان ہو اور وہ بات وہاں کرے جہاں ضرورت ہو اور امانت میں خیانت ممکن نہ ہو یعنی راز کی حفاظت کی جاتی ہو۔ میاں صاحب کو کوچۂ سیاست میں آبلہ پائی کرتے ہوئے اب کوئی چار دہائیاں ہوتی ہیں۔ اس طویل عرصے کے دوران میں انھوں نے بہت کچھ دیکھا اور سیکھا ہے۔ اس دیار میں پھولوں کی سیج نے بھی ان کے قدم چومے ہیں اور آزمائشوں نے ان کا امتحان بھی لیا ہے۔ تجربات کی ان ہی کٹھالیوں سے گزرنے کے بعد اس شخص کے لیے اب کوئی حیرت باقی نہیں بچی لہٰذا اب میاں صاحب نہایت صبر اور بہت حد تک غیر جذباتی انداز میں اپنے قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ میاں صاحب کے ضمن میں ایک حقیقت تو یہ پیش نظر رہنی چاہیے لیکن کچھ پہلو اور بھی ہیں۔

بعض لوگوں نے خیال ظاہر کیا ہے اور چند اہم اہل قلم نے یہ اشارے بھی دیے ہیں کہ میاں محمد شہباز شریف کی حکومت اور میاں صاحب کے درمیان انداز فکر کا فرق ہے۔ کیا یہ تاثر درست ہے؟یہ اندازہ ان مقاصد سے آگاہی کے بعد ہی ہو سکتا ہے جو میاں صاحب کے ذہن میں ہیں۔ 2018 ء یا پی ٹی آئی کی حکومت کے بعد میاں صاحب قسم کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے؟ اگر وہ معلوم ہو سکے تو یہ گتھی بھی سلجھ جائے گی۔ پی ڈی ایم جن دنوں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بارے غور کر رہی تھی، میاں صاحب کی رائے اس سے مختلف تھی لیکن جب تحریک عدم اعتماد کا حتمی فیصلہ ہو گیا تو ان کی رائے یہ تھی کہ دو ضروری اصلاحات کرنے کے بعد ہمیں انتخابات کی طرف چلے جانا چاہیے۔ ان میں ایک کا تعلق انتخابی نظام سے تھا جس میں چھیڑ چھاڑ کر کے پی ٹی آئی انتخابی نظام کو یرغمال بنا لینا چاہتی تھی۔ میاں صاحب چاہتے تھے کہ ہم اگر حکومت میں آ رہے ہیں تو ہمیں ان خرابیوں کو دور کر دینا چاہیے نیز نیپ کے معاملات کو بھی۔ دوسرے وہ چاہتے تھے کہ عدالتی اصلاحات کر کے آئینی اور جمہوری عمل کو محفوظ اور مستحکم کردیا جائے۔ ان میں سے کچھ کام ہو چکے ہیں اور کچھ کی طرف پیش رفت جاری ہے۔ آئینی ترمیم کا معاملہ بھی اسی سے متعلق ہے۔ کیا یہ سب میاں صاحب کے انداز فکر کے مطابق ہو رہا ہے ؟ انسانی معاملات اور خاص طور پر سیاست ریاضی کی طرح دو اور دو چار نہیں کرتی بلکہ یہ کسی پہاڑی پگڈنڈی پر چلنے جیسی ہوتی ہے۔ اسی اصول کے مطابق اس ایجنڈے میں سے بہت کچھ ہو چکا ہے اور کچھ پر کام جاری ہے۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے ایک کام اس سے بھی بڑھ کر کیا ہے۔ گزشتہ حکومت قومی معیشت کو تباہی کے دہانے پر چھوڑ کے گئی تھی۔ خود اس حکومت کے ذمے داران یہ کہہ رہے تھے کہ اب ملک کو دیوالیہ ہونے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ وزیر اعظم نے چومکھی لڑائی لڑ کر نہ صرف یہ کہ ملک کو نہ صرف اس خطرے سے نکالاہے بلکہ معیشت کو بھی بہت حد تک مستحکم کر دیا۔ تمام اقتصادی اشاریے درست سمت میں ہیں۔ مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجیٹ میں آ چکی ہے۔ روپے کی قدر مسلسل اچھی ہو رہی ہے اور آنے والے دن مزید بہتری کی خبر دے رہے ہیں۔ کیا میاں محمد نواز شریف اس صورت حال سے مطمئن نہیں ہیں؟سیاست کی طرح معیشت کا معاملہ بھی سیدھانہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو میاں نواز شریف سے بہتر کون جانتا ہے۔ اس لیے ان کے غیر مطمئن ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انھوں نے ایک سے زائد مواقع پر میاں شہباز شریف کی اقتصادی کامیابیوں کی دل کھول کر تعریف کی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ میاں صاحب کبھی جھوٹے منھ کوئی بات نہیں کرتے جس کی تعریف کرنی ہوتی ہے، کرتے ہیں جس کی نہیں کرنی ہوتی، نظر انداز کر دیتے ہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب کی بے چینی کا سبب کیا ہے؟

اس پس منظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی فکر مندی کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ میاں شہباز شریف کی حکومت نے اقتصادی کرشمہ کر دکھایا ہے۔ قانونی معاملات میں بھی درست سمت میں پیش رفت ہو رہی ہے لیکن ان تمام کام یابیوں کے جو نتائج آنے چاہئیں، وہ پورے طور پر نہیں آ رہے یعنی بیانیہ جیسا ہونا چاہیے ، ویسا نہیں ہے۔ سیاسی انگیج منٹ میں بہتری کی بھی کافی گنجائش ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ میرے خیال میں سہیل چودھری کے ساتھ میاں محمد نواز شریف کے مختصر مکالمے کا مطلب یہی ہے۔

 
Load Next Story