7 ارب ڈالرکیلیےIMFکی 40کڑوی شرائط پر سر تسلیم خم
SIFCکے اختیارات کم،تمام خصوصی اقتصادی زونز مرحلہ وار ختم ہوں گے
حکومت نے آئی ایم ایف کو تحریری طور پر یقین دہانی کرائی کہ سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اختیارات کو کم کرتے ہوئے آزادانہ فنڈنگ ، شفافیت کو یقینی بنایا جائیگا، تمام خصوصی اقتصادی زونز مرحلہ وار ختم ہوں گے۔
پاکستان نے آئی ایم سے وعدہ کیا ہے کہ 2035 تک تمام خصوصی اقتصادی زونز کو حاصل مراعات کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ تیار کیا جائیگا۔یہ شرط سی پیک کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کے لیے پاکستانی اقدامات کو بری طرح روک دے گی۔
آئی ایم ایف کی سٹاف رپورٹ نے ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کی بھی تصدیق کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق شارٹ فال قابل اجازت حد سے 63 ارب روپے زیادہ تھا،محصولات کی کمی طے شدہ ہدف کے ایک فیصد سے زیادہ ہو جانے پرمخلوط حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ مشاورت سے منی بجٹ لانے کا وعدہ کیا تھا۔ پیشہ ورانہ خدمات فراہم کرنے والوں، ٹھیکیداروں، مشینری اور خام مال کی درآمد پر مزید ٹیکس لگانے اور مشروبات پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کے لیے جلد ہی منی بجٹ متعارف کرایا جائے گا۔
دستاویز میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ صوبوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ اب زرعی اجناس پر امدادی قیمت مقرر نہیں کر سکتے، سبسڈی نہیں دے سکتے ۔اس ماہ کے آخر تک زرعی انکم ٹیکس قوانین میں ترمیم کرنا ہو گی۔ 7 بلین ڈالر کے پیکیج کی خاطر بہت سے سرکاری اداروں میں اصلاحات سے اشرافیہ کی گرفت تو کمزور ہوگی تاہم ادارے اور ملازمتیں ختم ہونے سے عوام پر مزید غیر ضروری بوجھ بڑھے گا اور اداروں کے درمیان ،مرکز اور وفاقی اکائیوں کے دراڑیں بڑھ سکتی ہیں۔تحریری وعدے وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے حکومت پاکستان کی جانب سے کئے ہیں۔
یہ تمام شرائط میمورنڈم فار اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز میں درج ہیں، جس پر وزیر خزانہ محمداورنگزیب اور گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کے دستخط موجود ہیں۔ حکومت نے 12 ارب روپے سالانہ حاصل کرنے کے لیے سپلائیز پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ، 6 ارب روپے اضافی سالانہ ریونیو کے لیے سروسز اور مزید 6 ارب روپے کے معاہدوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس ایک، ایک فیصد بڑھانے کا عزم بھی کیا ہے۔
حکومت نے 28 ارب روپے سالانہ اکٹھا کرنے کے لیے ایریٹڈ اور شوگر ڈرنکس پر ایکسائز ڈیوٹی 5 فیصد بڑھانے کا بھی وعدہ کیا ہے۔وزیر خزانہ کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ پاکستان ٹیکس چھوٹ نہیں دے گا،تمام پانچوں حکومتوں کو ستمبر 2024 تک قومی مالیاتی معاہدے پر دستخط کرنے کی ضرورت تھی۔ وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے ساتھ وعد ہ کیا تھاکہ ہم مالی سال 2026 کے آخر تک زرعی اجناس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی قیمتوں کے تعین کو مرحلہ وار ختم کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ نے قیمتوں کے تعین کے بارے میں ایکسپریس ٹریبیون کی ایک اور رپورٹ کی تصدیق کی جس میں کہاگیا ہیامدادی قیمتوں کا اعلان کرنے سے گریز کیا جائیگا، مارکیٹ کی قیمتوں پر تمام لین دین ہوگا،قومی مالیاتی معاہدے میں محکموں کی تحلیل کو مشترکہ مفادات کونسل میں اتفاق رائے کے حصول سے مشروط کیا گیا ہے۔
فروری 2025 تک سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کی جائے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اعلیٰ سطح کے سرکاری اہلکاروں اور ان کیخاندان کے اثاثے ڈیجیٹلائز کئے جائیں جوایف بی آر کے ذریعے قابل رسائی ہوں۔
پاکستان نے آئی ایم سے وعدہ کیا ہے کہ 2035 تک تمام خصوصی اقتصادی زونز کو حاصل مراعات کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ تیار کیا جائیگا۔یہ شرط سی پیک کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کے لیے پاکستانی اقدامات کو بری طرح روک دے گی۔
آئی ایم ایف کی سٹاف رپورٹ نے ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کی بھی تصدیق کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق شارٹ فال قابل اجازت حد سے 63 ارب روپے زیادہ تھا،محصولات کی کمی طے شدہ ہدف کے ایک فیصد سے زیادہ ہو جانے پرمخلوط حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ مشاورت سے منی بجٹ لانے کا وعدہ کیا تھا۔ پیشہ ورانہ خدمات فراہم کرنے والوں، ٹھیکیداروں، مشینری اور خام مال کی درآمد پر مزید ٹیکس لگانے اور مشروبات پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کے لیے جلد ہی منی بجٹ متعارف کرایا جائے گا۔
دستاویز میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ صوبوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ اب زرعی اجناس پر امدادی قیمت مقرر نہیں کر سکتے، سبسڈی نہیں دے سکتے ۔اس ماہ کے آخر تک زرعی انکم ٹیکس قوانین میں ترمیم کرنا ہو گی۔ 7 بلین ڈالر کے پیکیج کی خاطر بہت سے سرکاری اداروں میں اصلاحات سے اشرافیہ کی گرفت تو کمزور ہوگی تاہم ادارے اور ملازمتیں ختم ہونے سے عوام پر مزید غیر ضروری بوجھ بڑھے گا اور اداروں کے درمیان ،مرکز اور وفاقی اکائیوں کے دراڑیں بڑھ سکتی ہیں۔تحریری وعدے وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے حکومت پاکستان کی جانب سے کئے ہیں۔
یہ تمام شرائط میمورنڈم فار اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز میں درج ہیں، جس پر وزیر خزانہ محمداورنگزیب اور گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کے دستخط موجود ہیں۔ حکومت نے 12 ارب روپے سالانہ حاصل کرنے کے لیے سپلائیز پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ، 6 ارب روپے اضافی سالانہ ریونیو کے لیے سروسز اور مزید 6 ارب روپے کے معاہدوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس ایک، ایک فیصد بڑھانے کا عزم بھی کیا ہے۔
حکومت نے 28 ارب روپے سالانہ اکٹھا کرنے کے لیے ایریٹڈ اور شوگر ڈرنکس پر ایکسائز ڈیوٹی 5 فیصد بڑھانے کا بھی وعدہ کیا ہے۔وزیر خزانہ کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ پاکستان ٹیکس چھوٹ نہیں دے گا،تمام پانچوں حکومتوں کو ستمبر 2024 تک قومی مالیاتی معاہدے پر دستخط کرنے کی ضرورت تھی۔ وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے ساتھ وعد ہ کیا تھاکہ ہم مالی سال 2026 کے آخر تک زرعی اجناس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی قیمتوں کے تعین کو مرحلہ وار ختم کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ نے قیمتوں کے تعین کے بارے میں ایکسپریس ٹریبیون کی ایک اور رپورٹ کی تصدیق کی جس میں کہاگیا ہیامدادی قیمتوں کا اعلان کرنے سے گریز کیا جائیگا، مارکیٹ کی قیمتوں پر تمام لین دین ہوگا،قومی مالیاتی معاہدے میں محکموں کی تحلیل کو مشترکہ مفادات کونسل میں اتفاق رائے کے حصول سے مشروط کیا گیا ہے۔
فروری 2025 تک سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کی جائے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اعلیٰ سطح کے سرکاری اہلکاروں اور ان کیخاندان کے اثاثے ڈیجیٹلائز کئے جائیں جوایف بی آر کے ذریعے قابل رسائی ہوں۔