مدح باقی ہے…عبدالحنان راجہ

برصغیر پاک و ہند میں احمد رضا رضوی نے فن نعت میں جو نام کمایا وہ انہی کا حصہ

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ

چمن دیر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ،

یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو،

بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو،

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام (محمد) سے ہے، بزم ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے۔جن کے حسن بے مثال کو متقدمین تو متقدمین ہمہ وقت جام دید پانے والے بھی بیان کرنے سے عاجز ہوں تو زبان حسان بے ساختہ کہہ اٹھتی ہے۔

واحسن منک لم ترقطۃ عینی

واجمل منک لم تلد النسا

خلقت مبرا من کل عیب

کانک قد خلقت کما تشا

یہ تو تھے احوال حسان، تو پھر بیان حسن سراپائے رسول متاخرین کے بس میں کہاں، فرصت شیرازی نے شاید اسی کی ترجمانی کی.

گر مصور صورت آں دلستاں خوابد کشید

لیک حیرانم کہ نازش چساں خوابد کشید

برصغیر پاک و ہند میں احمد رضا رضوی نے فن نعت میں جو نام کمایا وہ انہی کا حصہ، یوپی کی زبان کا لطف، ربط معنوی، بلند پایہ تخیل اور عشق میں ڈوبا کلام، سو ان کے کلام پر تضمین نگاری کبھی بھی آسان نہ تھی کہ اس کے لیے زبان و بیان پر قدرت، شعر پر دسترس، وارفتگی جذبات اور بلندی فکر درکار، واہ کیا جود و کرم پر، نصیر الدین نصیر گیلانی نے تضمین لکھی کہ حق ادا کر دیا.

جو تصور میں ترا پیکر زیبا دیکھیں،

روئے والشمس تکیں مطلع سیما دیکھیں،

کیوں بھلا کیوں کسی اور کا چہرہ دیکھیں،

تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں،

کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

ڈاکٹر محمد طاہر القادری سیرۃالرسول جلد دوئم میں لکھتے ہیں کہ'' شب ولادت ظاہر ہونے والے انقلابات اور صدیوں سے قائم نظام باطل کو درہم برہم کر دینے والے تغیرات اس بات کا اعلان تھے کہ اب ظلم، جبر اور باطل کی حکمرانی اور چیرہ دستی کے دن ختم ہونے کو ہیں۔آمد مصطفے دراصل مصطفوی انقلاب کی صبح درخشاں تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے یوم کامل میں بدل گئی۔پوتے کی ولادت کی خبر جب حضرت عبدالمطلب کو ملی تو فرط شوق سے بھاگے سیدہ آمنہ کے گھر پہنچے اور اپنے پوتے کے پرنور اور مبارک چہرہ کو چوما۔ اس موقع پر آپ کے یہ اشعار کتب سیرت کا حصہ۔

الحمد للہ الذی اعطانی، ھذا الغلام الطیب الاردان

قد ساد فی المھد علی الغلمان، اعیدہ بالبیت ذی الارکان

ولادت باسعادت کا ماہ مقدس اپنے ساتھ ایسی بہاریں لاتا ہے کہ جس سے کائنات کا ذرہ ذرہ جگمگا اور ہر دل مہک جاتا ہے۔بقول شاعر

نثار تیری چہل پہل کے ہزاروں عیدیں ربیع الاول،

سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں

سیدہ آمنہ کے گھر میں ایسے وجود مسعود کی آمد ہوئی اور ایسی باد صبا چلی کہ جس نے آتش کدہ ایران بجھا دیا اور یتیموں، بیواؤں، غم کے ماروں اور تمام دکھی انسانیت کے چہرے کھل اٹھے،مکہ کی ہوائیں مطہر ہوئیں معطر اور معنبر جسے شاعر نے اپنے الفاظ میں یوں پرویا۔

اتری ہے رقص کرتے ہوئے شبنمی ہوا، جنگو، لغت، گلاب، قلم روشنی ہوا


کعبہ حطیم، گنبد خضرا در رسول، پھر اس کے بعد اور کسے ڈھونڈتی ہوا

حضرت شفا اور دیگر نے ابتدائی لمحات میں آپ کے حسن دلربا کا نقشہ جو کھینچا سو کھینچا مگر چودہ صدیوں بعد کے شاعر نے بن دیکھے جو لکھا کمال لکھا

حسن ظاہر میں آپ اجمل ہیں، خلق باطن میں آپ اکمل ہیں،

بے تامل عقل یہ کہتی ہے، کل خلائق میں آپ افضل ہیں

آقا کریم کی مدحت میں زبانیں رطب اللسان اور قلم چلتے رہے۔دور رسالت مآب میں بھی عہد صحابہ میں بھی اور آج بھی۔حضرت ابوطالب کے اشعار '' وہ گورے مکھڑے والے کہ جن کے وسیلہ سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے فریاد رس اور بیواؤں کے سہارا ہیں کو عبداللہ بن عمر اکثر بطور حوالہ پیش کرتے۔ عہد حاضر کے نامور محقق اور سکالر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے نعت گو اصحاب کی تعداد چونتیس تک لکھی اور ان کے نعتیہ اشعار بھی جمع کر کے باقاعدہ ایک کتاب مرتب کی ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور مولائے کائنات کے نعتیہ اشعار عامر بن اکوع، اسود بن سریع، اسد بن زنیم ،کعب بن مالک رضوان اللہ اور دیگر شامل۔

برصغیر پاک و ہند کے شعرا نے اس باب میں قسمت پائی کہ کم و بیش ہر معروف شاعر نے نعت کے باب میں کچھ نہ کچھ حصہ پایا۔چند خوش بخت شعرا کے کلام قارئین کی نذر کہ جس سے وہ اپنے قلب و روح کی پاکی و تازگی کا سامان کر سکتے ہیں۔معروف نعت گو شاعر حسن رضا نے اپنی عقیدت کا اظہار یوں کیا۔

آسماں گر ترے تلووں کا نظارہ کرتا، روز اک چاند تصدق میں اتارا کرتا

دھوم زروں میں آنا الشمس کی پڑھ جاتی ہے، جس طرف سے ہے گذر چاند ہمارا کرتا

کسی نے اسم گرامی کی برکات کو بیان کیا تو خوب کیا.

نام محمد سے دلوں سے سرور ملتا ہے، نگاہ فکر کو تازہ شعور ملتا ہے

نصیب کیسا بھی ہو بوسیلہ محمد دیکر، خدا سے جو بھی مانگو ضرور ملتا ہے

کسی کو دل بینا نصیب ہوا تو خلد کو شہر رسول میں پایا تو کہا.

جن کی حسرت ہے کہ وہ خلد کا منظر دیکھیں، شہر طیبہ میں چلیں روضے کا سرور دیکھیں

بوئے اطہر سے معطر ہیں میرے آقا کی، باغ طیبہ کی بہاروں کا مقدر دیکھیں

احمد رضا کے کلام سے ایک موتی کا انتخاب مشکل امر ہوتا ہے،ان کے لکھے قصیدہ نور کو بے پناہ مقبولیت ملی کہ زبان رد عام۔

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑہ نور کا،

صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا.

باغ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا،

مست بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا

حکیم الامت نے عشق کا اظہار کیا تو یوں کیا۔

وہ دانائے سبل فخر الرسل مولائے کل کہ جس نے، غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا

نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر، وہی قرآن وہی فرقاں وہی یسیں وہی طحہ

غرض ہر ایک نے بتوفیق الہی مدحت رسول میں اپنا حصہ ڈالا ، مگر مخلوق عاجز اور ان کا ذکر ارفع و اعلیٰ، کہ جس کی کوئی حد ہے نہ کنارہ۔اختتام اس عاجزی اور بے بسی کے ساتھ کہ

تھکی ہے فکر رساں مدح باقی ہے، قلم ہے آبلہ پا مدح باقی ہے

ورق تمام ہوا مدح باقی ہے، اور عمر تمام لکھا مدح باقی ہے

آپ کا ذکر تاقیامت جاری رہے گا کہ میرے رب کا وعدہ ''ورفعنا لک ذکرک'' کا جو ہے.
Load Next Story