ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پاکستان آمد
کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر متنازع بیانات دیے جن کی کوئی حقیقت نہیں تھی
عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے پروگرام کے مطابق پاکستان پہنچے، ان کی آمد موسم خزاں میں بہار کی مانند ثابت ہوئی،ان کی آمد پر پاکستانی پرجوش تھے،اسلام آباد،لاہور سے ہوتے ہوئے وہ کراچی میں گورنر ہاؤس پہنچے،جہاں ہزاروں کی تعداد میں ان کے چاہنے والے جمع تھے۔سوشل میڈیا پر بھی دھوم مچی ہوئی ہے ،چند لوگ ایسے ضرور ہیں جو متنازعہ بیانات دے رہے ہیں،جن سے ڈاکٹر صاحب کا کوئی تعلق نہیں ،یہ وہ افراد ہیں جو اپنی کم علمی کے باعث اجالے، اندھیرے میں تفریق نہیں کر سکتے ہیں۔
اللہ قرآن میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن ان کے نزدیک دنیا محض کھیل تماشے کے سوا کچھ اور نہیں اللہ نے تماش بین کا تذکرہ قرآن پاک میں کیا ہے کہ جو دنیا کو عیش کی جگہ سمجھتے ہیں اور انھوں نے حق بات ماننے سے انکار کیا ہے، بے شک ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ڈاکٹر ذاکر نائیک کا سن پیدائش 1965 اور جنم بھومی ممبئی ڈونگری ہے۔ ان کے خاندان میں زیادہ تر لوگ طب کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے والد اور بھائی کا میڈیکل کے شعبے سے تعلق ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ میری ہائی اسکول سے حاصل کی، اس کے بعد انھوں نے ٹوپی والا نیشنل میڈیکل کالج سے میڈیکل کی تعلیم میں کامیابی حاصل کی۔
ان کا ذہن ابتدا ہی سے اسلام کی حقانیت اور تبلیغ دین کی طرف مائل تھا لہٰذا 1991 میں پریکٹس کو خیرباد کہا اور اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ ذاکر نائیک ایک ٹی وی چینل ''پیس ٹی وی'' کے نام سے چلا رہے ہیں جوکہ ان دنوں محض تنگ نظری اور نفرت کی بنا پر یہ اسلامی ادارہ بند کر دیا گیا ہے۔ مودی حکومت نے جس طرح کشمیریوں پر ظلم ڈھایا اور فلسطین پر بمباری کرنے کے حق میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ رہے بالکل ایسی ہی نفرت اور تعصب کی بنا پر ڈاکٹر ذاکر نائیک پر بھی بے بنیاد الزام تراشے، جس کا حقیقت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک دینی اعتبار سے ایک بلند قامت شخصیت ہیں، ان کے لاکھوں فالورز ہیں، ان میں مختلف ذات اور زبان، مذہب اور نسل سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے اچھے برے کردار سے ڈاکٹر صاحب کا کیا تعلق؟
دین کی راہ میں بے شک بہت سی پریشانیاں اور مسائل بھی سامنے آتے ہیں لہٰذا ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بھی ملائیشیا ہجرت کرنا پڑی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بے شمار ملکوں کا سفر کیا ہے اور قرآن پاک کی تعلیمات کی روشنی کو ان لوگوں تک پہنچایا جو اندھیروں میں بھٹک رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو وسیع علم سے نوازا ہے۔ تقابل ادیان میں ان کا کوئی مدمقابل نہیں، وہ بارہا پادریوں اور پنڈتوں سے مناظرہ کر چکے ہیں اور اللہ کے کرم سے ہر دفعہ وہ سرخرو ہوئے۔ تقابل ادیان اور اس کی تعلیمات میں انھیں یدِطولیٰ حاصل ہے۔ ادھر سوال آیا ادھر جواب حاضر قرآن پاک کی آیات اور دوسرے مذاہب کی کتابوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہیں۔ اپنے خطاب کے دوران انھوں نے ایک موقع پر بتایا کہ ان کی زبان میں پیدائشی لکنت تھی، لہٰذا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا رب الشرح لی صدری و یسرلی امری پڑھا کرتے تھے اور پھر اللہ نے ان کی مدد فرمائی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ اس طرح ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف جانے کا حکم دیا، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سمجھ گئے کہ انھیں ایک عظیم کام کرنے کا پابند کیا گیا ہے ۔ حضرت موسیٰ نے زبان کی گرہ کھولنے کی درخواست کی چونکہ بچپن میں زبان جلنے کی وجہ سے لکنت پیدا ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی بچپن میں لکنت کا شکار تھے، چونکہ داعی بننے کے خواہش مند اور قرآن کی تعلیم و تفسیر بیان کرنے کی اس قدر تمنا تھی کہ آپ نے ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پریکٹس کو جاری نہیں رکھا بلکہ اسلامی مشن کی طرف راغب ہوگئے اور دعوت اسلام کے لیے احمد دیدات کی شاگردی حاصل کرلی جو بہت بڑے مبلغ اسلام تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت، صحبت اور دعاؤں نے کام کر دکھایا اور آج ڈاکٹر صاحب دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کر چکے ہیں تاکہ لوگوں کے اذہان کو کفر کی تاریکی سے پاک کر سکیں۔ یہ اللہ کا حکم ہے امربالمعروف ونہی عن المنکر پر عمل کرکے نیکی کا حکم اور برائی سے روکیں۔
برائی سے بچنے کی ترغیب دینا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ سورۃ آل عمران میں ارشاد الٰہی ہے ''تم میں سے کچھ لوگ تو ضرور ہی ایسے ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں اور جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔'' ڈاکٹر صاحب کا شمار انھی حضرات میں ہوتا ہے جو اپنی زندگی کو دین کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، اس کا مطلب آسان لفظوں میں یہ ہے کہ سب مسلمان ایک نبیؐ کے امتی اور قرآن پاک کو ماننے والے ہیں۔ ایمان مجمل اور ایمان مفصل کی تفسیر ان کے خون میں شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے لاالہ الا اللہ کی وضاحت اس طرح کی جو عام لوگوں کی سمجھ میں بھی آگئی۔ لوگ محبت عقیدت اور ہم مذہب ہونے کے ناتے یہ بات خوشی خوشی کہتے اور دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اللہ تعالیٰ نے بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے، ان کی عزت اور احترام کرنا ہر اس شخص کا فرض ہے جو نیکی، بدی اور حق و باطل کے فرق کو سمجھتا ہے۔ کئی لوگوں نے کراچی میں ہونے والے اجتماع میں اسلام قبول کیا۔ انھی میں دین اسلام کا طالب علم انشال یوسف بھی تھا جو غیر مسلم تھا لیکن وہ اسلام قبول کرنے کا خواہش مند تھا۔ اس نے اپنے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ وہ اللہ کی وحدانیت کو سمجھتا ہے اور نماز بھی پڑھتا ہے۔ اس نے ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ پر بھرے مجمع میں اسلام قبول کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے شرکا کے سوالات کے اطمینان بخش جوابات دیے۔ کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر متنازع بیانات دیے جن کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ ایک عظیم شخصیت آپ کے ملک کو اللہ کے حکم سے عزت بخش رہی ہے ۔ وہ اسٹیٹ آف گیسٹ تھے۔ پاکستان کے لیے باعث فخر تھے۔
ان کی ایک اسلامی اور پڑوسی ملک کے بارے میں جو رائے تھی حالات اس کے برعکس نظر آئے۔ ہمارے ملک پاکستان کا نظام حکومت و عدالت بے حد ناقص ہے، اس کی وجہ سے ہر پاکستانی پریشان ہے۔ سود کی لعنت کو حکمران ختم کرنا نہیں چاہتے ہیں، اس طرح اللہ تعالیٰ سے کھلم کھلا جنگ کر رہے ہیں۔ پھر اس ملک میں رحمتیں کس طرح نازل ہوں گی۔ پاکستان چھوٹی بڑی برائیوں کی آماج گاہ بن گیا ہے، رشوت کے لین دین نے انصاف کا قتل اور قاتل کو چھوٹ دی ہوئی ہے۔ قاتل آزاد اور مقتول پناہ کی تلاش میں ہے۔
آج سڑکوں پر پاکستان کی ماں، بیٹیوں کی عزت کو رسوا کرنا حکمران اپنی شان سمجھتے ہیں، کمزوروں کو انصاف دینے کی بجائے جیل میں مقید کرنے کے لیے احکامات جاری کرتے ہیں۔ پاکستان جس مقصد کے لیے وجود میں آیا تھا اللہ اس کی پاسداری کرے۔
اللہ قرآن میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن ان کے نزدیک دنیا محض کھیل تماشے کے سوا کچھ اور نہیں اللہ نے تماش بین کا تذکرہ قرآن پاک میں کیا ہے کہ جو دنیا کو عیش کی جگہ سمجھتے ہیں اور انھوں نے حق بات ماننے سے انکار کیا ہے، بے شک ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ڈاکٹر ذاکر نائیک کا سن پیدائش 1965 اور جنم بھومی ممبئی ڈونگری ہے۔ ان کے خاندان میں زیادہ تر لوگ طب کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے والد اور بھائی کا میڈیکل کے شعبے سے تعلق ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ میری ہائی اسکول سے حاصل کی، اس کے بعد انھوں نے ٹوپی والا نیشنل میڈیکل کالج سے میڈیکل کی تعلیم میں کامیابی حاصل کی۔
ان کا ذہن ابتدا ہی سے اسلام کی حقانیت اور تبلیغ دین کی طرف مائل تھا لہٰذا 1991 میں پریکٹس کو خیرباد کہا اور اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ ذاکر نائیک ایک ٹی وی چینل ''پیس ٹی وی'' کے نام سے چلا رہے ہیں جوکہ ان دنوں محض تنگ نظری اور نفرت کی بنا پر یہ اسلامی ادارہ بند کر دیا گیا ہے۔ مودی حکومت نے جس طرح کشمیریوں پر ظلم ڈھایا اور فلسطین پر بمباری کرنے کے حق میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ رہے بالکل ایسی ہی نفرت اور تعصب کی بنا پر ڈاکٹر ذاکر نائیک پر بھی بے بنیاد الزام تراشے، جس کا حقیقت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک دینی اعتبار سے ایک بلند قامت شخصیت ہیں، ان کے لاکھوں فالورز ہیں، ان میں مختلف ذات اور زبان، مذہب اور نسل سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے اچھے برے کردار سے ڈاکٹر صاحب کا کیا تعلق؟
دین کی راہ میں بے شک بہت سی پریشانیاں اور مسائل بھی سامنے آتے ہیں لہٰذا ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بھی ملائیشیا ہجرت کرنا پڑی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بے شمار ملکوں کا سفر کیا ہے اور قرآن پاک کی تعلیمات کی روشنی کو ان لوگوں تک پہنچایا جو اندھیروں میں بھٹک رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو وسیع علم سے نوازا ہے۔ تقابل ادیان میں ان کا کوئی مدمقابل نہیں، وہ بارہا پادریوں اور پنڈتوں سے مناظرہ کر چکے ہیں اور اللہ کے کرم سے ہر دفعہ وہ سرخرو ہوئے۔ تقابل ادیان اور اس کی تعلیمات میں انھیں یدِطولیٰ حاصل ہے۔ ادھر سوال آیا ادھر جواب حاضر قرآن پاک کی آیات اور دوسرے مذاہب کی کتابوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہیں۔ اپنے خطاب کے دوران انھوں نے ایک موقع پر بتایا کہ ان کی زبان میں پیدائشی لکنت تھی، لہٰذا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا رب الشرح لی صدری و یسرلی امری پڑھا کرتے تھے اور پھر اللہ نے ان کی مدد فرمائی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ اس طرح ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف جانے کا حکم دیا، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سمجھ گئے کہ انھیں ایک عظیم کام کرنے کا پابند کیا گیا ہے ۔ حضرت موسیٰ نے زبان کی گرہ کھولنے کی درخواست کی چونکہ بچپن میں زبان جلنے کی وجہ سے لکنت پیدا ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی بچپن میں لکنت کا شکار تھے، چونکہ داعی بننے کے خواہش مند اور قرآن کی تعلیم و تفسیر بیان کرنے کی اس قدر تمنا تھی کہ آپ نے ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پریکٹس کو جاری نہیں رکھا بلکہ اسلامی مشن کی طرف راغب ہوگئے اور دعوت اسلام کے لیے احمد دیدات کی شاگردی حاصل کرلی جو بہت بڑے مبلغ اسلام تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت، صحبت اور دعاؤں نے کام کر دکھایا اور آج ڈاکٹر صاحب دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کر چکے ہیں تاکہ لوگوں کے اذہان کو کفر کی تاریکی سے پاک کر سکیں۔ یہ اللہ کا حکم ہے امربالمعروف ونہی عن المنکر پر عمل کرکے نیکی کا حکم اور برائی سے روکیں۔
برائی سے بچنے کی ترغیب دینا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ سورۃ آل عمران میں ارشاد الٰہی ہے ''تم میں سے کچھ لوگ تو ضرور ہی ایسے ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں اور جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔'' ڈاکٹر صاحب کا شمار انھی حضرات میں ہوتا ہے جو اپنی زندگی کو دین کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، اس کا مطلب آسان لفظوں میں یہ ہے کہ سب مسلمان ایک نبیؐ کے امتی اور قرآن پاک کو ماننے والے ہیں۔ ایمان مجمل اور ایمان مفصل کی تفسیر ان کے خون میں شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے لاالہ الا اللہ کی وضاحت اس طرح کی جو عام لوگوں کی سمجھ میں بھی آگئی۔ لوگ محبت عقیدت اور ہم مذہب ہونے کے ناتے یہ بات خوشی خوشی کہتے اور دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اللہ تعالیٰ نے بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے، ان کی عزت اور احترام کرنا ہر اس شخص کا فرض ہے جو نیکی، بدی اور حق و باطل کے فرق کو سمجھتا ہے۔ کئی لوگوں نے کراچی میں ہونے والے اجتماع میں اسلام قبول کیا۔ انھی میں دین اسلام کا طالب علم انشال یوسف بھی تھا جو غیر مسلم تھا لیکن وہ اسلام قبول کرنے کا خواہش مند تھا۔ اس نے اپنے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ وہ اللہ کی وحدانیت کو سمجھتا ہے اور نماز بھی پڑھتا ہے۔ اس نے ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ پر بھرے مجمع میں اسلام قبول کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے شرکا کے سوالات کے اطمینان بخش جوابات دیے۔ کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر متنازع بیانات دیے جن کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ ایک عظیم شخصیت آپ کے ملک کو اللہ کے حکم سے عزت بخش رہی ہے ۔ وہ اسٹیٹ آف گیسٹ تھے۔ پاکستان کے لیے باعث فخر تھے۔
ان کی ایک اسلامی اور پڑوسی ملک کے بارے میں جو رائے تھی حالات اس کے برعکس نظر آئے۔ ہمارے ملک پاکستان کا نظام حکومت و عدالت بے حد ناقص ہے، اس کی وجہ سے ہر پاکستانی پریشان ہے۔ سود کی لعنت کو حکمران ختم کرنا نہیں چاہتے ہیں، اس طرح اللہ تعالیٰ سے کھلم کھلا جنگ کر رہے ہیں۔ پھر اس ملک میں رحمتیں کس طرح نازل ہوں گی۔ پاکستان چھوٹی بڑی برائیوں کی آماج گاہ بن گیا ہے، رشوت کے لین دین نے انصاف کا قتل اور قاتل کو چھوٹ دی ہوئی ہے۔ قاتل آزاد اور مقتول پناہ کی تلاش میں ہے۔
آج سڑکوں پر پاکستان کی ماں، بیٹیوں کی عزت کو رسوا کرنا حکمران اپنی شان سمجھتے ہیں، کمزوروں کو انصاف دینے کی بجائے جیل میں مقید کرنے کے لیے احکامات جاری کرتے ہیں۔ پاکستان جس مقصد کے لیے وجود میں آیا تھا اللہ اس کی پاسداری کرے۔