’’آبشارِ حیات‘‘ کا شاعر وقاص عاجزؔ
وقاص عاجزؔ کی شاعری میں ایک خوبی یہ ہے کہ اُن کا لب و لہجہ ، زبان اور انداز بیان اپنا ہے
اُردو کی نئی غزل اپنے طرز اظہار میں ہی جدید نہیں ہے، اس کے مضامین میں بھی نئی دنیا اور اس کے مسائل کا ادراک موجود ہے، اگر ہم موجودہ عہد میں نئی غزل کہنے والے شعرا کی بات کریں تو وقاص عاجزؔ کا نام ادبی حلقوں میں کوئی اجنبی نام نہیں رہا۔ شعرو شاعری سے لگاؤ ان کے حسن ذوق کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے 2010 ء میں شعر کہنا شروع کیا، شاعری میں ان کے اُستاد پیرزادہ حمید صابری مرحوم تھے جو ریڈیو پاکستان لاہور میں میوزک لائبریرین تھے، ان کی تجویز کردہ کتب میں مظفر وارثی کی کتاب(شعرو قافیہ)، الطاف حسین حالی کی کتاب (مقدمہ شعرو شاعری) شامل ہیں۔ حمید صابری مرحوم جیسی نامور شخصیت سے انہیں فن سمجھنے اور سیکھنے میں مدد ملی، شعر گوئی کے دو ماہ بعد ہی جب مقامی شاعروں سے ملنے کی انہیں خواہش پیدا ہوئی توانہیں معلوم ہوا کہ یہ علمِ عروض ہے، لیکن وہ باقاعدہ تقطیع اور عروض سے آگہی نہیں رکھتے تھے پھر ایک کتاب علمِ عروض پر خریدی اورایک ماہ کی شدید فنی ریاضت کے بعد یہ فن خود ان پر آشکار ہونا شروع ہو گیا۔
وقاص عاجزؔ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ''حمید صابری سے فون پر جب رابطہ ہوا تو انہوں نے مطالعہ کا کہا اور میری تخلیقات پر ہر روز ایک ایک گھنٹہ تنقید کرتے تھے۔ یعنی ایک سال تک ہر روز رات کو تنقیدی نشست ہوتی تھی۔ وہ فون پر ہی مجھے وقت دیتے تھے اور کہتے آپ بہت اچھے شاعر ہیں۔ اس لیے آپ کو وقت دے رہا ہوں ۔''
وقاص عاجزؔ کی شاعری میں ایک خوبی یہ ہے کہ اُن کا لب و لہجہ ، زبان اور انداز بیان اپنا ہے انہوں نے کلاسیکل شعرا کی کلیات کو پڑھا ضرور ہے، مگر ان سے کوئی اکتسابِ فیض نہیں کیا، نہ اُن کی بنی بنائی روش پر چلے ہیں، صرف فکرو خیال اور موضوعات کی حد تک اُن کی تقلید ضرور کی ہے۔ ان کے پسندیدہ شعرا میں داغ دہلوی، ساغر صدیقی، احمد فراز اور بشیر بدر شامل ہیں۔
وقاص عاجزؔ کا اولین شعری مجموعہ ''آبشارِ حیات'' کے نام سے منصہ شہود پر آ چکا ہے جو غزلیات اور نظموں پر مشتمل ہیں۔ ہر شاعر کی طرح غزل ان کی محبوب صنف سخن ہے۔ ان کے گلزارِ سخن میں جو پھول کھلے ہیں وہ کاغذی نہیں ہیں، نہ اُن سے مشابہت رکھتے ہیں بلکہ اُن کی شاعری کے پھول ترو تازہ بھی ہیں اور خوشبو دار بھی۔ اس ضمن میں ان کے دو شعر ملاحظہ ہوں:
آندھیو! تم کو یہ معلوم نہیں ہے شاید
تنکے تنکے سے نشیمن کو بناتا ہے کوئی
......
پھول شاخوں پہ کھلے دیکھ کے بھی لطف ملے
یہ ضروری تو نہیں پھول کو توڑا جائے
وقاص عاجزؔ کی غزلوں کا بنیادی موضوع ''محبت ہے۔ اُن کے نزدیک محبت ہی وہ فارمولا ہے جس سے انسان نرم جذبات، نرم جوئی، دل گدازی اور ہم دردی پیدا کر سکتا ہے، ان کی نظر میں محبت ہی جاودانی ہے، اس لیے وہ اپنے کلام کے ذریعے ساری دنیا کو بتا دینا چاہتے ہیں ،محبت بے مثال ہے، محبت لا جواب ہے، محبت ہی انسانیت کا جذبہ بیدار کرتی ہے، محبت ایک دوسرے کا احترام کرنا سکھاتی ہے،محبت کا یہ شاعر محبت کو عام کرنے، مروت چاہت و اخلاص کے جاود سے حسد کی آگ میں جلنے والے دلوں میں وفا کے دیپ روشن کرنے کابخوبی ہنر جانتا ہے۔
اس محبت میں بھی ہوتے ہیں کرشمے کیا کیا
ایک پیاسے کی طرف دوڑ کے دریا جائے
......
ہم اہلِ محبت جسے کہتے ہیں دل
زمانے میں یارو وہ نایاب ہے دل
وقاص عاجزؔ کی غزلوں میں محبت کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں جذبات کی شدت قابل دید ہے۔ وقاص عاجزؔ کے شعری مجموعے ''آبشارِ حیات'' میں ایک حمد، ایک نعت، چودہ نظمیں، قطعات، فردیات اور غزلیں شامل ہیں۔ ان کی شاعری میں زندگی کے تمام رنگ اور رعنائیاں بھرپور انداز میں نظر آتی ہیں۔ ان کی غزلوں میں عام فہم بحریں اور ردیف، قافیے استعمال کیے گئے ہیں۔
اس کتاب میں کسی قسم کی آرا کو شامل کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ''ہر شخص مہنگائی کے طوفان کی وجہ سے بد حواس ہو چکا ہے، ایسے دگرگوں اور نامساعد حالات میں ادب کی راہ پر گامزن رہنا اور شوق کو منزل آشنا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ ادبی سفر کے آغاز میں کئی بار یہ خیال آیا کہ فکرِ سخن کی بجائے فکرِ روزگار پر توجہ دی جائے، تاکہ آسودگی اور خوشحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو۔
لیکن جتنی بار بھی اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی، مجھے منہ کی کھانی پڑی، کیفیات کا جب بھی غلبہ ہوا آمد نے میرے قلب و ذہن کو پوری طرح گرفت میں لے لیا اور بے ساختہ اشعار ہونے لگے۔'' وقاص عاجزؔ بہت سے ٹی وی چینلز اور مشاعروں میں اپنے کلام سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ آج ڈسکہ کی ادبی فضا وقاص عاجزؔ سمیت تصرف سجاد واحد، قمر اعجاز صدیقی، حنا حانی، غلامی محی الدین پھول اور افتخار شاہد جیسی شخصیات سے خوشگوار ہیں۔عاجزؔ اپنی عاجزانہ طبیعت کے وصف اپنی قدر بخوبی پہچانتے ہیں اس شعر کے مصداق:
اک ترے ساتھ سے ہی قدر بڑھی ہے میری
ایک ہٹ جائے اگر، صفر کا رہتا کیا ہے
داغؔ سے خواب میں شاباش ملی ہے عاجزؔ
ہم بتاتے ہیں تمہیں شاعری کرنا کیا ہے
''آبشارِ حیات'' وقاص عاجزؔ کا اُردو ادب میں ایک گوہر نایاب کا اضافہ ہے جسے یقینا علمی و ادبی حلقوں میں ستائش کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ آخر میں اس کی تازہ غزل سے دو اشعار پیش کرتے ہوئے اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا''اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔''
فاعلاتن نہ فاعلات کے ساتھ
شعر بنتا ہے کیفیات کے ساتھ
دل جو مائل ہیں شاعری کی طرف
ربط ہے اس کا نفسیات کے ساتھ
انہوں نے 2010 ء میں شعر کہنا شروع کیا، شاعری میں ان کے اُستاد پیرزادہ حمید صابری مرحوم تھے جو ریڈیو پاکستان لاہور میں میوزک لائبریرین تھے، ان کی تجویز کردہ کتب میں مظفر وارثی کی کتاب(شعرو قافیہ)، الطاف حسین حالی کی کتاب (مقدمہ شعرو شاعری) شامل ہیں۔ حمید صابری مرحوم جیسی نامور شخصیت سے انہیں فن سمجھنے اور سیکھنے میں مدد ملی، شعر گوئی کے دو ماہ بعد ہی جب مقامی شاعروں سے ملنے کی انہیں خواہش پیدا ہوئی توانہیں معلوم ہوا کہ یہ علمِ عروض ہے، لیکن وہ باقاعدہ تقطیع اور عروض سے آگہی نہیں رکھتے تھے پھر ایک کتاب علمِ عروض پر خریدی اورایک ماہ کی شدید فنی ریاضت کے بعد یہ فن خود ان پر آشکار ہونا شروع ہو گیا۔
وقاص عاجزؔ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ''حمید صابری سے فون پر جب رابطہ ہوا تو انہوں نے مطالعہ کا کہا اور میری تخلیقات پر ہر روز ایک ایک گھنٹہ تنقید کرتے تھے۔ یعنی ایک سال تک ہر روز رات کو تنقیدی نشست ہوتی تھی۔ وہ فون پر ہی مجھے وقت دیتے تھے اور کہتے آپ بہت اچھے شاعر ہیں۔ اس لیے آپ کو وقت دے رہا ہوں ۔''
وقاص عاجزؔ کی شاعری میں ایک خوبی یہ ہے کہ اُن کا لب و لہجہ ، زبان اور انداز بیان اپنا ہے انہوں نے کلاسیکل شعرا کی کلیات کو پڑھا ضرور ہے، مگر ان سے کوئی اکتسابِ فیض نہیں کیا، نہ اُن کی بنی بنائی روش پر چلے ہیں، صرف فکرو خیال اور موضوعات کی حد تک اُن کی تقلید ضرور کی ہے۔ ان کے پسندیدہ شعرا میں داغ دہلوی، ساغر صدیقی، احمد فراز اور بشیر بدر شامل ہیں۔
وقاص عاجزؔ کا اولین شعری مجموعہ ''آبشارِ حیات'' کے نام سے منصہ شہود پر آ چکا ہے جو غزلیات اور نظموں پر مشتمل ہیں۔ ہر شاعر کی طرح غزل ان کی محبوب صنف سخن ہے۔ ان کے گلزارِ سخن میں جو پھول کھلے ہیں وہ کاغذی نہیں ہیں، نہ اُن سے مشابہت رکھتے ہیں بلکہ اُن کی شاعری کے پھول ترو تازہ بھی ہیں اور خوشبو دار بھی۔ اس ضمن میں ان کے دو شعر ملاحظہ ہوں:
آندھیو! تم کو یہ معلوم نہیں ہے شاید
تنکے تنکے سے نشیمن کو بناتا ہے کوئی
......
پھول شاخوں پہ کھلے دیکھ کے بھی لطف ملے
یہ ضروری تو نہیں پھول کو توڑا جائے
وقاص عاجزؔ کی غزلوں کا بنیادی موضوع ''محبت ہے۔ اُن کے نزدیک محبت ہی وہ فارمولا ہے جس سے انسان نرم جذبات، نرم جوئی، دل گدازی اور ہم دردی پیدا کر سکتا ہے، ان کی نظر میں محبت ہی جاودانی ہے، اس لیے وہ اپنے کلام کے ذریعے ساری دنیا کو بتا دینا چاہتے ہیں ،محبت بے مثال ہے، محبت لا جواب ہے، محبت ہی انسانیت کا جذبہ بیدار کرتی ہے، محبت ایک دوسرے کا احترام کرنا سکھاتی ہے،محبت کا یہ شاعر محبت کو عام کرنے، مروت چاہت و اخلاص کے جاود سے حسد کی آگ میں جلنے والے دلوں میں وفا کے دیپ روشن کرنے کابخوبی ہنر جانتا ہے۔
اس محبت میں بھی ہوتے ہیں کرشمے کیا کیا
ایک پیاسے کی طرف دوڑ کے دریا جائے
......
ہم اہلِ محبت جسے کہتے ہیں دل
زمانے میں یارو وہ نایاب ہے دل
وقاص عاجزؔ کی غزلوں میں محبت کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں جذبات کی شدت قابل دید ہے۔ وقاص عاجزؔ کے شعری مجموعے ''آبشارِ حیات'' میں ایک حمد، ایک نعت، چودہ نظمیں، قطعات، فردیات اور غزلیں شامل ہیں۔ ان کی شاعری میں زندگی کے تمام رنگ اور رعنائیاں بھرپور انداز میں نظر آتی ہیں۔ ان کی غزلوں میں عام فہم بحریں اور ردیف، قافیے استعمال کیے گئے ہیں۔
اس کتاب میں کسی قسم کی آرا کو شامل کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ''ہر شخص مہنگائی کے طوفان کی وجہ سے بد حواس ہو چکا ہے، ایسے دگرگوں اور نامساعد حالات میں ادب کی راہ پر گامزن رہنا اور شوق کو منزل آشنا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ ادبی سفر کے آغاز میں کئی بار یہ خیال آیا کہ فکرِ سخن کی بجائے فکرِ روزگار پر توجہ دی جائے، تاکہ آسودگی اور خوشحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو۔
لیکن جتنی بار بھی اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی، مجھے منہ کی کھانی پڑی، کیفیات کا جب بھی غلبہ ہوا آمد نے میرے قلب و ذہن کو پوری طرح گرفت میں لے لیا اور بے ساختہ اشعار ہونے لگے۔'' وقاص عاجزؔ بہت سے ٹی وی چینلز اور مشاعروں میں اپنے کلام سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ آج ڈسکہ کی ادبی فضا وقاص عاجزؔ سمیت تصرف سجاد واحد، قمر اعجاز صدیقی، حنا حانی، غلامی محی الدین پھول اور افتخار شاہد جیسی شخصیات سے خوشگوار ہیں۔عاجزؔ اپنی عاجزانہ طبیعت کے وصف اپنی قدر بخوبی پہچانتے ہیں اس شعر کے مصداق:
اک ترے ساتھ سے ہی قدر بڑھی ہے میری
ایک ہٹ جائے اگر، صفر کا رہتا کیا ہے
داغؔ سے خواب میں شاباش ملی ہے عاجزؔ
ہم بتاتے ہیں تمہیں شاعری کرنا کیا ہے
''آبشارِ حیات'' وقاص عاجزؔ کا اُردو ادب میں ایک گوہر نایاب کا اضافہ ہے جسے یقینا علمی و ادبی حلقوں میں ستائش کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ آخر میں اس کی تازہ غزل سے دو اشعار پیش کرتے ہوئے اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا''اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔''
فاعلاتن نہ فاعلات کے ساتھ
شعر بنتا ہے کیفیات کے ساتھ
دل جو مائل ہیں شاعری کی طرف
ربط ہے اس کا نفسیات کے ساتھ