کراچی میں دونوں مظاہرے سیاسی تنظیموں کی ایما پر کیے گیے صوبائی وزیر داخلہ
شرپسند عناصر کی کوشش ہے کہ سندھ کے دارالخلافہ کراچی کے حالات کو بگاڑا جائے، ضیاالحسن لنجار
وزیرداخلہ سندھ ضیاالحسن لنجار نے کہا ہے کہ کراچی میں ایک روز سول سوسائٹی اور مذہبی جماعت کی جانب سے احتجاج اور مظاہروں کے اعلان پر تصادم کا خدشہ تھا اور دونوں مظاہری سیاسی تنظیموں کی ایما پر کیے گئے۔
سندھ کے وزیر داخلہ، قانون و پارلیمانی امور ضیا الحسن لنجار نے کراچی پریس کلب، کلفٹن تین تلوار اور میٹروپول میں مظاہروں سے متعلق بیان میں کہا ہے کہ مذکورہ مقامات پر مذہبی تنظیم اور سول سوسائٹی کی جانب سے مظاہروں کے اعلان پر امن وامان کے خدشات تھے اور کمشنر کراچی کی جانب سے دفعہ 144 کا نفاذ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی اور مذہبی جماعت کی جانب سے ایک ہی روز مظاہرے کی کال دی گئی تھی جس پر تصادم کا خدشہ تھا لہٰذا مظاہرین کو قانون پر عمل درآمد کرنا چاہیے تھا لیکن مظاہرہ کرنے والے افراد کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر بعض افراد کو حراست میں لیا، مظاہرین کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا گیا جس میں دو پولیس اہلکار زخمی ہیں جبکہ پولیس وین کو بھی نذر آتش کیا گیا، ریڈ زون میں جلاؤ گھیراؤ کیا گیا جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے، قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جن افراد نے قانون ہاتھ میں لیا ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی اور یہ کارروائی بلا تفریق رنگ، نسل اور مذہب کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پریس کلب پر مظاہرے کے دوران صحافیوں اور دیگر کے ساتھ پولیس کے ناروا سلوک اور تشدد پر تحقیقات کا حکم دیا ہے، جن پولیس اہلکاروں نے شناخت بتانے کے باوجود صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ان کے خلاف بھی سخت ایکشن ہوگا۔
ضیاالحسن لنجار نے کہا کہ ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کیس کی وجہ سے سول سوسائٹی اور تحریک لبیک کی جانب سے ایک ہی دن ایک ہی ٹائم پر مظاہروں کا اعلان کیا گیا، شاہنواز کیس کے حوالے سے حکومت سندھ نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے اور جو پولیس افسران، اہلکار اور عام لوگ بھی ملوث تھے ان کے خلاف شاہنواز کنبھر کے والدین کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرائی گئی اور پولیس اہلکاروں اور افسران کو گرفتار کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ چند پولیس افسران اور دیگر نے عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری کروائی ہوئی ہے، دیگر پولیس افسران جو ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے ان کی گرفتاریوں کے حوالے سے چھاپے مارے جارہے ہیں اور حکومت سندھ اپنے فرائض سے بری الزمہ نہیں ہے اور احسن طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شاہنواز کنبھر کے کیس کے سلسلے میں کسی سے بھی رعایت نہیں برتی جارہی ہے، آج کے مظاہروں کے دونوں اعلانات اور مظاہرے سیاسی تنظیموں کی ایما پر منعقد کیے گیے تھے ملکی صورت حال خاص طور پر کراچی کی صورت حال جس میں کچھ دن پہلے ائیرپورٹ کے قریب دہشت گردی کا بڑا واقعہ ہو چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں اندرونی، بیرونی اور ملک دشمن عناصر ملوث ہیں جن کی سوچ پاکستان کی سالمیت اور امن کو خطرے میں ڈالنا ہے اور معیشت کو نقصان پہنچایا جائے۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ شرپسند عناصر کی کوشش ہے کہ خاص طور پر سندھ کے دارالخلافہ کراچی کے حالات کو بگاڑا جائے، خصوصی طور پر ایسے وقت میں جب شنگھائی تعاون کانفرنس کے وفود دنیا بھر سے پہنچنا شروع ہوگئے ہیں اور ایسے میں سول سوسائٹی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے ریلی اور مظاہرے کا اعلان ایک محب وطن کے لیے سمجھ سے بالاتر ہے اور خصوصاً جب حکومت سندھ نے دفعہ 144 کا نفاذ کیا ہے۔
سندھ کے وزیر داخلہ، قانون و پارلیمانی امور ضیا الحسن لنجار نے کراچی پریس کلب، کلفٹن تین تلوار اور میٹروپول میں مظاہروں سے متعلق بیان میں کہا ہے کہ مذکورہ مقامات پر مذہبی تنظیم اور سول سوسائٹی کی جانب سے مظاہروں کے اعلان پر امن وامان کے خدشات تھے اور کمشنر کراچی کی جانب سے دفعہ 144 کا نفاذ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی اور مذہبی جماعت کی جانب سے ایک ہی روز مظاہرے کی کال دی گئی تھی جس پر تصادم کا خدشہ تھا لہٰذا مظاہرین کو قانون پر عمل درآمد کرنا چاہیے تھا لیکن مظاہرہ کرنے والے افراد کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر بعض افراد کو حراست میں لیا، مظاہرین کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا گیا جس میں دو پولیس اہلکار زخمی ہیں جبکہ پولیس وین کو بھی نذر آتش کیا گیا، ریڈ زون میں جلاؤ گھیراؤ کیا گیا جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے، قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جن افراد نے قانون ہاتھ میں لیا ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی اور یہ کارروائی بلا تفریق رنگ، نسل اور مذہب کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پریس کلب پر مظاہرے کے دوران صحافیوں اور دیگر کے ساتھ پولیس کے ناروا سلوک اور تشدد پر تحقیقات کا حکم دیا ہے، جن پولیس اہلکاروں نے شناخت بتانے کے باوجود صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ان کے خلاف بھی سخت ایکشن ہوگا۔
ضیاالحسن لنجار نے کہا کہ ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کیس کی وجہ سے سول سوسائٹی اور تحریک لبیک کی جانب سے ایک ہی دن ایک ہی ٹائم پر مظاہروں کا اعلان کیا گیا، شاہنواز کیس کے حوالے سے حکومت سندھ نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے اور جو پولیس افسران، اہلکار اور عام لوگ بھی ملوث تھے ان کے خلاف شاہنواز کنبھر کے والدین کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرائی گئی اور پولیس اہلکاروں اور افسران کو گرفتار کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ چند پولیس افسران اور دیگر نے عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری کروائی ہوئی ہے، دیگر پولیس افسران جو ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے ان کی گرفتاریوں کے حوالے سے چھاپے مارے جارہے ہیں اور حکومت سندھ اپنے فرائض سے بری الزمہ نہیں ہے اور احسن طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شاہنواز کنبھر کے کیس کے سلسلے میں کسی سے بھی رعایت نہیں برتی جارہی ہے، آج کے مظاہروں کے دونوں اعلانات اور مظاہرے سیاسی تنظیموں کی ایما پر منعقد کیے گیے تھے ملکی صورت حال خاص طور پر کراچی کی صورت حال جس میں کچھ دن پہلے ائیرپورٹ کے قریب دہشت گردی کا بڑا واقعہ ہو چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں اندرونی، بیرونی اور ملک دشمن عناصر ملوث ہیں جن کی سوچ پاکستان کی سالمیت اور امن کو خطرے میں ڈالنا ہے اور معیشت کو نقصان پہنچایا جائے۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ شرپسند عناصر کی کوشش ہے کہ خاص طور پر سندھ کے دارالخلافہ کراچی کے حالات کو بگاڑا جائے، خصوصی طور پر ایسے وقت میں جب شنگھائی تعاون کانفرنس کے وفود دنیا بھر سے پہنچنا شروع ہوگئے ہیں اور ایسے میں سول سوسائٹی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے ریلی اور مظاہرے کا اعلان ایک محب وطن کے لیے سمجھ سے بالاتر ہے اور خصوصاً جب حکومت سندھ نے دفعہ 144 کا نفاذ کیا ہے۔