کیا میں غلط سوچ رہی ہوں

میں نے ملاقات سے قبل تک منصور راہی کا شمار ناکوں چنے چبوانے والی کیٹیگری میں کیا ہوا تھا۔

فوٹو : فائل

گذشتہ دنوں میں ایک دوپہر میں گاڑی کی پچھلی نشست پر نیم دراز کیفیت میں اُس دن کا اخبار اُلٹ پلٹ رہی تھی کہ ایک خبر پر نظر پڑتے ہی میں یک دم چونک گئی۔ خبر کو نیچے سے اوپر تک لفظ بہ لفظ پڑھا۔ جتنی دیر خبر پڑھتی رہی دماغ میں بیتے وقت کی ریل گاڑی چھکا چھک چلتی رہی۔

خبر ختم ہوئی تو میں نے سوچا اس خبر کا اصل کردار منصور راہی تو بہت ہی بے ضرر اور معصوم سا شخص تھا۔

وہ صرف مصور تھا، مجسم مصور، اندر سے باہر تک اور باہر سے اندر تک، اس کے اندر مصور جیتا، بولتا، سوتا، جاگتا اور سانس لیتا تھا۔

مجھے یاد ہے پہلی بار میں ان سے ستر کی دہائی کے آخری سالوں میں ان سے ان کے گھر پر ملی تھی۔ ضیاء دور کا آغاز ہو چکا تھا۔ اخبار رسالے معتوب تھے اور ہمارا شمار بھی تقریباً بے روزگاروں ہی میں ہوتا تھا۔ وقت گزاری اور کچھ پیسے ہاتھ میں ہوں اس لیے میں ان دنوں ریڈیو پاکستان کی ورلڈ سروس پر ایک پروگرام ''ان سے ملیے'' کے نام سے کرتی تھی۔

اس پروگرام میں مصوری کے حوالے سے شہر کراچی کا کوئی مصور، مجسمہ ساز یا اس کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد ایسا نہ تھا جس کو میں نے انٹرویو نہ کیا ہو۔

کچھ آرٹسٹ پہلے فون پر ہی انٹرویو کے لیے تیار ہوجاتے، چند ایک دو چار فون کالز کے بعد کھلتے اور کچھ ایسے بھی تھے جو جوتیاں گھسواتے اور ناکوں چنے چبواتے تھے۔

میں نے ملاقات سے قبل تک منصور راہی کا شمار ناکوں چنے چبوانے والی کیٹیگری میں کیا ہوا تھا۔ ہر فون کال پر انٹرویو نہ دینے کا ایک نیا بہانہ سناتے تھے۔ کئی دنوں کی تگ ودو کے بعد اس بات پر راضی ہوا کہ میں پہلے حاجرہ زبیری یعنی ان کی بیگم سے گفت وشنید کروں اس کے بعد وہ فیصلہ کریں گے۔

میں نے بھاگتے چور کی لنگوٹی کو مضبوطی سے پکڑا اور اگلے دن ہی بمع سازوسامان پہنچ گئی۔ مجھے دیکھ کے مسکرائیں اور کہا آپ تو بالکل تیار بیٹھی تھیں۔

حاجرہ کم گو خاتون ہیں۔ گفتگو کے درمیان کوشش کرتی ہیں کہ گردن ہلانے ہی سے کام نکل جائے ورنہ تو بات کو کم سے کم الفاظ میں لپیٹ دیں لیکن جب بات سے بات چلی تو چلتی ہی گئی۔

ان کا کام، شوق، تعلیم، رنگ اور رنگوں کی آمیزش سے بننے والے شاہ کار، خوابدیدہ آنکھوں والے نسوانی چہرے، گفتگو کا ایک لا متناہی سلسلہ چلتا چلا گیا۔

میری یادوں میں ناظم آباد کاوہ صاف ستھرا، سیدھا سادہ گھر آج بھی زندہ ہے جس کے ایک کمرے میں عام سے صوفے پر بیٹھے ہم گفتگو کر رہے تھے۔ حاجرہ اپنی پینٹگنز کے اسرارورموز سمجھا رہی تھیں اور منصور برابر کے صوفے پر خاموش بیٹھے مسکراتے ہوئے سن رہے تھے۔

ہماری ڈیڑھ گھنے کی ریکارڈنگ کے اختتام پر منصور یوں گویا ہوئے،''میں اتنی اچھی اردو نہیں بول سکتا، میری ماں کی زبان بنگلہ ہے'' ( مطلب مادری زبان)۔

یہ چہرہ با چہرہ ملاقات اور حاجرہ کا انٹرویو یوں رنگ لایا کہ منصور راہی اگلے ہفتے بات کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔

گہراسانولا رنگ، پستہ قد، گھٹا ہوا بدن اور کچھ بولتی سی آنکھوں والے منصور راہی کا اصل تعلق دو لخت پاکستان کے مشرقی حصے سے تھا۔

وہ کالجوں، اسکولوں سے بھرے پرے، شرفا کے مسکن ناظم آباد میں واقع ''کراچی اسکول آف آرٹ میں آرٹ پڑھاتے تھے۔''

اْس دور کے ناظم آباد میں یہ کراچی کا پہلا اسکول آف آرٹ تھا۔ آج کے ان گنت آرٹسٹ اسی اسکول آف آرٹ کے بیل بوٹے ہیں۔

لکھنؤ اسکول آف آرٹ کی تعلیم یافتہ دو بہنوں رابعہ زبیری اور حاجرہ زبیری نے اسکول کا آغاز کراچی کے ایک بنگلے سے کیا تھا۔ اس اسکول کے اساتذہ میں ان دو بہنوں کے علاوہ افسر مدد نقوی، لبنٰی آغا، ناہید اور بہت سارے مصوروں اور سنگ تراشوں کے ساتھ منصور راہی بھی شامل تھے۔

منصور! ایک تو کم گو دوسرے زبان کا بھی مسئلہ تھا۔ بہت سنبھل، سنبھل کے زیر زبر کا خیال کرتے ہوئے دھیمی آواز میں بولتے تھے۔ آرٹ کی دنیا میں ان کا اپنا ایک انداز تھا، جسے cubicle آرٹ کہتے ہیں۔ یعنی ذہنی تصور کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے لمبے، چوکور، مستطیل خانوں اور رنگوں کی آمیزش سے کینوس کے سینے پر اتارا جاتا ہے۔ آرٹ کے اظہار کا یہ ایک مشکل انداز بیاں ہے۔ ان کے شاگردوں میں سے چند ایک نے کوشش کی ہے لیکن اس مقام تک پہنچنا تو دور کی بات ہے کوئی ان کی دھول تک بھی نہیں پہنچ سکا۔

انھوں نے زندگی بھر جتنا بھی کام کیا oil اور کینوس پر اسی اظہاریے میں کیا۔ بہت بڑے بڑے میورل بنائے، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کے اچھے وقتوں اور باذوق چیئرمینوں کے زمانے میں کراچی ایئر پورٹ پر واقع پی آئی اے کے دفاتر اور مختلف ہوٹلز منصور راہی کے شاہ کاروں سے سجے ہوتے تھے۔ آج بھی ایئرپورٹ ہوٹل کے مرکزی طعام خانے میں منصورراہی کا ایک دیواری سائیز میورل گئے دنوں کی یاد دلا رہا ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب رنگ دھندلا گئے ہیں اور مٹی زیادہ نمایاں ہوگئی ہے۔ سو وہ بھی کوئی پریشانی کی بات نہیں کہ پورے ملک کا یہ ہی حال ہے۔ آہستہ آہستہ زندگی کے رنگ دھندلا تے جا رہے ہیں اور دھواں مٹی نمایاں ہوتا جارہا ہے۔

دل نادان کی ہر دھڑکن ہر وقت کیا ہوگا، کیا ہوگا کی بیپ دیتی رہتی ہے۔


نادان ہے نا!

بات منصور راہی کے cubicle Art سے کدھر نکل گئی معذرت خواہ ہوں۔

آرٹ کی زبان میں cubicle medium of art میں کام کرنا ذرا مشکل medium ہے۔

ساٹھ کی دہائی میں قائم ہونے والے کراچی اسکول آف آرٹ کو اسی (۸۰) کی دہائی میں اس کے خیرخواہوں اور بنیاد رکھنے والوں کی مشترکہ کوششوں سے ایک قطعہ اراضی مل گیا اور سب کی محنت شاقہ کی بدولت اس زمین پر کراچی اسکول آف آرٹ کی اپنی نئی عمارت سر اُٹھانے لگی۔ جیسے، جیسے عمارت سر بلند ہوتی گئی ویسے، ویسے اس کی بنیادوں کے معمار اختلافات کا شکار ہوتے گئے۔

بات گھروں سے نکلی اور آرٹ کے گہواروں سے ہوتی ہوئی خبروں کا پیٹ بھرنے لگی۔ سمجھانے بجھانے والوں نے اپنا، اپنا کردار ادا کیا اور مزے لینے والوں نے مزے لیے۔

ایک صبح پتا چلا کہ منصور راہی اور حاجرہ زبیری کراچی شہر کو الوداع کہہ گئی ہیں۔ دونوں نے مل کے اسلام آباد میں نئے آشیانے کی آبیاری شروع کردی۔

اکثر پردہ ٹی وی پر منصور بچوں کو آرٹ پڑھاتے اور سمجھاتے نظر آتے۔ اسلام آباد سے آنے والی اچھی خبروں میں ان دونوں کی کامیاب نمائشوں کی خبریں بھی آنے لگیں۔

اس سارے وقت میں کراچی منصور اور حاجرہ کی نمائشوں سے تقریباً محروم ہی رہا۔ کراچی شہر کی مختلف آرٹ گیلریوں میں کبھی کبھار حاجرہ کے شاہ کار نظر آجاتے اور ہاتھوں ہاتھ بک جاتے۔

۲۰۰۸ کے زلزلے کے بعد ایک لمبے عرصے تک ہم دوستوں کا ایک گروپ زلزلہ زدگان کی سماجی، نفسیاتی بحالی کے لیے ان علاقوں میں ورکشاپ اور دیگر کاموں کے سلسلے میں جاتا آتا رہا۔ ہمارے گروپ میں مشہور ماہرنفسیات ڈاکٹر عنیزہ، مہر حسن، ڈاکٹرحیدر اور بہت سارے لوگ ہوتے تھے۔

ایسے ہی ایک وزٹ سے واپسی کے وقت چوکنڈی آرٹ گیلری والی زہرہ حسن کی بہن مہر حسن نے کہا ''حاجرہ زبیری کے گھر جانا ہے کچھ پینٹنگز اٹھانی ہیں۔''

ایک مدت بعد حاجرہ زبیری سامنے کھڑی تھیں اور وقت کی دھول کی تہیں نقش ونگار پر صاف نظر آرہی تھیں۔

وقت! ظالم وقت جو کہیں بھی کچھ بھی پہلے جیسا نہیں چھوڑتا۔

حاجرہ اپنی تصاویر دکھاتی رہیں اور کہتی رہیں،''زیادہ نہیں دے سکتی، بس ایک دو پسند کرلیں۔ اصل میں ہماری بیٹی امریکا میں ہے اور ہماری پینٹنگز کی مارکیٹنگ کا سارا کام اس نے سنبھال لیا ہے۔ وہ آن لائن فروخت کرتی ہے۔ ہماری بھی جان ہلکی ہو گئی۔ گیلیریوں کے نخروں اور دوسری بہت ساری باتوں سے جان چھٹ گئی۔''

ہم تہہ خانے میں کھڑے تھے اُس میں قطار سے بنے کمروں میں سے ایک کمرے سے روشنی کی ہلکی سی لکیر باہر تک آرہی تھی۔ گھر کے تہہ خانے میں بنی اس گیلری نما جگہ سے جب ہم اوپر آنے لگے تو روشنی کی لکیر والے کمرے میں منصور راہی بیٹھے نظر آرہے تھے۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے حاجرہ کہتی رہیں،''منصور اب بہت کم کام کرتے ہیں۔ آپ لوگ تو جانتے ہیں ان کی ایک پینٹنگ مکمل ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے اور مکمل ہوتے ہی فروخت ہوجاتی ہے۔ بس اللّہ کا کرم ہے اب اسلام آباد ہمیں پہچانتا ہے۔''

وقت کا پانی بہتا رہا اور بہے جا رہا ہے کہ اچانک اس خبر نے جھنجوڑ دیا،''منصور راہی کا بیٹا، باپ کے شاہ کار دھوکے سے دوستوں کی مدد سے لے گیا۔ اس غم میں منصور راہی کئی ماہ صاحب فراش رہنے کے بعد فانی دنیا سے منہ موڑ گئے اور اب ماں یعنی حاجرہ زبیری نے بیٹے کے خلاف شالیمار تھانے میں ایف آئی آر درج کراء ہے۔''

گذشتہ دو ہفتوں سے میں اسی سوچ بچار میں ہوں کہ جو منصور راہی ''رشتوں میں پڑتی دراڑ سے دل برداشتہ ہوکے شہر چھوڑ گئے تھے اپنے سپوت کو پینٹنگز کا سرمایہ سمیٹتے دیکھ کے کرب کے کس سمندر سے گزرے ہوں گے اور سبک نقوش دھیمے لہجے میں بات کرنے والی حاجرہ نے کیسے خود کو سنبھالا ہوگا۔''

میں سوچ تو خیر یہ بھی رہی ہوں کہ اپنی پینٹنگز کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے جو چاہت اور شیرینی حاجرہ کی زبان میں اپنی دختر کے لیے تھی اس میں بیٹے کا تو کہیں کوئی تذکرہ ہی نہ تھا۔

اور یہ بھی سوچ رہی ہوں کہ یہ بیٹے، جن سے نسلوں کی آبیاری کا کام لیا جاتا ہے اکثر ماؤں اور باپوں کی گفتگو میں سے غائب کیوں ہوجاتے ہیں؟

میری سوچوں کے اس بھنور میں نہ جانے کیوں بار بار نورمقدم، ظاہر جعفر، شاہ نواز میر اور سارہ کے چہروں کے ساتھ ساتھ ایسے ہی اور بہت سے چہرے ڈوب، ابھر رہے ہیں۔

کیا میں غلط سوچ رہی ہوں؟
Load Next Story