بلاول کا نواز شریف سے ٹیلفونک رابطہ آئینی ترمیم پر پیشرفت سے آگاہ کیا
دونوں رہنماؤں نے مجوزہ ترامیم پر تمام سیاسی جماعتوں سے اتفاق رائے حاصل کرنے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ(ن)کے صدر نواز شریف کا ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے جس میں ملکی سیاسی صورتحال اور 26ویں آئینی ترمیم پر پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ بلاول نے نواز شریف کو آئینی ترامیم کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ ہونے والی تازہ پیشرفت سے آگاہ کیا۔
پی پی پی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے 26 ویں ترمیم پر پیشرفت کے لیے درکار سیاسی اتفاق رائے حاصل کرنے پر غور کیا، ذرائع کے مطابق ذیلی کمیٹی کی رپورٹ پر بھی غور کیا گیا۔ بلاول نے سیاسی جماعتوں کے درمیان تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ پیپلزپارٹی کے ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں نے مجوزہ ترامیم پر تمام سیاسی جماعتوں سے اتفاق رائے حاصل کرنے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔
بلاول نے وسیع البنیاد سیاسی حمایت کی اہمیت کا اعادہ کرتے ہوئے زور دیا کہ ترمیم ملکی استحکام اور ترقی کے لیے اجتماعی معاہدے کی عکاس ہونی چاہیے۔ واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) کی حمایت اس لیے اہم ہے کیونکہ اس کے سینیٹ میں پانچ اور قومی اسمبلی میں آٹھ ووٹ ہیں۔ دوسری جانب آئینی ترامیم سے متعلق مختلف مسودوں کا جائزہ لینے کے لیے گزشتہ روز پارلیمانی کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی زیر صدارت اجلاس میں اہم حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے شرکت کی۔ ذیلی کمیٹی کا بنیادی مقصد مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) کی جانب سے پیش کردہ مجوزہ ترامیم پر اختلافات کو دور کرنا تھا۔ ذیلی کمیٹی کو خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے آج کے اجلاس میں ورکنگ پیپر پیش کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔
دریں اثنا بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس دراب پٹیل کے تجربے نے ثابت کیا کہ وفاقی آئینی عدالت پاکستان کی ضرورت تھی، جسٹس پٹیل نے آئینی عدالت کا خیال اپنے ساتھیوں، عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمان، سے شیئر کیا جو ان سے متفق تھے، ہماری تاریخ ان لوگوں کے لیے ناگوار ہے جو سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کا آغاز کرکٹ ورلڈ کپ اور عروج عمران خان اور جنرل فیض کے انقلاب پر ہوتا ہے۔
آئینی ارتقا ، منشور اور میثاق جمہوریت کے لیے ہمارا عزم ہمیشہ یکساں رہا ہے، چاہے وزیراعظم، ججز اور اسٹیبلشمنٹ کے چہرے بدلتے رہیں، ہم کبھی بھی آمروں اور ججز کی طرح من مانی سے قانون سازی یا آئین میں ترمیم نہیں کرتے، ہم اپنی نسلوں کے لیے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ہمیں 18ویں ترمیم میں 1973 کے آئین کو بحال کرنے کے لیے 30 سال لگے، 19ویں ترمیم اور پی سی او چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سیاست کے عدالتی فیصلوں کے نقصانات کو دور کرنے کے لیے تقریباً دو دہائیاں لگ چکی ہیں، 26 ویں ترمیم عجلت میں نہیں کی جا رہی بلکہ یہ کافی عرصہ پہلے ہی ہونی چاہیے تھی۔
جسٹس دراب پٹیل ان چار معزز ججوں میں شامل تھے جنہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو بری کیا، جسٹس دراب پٹیل نے بھٹو شہید کے عدالتی قتل کا حصہ بننے سے انکار کیا، چانسانی حقوق کمیشن پاکستان کے شریک بانی رہنے والے جسٹس پٹیل کا مؤقف تھا کہ قائد عوام کو سزا دینے کے لئے کوئی ثبوت نہیں تھا، جسٹس پٹیل بھٹو شہید کیس میں گواہ کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے تھے، دراب پٹیل نے یہ بھی کہا کہ بھٹو شہید کا ہائی کورٹ میں ان کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلانا ایک غلطی تھی، جسے تسلیم کرنے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو 45 سال لگے۔
جسٹس پٹیل نے 1981 میں آمر ضیا الحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا اور مستعفی ہونا پسند کیا، وہ اگر ایسا نہ کرتے تو وہ پاکستان کے چیف جسٹس بن جاتے۔ ادھر مسلم لیگ ن کے وفد نے کراچی میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترامیمی مسودے پر ایم کیو ایم کو اعتماد میں لیا۔ متحدہ نے بلدیاتی نظام کی اصلاحات اور اسے آئینی تحفظ فراہم کیے جانے، لاپتہ ساتھیوں کی بازیابی، سندھ کے شہری علاقوں میں ترقیاتی فنڈ فراہم کیے جانے کا اپنا مطالبہ دہرایا۔
میڈیا سے گفتگو میں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن نے پاکستان کے موجودہ اور مستقبل کے آئینی اور معاشرتی مسائل پر ساتھ چلنے کا اعادہ کیا ہے، مسلم لیگ ن کے وفد نے آئینی ترمیم پر ایم کیو ایم کی قیادت کو مْکمل آگاہی دی ہے جس پر مشاورتی عمل جاری رہے گا، ایم کیو ایم نے مجوزہ آئینی ترمیم پر مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے، دیرینہ مطالبات وفد کے سامنے پیش کردیے جس کو جلد از جلد عملی اقدمات اٹھانے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
احسن اقبال نے اپنی گفتگو میں کہا کہ آج کی اِس اہم ملاقات کا مقصد حکومت کی اہم اتحادی ایم کیو ایم کو اعتماد میں لینا ہے ،ایم کیو ایم کی جانب سے دی جانے والی تجاویز اور رہنمائی کو مْسلم لیگ ن قدر قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، بالخصوص عوامی اور سیاسی مسائل پر ایم کیو ایم کی آرا نے مْلک میں جمہوری استحکام کو دوام بخشا ہے ،بلدیاتی اختیارات سے متعلق ایم کیو ایم کی تجاویز مسلم لیگ ن کے دِل کے بہت قریب ہیں، ایم کیوایم کے بلدیاتی مسودے کو مجوزہ آئینی ترمیم کے بعد دیکھا جائے گا، پہلے اس ترمیم کو پا س کرایا جائے گا، پھرایم کیوایم کے بلدیاتی مسودے اور کوٹہ سسٹم پر ایک کمیٹی بنائی جائے گی۔
نیوز ایجنسیوں کے مطابق ایم کیو ایم وفد نے کہا کہ آئینی ترامیم اہم معاملہ ہے مگر جمہوریت کے لیے بلدیاتی قوانین میں ترامیم اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی بھی اہم ہے۔ لیگی وفد نے کہا کہ ایم کیو ایم کی بلدیاتی ترامیم کی وزیراعظم اور پوری مسلم لیگ ن حمایت کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ کوئی بھی جمہوریت پسند آئینی پیکج سے اختلاف نہیں کرسکتا، ہم عدلیہ کو سیاسی معاملات سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔
مجوزہ ائینی ترامیم کے حوالے سے ایم کیو ایم کو اعتماد لیا گیا ہے تحفظات بھی دور کریں گے۔ حکومتی آئینی ترمیم کے بعد بلدیاتی حکومتوں سے متعلق ایم کیوایم کے مجوزہ ترمیمی بل پر کام کریں گے، یقین دہانی کروائی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع کریں گے۔ ایم کیو ایم نے اپنے لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کی بات کی، اس پر بھی اقدامات کریں گے، ہم ان کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر اربن پیکیج پر بھی کام کر رہے ہیں، کوٹہ سسٹم کے معاملے پر قائمہ کمیٹی میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ خالد مقبول صدیقی نے کہاکہ ہماری دیرینہ جدوجہد آرٹیکل 140 اے کی بحالی ہے۔ موجودہ صورتحال اور آنے والے مستقبل میں ملک کی خوشحالی کیلیے مل کر کام کرنے کا اعادہ کیا ہے۔
پی پی پی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے 26 ویں ترمیم پر پیشرفت کے لیے درکار سیاسی اتفاق رائے حاصل کرنے پر غور کیا، ذرائع کے مطابق ذیلی کمیٹی کی رپورٹ پر بھی غور کیا گیا۔ بلاول نے سیاسی جماعتوں کے درمیان تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ پیپلزپارٹی کے ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں نے مجوزہ ترامیم پر تمام سیاسی جماعتوں سے اتفاق رائے حاصل کرنے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔
بلاول نے وسیع البنیاد سیاسی حمایت کی اہمیت کا اعادہ کرتے ہوئے زور دیا کہ ترمیم ملکی استحکام اور ترقی کے لیے اجتماعی معاہدے کی عکاس ہونی چاہیے۔ واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) کی حمایت اس لیے اہم ہے کیونکہ اس کے سینیٹ میں پانچ اور قومی اسمبلی میں آٹھ ووٹ ہیں۔ دوسری جانب آئینی ترامیم سے متعلق مختلف مسودوں کا جائزہ لینے کے لیے گزشتہ روز پارلیمانی کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی زیر صدارت اجلاس میں اہم حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے شرکت کی۔ ذیلی کمیٹی کا بنیادی مقصد مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) کی جانب سے پیش کردہ مجوزہ ترامیم پر اختلافات کو دور کرنا تھا۔ ذیلی کمیٹی کو خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے آج کے اجلاس میں ورکنگ پیپر پیش کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔
دریں اثنا بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس دراب پٹیل کے تجربے نے ثابت کیا کہ وفاقی آئینی عدالت پاکستان کی ضرورت تھی، جسٹس پٹیل نے آئینی عدالت کا خیال اپنے ساتھیوں، عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمان، سے شیئر کیا جو ان سے متفق تھے، ہماری تاریخ ان لوگوں کے لیے ناگوار ہے جو سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کا آغاز کرکٹ ورلڈ کپ اور عروج عمران خان اور جنرل فیض کے انقلاب پر ہوتا ہے۔
آئینی ارتقا ، منشور اور میثاق جمہوریت کے لیے ہمارا عزم ہمیشہ یکساں رہا ہے، چاہے وزیراعظم، ججز اور اسٹیبلشمنٹ کے چہرے بدلتے رہیں، ہم کبھی بھی آمروں اور ججز کی طرح من مانی سے قانون سازی یا آئین میں ترمیم نہیں کرتے، ہم اپنی نسلوں کے لیے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ہمیں 18ویں ترمیم میں 1973 کے آئین کو بحال کرنے کے لیے 30 سال لگے، 19ویں ترمیم اور پی سی او چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سیاست کے عدالتی فیصلوں کے نقصانات کو دور کرنے کے لیے تقریباً دو دہائیاں لگ چکی ہیں، 26 ویں ترمیم عجلت میں نہیں کی جا رہی بلکہ یہ کافی عرصہ پہلے ہی ہونی چاہیے تھی۔
جسٹس دراب پٹیل ان چار معزز ججوں میں شامل تھے جنہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو بری کیا، جسٹس دراب پٹیل نے بھٹو شہید کے عدالتی قتل کا حصہ بننے سے انکار کیا، چانسانی حقوق کمیشن پاکستان کے شریک بانی رہنے والے جسٹس پٹیل کا مؤقف تھا کہ قائد عوام کو سزا دینے کے لئے کوئی ثبوت نہیں تھا، جسٹس پٹیل بھٹو شہید کیس میں گواہ کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے تھے، دراب پٹیل نے یہ بھی کہا کہ بھٹو شہید کا ہائی کورٹ میں ان کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلانا ایک غلطی تھی، جسے تسلیم کرنے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو 45 سال لگے۔
جسٹس پٹیل نے 1981 میں آمر ضیا الحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا اور مستعفی ہونا پسند کیا، وہ اگر ایسا نہ کرتے تو وہ پاکستان کے چیف جسٹس بن جاتے۔ ادھر مسلم لیگ ن کے وفد نے کراچی میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترامیمی مسودے پر ایم کیو ایم کو اعتماد میں لیا۔ متحدہ نے بلدیاتی نظام کی اصلاحات اور اسے آئینی تحفظ فراہم کیے جانے، لاپتہ ساتھیوں کی بازیابی، سندھ کے شہری علاقوں میں ترقیاتی فنڈ فراہم کیے جانے کا اپنا مطالبہ دہرایا۔
میڈیا سے گفتگو میں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن نے پاکستان کے موجودہ اور مستقبل کے آئینی اور معاشرتی مسائل پر ساتھ چلنے کا اعادہ کیا ہے، مسلم لیگ ن کے وفد نے آئینی ترمیم پر ایم کیو ایم کی قیادت کو مْکمل آگاہی دی ہے جس پر مشاورتی عمل جاری رہے گا، ایم کیو ایم نے مجوزہ آئینی ترمیم پر مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے، دیرینہ مطالبات وفد کے سامنے پیش کردیے جس کو جلد از جلد عملی اقدمات اٹھانے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
احسن اقبال نے اپنی گفتگو میں کہا کہ آج کی اِس اہم ملاقات کا مقصد حکومت کی اہم اتحادی ایم کیو ایم کو اعتماد میں لینا ہے ،ایم کیو ایم کی جانب سے دی جانے والی تجاویز اور رہنمائی کو مْسلم لیگ ن قدر قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، بالخصوص عوامی اور سیاسی مسائل پر ایم کیو ایم کی آرا نے مْلک میں جمہوری استحکام کو دوام بخشا ہے ،بلدیاتی اختیارات سے متعلق ایم کیو ایم کی تجاویز مسلم لیگ ن کے دِل کے بہت قریب ہیں، ایم کیوایم کے بلدیاتی مسودے کو مجوزہ آئینی ترمیم کے بعد دیکھا جائے گا، پہلے اس ترمیم کو پا س کرایا جائے گا، پھرایم کیوایم کے بلدیاتی مسودے اور کوٹہ سسٹم پر ایک کمیٹی بنائی جائے گی۔
نیوز ایجنسیوں کے مطابق ایم کیو ایم وفد نے کہا کہ آئینی ترامیم اہم معاملہ ہے مگر جمہوریت کے لیے بلدیاتی قوانین میں ترامیم اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی بھی اہم ہے۔ لیگی وفد نے کہا کہ ایم کیو ایم کی بلدیاتی ترامیم کی وزیراعظم اور پوری مسلم لیگ ن حمایت کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ کوئی بھی جمہوریت پسند آئینی پیکج سے اختلاف نہیں کرسکتا، ہم عدلیہ کو سیاسی معاملات سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔
مجوزہ ائینی ترامیم کے حوالے سے ایم کیو ایم کو اعتماد لیا گیا ہے تحفظات بھی دور کریں گے۔ حکومتی آئینی ترمیم کے بعد بلدیاتی حکومتوں سے متعلق ایم کیوایم کے مجوزہ ترمیمی بل پر کام کریں گے، یقین دہانی کروائی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع کریں گے۔ ایم کیو ایم نے اپنے لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کی بات کی، اس پر بھی اقدامات کریں گے، ہم ان کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر اربن پیکیج پر بھی کام کر رہے ہیں، کوٹہ سسٹم کے معاملے پر قائمہ کمیٹی میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ خالد مقبول صدیقی نے کہاکہ ہماری دیرینہ جدوجہد آرٹیکل 140 اے کی بحالی ہے۔ موجودہ صورتحال اور آنے والے مستقبل میں ملک کی خوشحالی کیلیے مل کر کام کرنے کا اعادہ کیا ہے۔