مسافر ٹرینوں کے دروازے خراب فیملیاں غیر محفوظ چوری کی وارداتیں عام
سفر کے دوران یہ دیکھنے میں آیا کہ لوگوں کی آزادانہ بوگی میں آمدورفت ہو رہی ہے
پاکستان ریلوے کے ماتحت چلنے والی مسافر ٹرینوں میں اکثر بوگیوں میں داخلی اور خارجی دروازوں کے لاک خراب ہونے کی شکایات عام ہیں۔
دوران سفر ریلوے پولیس اور عملے کی غفلت کی وجہ سے سامان فروخت کرنے والے اور دیگر لوگ اسٹیشنز سے بوگیوں میں چڑھ کر یا اکنامی کلاس میں سفر کرنے والے کئی مسافر آزادانہ دیگر بوگیوں میں گھومتے ہیں جس کی وجہ سے مسافر فیملیاں خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں جبکہ سامان چوری ہونے اور جیب کٹنے کے واقعات عام ہیں۔
ریلوے پولیس کا کہنا ہے کہ ٹرینوں میں سیکیورٹی کے حوالے سے انتظامات کو مربوط کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال چوری اور جیب کٹنے کے 240 سے 300 کے درمیان واقعات رپورٹ ہوئے اور رواں سال اب تک 150 سے زائد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں، ایکسپریس ٹریبیون نے پاکستان ریلوے کی مسافر ٹرینوں میں دروازوں کے خراب ہونے ، لوگوں کی آزادانہ نقل و حمل اور چوری کے واقعات کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی۔ راولپنڈی سے تیز گام میں کراچی آنے والی خاتون پروین بی بی نے بتایا کہ وہ کراچی میں کپڑوں کی فروخت کا کام کرتی ہیں۔ اپنے عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے فیملی کے ہمراہ بائے روڈ بذریعہ بس راولپنڈی گئیں اور واپسی کا سفر مسافر ٹرین تیز گام کی اکنامی بوگی میں کیا۔
اکنامی کلاس کی حالت بہت ابتر تھی۔ اس کے دروازوں کے لاک ٹوٹے ہوئے تھے اور سفر کے دوران یہ دیکھنے میں آیا کہ لوگوں کی آزادانہ بوگی میں آمدورفت ہو رہی ہے۔ سفر کے دوران بوگی میں رش ہونے کی وجہ سے ان کا پرس بھی چوری ہو گیا۔ یہ واقعہ رات کے کسی پہر میں ہوا۔ تاہم پرس میں زیادہ نقدی نہیں تھی۔ اسی لیے رپورٹ نہیں کی۔
کراچی سے بہاولپور بذریعہ قراقرم ٹرین جانے والے پنجاب کالونی کے رہائشی محمد فیصل نے بتایا کہ وہ کسی ایمرجنسی کے سبب آبائی علاقے بہاولپور فیملی کے ہمراہ گئے ، جس کے لیے اے سی بزنس کلاس میں چار افراد کا ٹکٹ بک کیا جو فی کس 5650 روپے کا تھا۔ تاہم بزنس کلاس میں یہ دیکھنے میں آیا کہ فیملی کیبن ہونے کے باوجود ٹرین میں اکنامی کلاس کے مسافر اور سامان بیچنے والے آزادانہ گھومتے رہتے ہیں جبکہ بوگی کے دروازوں کا لاک بھی خراب تھا۔
انھوں نے کہا کہ اے سی اسٹینڈرڈ اور بزنس کلاس کی بوگیوں کے داخلی اور خارجی دروازے بند نہیں کیے جاتے ہیں۔ مسافر ٹرین میں کون سوار ہو رہا ہے ، یہ معلوم نہیں چلتا۔ یہ ایک بڑا سیکیورٹی رسک ہے۔ پاکستان ریلوے کے ایک سابق ٹکٹ چیکر محمد سلیم نے بتایا کہ مسافروں کی یہ شکایت درست ہے کہ ٹرین میں سہولیات کی کمی ہوتی ہے اور سیکیورٹی کے موثر انتظامات نہیں ہوتے۔
انھوں نے کہا کہ سیکیورٹی قوانین کے مطابق جب مسافر ٹرین روانہ ہوتی ہے تو تمام بوگیوں کے داخلی اور خارجی دروازوں کو بند کر دینا چاہیے۔ مسافر ٹرینوں میں مینوئل لاک لگے ہوئے ہیں۔ریلوے ورکرز یونین کے چیئرمین منظور رضی نے بتایا کہ پاکستان ریلوے کے ماتحت 18 ٹرینیں چل رہی ہیں۔ تین بڑی ٹرینیں عوام ایکسپریس ، پاکستان اور خیبر میل ہیں ، جن میں 20 بوگیاں لگتی ہیں۔
باقی ٹرینوں میں 13 سے 15 بوگیاں لگائی جاتی ہیں۔ ان ٹرینوں میں 1000 سے 1500 فی ٹرین سفر کرتے ہیں۔ مختلف ٹرینوں میں اکنامی ، اے سی اسٹینڈرڈ ، اے سی بزنس اور سیلیپرز بو گیاں لگی ہوتی ہیں۔ ان کا کرایہ اسٹاپ کے حساب سے الگ الگ ہوتا ہے ، جو 3ہزار سے 13 ہزار تک ہے۔
لوگوں کی آزادانہ نقل و حمل ، جیب کٹنے اور چوری کے واقعات کی شکایات عام ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ریلوے حکام کی غفلت کے سبب چیکنگ کے عمل کا نہ ہونا ٹرین کے لیے سیکیورٹی رسک ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ ریلوے ہیڈکوارٹرز کی ہدایات کے مطابق مسافر بوگیوں میں دروازوں کے لاک کو درست کیا جا رہا ہے اور ان کی اپ گریڈیشن ہو رہی ہے اور انچارج گارڈ کو ہدایات کی گئی ہے کہ وہ دوران سفر سکیورٹی کے انتظامات بہتر رکھیں ،پاکستان ریلوے پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ ہر مسافر ٹرین میں ڈویژن کی سطح پر ایک افسر سمیت 6 سے 8 پولیس اہلکار سکیورٹی کے لیے موجود ہیں اور ٹرین کی روانگی سے قبل بم ڈسپوزل اسکواڈ ٹرین کی سرچنگ کرتا ہے جبکہ اسٹیشنوں پر مسافروں کے داخل ہونے سے قبل ان کو واک تھرو گیٹ سے گزارہ جاتا ہے اور ضرورت پڑنے پر سامان کی تلاشی بھی لی جاتی ہے۔
دوران سفر پولیس اہلکار مستقل ٹرین میں گشت کرتے ہیں اور وہ بوگیوں کے دروازے بند کروادیتے ہیں لیکن مسافر انھیں کھول لیتے ہیں۔ پولیس والوں کو یہ ہدایات کی گئی ہے کہ غیر متعلقہ افراد کی آمد و رفت کو روکیں اور احکامات نہ ماننے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔
دوران سفر ریلوے پولیس اور عملے کی غفلت کی وجہ سے سامان فروخت کرنے والے اور دیگر لوگ اسٹیشنز سے بوگیوں میں چڑھ کر یا اکنامی کلاس میں سفر کرنے والے کئی مسافر آزادانہ دیگر بوگیوں میں گھومتے ہیں جس کی وجہ سے مسافر فیملیاں خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں جبکہ سامان چوری ہونے اور جیب کٹنے کے واقعات عام ہیں۔
ریلوے پولیس کا کہنا ہے کہ ٹرینوں میں سیکیورٹی کے حوالے سے انتظامات کو مربوط کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال چوری اور جیب کٹنے کے 240 سے 300 کے درمیان واقعات رپورٹ ہوئے اور رواں سال اب تک 150 سے زائد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں، ایکسپریس ٹریبیون نے پاکستان ریلوے کی مسافر ٹرینوں میں دروازوں کے خراب ہونے ، لوگوں کی آزادانہ نقل و حمل اور چوری کے واقعات کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی۔ راولپنڈی سے تیز گام میں کراچی آنے والی خاتون پروین بی بی نے بتایا کہ وہ کراچی میں کپڑوں کی فروخت کا کام کرتی ہیں۔ اپنے عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے فیملی کے ہمراہ بائے روڈ بذریعہ بس راولپنڈی گئیں اور واپسی کا سفر مسافر ٹرین تیز گام کی اکنامی بوگی میں کیا۔
اکنامی کلاس کی حالت بہت ابتر تھی۔ اس کے دروازوں کے لاک ٹوٹے ہوئے تھے اور سفر کے دوران یہ دیکھنے میں آیا کہ لوگوں کی آزادانہ بوگی میں آمدورفت ہو رہی ہے۔ سفر کے دوران بوگی میں رش ہونے کی وجہ سے ان کا پرس بھی چوری ہو گیا۔ یہ واقعہ رات کے کسی پہر میں ہوا۔ تاہم پرس میں زیادہ نقدی نہیں تھی۔ اسی لیے رپورٹ نہیں کی۔
کراچی سے بہاولپور بذریعہ قراقرم ٹرین جانے والے پنجاب کالونی کے رہائشی محمد فیصل نے بتایا کہ وہ کسی ایمرجنسی کے سبب آبائی علاقے بہاولپور فیملی کے ہمراہ گئے ، جس کے لیے اے سی بزنس کلاس میں چار افراد کا ٹکٹ بک کیا جو فی کس 5650 روپے کا تھا۔ تاہم بزنس کلاس میں یہ دیکھنے میں آیا کہ فیملی کیبن ہونے کے باوجود ٹرین میں اکنامی کلاس کے مسافر اور سامان بیچنے والے آزادانہ گھومتے رہتے ہیں جبکہ بوگی کے دروازوں کا لاک بھی خراب تھا۔
انھوں نے کہا کہ اے سی اسٹینڈرڈ اور بزنس کلاس کی بوگیوں کے داخلی اور خارجی دروازے بند نہیں کیے جاتے ہیں۔ مسافر ٹرین میں کون سوار ہو رہا ہے ، یہ معلوم نہیں چلتا۔ یہ ایک بڑا سیکیورٹی رسک ہے۔ پاکستان ریلوے کے ایک سابق ٹکٹ چیکر محمد سلیم نے بتایا کہ مسافروں کی یہ شکایت درست ہے کہ ٹرین میں سہولیات کی کمی ہوتی ہے اور سیکیورٹی کے موثر انتظامات نہیں ہوتے۔
انھوں نے کہا کہ سیکیورٹی قوانین کے مطابق جب مسافر ٹرین روانہ ہوتی ہے تو تمام بوگیوں کے داخلی اور خارجی دروازوں کو بند کر دینا چاہیے۔ مسافر ٹرینوں میں مینوئل لاک لگے ہوئے ہیں۔ریلوے ورکرز یونین کے چیئرمین منظور رضی نے بتایا کہ پاکستان ریلوے کے ماتحت 18 ٹرینیں چل رہی ہیں۔ تین بڑی ٹرینیں عوام ایکسپریس ، پاکستان اور خیبر میل ہیں ، جن میں 20 بوگیاں لگتی ہیں۔
باقی ٹرینوں میں 13 سے 15 بوگیاں لگائی جاتی ہیں۔ ان ٹرینوں میں 1000 سے 1500 فی ٹرین سفر کرتے ہیں۔ مختلف ٹرینوں میں اکنامی ، اے سی اسٹینڈرڈ ، اے سی بزنس اور سیلیپرز بو گیاں لگی ہوتی ہیں۔ ان کا کرایہ اسٹاپ کے حساب سے الگ الگ ہوتا ہے ، جو 3ہزار سے 13 ہزار تک ہے۔
لوگوں کی آزادانہ نقل و حمل ، جیب کٹنے اور چوری کے واقعات کی شکایات عام ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ریلوے حکام کی غفلت کے سبب چیکنگ کے عمل کا نہ ہونا ٹرین کے لیے سیکیورٹی رسک ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ ریلوے ہیڈکوارٹرز کی ہدایات کے مطابق مسافر بوگیوں میں دروازوں کے لاک کو درست کیا جا رہا ہے اور ان کی اپ گریڈیشن ہو رہی ہے اور انچارج گارڈ کو ہدایات کی گئی ہے کہ وہ دوران سفر سکیورٹی کے انتظامات بہتر رکھیں ،پاکستان ریلوے پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ ہر مسافر ٹرین میں ڈویژن کی سطح پر ایک افسر سمیت 6 سے 8 پولیس اہلکار سکیورٹی کے لیے موجود ہیں اور ٹرین کی روانگی سے قبل بم ڈسپوزل اسکواڈ ٹرین کی سرچنگ کرتا ہے جبکہ اسٹیشنوں پر مسافروں کے داخل ہونے سے قبل ان کو واک تھرو گیٹ سے گزارہ جاتا ہے اور ضرورت پڑنے پر سامان کی تلاشی بھی لی جاتی ہے۔
دوران سفر پولیس اہلکار مستقل ٹرین میں گشت کرتے ہیں اور وہ بوگیوں کے دروازے بند کروادیتے ہیں لیکن مسافر انھیں کھول لیتے ہیں۔ پولیس والوں کو یہ ہدایات کی گئی ہے کہ غیر متعلقہ افراد کی آمد و رفت کو روکیں اور احکامات نہ ماننے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔