علاقائی سطح پر سرگرم کردار سے داخلی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی
اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس
وطن عزیز میں 15 سے 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا سربراہی اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ اس کے ذریعے رکن ممالک کے درمیان علاقائی و عالمی سطح پر کئی شعبوں میں مذید تعاون فروغ پائے گا۔ باہمی تجارت میں اضافہ ہوگا اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع بھی جنم لیں گے۔ تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان سماجی، اقتصادی اور ثقافتی روابط بڑھانے کے لیے بھی یہ اجلاس ممدومعاون ثابت ہو گا۔ اس اجلاس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی حکومتوں کو مل جل کر کام کرنے کے لیے گائیڈ لائن مل جائے گی۔
یہ سربراہی اجلاس عالمی سطح پر پاکستان کی اہیمت میں بھی اضافہ کرے گا جو تین بڑی طاقتوں، چین، روس اور بھارت کے سنگم پر واقع ہے جبکہ جنوب میں ایران اور خلیجی ممالک آباد ہونے کی حقیقت بھی پاکستان کی جغرافیائی و تزویراتی اہمیت نمایاں کرتی ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان معاشی مسائل میں گرفتار ہے مگر دنیا کے ایک بڑے ملک اور ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے اس کی وقعت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ علاقائی استحکام کو فروغ دینے کے علاوہ اقتصادی اور ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹا جا سکے۔ پاکستان میں ہونے والا تاریخی سربراہی اجلاس تمام رہنماؤں کو یہ مواقع فراہم کرے گا کہ وہ دہشت گردی سے نمٹنے سے لے کر اقتصادیات تک مختلف امور پر بات چیت کر سکیں۔ ان امور میں موسمیاتی تبدیلیوں سے جنم لینے والی غربت اور بے روزگاری جیسے سنگین مسائل بھی شامل ہیں۔ رکن ممالک مشترکہ خوشحالی کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دے کر کثیر جہتی چیلنجز سے بخوبی نمٹ سکتے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں رکن ممالک کی آبادی دنیا کا تقریباً 40 فیصد حصہ بنتی ہے۔ ان ممالک کا جی ڈی پی دنیا کا 32 فیصد حصہ ہے۔ ان حقائق سے عیاں ہے کہ یہ ایک بڑی طاقتور عالمی تنظیم ہے جو پاکستان کو یہ بہترین موقع عطا کرتی ہے کہ وہ رکن ممالک کی مدد سے اپنی معیشت مضبوط بنا سکے۔ یہ ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کر کے ہماری معیشت کو قوی بنیادیں فراہم کر سکتے ہیں۔ یوں ہمارا مستقبل ماضی کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال بن سکتا ہے۔
اس اجلاس کے توسط سے پاکستان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ رکن ممالک کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دے ۔ پاکستان نئی منڈیوں کی تلاش میں ہے تاکہ اپنی ایکسپورٹ بڑھا سکے۔ اس تنظیم کے ممالک اسے یہ مارکیٹیں فراہم کر سکتے ہیں۔ چین اس ضمن میں پاکستان کی بہت مدد کر سکتا ہے۔ روس بھی بیش بہا اور وسیع قدرتی وسائل اور معدنیات رکھنے والا بہت بڑا ملک ہے۔ اس کے تعاون سے پاکستان اپنی توانائی کی مشکلات اور مسائل دور کر سکتا ہے۔ چین ہی نہیں روس بھی ماضی میں پاکستان میں سرمایہ کاری کر چکا۔ اسی کے تعاون سے کراچی میں سٹیل مل نصب ہوئی تھی۔ امید ہے، پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے خصوصی اجلاس سے فائدہ اٹھا کر اپنے اسٹریٹجک مفادات پورے کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ یہ پاکستان کے لیے سنہرا موقع ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنا مقام اجاگر کر دے۔
پاکستان ... محفوظ ملک
واشنگٹن، امریکا میں واقع ووڈرو ولسن سینٹر فار سکالرز سے منسلک جنوبی ایشیا کے ماہر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ یہ سربراہی اجلاس پاکستانی حکومت کے لیے واقعی ''ایک بڑا اہم واقعہ '' ہے۔ عالمی میڈیا یہ تاثر دیتا ہے کہ پاکستان غیر ملکیوں کے لیے محفوظ نہیں رہا ۔ اس کے باوجود اسی دیس میں ایک بہت بڑی عالمی تنظیم کا سربراہی اجلاس منقعد ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ پاکستان غیرملکیوں کے لیے محفوظ مملکت ہے۔ حتی کہ روس اور معاصر بھارت کے اعلی سطحی وفود بھی وہاں آئے ہیں۔ یوں یہ اجلاس یہ منفی تاثر زائل کرنے میں پاکستان کو بھرپور فائدہ دے گا کہ وہ غیرملکیوں کے لیے خطرناک دیس بن چکا۔
ایک نادر دورہ
اس عالمی اجتماع میں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی موجودگی پاکستان کے غیر معمولی دورے کی نشاندہی کرتی ہے۔ گو بھارتی وزیر خارجہ پہلے ہی کہہ چکے کہ وہ دو طرفہ تعلقات پر بات نہیں کرینگے اور صرف شنگھائی تعاون تنظیم سے متعلق کثیر الجہتی امور پر توجہ مرکوز کرینگے۔وہ تنظیم کے ساتھ ہندوستان کی وابستگی ظاہر کرنے اسلام آباد آرہے ہیں نہ کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو مضبوط کرنے کیلئے۔ اس کے باوجود جے شنکر کی حاضری ''دو طرفہ تعلقات ''کو فروغ دیگی، چاہے وہ بالواسطہ ہی ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ جے شنکر کے آنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات اس حد تک ضرور مستحکم ہو چکے کہ نئی دہلی تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے راضی ہے۔ سربراہی اجلاس کے دوران جے شنکر کے اپنے پاکستانی ہم منصب سے مصافحہ کرنے اور مختصر بات چیت کرنے کا امکان ہے لیکن اس طرح کے اقدامات سفارتی رسمی ہیں۔ اگرچہ بعض صورتوں میں اس طرح کی سرگرمیاں تعطل و جمود کو توڑ دیتی اور بات چیت کے مواقع پیدا کرتی ہیں۔
اقتصادی بحالی
پاکستان کی کاروباری برادری کو اُمید ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے قومی معیشت کو فروغ ملے۔ یہ تقریب پاکستان کو اہم بین الاقوامی شراکت داروں بالخصوص چین کے ساتھ اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات مضبوط کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کا تو خیال ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کا اگلا مرحلہ اور یہ سربراہی اجلاس قومی معیشت کے لیے حقیقی گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں ۔ تنظیم کے رکن ممالک جانتے ہیں کہ پاکستان جغرافیائی مطابقت، متنوع اقتصادی خصوصیات، علاقائی تجارتی فوائد، مشرق کی طرف دیکھنے کی صلاحیت اور متنوع معاشی شراکت دار رکھنے والا ملک ہے۔
مغرب تنظیم کوکیسے دیکھتا ہے؟
شنگھائی تعاون تنظیم مغرب کے لیے اب بھی ایک معمّہ بنی ہوئی ہے۔2006 ء میں امریکی کانگریس نے اس پر ایک سماعت کی تھی۔ تب اس وقت کے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ باؤچر نے تسلیم کیا تھا کہ یہ تنظیم عالمی سطح پر اثرات رکھتی ہے۔ ساتھ ساتھ اس نے خاص طور پر کہا ''مگر جب یہ تنظیم عالمی سیاست میں دخل اندازی کرتی ہے تو سچی بات ہے ، ہمیں پریشانی ہوتی ہے۔ جب یہ تنظیم دوسرے ملکوں کو کہتی ہے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں تو ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔''
امریکی نائب وزیرخارجہ نے جو کہا وہ مغرب کے لیے سّکہ رائج الوقت بن چکا۔ پچھلے کئی برس سے مغربی دانشوروں اور ماہرین کا مطالعہ، رپورٹیں اور سیاسی بیان بازی اس سوال پر مرکوز ہے:'' کیا شنگھائی تعاون تنظیم مغرب کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے؟ ''مغرب تاحال اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہے۔ تنظیم کے رکن ممالک خصوصاً چین کی نگاہ میں اس کا مختصر جواب ہے:'' نہیں، یہ ایک مختلف تنظیم ہے۔''
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ تنظیم کے اکثر ممالک بعض رکن ممالک سے کوئی نہ کوئی اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کے باہمی مسائل چل رہے ہیں۔ اس کے باوجود ایسے کئی چیلنج ہیں جن کا مقابلہ سبھی ممالک نے کرنا ہے۔ یہ تنظیم اسی لیے قائم کی گئی تاکہ سبھی ممالک مل کر ان مسائل سے نبردآزما ہو سکیں۔ اگر وہ متحد نہ ہوتے تو ان مسئلوں کو حل کرنا کسی ایک مملکت کے لیے کٹھن مرحلہ بن جاتا۔
مزید براں یہ ادارہ اس طریقے سے قائم کیا گیا ہے کہ تمام رکن ممالک کو ویٹو کا حق حاصل ہو جائے... اور یہ بہت سے مغربی اداروں میں یہ معمول کی بات نہیں ۔ مثال کے طور پر آئی ایم ایف کو دیکھ لیجیے جو مغرب کا سب سے بڑا مالیاتی ادارہ ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے قوانین میں کہا گیا ہے کہ ایک تحریک صرف اسی وقت منظور ہو سکتی ہے جب اس کو 85 فیصد ووٹوں کی حمایت حاصل ہو جائے۔ لیکن اس مغربی ادارے میں صرف امریکہ کے پاس تقریباً 17 فیصد ووٹنگ شئیر کی طاقت ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا چاہے تو تن تنہا کسی بھی تحریک یا فیصلے کو خود ہی ختم کر سکتا ہے۔ اسی قسم کا قانون ایک اور بڑے مالیاتی مغربی ادارے ، ورلڈ بینک میں بھی کارفرما ہے۔ اور نیٹو میں بھی جہاں امریکا کی زبردست فوجی طاقت اور منفرد جنگی صلاحیتوں کے باعث ہر رکن ملک اس پر انحصار کرنے پہ مجبور ہے۔ وہاں برائے نام فیصلے ہوتے ہیں ورنہ اصل فیصلہ امریکا ہی کرتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں اس قسم کا طاقت کا عدم توازن دکھائی نہیں دیتا۔ اس تنظیم میں طاقتور ملک ہوں جیسے روس و چین یا نسبتاً کمزور ممالک جیسے کرغستان اور ازبکستان، ہر ایک اپنی طاقت رکھتا اور کوئی بھی فیصلہ کرنے میں اپنی بھرپور شرکت یقینی بناتا ہے۔ اس ادارے میں کوئی بھی ملک فیصلہ سازی میں غالب ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اصول یہ ہے کہ فیصلہ جیسا بھی ہو، اس کو مذاکرات اور اتفاق رائے کی بنیاد پر انجام پانا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے، ادارے میں تمام اختلافات کا بھی احترام کیا جاتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی یہ زبردست خاصیت ہے کہ وہ تمام رکن ممالک کے درمیان مساوات کو یقینی بناتا ہے۔ اس لحاظ سے ادارے کے تمام اراکان برابر ہیں۔
تنظیم کے چارٹر میں کہا گیا ہے کہ اس کے اہداف یہ ہیں: ''باہمی اعتماد کو مضبوط کرنا، رکن ممالک کے درمیان دوستی پروان چڑھانا ، اچھی ہمسائیگی کو یقینی بنانا اور مشترکہ طور پر خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنا۔''2001 ء میں اپنے پہلے سربراہی اجلاس میںتنظیم نے دہشت گردی ، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف شنگھائی کنونشن منظور کیا تھا۔ اس نے تینوں کا مقابلہ کرنے کو اپنا بنیادی مشن بنا لیا۔ مقصد یہی تھا کہ دہشت گردی کا جّن کسی ملک کی سرحدیں پار کر کے دوسرے رکن ملکوں میں داخل نہ ہو سکے۔ خطّے میں امن اور استحکام شنگھائی تعاون تنظیم کا بنیادی مشن ہے۔
وقت کے ساتھ تنظیم انسانی زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی پھیل گئی جن میں سرمایہ کاری، باہمی رابطہ، سائنسی اور تکنیکی جدت، توانائی، زراعت، ثقافتی تبادلے اور تعلیم نمایاں ہیں۔مثال کے طور پر ثقافتی روابط بڑھانے کے لیے چین تنظیم کے ممالک کو چینی زبان میں سکالرزشپ فراہم کر رہا ہے۔ معاشی شعبے میں بھی رکن ممالک کو مدد دی جا رہی ہے۔ غرض یہ تنظیم خطّے میں کسی بڑی طاقت مثلاً چین یا روس کی آمریت نہیں چاہتی بلکہ منزل یہ ہے کہ تمام ارکان مل کر ترقی کریں اور اپنی انسانی آبادی کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کریں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کسی طور مغرب سے ٹکراؤ نہیں چاہتی لیکن مغربی قوتیں اسے اپنا مقابل سمجھتی اور اس کیخلاف اقدامات کرتی ہیںتو ظاہر ہے، تنظیم کو بھی دفاعی اقدامات کرنا ہونگے۔ یہ تنظیم بنیادی طور پہ مشرقی و غیر مغربی ملکوں کا اکٹھ ہے جو بتدریج ان کا سب سے بڑا اداہ بن رہی ہے۔ مغربی طاقتوں کی ہوس زمین اور ناعاقبت اندیشی کے باعث مستقبل میں اگر شنگھائی تعاون تنظیم اور مغرب کا ٹکراؤ ہوا تو پاکستان کو نہایت غوروفکر کے بعد قدم اٹھانے ہوں گے۔ پاکستان پچھلے کئی عشروں سے مغربی کیمپ کا حصّہ ہے مگر تاریخ افشا کرتی ہے کہ اس اتحاد سے وطن عزیز کو خاطر خواہ معاشی فوائد حاصل نہیں ہوسکے۔ لہٰذا ایسے بے وفا اور مفاداتی اتحادیوں کا مسلسل ساتھ دیتے رہنا شاید پاکستان کیلئے سودمند ثابت نہیں ہو گا۔ ارض پاک کو اب شنگھائی تعاون تنظیم کو زیادہ سے زیادہ وقعت و اہمیت دینا ہو گی۔
یہ سربراہی اجلاس عالمی سطح پر پاکستان کی اہیمت میں بھی اضافہ کرے گا جو تین بڑی طاقتوں، چین، روس اور بھارت کے سنگم پر واقع ہے جبکہ جنوب میں ایران اور خلیجی ممالک آباد ہونے کی حقیقت بھی پاکستان کی جغرافیائی و تزویراتی اہمیت نمایاں کرتی ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان معاشی مسائل میں گرفتار ہے مگر دنیا کے ایک بڑے ملک اور ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے اس کی وقعت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ علاقائی استحکام کو فروغ دینے کے علاوہ اقتصادی اور ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹا جا سکے۔ پاکستان میں ہونے والا تاریخی سربراہی اجلاس تمام رہنماؤں کو یہ مواقع فراہم کرے گا کہ وہ دہشت گردی سے نمٹنے سے لے کر اقتصادیات تک مختلف امور پر بات چیت کر سکیں۔ ان امور میں موسمیاتی تبدیلیوں سے جنم لینے والی غربت اور بے روزگاری جیسے سنگین مسائل بھی شامل ہیں۔ رکن ممالک مشترکہ خوشحالی کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دے کر کثیر جہتی چیلنجز سے بخوبی نمٹ سکتے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں رکن ممالک کی آبادی دنیا کا تقریباً 40 فیصد حصہ بنتی ہے۔ ان ممالک کا جی ڈی پی دنیا کا 32 فیصد حصہ ہے۔ ان حقائق سے عیاں ہے کہ یہ ایک بڑی طاقتور عالمی تنظیم ہے جو پاکستان کو یہ بہترین موقع عطا کرتی ہے کہ وہ رکن ممالک کی مدد سے اپنی معیشت مضبوط بنا سکے۔ یہ ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کر کے ہماری معیشت کو قوی بنیادیں فراہم کر سکتے ہیں۔ یوں ہمارا مستقبل ماضی کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال بن سکتا ہے۔
اس اجلاس کے توسط سے پاکستان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ رکن ممالک کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دے ۔ پاکستان نئی منڈیوں کی تلاش میں ہے تاکہ اپنی ایکسپورٹ بڑھا سکے۔ اس تنظیم کے ممالک اسے یہ مارکیٹیں فراہم کر سکتے ہیں۔ چین اس ضمن میں پاکستان کی بہت مدد کر سکتا ہے۔ روس بھی بیش بہا اور وسیع قدرتی وسائل اور معدنیات رکھنے والا بہت بڑا ملک ہے۔ اس کے تعاون سے پاکستان اپنی توانائی کی مشکلات اور مسائل دور کر سکتا ہے۔ چین ہی نہیں روس بھی ماضی میں پاکستان میں سرمایہ کاری کر چکا۔ اسی کے تعاون سے کراچی میں سٹیل مل نصب ہوئی تھی۔ امید ہے، پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے خصوصی اجلاس سے فائدہ اٹھا کر اپنے اسٹریٹجک مفادات پورے کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ یہ پاکستان کے لیے سنہرا موقع ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنا مقام اجاگر کر دے۔
پاکستان ... محفوظ ملک
واشنگٹن، امریکا میں واقع ووڈرو ولسن سینٹر فار سکالرز سے منسلک جنوبی ایشیا کے ماہر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ یہ سربراہی اجلاس پاکستانی حکومت کے لیے واقعی ''ایک بڑا اہم واقعہ '' ہے۔ عالمی میڈیا یہ تاثر دیتا ہے کہ پاکستان غیر ملکیوں کے لیے محفوظ نہیں رہا ۔ اس کے باوجود اسی دیس میں ایک بہت بڑی عالمی تنظیم کا سربراہی اجلاس منقعد ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ پاکستان غیرملکیوں کے لیے محفوظ مملکت ہے۔ حتی کہ روس اور معاصر بھارت کے اعلی سطحی وفود بھی وہاں آئے ہیں۔ یوں یہ اجلاس یہ منفی تاثر زائل کرنے میں پاکستان کو بھرپور فائدہ دے گا کہ وہ غیرملکیوں کے لیے خطرناک دیس بن چکا۔
ایک نادر دورہ
اس عالمی اجتماع میں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی موجودگی پاکستان کے غیر معمولی دورے کی نشاندہی کرتی ہے۔ گو بھارتی وزیر خارجہ پہلے ہی کہہ چکے کہ وہ دو طرفہ تعلقات پر بات نہیں کرینگے اور صرف شنگھائی تعاون تنظیم سے متعلق کثیر الجہتی امور پر توجہ مرکوز کرینگے۔وہ تنظیم کے ساتھ ہندوستان کی وابستگی ظاہر کرنے اسلام آباد آرہے ہیں نہ کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو مضبوط کرنے کیلئے۔ اس کے باوجود جے شنکر کی حاضری ''دو طرفہ تعلقات ''کو فروغ دیگی، چاہے وہ بالواسطہ ہی ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ جے شنکر کے آنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات اس حد تک ضرور مستحکم ہو چکے کہ نئی دہلی تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے راضی ہے۔ سربراہی اجلاس کے دوران جے شنکر کے اپنے پاکستانی ہم منصب سے مصافحہ کرنے اور مختصر بات چیت کرنے کا امکان ہے لیکن اس طرح کے اقدامات سفارتی رسمی ہیں۔ اگرچہ بعض صورتوں میں اس طرح کی سرگرمیاں تعطل و جمود کو توڑ دیتی اور بات چیت کے مواقع پیدا کرتی ہیں۔
اقتصادی بحالی
پاکستان کی کاروباری برادری کو اُمید ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے قومی معیشت کو فروغ ملے۔ یہ تقریب پاکستان کو اہم بین الاقوامی شراکت داروں بالخصوص چین کے ساتھ اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات مضبوط کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کا تو خیال ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کا اگلا مرحلہ اور یہ سربراہی اجلاس قومی معیشت کے لیے حقیقی گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں ۔ تنظیم کے رکن ممالک جانتے ہیں کہ پاکستان جغرافیائی مطابقت، متنوع اقتصادی خصوصیات، علاقائی تجارتی فوائد، مشرق کی طرف دیکھنے کی صلاحیت اور متنوع معاشی شراکت دار رکھنے والا ملک ہے۔
مغرب تنظیم کوکیسے دیکھتا ہے؟
شنگھائی تعاون تنظیم مغرب کے لیے اب بھی ایک معمّہ بنی ہوئی ہے۔2006 ء میں امریکی کانگریس نے اس پر ایک سماعت کی تھی۔ تب اس وقت کے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ باؤچر نے تسلیم کیا تھا کہ یہ تنظیم عالمی سطح پر اثرات رکھتی ہے۔ ساتھ ساتھ اس نے خاص طور پر کہا ''مگر جب یہ تنظیم عالمی سیاست میں دخل اندازی کرتی ہے تو سچی بات ہے ، ہمیں پریشانی ہوتی ہے۔ جب یہ تنظیم دوسرے ملکوں کو کہتی ہے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں تو ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔''
امریکی نائب وزیرخارجہ نے جو کہا وہ مغرب کے لیے سّکہ رائج الوقت بن چکا۔ پچھلے کئی برس سے مغربی دانشوروں اور ماہرین کا مطالعہ، رپورٹیں اور سیاسی بیان بازی اس سوال پر مرکوز ہے:'' کیا شنگھائی تعاون تنظیم مغرب کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے؟ ''مغرب تاحال اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہے۔ تنظیم کے رکن ممالک خصوصاً چین کی نگاہ میں اس کا مختصر جواب ہے:'' نہیں، یہ ایک مختلف تنظیم ہے۔''
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ تنظیم کے اکثر ممالک بعض رکن ممالک سے کوئی نہ کوئی اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کے باہمی مسائل چل رہے ہیں۔ اس کے باوجود ایسے کئی چیلنج ہیں جن کا مقابلہ سبھی ممالک نے کرنا ہے۔ یہ تنظیم اسی لیے قائم کی گئی تاکہ سبھی ممالک مل کر ان مسائل سے نبردآزما ہو سکیں۔ اگر وہ متحد نہ ہوتے تو ان مسئلوں کو حل کرنا کسی ایک مملکت کے لیے کٹھن مرحلہ بن جاتا۔
مزید براں یہ ادارہ اس طریقے سے قائم کیا گیا ہے کہ تمام رکن ممالک کو ویٹو کا حق حاصل ہو جائے... اور یہ بہت سے مغربی اداروں میں یہ معمول کی بات نہیں ۔ مثال کے طور پر آئی ایم ایف کو دیکھ لیجیے جو مغرب کا سب سے بڑا مالیاتی ادارہ ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے قوانین میں کہا گیا ہے کہ ایک تحریک صرف اسی وقت منظور ہو سکتی ہے جب اس کو 85 فیصد ووٹوں کی حمایت حاصل ہو جائے۔ لیکن اس مغربی ادارے میں صرف امریکہ کے پاس تقریباً 17 فیصد ووٹنگ شئیر کی طاقت ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا چاہے تو تن تنہا کسی بھی تحریک یا فیصلے کو خود ہی ختم کر سکتا ہے۔ اسی قسم کا قانون ایک اور بڑے مالیاتی مغربی ادارے ، ورلڈ بینک میں بھی کارفرما ہے۔ اور نیٹو میں بھی جہاں امریکا کی زبردست فوجی طاقت اور منفرد جنگی صلاحیتوں کے باعث ہر رکن ملک اس پر انحصار کرنے پہ مجبور ہے۔ وہاں برائے نام فیصلے ہوتے ہیں ورنہ اصل فیصلہ امریکا ہی کرتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں اس قسم کا طاقت کا عدم توازن دکھائی نہیں دیتا۔ اس تنظیم میں طاقتور ملک ہوں جیسے روس و چین یا نسبتاً کمزور ممالک جیسے کرغستان اور ازبکستان، ہر ایک اپنی طاقت رکھتا اور کوئی بھی فیصلہ کرنے میں اپنی بھرپور شرکت یقینی بناتا ہے۔ اس ادارے میں کوئی بھی ملک فیصلہ سازی میں غالب ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اصول یہ ہے کہ فیصلہ جیسا بھی ہو، اس کو مذاکرات اور اتفاق رائے کی بنیاد پر انجام پانا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے، ادارے میں تمام اختلافات کا بھی احترام کیا جاتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی یہ زبردست خاصیت ہے کہ وہ تمام رکن ممالک کے درمیان مساوات کو یقینی بناتا ہے۔ اس لحاظ سے ادارے کے تمام اراکان برابر ہیں۔
تنظیم کے چارٹر میں کہا گیا ہے کہ اس کے اہداف یہ ہیں: ''باہمی اعتماد کو مضبوط کرنا، رکن ممالک کے درمیان دوستی پروان چڑھانا ، اچھی ہمسائیگی کو یقینی بنانا اور مشترکہ طور پر خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنا۔''2001 ء میں اپنے پہلے سربراہی اجلاس میںتنظیم نے دہشت گردی ، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف شنگھائی کنونشن منظور کیا تھا۔ اس نے تینوں کا مقابلہ کرنے کو اپنا بنیادی مشن بنا لیا۔ مقصد یہی تھا کہ دہشت گردی کا جّن کسی ملک کی سرحدیں پار کر کے دوسرے رکن ملکوں میں داخل نہ ہو سکے۔ خطّے میں امن اور استحکام شنگھائی تعاون تنظیم کا بنیادی مشن ہے۔
وقت کے ساتھ تنظیم انسانی زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی پھیل گئی جن میں سرمایہ کاری، باہمی رابطہ، سائنسی اور تکنیکی جدت، توانائی، زراعت، ثقافتی تبادلے اور تعلیم نمایاں ہیں۔مثال کے طور پر ثقافتی روابط بڑھانے کے لیے چین تنظیم کے ممالک کو چینی زبان میں سکالرزشپ فراہم کر رہا ہے۔ معاشی شعبے میں بھی رکن ممالک کو مدد دی جا رہی ہے۔ غرض یہ تنظیم خطّے میں کسی بڑی طاقت مثلاً چین یا روس کی آمریت نہیں چاہتی بلکہ منزل یہ ہے کہ تمام ارکان مل کر ترقی کریں اور اپنی انسانی آبادی کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کریں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کسی طور مغرب سے ٹکراؤ نہیں چاہتی لیکن مغربی قوتیں اسے اپنا مقابل سمجھتی اور اس کیخلاف اقدامات کرتی ہیںتو ظاہر ہے، تنظیم کو بھی دفاعی اقدامات کرنا ہونگے۔ یہ تنظیم بنیادی طور پہ مشرقی و غیر مغربی ملکوں کا اکٹھ ہے جو بتدریج ان کا سب سے بڑا اداہ بن رہی ہے۔ مغربی طاقتوں کی ہوس زمین اور ناعاقبت اندیشی کے باعث مستقبل میں اگر شنگھائی تعاون تنظیم اور مغرب کا ٹکراؤ ہوا تو پاکستان کو نہایت غوروفکر کے بعد قدم اٹھانے ہوں گے۔ پاکستان پچھلے کئی عشروں سے مغربی کیمپ کا حصّہ ہے مگر تاریخ افشا کرتی ہے کہ اس اتحاد سے وطن عزیز کو خاطر خواہ معاشی فوائد حاصل نہیں ہوسکے۔ لہٰذا ایسے بے وفا اور مفاداتی اتحادیوں کا مسلسل ساتھ دیتے رہنا شاید پاکستان کیلئے سودمند ثابت نہیں ہو گا۔ ارض پاک کو اب شنگھائی تعاون تنظیم کو زیادہ سے زیادہ وقعت و اہمیت دینا ہو گی۔