راج کرتی ہیں جِن کی تحریریں
دنیا میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے فکشن نگار.
PESHAWAR:
کیا فکشن کا حلقۂ اثر ادب کی دیگر اصناف سے وسیع ہے؟
اِس خیال کی حمایت اور مخالفت، دونوں ہی میں دلائل کا انبار ہے، تاہم اِس سے انکار ممکن نہیں کہ حقیقی فکشن نگار جادوئی طرز تک رسائی رکھتا ہے، جو قاری کو نامعلوم میں جھانکنے، اَن جانی راہوں پر قدم رکھنے کی تحریک دیتا ہے، جہاں ہر لمحہ اسرار اور تجسس سے بھرپور ہوتا ہے، البتہ تحیر کی اُس دنیا میں حقیقت قائم رہتی ہے۔
یہی سبب ہے کہ صدیوں سے فکشن نگاروں نے پڑھنے والوں کو اپنے سحر میں لے رکھا ہے۔ کل کی طرح آج بھی قارئین کہانیوں میں گُم، مطالعے میں غرق ہیں۔ مغرب میں کتابیں تواتر سے شایع ہورہی ہیں، خریدی اور پڑھی جارہی ہیں۔
یوں تو ہر فکشن نگار ایک ایسی زندگی بیان کرنے کی سعی کرتا ہے، جو اُس زندگی کے بے حد قریب ہونے کے باوجود، جو وہ یا اُس جیسے انسان جیتے ہیں، اُس سے مختلف ہوتی ہے۔ اور یہی باریک فرق قارئین کو اُس کی تخلیقات کی جانب کھینچتا ہے۔ تاہم ہر تخلیق کار کے نصیب میں شہرت و مقبولیت نہیں آتی۔ ایسے کم ہی ہوتے ہیں، جن کے قلم کا سحر ایک عہد کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ جن کی تخلیقات ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی ہیں۔ نہ صرف اُن کی زندگی میں، بلکہ اُن کی موت کے بعد بھی دنیا بھر میں پھیلے اپنے قاری کُھوج نکالتی ہیں۔
ذیل میں ایسے ہی چند ادیبوں کا ذکر ہے، جن کی کتابوں نے فروخت کے ریکارڈ قائم کیے، سرحدوں کو عبور کر کے دنیا بھر میں رسائی اور پزیرائی حاصل کی۔ واضح رہے کہ مذکورہ فہرست مرتب کرتے وقت کتابوں کی فروخت کے معاملے کو پیش نظر رکھا گیا ہے، جس کی وجہ سے ادب عالیہ تخلیق کرنے والے بلند پایہ ادیبوں کے ساتھ زیادہ تر نام اُن لکھاریوں کے ہیں، جنھوں نے جاسوسی یا رومانی ادب تخلیق کیا۔ البتہ یہ نکتہ اُن کی تخلیقات کی قدروقیمت کم نہیں کرتا، اور پھر اُن کی فروخت شدہ کتابوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اُن کی ادبی حیثیت تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں!
ولیم شیکسپئر:
گوکہ چند محققین و مورخین ولیم شیکسپئر نامی کسی ادیب کی موجودگی سے متعلق تشکیک کا شکار ہیں۔ تاہم دست یاب معلومات پر انحصار کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِس عہد ساز ادیب نے اپریل 1564 میں برطانیہ میں آنکھ کھولی، البتہ اُس کے وجود کے حق میں دلائل دینے والوں کے لیے بھی اُس کی جائے پیدایش کے بارے میں حتمی فیصلہ صادر کرنا مشکل ہے۔ اندازوں کے مطابق انگریزی زبان کے اِس بلند پایہ ڈراما نگار اور شاعر نے 52 برس کی عمر پائی۔
شیکسپئر کی مطبوعہ کُتب کی تعداد 44 سے زاید ہے، جن میں سے کئی، صدیوں سے تواتر کے ساتھ شایع اور فروخت ہورہی ہیں اور ماضی کی طرح آج بھی انتہائی مقبول ہیں۔ ماہرین کے نزدیک وہ کتابیں، جن کے سرورق پر شیکسپئر کا نام درج ہے، چار ارب کی حیرت انگیز تعداد میں فروخت ہوچکی ہیں۔ متعدد زبانوں میں اُن کے تراجم ہوئے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اِس ادیب کے ظاہری خدوخال اور چہرے مہرے کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں۔ شواہد کے مطابق شیکسپئر نے کبھی اپنا پورٹریٹ نہیں بنوایا۔ اُس کے ظاہر کا بیان اُس کے ہم عصروں کی تحریروں میں بھی نہیں ملتا۔
شیکسپئر نامی کوئی شخص چاہے تاریخ میں گزار ہو، یا نہ گزرا ہو، یہ طے ہے کہ اِس مصنف کے نام سے شایع ہونے والی کُتب، الہامی صحائف کے بعد روئے زمین پر سب سے زیادہ پڑھی گئیں۔
اگاتھا کرسٹی:
جاسوسی ادب کی بے تاج ملکہ، اگاتھا کرسٹی کے بارے میں محققین متفق ہیں کہ بائبل اور شیکسپئر کے بعد جس لکھاری کو سب سے زیادہ پڑھا گیا، وہ اگاتھا کرسٹی ہی ہے۔ 15 ستمبر 1890 کو برطانیہ میں آنکھ کھولنے والی اِس مصنفہ نے 85 برس کی عمر پائی۔ اگاتھا کرسٹی نے دنیائے ادب کو Hercule Poirot اور Miss Marpleجیسے یادگار کردار دیے۔ اُس کی 85 کتابیں منصۂ شہود پر آئیں۔ گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں اُس کا نام سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ناول نگار کے طور پر درج ہے۔ اُس کے ناول And Then There Were None کی ایک ارب کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اُسے دنیا کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ''مسٹری ناول'' تصور کیا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر اُس کی کتابوں کا 103 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ یہ بھی ایک منفرد ریکارڈ ہے، جس تک کوئی اور مصنف رسائی نہیں حاصل کرسکا۔ اُس کی فروخت شدہ کتابوں کی ناقابل یقین تعداد ساڑھے تین سے چار ارب کے درمیان خیال کی جاتی ہے۔
باربرا کارٹ لینڈ:
9 جولائی 1901 کو برطانیہ کے شہر برمنگھم میں پیدا ہونے والی باربرا کارٹ لینڈ کا شمار عہد جدید کے مقبول ترین زود نویسوں میں ہوتا ہے۔ 98سالہ زندگی پانے والی اس مصنفہ کی کُتب کی تعداد 723 ہے۔ فقط 1983 میں اُس کے 23ناول شایع ہوئے۔ یہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔
رومانوی کہانیاں بیان کرنے میں اُسے ملکہ حاصل تھا۔ اعدادوشمار کے مطابق اب تک اُس کے ناولوں کی ایک ارب کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ ایک نام وَر لکھاری ہونے کے علاوہ وہ ایک سماجی و سیاسی شخصیت بھی تھی۔ اُسے برطانوی ذرایع ابلاغ کی مقبول ترین خاتون تصور کیا جاتا تھا۔ اپنے انتقال تک وہ باقاعدگی سے لکھتی رہی۔ اُس کے چھوڑے ہوئے مسودے بعد میں ''ای بک'' کی صورت شایع کیے گئے۔
ڈینیل اسٹیل:
نیویارک میں آنکھ کھولنے والی یہ امریکی ادیبہ، بہ کثرت پڑھے جانے والے فکشن نگاروں کی فہرست میں چوتھے درجے پر فائز ہے، اور وہ اِس فہرست میں شامل اکلوتی مصنفہ ہے، جو حیات ہے۔
14اگست 1947کو پیدا ہونے والی ڈینیل کی مطبوعہ کُتب کی تعداد 120 ہے۔ رومان کو مسالے دار انداز میں بیان کرنے والی ڈینیل اسٹیل کی اب تک 80 کروڑ کے قریب کتابیں فروخت ہوچکی ہیں۔ اُس کے ناول مسلسل 390 ہفتوں تک ''نیویارک ٹائمز بیسٹ سیلز لسٹ'' میں شامل رہے۔ اُس کے 22 ناولوں کو ڈراموں کے قالب میں ڈھالا گیا۔ 28 زبانوں میں ترجمہ ہونے والی اُس کی تخلیقات آج دنیا کے 47 ممالک میں دست یاب ہیں۔ اُس نے بچوں کے لیے بھی خاصا لکھا۔ گوکہ ناقدین کی جانب سے ڈینیل پر ''فارمولا کہانیاں'' لکھنے کا الزام عاید کیا جاتا ہے، لیکن قارئین اِن باتوں پر زیادہ کان نہیں دھرتے۔
ہیرالڈ روبنس:
دنیا کے ''بیسٹ سیلر'' ادیبوں میں پانچواں نام امریکی مصنف، ہیرالڈ روبنس کا ہے۔ 21مئی 1916 کو پیدا ہونے والا ہیرالڈ امریکی تاریخ کا مقبول ترین ادیب تصور کیا جاتا ہے۔ 71 سال کی عمر پانے والے اِس ادیب نے 23 کتابیں چھوڑیں۔ اندازوں کے مطابق اُس کی فروخت شدہ کتابوں کی تعداد 75 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ 1948 میں شایع ہونے والا اُس کے پہلے ناول Never Love A Stranger کا شمار اُس عشرے کی متنازع ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔ اُس کے پُرتجسس ناولوں کے 32 زبانوں میں تراجم ہوئے۔ کئی کو فلموں کے قالب میں بھی ڈھالا گیا۔
جارجز سائمینن:
انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں میں ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں میں جو شہرت بیلجیم سے تعلق رکھنے والے جارجز سائمینن کے حصے میں آئی، اُس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ 13 فروری 1903 کو آنکھ کھولنے والے اِس لکھاری نے 86 سال کی عمر پائی۔
فرانسیسی زبان میں کہانیاں بنُنے والا جارجز مقبول ترین زودنویس کے طور پر شناخت رکھتا تھا۔ اس کی تخلیقات کی مجموعی تعداد 570 ہے، جن میں 200 کے قریب ناول ہیں، ان میں سے کئی پر فلمیں بنیں۔ سراغ رساں Jules Maigret کا یادگار کردار تخلیق کرنے والے جارجز کی فروخت شدہ کتابوں کی تعداد 70 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
سڈنی شیلڈن:
جاسوسی ادب کو نئی جہت عطا کرنے والے امریکی مصنف، سڈنی شیلڈن نے گو کہ فقط 18ناول لکھے، لیکن وہ اِس ریکارڈ تعداد میں فروخت ہوئے کہ یہ مصنف بہ کثرت پڑھے جانے والے ادیبوں کی فہرست میں ساتویں درجے پر براجمان ہوگیا۔ 11فروری 1917 کو پیدا ہونے والے اِس لکھاری کی فروخت ہونے والی کتابوں کی تعداد 60 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اپنے کام یاب کیریر میں اُس نے ٹی وی کے لیے بھی کئی مقبول ڈرامے لکھے۔ ہالی وڈ کے لیے بھی کام کیا۔ سڈنی کی آپ بیتی The Other Side Of Me نے بھی مقبولیت کے کئی ریکارڈ قائم کیے۔
انیڈ بلاٹون:
11 اگست 1897 کو لندن میں پیدا ہونے والی انیڈ بلاٹون کو بچوں اور نوجوانوں کا ادب تخلیق کرنے والوں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ Noddyجیسے مقبول کردار تخلیق کرنے والی انیڈ کے21 ناولوں پر مشتمل سیریز The Famous Five نے شہرت کے ریکارڈ قائم کیے۔ اُس کی زود نویسی کے چرچے تھے۔ مجموعی طور پر اُس نے 800 کتابیں لکھیں۔ گوکہ اُس کے انتقال کو پچاس برس سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے، لیکن آج بھی دنیا کے کونے کونے میں اُس کے ناول دل چسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ اُس کی تخلیقات کا 90 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
سوس گایزل:
ڈاکٹر سوس کے نام سے لکھنے والے اِس امریکی ادیب، شاعر اور کارٹونسٹ نے بچوں کے لیے ایسا ادب تخلیق کیا، جس کی دنیا بھر میں پزیرائی ہوئی۔ ڈاکٹر سوس کی تحریرکردہ کُتب کی تعداد 46 ہے، جن کی دنیا کے مختلف براعظموں میں 50 کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اُس کی کہانیوں کو چھوٹے پردے پر پیش کیا گیا، فلم کے قالب میں ڈھالا گیا۔ اس نے درجن بھر کتابیں قلمی نام سے بھی لکھیں۔ اُس کی کتابوں کا 15 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔
جے کے رولنگ:
ہیری پورٹر جیسا مقبول اور ہردل عزیز کردار تخلیق کرنے والی برطانوی مصنفہ، جے کے رولنگ نہ صرف بہ کثرت پڑھے جانے والے ادیبوں کی فہرست میں شامل ہے، بلکہ اُن لکھاریوں میں نمایاں ترین ہے، جس کے کام کو پُرشکوہ انداز میں بڑے پردے پر پیش کیا گیا۔ اِس سیریز پر بننے والی آٹھ فلموں نے ہالی وڈ سمیت دنیا بھر میں کئی ریکارڈ قائم کیے۔ ہیری پورٹر سیریز پر مشتمل سات ناولوں کی لگ بھگ 45 کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ اِسے سب سے زیادہ فروخت ہونے والی فکشن سیریز تصور کیا جاتا ہے۔ ہیری پورٹر کے کردار نے 47 سالہ جے کے رولنگ سے زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا۔ آج اُس کا شمار برطانیہ کی امیر ترین خواتین میں ہوتا ہے۔ فلمی پردے کے جادو اور انٹرنیٹ کی رسائی نے بلاشبہہ ہیری پورٹر کو دنیائے ادب کے مقبول ترین کردار کی مسند پر فائز کر دیا ہے۔ اِس پُرتجسس سیریز کا 65 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔
کیا فکشن کا حلقۂ اثر ادب کی دیگر اصناف سے وسیع ہے؟
اِس خیال کی حمایت اور مخالفت، دونوں ہی میں دلائل کا انبار ہے، تاہم اِس سے انکار ممکن نہیں کہ حقیقی فکشن نگار جادوئی طرز تک رسائی رکھتا ہے، جو قاری کو نامعلوم میں جھانکنے، اَن جانی راہوں پر قدم رکھنے کی تحریک دیتا ہے، جہاں ہر لمحہ اسرار اور تجسس سے بھرپور ہوتا ہے، البتہ تحیر کی اُس دنیا میں حقیقت قائم رہتی ہے۔
یہی سبب ہے کہ صدیوں سے فکشن نگاروں نے پڑھنے والوں کو اپنے سحر میں لے رکھا ہے۔ کل کی طرح آج بھی قارئین کہانیوں میں گُم، مطالعے میں غرق ہیں۔ مغرب میں کتابیں تواتر سے شایع ہورہی ہیں، خریدی اور پڑھی جارہی ہیں۔
یوں تو ہر فکشن نگار ایک ایسی زندگی بیان کرنے کی سعی کرتا ہے، جو اُس زندگی کے بے حد قریب ہونے کے باوجود، جو وہ یا اُس جیسے انسان جیتے ہیں، اُس سے مختلف ہوتی ہے۔ اور یہی باریک فرق قارئین کو اُس کی تخلیقات کی جانب کھینچتا ہے۔ تاہم ہر تخلیق کار کے نصیب میں شہرت و مقبولیت نہیں آتی۔ ایسے کم ہی ہوتے ہیں، جن کے قلم کا سحر ایک عہد کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ جن کی تخلیقات ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی ہیں۔ نہ صرف اُن کی زندگی میں، بلکہ اُن کی موت کے بعد بھی دنیا بھر میں پھیلے اپنے قاری کُھوج نکالتی ہیں۔
ذیل میں ایسے ہی چند ادیبوں کا ذکر ہے، جن کی کتابوں نے فروخت کے ریکارڈ قائم کیے، سرحدوں کو عبور کر کے دنیا بھر میں رسائی اور پزیرائی حاصل کی۔ واضح رہے کہ مذکورہ فہرست مرتب کرتے وقت کتابوں کی فروخت کے معاملے کو پیش نظر رکھا گیا ہے، جس کی وجہ سے ادب عالیہ تخلیق کرنے والے بلند پایہ ادیبوں کے ساتھ زیادہ تر نام اُن لکھاریوں کے ہیں، جنھوں نے جاسوسی یا رومانی ادب تخلیق کیا۔ البتہ یہ نکتہ اُن کی تخلیقات کی قدروقیمت کم نہیں کرتا، اور پھر اُن کی فروخت شدہ کتابوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اُن کی ادبی حیثیت تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں!
ولیم شیکسپئر:
گوکہ چند محققین و مورخین ولیم شیکسپئر نامی کسی ادیب کی موجودگی سے متعلق تشکیک کا شکار ہیں۔ تاہم دست یاب معلومات پر انحصار کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِس عہد ساز ادیب نے اپریل 1564 میں برطانیہ میں آنکھ کھولی، البتہ اُس کے وجود کے حق میں دلائل دینے والوں کے لیے بھی اُس کی جائے پیدایش کے بارے میں حتمی فیصلہ صادر کرنا مشکل ہے۔ اندازوں کے مطابق انگریزی زبان کے اِس بلند پایہ ڈراما نگار اور شاعر نے 52 برس کی عمر پائی۔
شیکسپئر کی مطبوعہ کُتب کی تعداد 44 سے زاید ہے، جن میں سے کئی، صدیوں سے تواتر کے ساتھ شایع اور فروخت ہورہی ہیں اور ماضی کی طرح آج بھی انتہائی مقبول ہیں۔ ماہرین کے نزدیک وہ کتابیں، جن کے سرورق پر شیکسپئر کا نام درج ہے، چار ارب کی حیرت انگیز تعداد میں فروخت ہوچکی ہیں۔ متعدد زبانوں میں اُن کے تراجم ہوئے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اِس ادیب کے ظاہری خدوخال اور چہرے مہرے کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں۔ شواہد کے مطابق شیکسپئر نے کبھی اپنا پورٹریٹ نہیں بنوایا۔ اُس کے ظاہر کا بیان اُس کے ہم عصروں کی تحریروں میں بھی نہیں ملتا۔
شیکسپئر نامی کوئی شخص چاہے تاریخ میں گزار ہو، یا نہ گزرا ہو، یہ طے ہے کہ اِس مصنف کے نام سے شایع ہونے والی کُتب، الہامی صحائف کے بعد روئے زمین پر سب سے زیادہ پڑھی گئیں۔
اگاتھا کرسٹی:
جاسوسی ادب کی بے تاج ملکہ، اگاتھا کرسٹی کے بارے میں محققین متفق ہیں کہ بائبل اور شیکسپئر کے بعد جس لکھاری کو سب سے زیادہ پڑھا گیا، وہ اگاتھا کرسٹی ہی ہے۔ 15 ستمبر 1890 کو برطانیہ میں آنکھ کھولنے والی اِس مصنفہ نے 85 برس کی عمر پائی۔ اگاتھا کرسٹی نے دنیائے ادب کو Hercule Poirot اور Miss Marpleجیسے یادگار کردار دیے۔ اُس کی 85 کتابیں منصۂ شہود پر آئیں۔ گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں اُس کا نام سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ناول نگار کے طور پر درج ہے۔ اُس کے ناول And Then There Were None کی ایک ارب کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اُسے دنیا کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ''مسٹری ناول'' تصور کیا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر اُس کی کتابوں کا 103 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ یہ بھی ایک منفرد ریکارڈ ہے، جس تک کوئی اور مصنف رسائی نہیں حاصل کرسکا۔ اُس کی فروخت شدہ کتابوں کی ناقابل یقین تعداد ساڑھے تین سے چار ارب کے درمیان خیال کی جاتی ہے۔
باربرا کارٹ لینڈ:
9 جولائی 1901 کو برطانیہ کے شہر برمنگھم میں پیدا ہونے والی باربرا کارٹ لینڈ کا شمار عہد جدید کے مقبول ترین زود نویسوں میں ہوتا ہے۔ 98سالہ زندگی پانے والی اس مصنفہ کی کُتب کی تعداد 723 ہے۔ فقط 1983 میں اُس کے 23ناول شایع ہوئے۔ یہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔
رومانوی کہانیاں بیان کرنے میں اُسے ملکہ حاصل تھا۔ اعدادوشمار کے مطابق اب تک اُس کے ناولوں کی ایک ارب کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ ایک نام وَر لکھاری ہونے کے علاوہ وہ ایک سماجی و سیاسی شخصیت بھی تھی۔ اُسے برطانوی ذرایع ابلاغ کی مقبول ترین خاتون تصور کیا جاتا تھا۔ اپنے انتقال تک وہ باقاعدگی سے لکھتی رہی۔ اُس کے چھوڑے ہوئے مسودے بعد میں ''ای بک'' کی صورت شایع کیے گئے۔
ڈینیل اسٹیل:
نیویارک میں آنکھ کھولنے والی یہ امریکی ادیبہ، بہ کثرت پڑھے جانے والے فکشن نگاروں کی فہرست میں چوتھے درجے پر فائز ہے، اور وہ اِس فہرست میں شامل اکلوتی مصنفہ ہے، جو حیات ہے۔
14اگست 1947کو پیدا ہونے والی ڈینیل کی مطبوعہ کُتب کی تعداد 120 ہے۔ رومان کو مسالے دار انداز میں بیان کرنے والی ڈینیل اسٹیل کی اب تک 80 کروڑ کے قریب کتابیں فروخت ہوچکی ہیں۔ اُس کے ناول مسلسل 390 ہفتوں تک ''نیویارک ٹائمز بیسٹ سیلز لسٹ'' میں شامل رہے۔ اُس کے 22 ناولوں کو ڈراموں کے قالب میں ڈھالا گیا۔ 28 زبانوں میں ترجمہ ہونے والی اُس کی تخلیقات آج دنیا کے 47 ممالک میں دست یاب ہیں۔ اُس نے بچوں کے لیے بھی خاصا لکھا۔ گوکہ ناقدین کی جانب سے ڈینیل پر ''فارمولا کہانیاں'' لکھنے کا الزام عاید کیا جاتا ہے، لیکن قارئین اِن باتوں پر زیادہ کان نہیں دھرتے۔
ہیرالڈ روبنس:
دنیا کے ''بیسٹ سیلر'' ادیبوں میں پانچواں نام امریکی مصنف، ہیرالڈ روبنس کا ہے۔ 21مئی 1916 کو پیدا ہونے والا ہیرالڈ امریکی تاریخ کا مقبول ترین ادیب تصور کیا جاتا ہے۔ 71 سال کی عمر پانے والے اِس ادیب نے 23 کتابیں چھوڑیں۔ اندازوں کے مطابق اُس کی فروخت شدہ کتابوں کی تعداد 75 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ 1948 میں شایع ہونے والا اُس کے پہلے ناول Never Love A Stranger کا شمار اُس عشرے کی متنازع ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔ اُس کے پُرتجسس ناولوں کے 32 زبانوں میں تراجم ہوئے۔ کئی کو فلموں کے قالب میں بھی ڈھالا گیا۔
جارجز سائمینن:
انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں میں ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں میں جو شہرت بیلجیم سے تعلق رکھنے والے جارجز سائمینن کے حصے میں آئی، اُس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ 13 فروری 1903 کو آنکھ کھولنے والے اِس لکھاری نے 86 سال کی عمر پائی۔
فرانسیسی زبان میں کہانیاں بنُنے والا جارجز مقبول ترین زودنویس کے طور پر شناخت رکھتا تھا۔ اس کی تخلیقات کی مجموعی تعداد 570 ہے، جن میں 200 کے قریب ناول ہیں، ان میں سے کئی پر فلمیں بنیں۔ سراغ رساں Jules Maigret کا یادگار کردار تخلیق کرنے والے جارجز کی فروخت شدہ کتابوں کی تعداد 70 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
سڈنی شیلڈن:
جاسوسی ادب کو نئی جہت عطا کرنے والے امریکی مصنف، سڈنی شیلڈن نے گو کہ فقط 18ناول لکھے، لیکن وہ اِس ریکارڈ تعداد میں فروخت ہوئے کہ یہ مصنف بہ کثرت پڑھے جانے والے ادیبوں کی فہرست میں ساتویں درجے پر براجمان ہوگیا۔ 11فروری 1917 کو پیدا ہونے والے اِس لکھاری کی فروخت ہونے والی کتابوں کی تعداد 60 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اپنے کام یاب کیریر میں اُس نے ٹی وی کے لیے بھی کئی مقبول ڈرامے لکھے۔ ہالی وڈ کے لیے بھی کام کیا۔ سڈنی کی آپ بیتی The Other Side Of Me نے بھی مقبولیت کے کئی ریکارڈ قائم کیے۔
انیڈ بلاٹون:
11 اگست 1897 کو لندن میں پیدا ہونے والی انیڈ بلاٹون کو بچوں اور نوجوانوں کا ادب تخلیق کرنے والوں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ Noddyجیسے مقبول کردار تخلیق کرنے والی انیڈ کے21 ناولوں پر مشتمل سیریز The Famous Five نے شہرت کے ریکارڈ قائم کیے۔ اُس کی زود نویسی کے چرچے تھے۔ مجموعی طور پر اُس نے 800 کتابیں لکھیں۔ گوکہ اُس کے انتقال کو پچاس برس سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے، لیکن آج بھی دنیا کے کونے کونے میں اُس کے ناول دل چسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ اُس کی تخلیقات کا 90 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
سوس گایزل:
ڈاکٹر سوس کے نام سے لکھنے والے اِس امریکی ادیب، شاعر اور کارٹونسٹ نے بچوں کے لیے ایسا ادب تخلیق کیا، جس کی دنیا بھر میں پزیرائی ہوئی۔ ڈاکٹر سوس کی تحریرکردہ کُتب کی تعداد 46 ہے، جن کی دنیا کے مختلف براعظموں میں 50 کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اُس کی کہانیوں کو چھوٹے پردے پر پیش کیا گیا، فلم کے قالب میں ڈھالا گیا۔ اس نے درجن بھر کتابیں قلمی نام سے بھی لکھیں۔ اُس کی کتابوں کا 15 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔
جے کے رولنگ:
ہیری پورٹر جیسا مقبول اور ہردل عزیز کردار تخلیق کرنے والی برطانوی مصنفہ، جے کے رولنگ نہ صرف بہ کثرت پڑھے جانے والے ادیبوں کی فہرست میں شامل ہے، بلکہ اُن لکھاریوں میں نمایاں ترین ہے، جس کے کام کو پُرشکوہ انداز میں بڑے پردے پر پیش کیا گیا۔ اِس سیریز پر بننے والی آٹھ فلموں نے ہالی وڈ سمیت دنیا بھر میں کئی ریکارڈ قائم کیے۔ ہیری پورٹر سیریز پر مشتمل سات ناولوں کی لگ بھگ 45 کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ اِسے سب سے زیادہ فروخت ہونے والی فکشن سیریز تصور کیا جاتا ہے۔ ہیری پورٹر کے کردار نے 47 سالہ جے کے رولنگ سے زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا۔ آج اُس کا شمار برطانیہ کی امیر ترین خواتین میں ہوتا ہے۔ فلمی پردے کے جادو اور انٹرنیٹ کی رسائی نے بلاشبہہ ہیری پورٹر کو دنیائے ادب کے مقبول ترین کردار کی مسند پر فائز کر دیا ہے۔ اِس پُرتجسس سیریز کا 65 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔