ملکی سیاست کا معتبرنام الٰہی بخش سومرو
ملکی سیاست کا معتبرنام، الٰہی بخش سومرو
ملک کے معتبر سیاستدان الٰہی بخش سومرو بھی نصف صدی کے قریب سیاست کرنے والے ان لوگوں میں شامل ہیں جو ملک کے اہم عہدوں پر تعینات رہے مگر انھوں نے شرافت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور تکبر سے دور رہ کر ہمیشہ رواداری کو ترجیح دی اور 98 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے مگر اپنے آبائی شہر شکارپور کے بجائے جیکب آباد میں سپردخاک کیے گئے جہاں ان کے بڑے بھائی احمد میاں سومرو دفن ہیں جب کہ ان دونوں کے والد حاجی مولا بخش سومرو اور ان کے بڑے بھائی سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ میاں اللہ بخش سومرو شکارپور میں دفن ہیں جہاں ان کا آبائی قبرستان ہے مگر دونوں بھائی اپنے آبائی شہر میں دفن نہیں ہیں۔
ذوالفقارعلی بھٹو کے وزیر اعظم بننے سے قبل الٰہی بخش سومرو کے ڈی اے کے سربراہ تھے جنھیں ان کے پرانے دوست ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آ کر فارغ کیا تھا ۔ شکارپور کی سیاست کا معتبر نام سومرو خاندان تھا جس کے سربراہ حاجی مولا بخش سومرو تھے اور بھٹو دور میں سومرو خاندان عتاب کا شکار رہا مگر انھوں نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ بھٹو حکومت کا خاتمہ کرکے جنرل ضیا الحق اقتدار میں آئے تو انھوں نے حاجی مولا بخش سومرو کو اپنا سیاسی امور کا مشیر مقرر کیا تھا۔ حاجی مولا بخش سومرو 1970 میں پیپلز پارٹی کے آغا غلام نبی خان کو ہرا کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے شہر لاڑکانہ کو ڈویژن کا درجہ دینے کے لیے جولائی 1977 میں شکارپور کا ضلع قائم کیا تھا جسے جنرل ضیا الحق نے ختم کر دیا تھا اور بعد میں حاجی مولا بخش سومرو کی درخواست پر ضلع بحال کیا تھا اور سکھر میں کہا تھا کہ میں شکارپور ضلع حاجی مولا بخش کو تحفے میں دے رہا ہوں ۔حاجی مولا بخش کے بڑے صاحبزادے اللہ بخش سومرو مغربی پاکستان اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر رہے تھے مگر اپنا شہر انھوں نے پہلے ہی چھوڑ دیا تھا اور جیکب آباد میں رہ کر زمینداری کرتے رہے جس کے بعد اپنی زندگی کا آخری الیکشن الٰہی بخش سومرو نے جیکب آباد سے لڑا تھا اور اب وہیں دفن ہوئے۔
الٰہی بخش سومرو کو جنرل ضیا الحق نے وفاقی وزیر صنعت مقرر کیا تھا اور مارشل لا دور میں انھوں نے قومی اسمبلی کا الیکشن جو غیر جماعتی بنیاد پر 1985 میں ہوا تھا اس میں الٰہی بخش سومرو شکارپور سے بلامقابلہ کامیاب ہوئے تھے اور جنرل ضیا الحق انھیں وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے مگر ان کی راہ میں ایک سیاسی شخصیت رکاوٹ بن گئی تھی اور انھوں نے الٰہی بخش سومرو پر محمد خان جونیجو کو ترجیح دے کر وزیر اعظم بنوایا تھا مگر الٰہی بخش ان کی کابینہ میں شامل نہیں ہوئے تھے جن کی برطرفی کے بعد 1988 میں الٰہی بخش سومرو پی پی کے امیدوار طارق خان سے ہار گئے تھے۔تین فروری 1989 میں ان کے والد حاجی مولابخش سومرو کا انتقال ہوا تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف، چوہدری شجاعت اور شیخ رشید کے ہمراہ تعزیت کے لیے آئے تھے۔
چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد، وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اکبر بگٹی اور صدر مملکت غلام اسحاق خان بھی اظہار تعزیت کے لیے الٰہی بخش سے تعزیت کرنے شکارپور آئے تھے جب کہ خود جنرل ضیا الحق خود بھی 1981 میں اے آر ڈی تحریک کے بعد شکارپور الٰہی بخش سومرو کے والد حاجی مولابخش کی عیادت کو آئے تھے۔الٰہی بخش سومرو کا شمار شریف النفس سیاستدانوں میں ہوتا ہے وہ جنرل ضیا ء الحق کے قابل اعتماد ساتھیوں میں سے تھے جو بعد میں مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے تھے۔
راقم الحروف کا الٰہی بخش سومرو سے تعلق ان کی وزارت صنعت سے قائم ہوا تھا اور راقم اپنے شکارپور کے صحافیوں کے ہمراہ مطالعاتی دورے پر پنجاب گئے تھے تو الٰہی بخش سومرو نے انھیں اپنا مہمان بنایا تھا اور ہمارا آزاد کشمیر کا دورہ بھی کرایا تھا جب کہ وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق نے بھی پشاور اور لاہور کے دورے کا انتظام کیا تھا۔شکارپور ضلع کے دو بڑے سیاسی خاندانوں میں آغا غلام نبی خان شروع سے پیپلز پارٹی میں تھے اور سومرو خاندان آزادانہ سیاست کرتے تھے کبھی پیپلز پارٹی میں شامل نہیں ہوئے اور یہ خاندان شرافت کی سیاست کی علامت تھا۔ سومرو خاندان کا گھر شکارپور میں اور پٹھان خاندان سلطان کوٹ کا رہائشی تھا اور لوگ ذاتی کاموں کے لیے طویل عرصہ اقتدار میں رہنے والے سومرو خاندان کے پاس جاتے تھے تو ان کی شنوائی ضرور ہوتی تھی ۔ میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور میں قومی اسمبلی کا اسپیکر بنوایا تھا۔
1990 میں جب شکارپور میں لسانی بنیاد پر یکم جون کو لوٹ مار اور نقل مکانی ہوئی تھی تو اس سے قبل راقم نے الٰہی بخش سومرو کو پی پی حکومت میں شہر کے بگڑتے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہر میں اردو بولنے والے سومرو خاندان کے ووٹر رہے ہیں اس لیے حالات کی بہتری کے لیے کچھ کریں مگر اقتدار سے باہر رہتے ہوئے الٰہی بخش سومرو زیادہ کراچی میں رہتے تھے مگر وہ بیورو کریسی میں بااثر تھے اور حکومتی لوگ اور سیاستدان شکارپور سے گزرتے ہوئے ساعت سرا سومرو ضرور آتے تھے۔
1990 میں راقم کو بھی سیکڑوں افراد کی طرح جب اپنا شہر شکارپور چھوڑنا پڑا تو سومرو خاندان کے داماد آفتاب میرانی وزیر اعلیٰ سندھ تھے جو بے نظیر بھٹو کے قریب تھے اور ان کا شمار بھی شریف سیاستدانوں میں ہوتا تھا اور ان کے اقتدار میں ہی شکارپور کے حالات بگاڑے گئے تھے مگر وہ بھی بے بس رہے اور بعد میں جب الٰہی بخش اسپیکر قومی اسمبلی تھے تو ان سے راقم کی ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھ سے شہر چھوڑنے کی وجہ پوچھی تو میں نے انھیں یاد دلایا کہ'' شہر کے حالات میں نے آپ کو بتائے تھے اگر آپ کوشش کرتے تو حالات بہتر رہتے'' مگر 1988 کے بعد وہ اقتدار میں نہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کر سکے جس کے بعد سومرو خاندان کی مقبولیت متاثر ہوئی تھی جس کی وجہ سے سومرو خاندان کی اپنے شہر سے عدم دلچسپی بھی تھی اور سومرو خاندان نے شکارپور سے مایوس ہو کر جیکب آباد کو ترجیح دی تھی۔ الٰہی بخش سومرو چند سال قبل سیاست سے لاتعلق ہوگئے تھے اور طویل عرصہ کراچی میں بیمار رہے اور یہیں وہ 9 اکتوبر کو اللہ کو پیارے ہوگئے۔
ذوالفقارعلی بھٹو کے وزیر اعظم بننے سے قبل الٰہی بخش سومرو کے ڈی اے کے سربراہ تھے جنھیں ان کے پرانے دوست ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آ کر فارغ کیا تھا ۔ شکارپور کی سیاست کا معتبر نام سومرو خاندان تھا جس کے سربراہ حاجی مولا بخش سومرو تھے اور بھٹو دور میں سومرو خاندان عتاب کا شکار رہا مگر انھوں نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ بھٹو حکومت کا خاتمہ کرکے جنرل ضیا الحق اقتدار میں آئے تو انھوں نے حاجی مولا بخش سومرو کو اپنا سیاسی امور کا مشیر مقرر کیا تھا۔ حاجی مولا بخش سومرو 1970 میں پیپلز پارٹی کے آغا غلام نبی خان کو ہرا کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے شہر لاڑکانہ کو ڈویژن کا درجہ دینے کے لیے جولائی 1977 میں شکارپور کا ضلع قائم کیا تھا جسے جنرل ضیا الحق نے ختم کر دیا تھا اور بعد میں حاجی مولا بخش سومرو کی درخواست پر ضلع بحال کیا تھا اور سکھر میں کہا تھا کہ میں شکارپور ضلع حاجی مولا بخش کو تحفے میں دے رہا ہوں ۔حاجی مولا بخش کے بڑے صاحبزادے اللہ بخش سومرو مغربی پاکستان اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر رہے تھے مگر اپنا شہر انھوں نے پہلے ہی چھوڑ دیا تھا اور جیکب آباد میں رہ کر زمینداری کرتے رہے جس کے بعد اپنی زندگی کا آخری الیکشن الٰہی بخش سومرو نے جیکب آباد سے لڑا تھا اور اب وہیں دفن ہوئے۔
الٰہی بخش سومرو کو جنرل ضیا الحق نے وفاقی وزیر صنعت مقرر کیا تھا اور مارشل لا دور میں انھوں نے قومی اسمبلی کا الیکشن جو غیر جماعتی بنیاد پر 1985 میں ہوا تھا اس میں الٰہی بخش سومرو شکارپور سے بلامقابلہ کامیاب ہوئے تھے اور جنرل ضیا الحق انھیں وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے مگر ان کی راہ میں ایک سیاسی شخصیت رکاوٹ بن گئی تھی اور انھوں نے الٰہی بخش سومرو پر محمد خان جونیجو کو ترجیح دے کر وزیر اعظم بنوایا تھا مگر الٰہی بخش ان کی کابینہ میں شامل نہیں ہوئے تھے جن کی برطرفی کے بعد 1988 میں الٰہی بخش سومرو پی پی کے امیدوار طارق خان سے ہار گئے تھے۔تین فروری 1989 میں ان کے والد حاجی مولابخش سومرو کا انتقال ہوا تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف، چوہدری شجاعت اور شیخ رشید کے ہمراہ تعزیت کے لیے آئے تھے۔
چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد، وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اکبر بگٹی اور صدر مملکت غلام اسحاق خان بھی اظہار تعزیت کے لیے الٰہی بخش سے تعزیت کرنے شکارپور آئے تھے جب کہ خود جنرل ضیا الحق خود بھی 1981 میں اے آر ڈی تحریک کے بعد شکارپور الٰہی بخش سومرو کے والد حاجی مولابخش کی عیادت کو آئے تھے۔الٰہی بخش سومرو کا شمار شریف النفس سیاستدانوں میں ہوتا ہے وہ جنرل ضیا ء الحق کے قابل اعتماد ساتھیوں میں سے تھے جو بعد میں مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے تھے۔
راقم الحروف کا الٰہی بخش سومرو سے تعلق ان کی وزارت صنعت سے قائم ہوا تھا اور راقم اپنے شکارپور کے صحافیوں کے ہمراہ مطالعاتی دورے پر پنجاب گئے تھے تو الٰہی بخش سومرو نے انھیں اپنا مہمان بنایا تھا اور ہمارا آزاد کشمیر کا دورہ بھی کرایا تھا جب کہ وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق نے بھی پشاور اور لاہور کے دورے کا انتظام کیا تھا۔شکارپور ضلع کے دو بڑے سیاسی خاندانوں میں آغا غلام نبی خان شروع سے پیپلز پارٹی میں تھے اور سومرو خاندان آزادانہ سیاست کرتے تھے کبھی پیپلز پارٹی میں شامل نہیں ہوئے اور یہ خاندان شرافت کی سیاست کی علامت تھا۔ سومرو خاندان کا گھر شکارپور میں اور پٹھان خاندان سلطان کوٹ کا رہائشی تھا اور لوگ ذاتی کاموں کے لیے طویل عرصہ اقتدار میں رہنے والے سومرو خاندان کے پاس جاتے تھے تو ان کی شنوائی ضرور ہوتی تھی ۔ میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور میں قومی اسمبلی کا اسپیکر بنوایا تھا۔
1990 میں جب شکارپور میں لسانی بنیاد پر یکم جون کو لوٹ مار اور نقل مکانی ہوئی تھی تو اس سے قبل راقم نے الٰہی بخش سومرو کو پی پی حکومت میں شہر کے بگڑتے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہر میں اردو بولنے والے سومرو خاندان کے ووٹر رہے ہیں اس لیے حالات کی بہتری کے لیے کچھ کریں مگر اقتدار سے باہر رہتے ہوئے الٰہی بخش سومرو زیادہ کراچی میں رہتے تھے مگر وہ بیورو کریسی میں بااثر تھے اور حکومتی لوگ اور سیاستدان شکارپور سے گزرتے ہوئے ساعت سرا سومرو ضرور آتے تھے۔
1990 میں راقم کو بھی سیکڑوں افراد کی طرح جب اپنا شہر شکارپور چھوڑنا پڑا تو سومرو خاندان کے داماد آفتاب میرانی وزیر اعلیٰ سندھ تھے جو بے نظیر بھٹو کے قریب تھے اور ان کا شمار بھی شریف سیاستدانوں میں ہوتا تھا اور ان کے اقتدار میں ہی شکارپور کے حالات بگاڑے گئے تھے مگر وہ بھی بے بس رہے اور بعد میں جب الٰہی بخش اسپیکر قومی اسمبلی تھے تو ان سے راقم کی ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھ سے شہر چھوڑنے کی وجہ پوچھی تو میں نے انھیں یاد دلایا کہ'' شہر کے حالات میں نے آپ کو بتائے تھے اگر آپ کوشش کرتے تو حالات بہتر رہتے'' مگر 1988 کے بعد وہ اقتدار میں نہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کر سکے جس کے بعد سومرو خاندان کی مقبولیت متاثر ہوئی تھی جس کی وجہ سے سومرو خاندان کی اپنے شہر سے عدم دلچسپی بھی تھی اور سومرو خاندان نے شکارپور سے مایوس ہو کر جیکب آباد کو ترجیح دی تھی۔ الٰہی بخش سومرو چند سال قبل سیاست سے لاتعلق ہوگئے تھے اور طویل عرصہ کراچی میں بیمار رہے اور یہیں وہ 9 اکتوبر کو اللہ کو پیارے ہوگئے۔