پاکستان میں حکمرانی کے آداب
پاکستان میں اب تک سوائے عوام کے سب نے حکمرانی کی ہے۔ آپ ہوسکتا ہے کہ اس تحریر کو جمہوریت کے خلاف ایک مذموم سازش قرار دیں۔ لیکن میں نے تو اپنی طرف سے یہ کوشش کی ہے موجودہ حکمرانوں کو پاکستان میں آداب حکمرانی سے روشناس کراؤں تاکہ وہ اطمینان سے ہم پر حکومت کریں اور عوام بھی چین و سکون کا سانس لے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ بس سمجھ لیجیے کہ یہی نسخہ کیمیا آج کی تحریر کا مطمع نظر ہے۔
پاکستان 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا، چونکہ پہلے نو سال پاکستان کے پاس اپنا آئین نہیں تھا تو ہماری حیثیت ایک تسلط شدہ ریاست کی تھی اور ملکہ برطانیہ ہی ہماری سربراہ مملکت تھی۔ ان نو برسوں میں پاکستان نے چار گورنر جنرل دیکھے۔ پاکستانی اتنے کشادہ دل ہیں کہ حکمرانوں کے معزول ہونے کے باوجود ان سے حق حکمرانی نہیں چھینا تاوقتیکہ انھوں نے خود حقیقی حکمرانوں کو زچ نہیں کردیا۔ یہ رسم آج بھی جاری ہے۔
پاکستان کا پہلا آئین اس کی دوسری اسمبلی نے 29 فروری 1956 کو منظور کیا۔ آئین بننے کی سالگرہ چار سال بعد 1960 میں آنی تھی کیونکہ 1956 لیپ سال تھا۔ اب خدا معلوم یہ بھی سازش تھی یا اتفاق بہرحال سالگرہ کیا آتی کیونکہ اس سے پہلے ہی مارشل لاء آگیا۔
حکمرانوں نے پاکستانی عوام کو کبھی بھی جمہوریت کے لائق ہی نہیں سمجھا، اس لیے پہلے بنیادی جمہوریت کا تجربہ کیا گیا اور ملک کے حکمرانوں کا چناؤ چند ہزار BD Members کے سپرد کیا گیا۔ پاکستان میں بالغ رائے دہی پر پہلے انتخابات ستمبر 1970 میں ہوئے مگر اس کے نتیجے میں حکومت بننے سے پہلے ملک دولخت ہوگیا۔ باقی ماندہ پاکستان میں جس کی حکومت بنی وہ پھانسی پر چڑھنے کے باوجود آج بھی زندہ ہے۔
فوج اور سیاستدان باری باری اس ملک پر حکومت کرتے رہے، اگر کسی کو حکومت نہ ملی تو وہ عوام کو نہ ملی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ چناؤ کا کھیل اس قدر مہنگا کردیا گیا کہ یہ شوق ایک مخصوص طبقے جوکہ جاگیرداروں، کاروباری حضرات، سابق اعلیٰ سرکاری ملازمین اور ان کے اپنے خاندان تک محدود ہوکر رہ گیا۔ دنیا اس کو موروثیت کہتی ہے جبکہ ہمارے یہاں اسے حقیقی جمہوریت کا نام دیا گیا۔ افراد کا نام سیاسی جماعتوں میں شامل کردیا گیا تاکہ سیاسی جماعت کے اصل مالکان کے سلسلے میں کوئی ابہام نہ رہے۔ ہاں عوام کو ایک جھنجھنا ضرور تھما دیا گیا کہ ''بے شک جمہوریت بہترین انتقام ہے'' جو آج تک عوام سے لیا جارہا ہے۔
پاکستان کے تمام حکمران طبقے آج حیران ہیں کہ ماضی میں عوام ہر طرح کے حکمرانوں کو قبول کرلیتے تھے بشمول اسپیشل حکمران کو بھی، اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ عوام حکمرانوں پر انگلیاں ہی نہیں بلکہ پتہ نہیں کیا کیا اٹھا رہے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ ایک وقت تھا کہ ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان کو فخریہ طور پر پیش کیا جاتا تھا کہ پاکستان میں نہ کوئی سڑکوں پر سوتا ہے اور نہ ہی کوئی بھوکا سوتا ہے۔ ہم آج اس دعوے سے بھی محروم ہوگئے ہیں اور اسی میں اس کا علاج پوشیدہ ہے بلکہ پوشیدہ امراض کی طرح ہے۔
ایک خبر کے مطابق ملک میں گداگروں کی تعداد لگ بھگ چار کروڑ کے قریب ہے اور اگر ملک کی آبادی کو چوبیس کروڑ مان لیا جائے تو یہ اس ملک کی آبادی کا سولہ فیصد بنتا ہے۔ ملک میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد بھی کروڑوں میں بتائی جاتی ہے۔ لوگ بجلی کے بل اور دیگر ضروریات پوری نہ ہونے پر گھر والوں سمیت خودکشی کررہے ہیں۔
پاکستان میں حکمرانی کا سیدھا سادہ گُر یہ ہے کہ لوگوں کو بنیادی ضروریات کی چیزیں جیسے کھانے پینے کی اشیاء، سہولیات زندگی جیسے بجلی اور گیس، صحت اور تعلیم دے دیجیے لوگوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس ملک پر کون حکومت کررہا ہے اور کیوں کررہا ہے۔ ملک میں بنیادی حقوق ہیں یا معطل کردیے گئے ہیں۔ سچ پوچھیے تو لوگوں کو دونوں کا فرق بھی نہیں پتہ ہوگا، کیونکہ جب ایک حکمران نے آئین کو بارہ صفحات کی کتاب قرار دیا تھا تب بھی عوام خاموش رہے تھے۔ عام لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عدالت آئینی ہے یا نہیں، ملک میں کسی بھی عہدے پر چناؤ کا طریقہ کار کیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ بس لوگوں سے جینے کا حق نہ چھینیں، وہ آپ کو حکمرانی کرتے رہنے دیں گے۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عوام ''طاقت کا سرچشمہ'' ہیں۔ اس پر کسی دل جلے نے پوسٹ بنائی کہ عوام طاقت کا سر اور چشمہ ہے، باقی اعضا کا جیسے ہی پتہ چلے گا عوام کو مطلع کردیا جائے گا۔
عوام کا اپنے نمائندوں اور ان نمائندوں کا عوام سے کیا اور کیسا تعلق ہے اس پر ایک کہانی نما واقعہ اور اختتام۔
ایک بہت ہی امیر کبیر صاحب ایک بہت ہی غریب علاقے سے چناؤ کےلیے کھڑے ہوئے۔ ایک دن وہ اس غریب علاقے میں تقریر کررہے تھے کہ وہ اس علاقے کے تمام مسائل حل کردیں گے، صحت، تعلیم وغیرہ، تو اس پر اس علاقے کے ایک صاحب نے کھڑے ہوکر سوال کیا کہ جناب آپ اتنے بڑے اور امیر کبیر آدمی ہیں، ہم آپ کے خلوص پر کیسے یقین کریں کہ اسمبلی میں پہنچ کر بھی آپ ہمیں اور ہمارے مسائل کو یاد رکھیں گے؟
اس پر ان امیر کبیر صاحب نے کہا کہ میرے خلوص کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوگا کہ آپ جیسے ٹکے ٹکے کے لوگوں کے سامنے کھڑا ہوکر ووٹ مانگ رہا ہوں۔
اس سے آگے جمہوریت پر لکھنے کی مجھ میں تاب نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔