شنگھائی تعاون تنظیم روشن مستقبل کا اعلامیہ
شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پاکستان کے لیے حقیقی گیم چینجر اور اہم سنگ میل ثابت ہو گا
شنگھائی تعاون تنظیم کا 23 واں سربراہان حکومت کا اجلاس اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے جس کا مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔ اعلامیے میں ''ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل'' کے اُصول پر زور دیا گیا اور غیر امتیازی اور شفاف عالمی تجارتی نظام کو ضروری قرار دیتے ہوئے یکطرفہ تجارتی پابندیوں کی مخالفت کی گئی۔
درحقیقت شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام کا بنیادی مقصد دنیا میں تنہا سپر پاور کے نظریے کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ اس کے اہم اہداف میں رکن ممالک کے درمیان اچھی ہمسائیگی، تجارت، سائنس اور ٹیکنالوجی، تعلیم، توانائی، سیاحت کے شعبوں میں تعاون، خطے میں امن و امان اور سلامتی کو مشترکہ طور پر یقینی بنانا ہے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے بعد شنگھائی سربراہ کانفرنس کا اسلام آباد میں انعقاد پاکستان کے لیے اہم سنگ میل ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پاکستان کے لیے حقیقی گیم چینجر اور اہم سنگ میل ثابت ہو گا، ایس سی او کے رکن ممالک نے اجلاس کے دوران اقتصادی روابط بڑھانے پر توجہ مرکوز کی۔ یہ اہم سربراہی اجلاس یقینی طور پر علاقائی تجارت میں اضافے کا سبب بنے گا اور زراعت، پیشہ ورانہ تربیت اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں باہمی تعاون کے منصوبوں کے ذریعے غربت میں کمی لائے گا۔ افغانستان اور کشمیر کے تنازعہ سمیت علاقائی سلامتی کے خدشات کو حل کرتے ہوئے کاربن ٹریڈنگ پر علاقائی تعاون اور کم کاربن ٹیکنالوجیز کے فروغ کے لیے نئے فریم ورک کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی پر خصوصی توجہ مرکوز کرے گا۔
پاکستان کی مخدوش معاشی صورتحال، جس کی نشاندہی بڑھتی ہوئی مہنگائی، گرتے ہوئے غیر ملکی ذخائر اور سست شرح نمو ہے، نئی اقتصادی شراکت داری کی اشد ضرورت ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں شنگھائی تعاون تنظیم کی اقتصادی جہت عمل میں آتی ہے۔بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر پاکستان آئے، کچھ وقت یہاں گذارا، شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شریک ہوئے، اسے بہت بڑی پیشرفت تو قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کے وزیر خارجہ یہ کام ویڈیو لنک کے ذریعے بھی کرسکتے تھے لیکن انھوں نے خود ایس سی او اجلاس میں شرکت کو ترجیح دی۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات اچھے نہیں ہیں اور بنیادی مسائل حل ہونے تک تعلقات معمول پر آبھی نہیں سکتے۔
مقبوضہ کشمیر سب سے بڑا مسئلہ ہے اور جب تک یہ معاملہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل نہیں ہوتا اس وقت تک حالات معمول پر نہیں آ سکتے۔ پاکستان میں امن و امان کے حالات بگاڑنے میں بھارت کا بہت کردار رہا ہے، بھارت، افغانستان کے ذریعے اور دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کرتے ہوئے پاکستان میں امن عمل کو خراب کرنے کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔
پاکستان نے عالمی اداروں کے سامنے ہر موقع پر ناقابل تردید ثبوت و شواہد رکھتے ہوئے اپنا مقدمہ پیش کیا ہے لیکن دنیا مالی مفادات کے پیش نظر حقائق پر نظر دوڑانے کے بجائے کسی اور انداز میں سوچتی ہے اور وہ سوچ مالی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ سو پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کی بہتری کے لیے بنیادی مسائل کا حل ضروری ہے۔ اس کے لیے بات چیت بھی ایک راستہ ہی ہے۔
چینی وزیراعظم کی پاکستان آمد اور اجلاس میں شرکت ہمارے لیے نیک شگون ثابت ہوئی ہے، اسی تناظر میں سی پیک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چین کے ساتھ مل کر پاکستان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے منصوبے پر بھی غور کر رہا ہے۔ گویا دہشت گرد صرف پاکستان کے ہی دشمن نہیں ہیں، بلکہ چین کے مفادات پر بھی ضرب لگاتے ہیں اِس لیے ان کا خاتمہ دونوں ممالک کی مشترکہ کاوشوں سے کیا جاتا ہے۔ افغانستان سے امریکی اتحادی افواج کے خروج کے بعد پاکستان کے لیے جو مثبت امکانات پیدا ہوئے تھے اس سے بھی کماحقہ فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔
ہم دو دہائیوں تک افغانوں کے مددگار اور میزبان بنے رہے اور اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ افغانستان ہمارے دہشت گردوں کا سہولت کار بنا ہوا ہے۔ افغان سرزمین ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستان دشمن گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن چکی ہے۔ افغان ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں ہم اب بھی ان کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہیں،لاکھوں افغانی یہاں مقیم ہیں۔پاکستانی پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں یہاں کاروبار کر رہے ہیں، لیکن ہماری مبہم اور غیر حقیقی پالیسیوں کے باعث وہ ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں۔ ہماری علاقائی سالمیت کا احترام نہیں کرتے،ہم پیدا ہونے والے مواقع سے فائدہ اٹھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس پاکستان کے لیے حقیقی گیم چینجر اور اہم سنگ میل ثابت ہو گی، چین، روس سمیت دیگر ممالک کے سربراہان کی آمد پاکستان پر عالمی دنیا کے اعتماد کی مظہر ہے، اب ایس سی او اجلاس سے دنیا میں پاکستان کا مثبت امیج جائے گا،شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس معاشی بحالی،علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا اہم موقعہ ثابت ہوا ہے، پاکستان معاشی سفارتکاری کے ذریعے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کے فروغ کے لیے پرعزم ہے۔ دو روزہ کامیاب ترین اجلاس نہ صرف پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کا مظہر ہے بلکہ ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے بھی اہم مواقعے فراہم کرتا ہے۔ اجلاس کے دوران پاکستان کو عالمی سطح پر اپنی پالیسیوں کو اجاگر کرنے اور عالمی اقتصادی نظام میں اپنے کردارکو مزید مضبوط کرنے کا موقع ملا ہے۔
دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پاکستان میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون کونسل ( ایس سی او) کے سربراہی اجلاس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر ملک کے خود مختار گروپ میں شریک ہونے کے حق کا احترام کرتے ہیں۔شنگھائی تعاون تنظیم سینٹرل ایشیائی ممالک کو ایک بہت بڑا فورم فراہم کرتی ہے کہ وہ آپس میں بیٹھ کر نہ صرف خطے کے مسائل حل کریں ساتھ میں معیشت، توانائی، ڈیفنس اور سیکیورٹی جیسے معاملات میں بھی پیش رفت کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھا کر خطے کے تمام رکن ممالک معاشی ترقی، دفاعی صلاحیت اور سیکیورٹی جیسے مسائل کو باہمی تعاون سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مستقبل میں پاکستان کو SCO کے ذریعے مزید تعاون اور اقتصادی ترقی کے مواقعے حاصل ہوں گے۔ تنظیم کے پلیٹ فارم پر پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کو بہتر طریقے سے استعمال کرسکتا ہے اور عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرسکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں کئی ممالک شریک تھے اور موجودہ حالات میں اس اجلاس کی میزبانی سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ضرور فائدہ ہو گا۔ بھارت اور چین کے درمیان بھی سرحدی تنازعات ہیں، اسی طرح بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی سرحدی تنازعات رہے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سرحدی تنازعات ہیں۔ جس طرح یورپ میں ریجنل گروپس ہیں اور دوسری جانب امریکا میں ریجنل گروپس، جو باہمی تعاون کے ذریعے اپنے مسائل حل کرتے ہیں۔ ایس سی او کا بنیادی مقصد دہشت گردی، انتہا پسندی اور علاقائی امن کو فروغ دینا ہے۔ دونوں ممالک ان مسائل پر بات چیت کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے سیکیورٹی خدشات کو سن سکتے ہیں، جو کشیدگی کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔
سیاسی استحکام سے ہی غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی جانب سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لیے کوششیں مزید تیز ہونی چاہئیں اور اپوزیشن کی جماعتوں کو چاہیے کہ ملک کے بہترین مفاد میں مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائے۔ آئے روز کے احتجاج و مظاہروں سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد خراب ہوسکتا ہے جس سے ملک کو معاشی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ میری تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل ہے کہ ملک کے بہترین مفاد میں ایک ہوکر معاشی و اقتصادی ترقی کے لیے مل بیٹھیں اور باہمی سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر ملک کی خاطر مسائل کو مذاکرات سے حل کریں تاکہ سیاسی استحکام پیدا ہو اور سرمایہ کاری میں مزید اضافہ ہوسکے، اگر منفی سیاست اور ضد جاری رکھی گئی تو قوم آپ کو مسترد کردے گی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی مہمانداری کے ذریعے پاکستان کے قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے، سفارتی سطح پر اس کی اہمیت اُجاگر ہوئی ہے،اقتصادی ترقی کے روشن امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ ضرورت اِس امرکی ہے ہم ایسے مواقعے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ روس کا بہت بڑا وفد یہاں آیا ہے، ہمیں روس کے ساتھ نئے باب کا آغاز کرنا چاہیے، چین کی موجودگی میں روس کے ساتھ معاملات کرنے میں ہمیں آسانی ہوگی۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم یکسوئی کے ساتھ معاملات دیکھیں اور ان میں اپنے مفادات کے مطابق مواقعے تلاش کرکے انھیں روبہ عمل لائیں۔
درحقیقت شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام کا بنیادی مقصد دنیا میں تنہا سپر پاور کے نظریے کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ اس کے اہم اہداف میں رکن ممالک کے درمیان اچھی ہمسائیگی، تجارت، سائنس اور ٹیکنالوجی، تعلیم، توانائی، سیاحت کے شعبوں میں تعاون، خطے میں امن و امان اور سلامتی کو مشترکہ طور پر یقینی بنانا ہے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے بعد شنگھائی سربراہ کانفرنس کا اسلام آباد میں انعقاد پاکستان کے لیے اہم سنگ میل ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پاکستان کے لیے حقیقی گیم چینجر اور اہم سنگ میل ثابت ہو گا، ایس سی او کے رکن ممالک نے اجلاس کے دوران اقتصادی روابط بڑھانے پر توجہ مرکوز کی۔ یہ اہم سربراہی اجلاس یقینی طور پر علاقائی تجارت میں اضافے کا سبب بنے گا اور زراعت، پیشہ ورانہ تربیت اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں باہمی تعاون کے منصوبوں کے ذریعے غربت میں کمی لائے گا۔ افغانستان اور کشمیر کے تنازعہ سمیت علاقائی سلامتی کے خدشات کو حل کرتے ہوئے کاربن ٹریڈنگ پر علاقائی تعاون اور کم کاربن ٹیکنالوجیز کے فروغ کے لیے نئے فریم ورک کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی پر خصوصی توجہ مرکوز کرے گا۔
پاکستان کی مخدوش معاشی صورتحال، جس کی نشاندہی بڑھتی ہوئی مہنگائی، گرتے ہوئے غیر ملکی ذخائر اور سست شرح نمو ہے، نئی اقتصادی شراکت داری کی اشد ضرورت ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں شنگھائی تعاون تنظیم کی اقتصادی جہت عمل میں آتی ہے۔بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر پاکستان آئے، کچھ وقت یہاں گذارا، شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شریک ہوئے، اسے بہت بڑی پیشرفت تو قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کے وزیر خارجہ یہ کام ویڈیو لنک کے ذریعے بھی کرسکتے تھے لیکن انھوں نے خود ایس سی او اجلاس میں شرکت کو ترجیح دی۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات اچھے نہیں ہیں اور بنیادی مسائل حل ہونے تک تعلقات معمول پر آبھی نہیں سکتے۔
مقبوضہ کشمیر سب سے بڑا مسئلہ ہے اور جب تک یہ معاملہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل نہیں ہوتا اس وقت تک حالات معمول پر نہیں آ سکتے۔ پاکستان میں امن و امان کے حالات بگاڑنے میں بھارت کا بہت کردار رہا ہے، بھارت، افغانستان کے ذریعے اور دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کرتے ہوئے پاکستان میں امن عمل کو خراب کرنے کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔
پاکستان نے عالمی اداروں کے سامنے ہر موقع پر ناقابل تردید ثبوت و شواہد رکھتے ہوئے اپنا مقدمہ پیش کیا ہے لیکن دنیا مالی مفادات کے پیش نظر حقائق پر نظر دوڑانے کے بجائے کسی اور انداز میں سوچتی ہے اور وہ سوچ مالی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ سو پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کی بہتری کے لیے بنیادی مسائل کا حل ضروری ہے۔ اس کے لیے بات چیت بھی ایک راستہ ہی ہے۔
چینی وزیراعظم کی پاکستان آمد اور اجلاس میں شرکت ہمارے لیے نیک شگون ثابت ہوئی ہے، اسی تناظر میں سی پیک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چین کے ساتھ مل کر پاکستان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے منصوبے پر بھی غور کر رہا ہے۔ گویا دہشت گرد صرف پاکستان کے ہی دشمن نہیں ہیں، بلکہ چین کے مفادات پر بھی ضرب لگاتے ہیں اِس لیے ان کا خاتمہ دونوں ممالک کی مشترکہ کاوشوں سے کیا جاتا ہے۔ افغانستان سے امریکی اتحادی افواج کے خروج کے بعد پاکستان کے لیے جو مثبت امکانات پیدا ہوئے تھے اس سے بھی کماحقہ فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔
ہم دو دہائیوں تک افغانوں کے مددگار اور میزبان بنے رہے اور اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ افغانستان ہمارے دہشت گردوں کا سہولت کار بنا ہوا ہے۔ افغان سرزمین ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستان دشمن گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن چکی ہے۔ افغان ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں ہم اب بھی ان کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہیں،لاکھوں افغانی یہاں مقیم ہیں۔پاکستانی پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں یہاں کاروبار کر رہے ہیں، لیکن ہماری مبہم اور غیر حقیقی پالیسیوں کے باعث وہ ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں۔ ہماری علاقائی سالمیت کا احترام نہیں کرتے،ہم پیدا ہونے والے مواقع سے فائدہ اٹھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس پاکستان کے لیے حقیقی گیم چینجر اور اہم سنگ میل ثابت ہو گی، چین، روس سمیت دیگر ممالک کے سربراہان کی آمد پاکستان پر عالمی دنیا کے اعتماد کی مظہر ہے، اب ایس سی او اجلاس سے دنیا میں پاکستان کا مثبت امیج جائے گا،شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس معاشی بحالی،علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا اہم موقعہ ثابت ہوا ہے، پاکستان معاشی سفارتکاری کے ذریعے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کے فروغ کے لیے پرعزم ہے۔ دو روزہ کامیاب ترین اجلاس نہ صرف پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کا مظہر ہے بلکہ ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے بھی اہم مواقعے فراہم کرتا ہے۔ اجلاس کے دوران پاکستان کو عالمی سطح پر اپنی پالیسیوں کو اجاگر کرنے اور عالمی اقتصادی نظام میں اپنے کردارکو مزید مضبوط کرنے کا موقع ملا ہے۔
دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پاکستان میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون کونسل ( ایس سی او) کے سربراہی اجلاس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر ملک کے خود مختار گروپ میں شریک ہونے کے حق کا احترام کرتے ہیں۔شنگھائی تعاون تنظیم سینٹرل ایشیائی ممالک کو ایک بہت بڑا فورم فراہم کرتی ہے کہ وہ آپس میں بیٹھ کر نہ صرف خطے کے مسائل حل کریں ساتھ میں معیشت، توانائی، ڈیفنس اور سیکیورٹی جیسے معاملات میں بھی پیش رفت کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھا کر خطے کے تمام رکن ممالک معاشی ترقی، دفاعی صلاحیت اور سیکیورٹی جیسے مسائل کو باہمی تعاون سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مستقبل میں پاکستان کو SCO کے ذریعے مزید تعاون اور اقتصادی ترقی کے مواقعے حاصل ہوں گے۔ تنظیم کے پلیٹ فارم پر پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کو بہتر طریقے سے استعمال کرسکتا ہے اور عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرسکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں کئی ممالک شریک تھے اور موجودہ حالات میں اس اجلاس کی میزبانی سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ضرور فائدہ ہو گا۔ بھارت اور چین کے درمیان بھی سرحدی تنازعات ہیں، اسی طرح بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی سرحدی تنازعات رہے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سرحدی تنازعات ہیں۔ جس طرح یورپ میں ریجنل گروپس ہیں اور دوسری جانب امریکا میں ریجنل گروپس، جو باہمی تعاون کے ذریعے اپنے مسائل حل کرتے ہیں۔ ایس سی او کا بنیادی مقصد دہشت گردی، انتہا پسندی اور علاقائی امن کو فروغ دینا ہے۔ دونوں ممالک ان مسائل پر بات چیت کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے سیکیورٹی خدشات کو سن سکتے ہیں، جو کشیدگی کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔
سیاسی استحکام سے ہی غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی جانب سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لیے کوششیں مزید تیز ہونی چاہئیں اور اپوزیشن کی جماعتوں کو چاہیے کہ ملک کے بہترین مفاد میں مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائے۔ آئے روز کے احتجاج و مظاہروں سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد خراب ہوسکتا ہے جس سے ملک کو معاشی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ میری تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل ہے کہ ملک کے بہترین مفاد میں ایک ہوکر معاشی و اقتصادی ترقی کے لیے مل بیٹھیں اور باہمی سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر ملک کی خاطر مسائل کو مذاکرات سے حل کریں تاکہ سیاسی استحکام پیدا ہو اور سرمایہ کاری میں مزید اضافہ ہوسکے، اگر منفی سیاست اور ضد جاری رکھی گئی تو قوم آپ کو مسترد کردے گی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی مہمانداری کے ذریعے پاکستان کے قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے، سفارتی سطح پر اس کی اہمیت اُجاگر ہوئی ہے،اقتصادی ترقی کے روشن امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ ضرورت اِس امرکی ہے ہم ایسے مواقعے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ روس کا بہت بڑا وفد یہاں آیا ہے، ہمیں روس کے ساتھ نئے باب کا آغاز کرنا چاہیے، چین کی موجودگی میں روس کے ساتھ معاملات کرنے میں ہمیں آسانی ہوگی۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم یکسوئی کے ساتھ معاملات دیکھیں اور ان میں اپنے مفادات کے مطابق مواقعے تلاش کرکے انھیں روبہ عمل لائیں۔