شکست خوردہ خود کلامی

نیت اور ارادہ بیج کی مانند ہیں۔ جب کہ عمل اس بیچ سے معرض وجود میں آنیوالی فصل ہے۔

h.sethi@hotmail.com

ایک صاحب ڈرنک پارٹی میں اپنے دوستوں کے ہمراہ چپ اور افسردہ بیٹھے تھے۔ دوسرے نے اداس خاموشی کی وجہ دریافت کی۔ بولے ''اللہ بخشے والد صاحب ساری عمر اشاروں کنایوں سے مجھے شراب کی برائیوں پر درس دیتے رہے لیکن میں نے اپنی ہوشیاری سے کبھی انھیں شک تک نہیں پڑنے دیا۔

اب میں بھی اپنے بیٹے کو اس کی برائیوں سے متعلق بتاتا رہتا ہوں لیکن کل میں نے اس کی الماری کی دراز میں اپنی ہی ایک گمشدہ بوتل خالی پڑی دیکھ لی دوسرے صاحب نے ازراہ تفنن لیکن بظاہر سنجیدگی سے کہا اب دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں یا آئندہ بیٹے کے ساتھ بیٹھ کر پینا شروع کر دو یا ابھی جام توڑ کر توبہ کر لو۔ پہلے صاحب نے دوسرے کو خالی نظروں سے دیکھا اور کچھ دیر خاموش رہ کر بولے ''مجھے اب زیادہ محتاط رہنا پڑے گا''۔

کہتے ہیں جیسی روح ویسے فرشتے اور جیسا گرو ویسے چیلے۔ بہت کم ایسی نیک روحیں دیکھی گئی ہیں جو گناہ سے آلودہ ماحول میں رہتے ہوئے اپنا دامن بچا کر رکھ سکیں۔ عموماً کند ہم جنس باہم جنس پرواز والی صورت ہی رہتی ہے استثنائی صورتیں بہر حال ممکن ہیں۔ جیسے کہ ایک بار حکیم جالینوس گھبرایا ہوا اپنے مطب پہنچا اور شاگرد سے کہا کہ فلاں دوا لے آؤ مجھے اس کی اشد ضرورت ہے۔ شاگرد نے حیرت سے کہا استاد مکرم وہ تو دیوانوں اور فاتر العقل لوگوں کے علاج کی دوا ہے۔

حکیم بولے بحث میں وقت ضایع مت کرو' ہوا یوں ہے کہ ابھی ابھی ایک پاگل میری طرف متوجہ ہوا پہلے مجھے گھورتا رہا پھر بدمعاشوں کی طرح آنکھ ماری اور میرے کرتے کی آستین تار تار کر دی۔ خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ جب دو آدمی آپس میں ملیں ان میں کوئی نہ کوئی قدر مشترک ضرور ہو گی۔ بعض اوقات قطعی مختلف نسل کے دو جانور جن میں کوئی بھی قدر مشترک نہ ہو' اکٹھے پائے جائیں تو کوئی ایسا معاملہ ہو گا جو ان میں دوستی اور تعلق کا باعث بن سکتا ہے۔ انسانوں کا بھی یہی حال ہے۔


نیت اور ارادہ بیج کی مانند ہیں۔ جب کہ عمل اس بیچ سے معرض وجود میں آنیوالی فصل ہے۔ لیکن جب تک اسے خلوص کے پانی سے سیراب نہیں کیا جاتا فصل کے صحت مند اور پھل کے شیریں و خوش ذائقہ ہونے کے بارے قبل از وقت دعویٰ محال ہے۔ اسی طرح دعوؤں نعروں اور بڑھکوں سے نہ تو معاشرے کو سدھارا جا سکتا ہے نہ عوام کی حالت اور روش میں تبدیلی لانا ممکن ہے۔ منشوروں اور تقریروں میں جو کہا جاتا ہے ان پر خلوص نیت سے کار بند ہونا ہی وہ سنہری کنجی ہے جس کے ذریعے مراد کی منزل کا دروازہ کھل سکتا ہے۔

کچھ لوگوں کے نزدیک سیاست سیڑھی اور سانپ کا کھیل ہے بہت سوں کے لیے نام کمانے اور مال بنانے کا آسان ذریعہ ہے۔ جب کہ درحقیقت یہ اصولوں پر مبنی ایک سنجیدہ کاروبار ہے۔ یہ جزوقتی مشغلہ نہیں کل وقتی حکومت کاری کا فن ہے کچھ گروہوں' خاندانوں اور قبضہ گروپوں نے ماضی میں اسی جعلی لاٹری کو شرطیہ ٹکٹ بنائے رکھا اور نہ صرف کنگال اور کھلنڈرے ارب پتی بن گئے بلکہ ان کے گر گے بھی چاندی بنا گئے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنھوں نے سیاست عبادت اور امانت سجھ کر کی اور جن کا دامن داغدار نہیں ہوا چاہے وہ اقتدار کے ایوانوں میں رہے یا ان سے باہر عوام اور خواص دونوں کے نزدیک محترم اور ذی وقار رہے۔

اختیارات کے تجاوز' منافع خوری' دھوکہ بازی' خرکاری' دھاندلی' ٹیکس چوری' کمیشن خوری' ناقص کاری' رشوت ستانی' تحائف تبدیلی' منشیات فروشی' اسمگلنگ' زبردستی اور دیگر متنوع ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ دولت سے انفرادی اور خاندانی خوش حالی نے مہنگائی کے اس دور میں تنخواہ دار' غریب کسان' مزدور' کم آمدنی والے بے روز گار اور ایماندار طبقہ میں احساس محرومی' مایوسی اور نفرت کے علاوہ ایک منفی ردعمل کو جنم دیا ہے اور یہ لاوا پک رہا ہے۔ جہاں ابل پڑا وہاں ڈکیتیوں اور سفاکانہ قتل کی شکل میں ظاہر بھی ہونا شروع ہو گیا ہے۔

اس فرسٹریشن سے اجتماعی قومی زندگی میں توازن کے بگاڑ کی وجہ سے نئی نئی قسم کے جرائم بے راہ روی اور جنون بطور خاص نوجوان طبقہ کو اپنی گرفت میں لے رہے اور ان میں مستقبل کے بارے میں شکوک اور مایوسی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں اکثریت کے خیال میں حالات کے سدھار اور بہتری کے راستے تا حد نظر دھندلائے ہوئے ہیں۔ جن کی ضروریات موجودہ Vicious Circle یا شیطانی چکر میں شامل رہنے سے پوری ہو رہی ہیں' وہ سب مطمئن ہیں۔ ان میں سے کئی ناپسندیدگی کے باوجود بہ امر مجبوری خود کو اس سے علیحدہ کرنے کی ہمت نہیں پاتے۔ مفکر' دانشور' عالم اور اہل نظر صرف رائے زنی تک محدود ہو کر رہ گئے یا پھر دبک کر بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ وہ وقت اور مقام ہے جب قدرت تطہیر کا بیڑا اٹھاتی ہے اور تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرانے کا عمل شروع کر دیتی ہے۔
Load Next Story