معاشی غلام انڈیا برائے فروخت… آخری حصہ
انڈین عوام اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں اگر کانٹے بوئے جائیں تو کانٹوں کی جگہ گندم نہیں پیدا ہوتی ہے۔
جب نریندر مودی گجرات کا وزیراعلیٰ بن گیا تو اسے استعمال کرکے گجرات میں مسلم کش فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام کرایا گیا اور اس کے بعد نریندر مودی کے ذریعے سرمایہ کاروں کو سہولتیں دے کر گجرات میں سرمایہ کاری کرائی گئی۔
گجرات کو ماڈل ریاست کے طور پر استعمال کرکے بی جے پی کو سرمایہ کاروں نے 2014 کے الیکشن میں بڑے پیمانے پر رقوم (فنڈ) دیں ان کی تعداد 1334 تھی اور اس کے مقابلے میں صرف 418 بڑے سرمایہ کاروں نے کانگریس کو فنڈ دیا۔ جمہوری کلچر جب سرمایہ کاری کلچر بن جاتا ہے تو یہ جتنا خرچ کرتا ہے اس سے کئی گنا وصول کرتا ہے۔ عوام کی خوشحالی صرف ماتھے پر سجایا گیا تلک ہوتا ہے۔
اندر عوام کے خون نچوڑنے کا عمل ہوتا ہے۔ نریندر مودی 16 مئی 2004 کو الیکشن جیت کر ابھی کھڑا ہی نہیں ہو پایا تھا کہ 29 جون 2014 کو نریندر مودی نے اسلحہ ساز غیرملکی کمپنیوں کے لیے سہولتوں کے ساتھ انڈیا کا دروازہ کھول دیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سامراج ایک سوچے سمجھے منصوبے پر انڈین مقامی سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر سرگرم ہوگیا ہے۔ ٹرائیکا (سرمایہ کار+زمیندار+بیورو کریٹ) کا مذہب سرمایہ ہوتا ہے۔ اگر انڈین سرمایہ کار انڈیا کو صنعتی کلچرڈ ملک بنانا چاہتے تو 2012 میں عوام کا کثیر سرمایہ سامراجی ملکوں کو منتقل نہ ہوتا۔
جوں جوں کسی ملک کی حکومت کا ریونیو دوسرے ملکوں کو منتقل ہونے والے سرمائے کے مقابلے میں کم ہوتا جائے گا توں توں اس ملک میں غربت کی سطح بلند ہوتی جائے گی اور اسی نسبت سے بے روزگاری، مہنگائی بڑھتی جائے گی، حکومتی رٹ ختم ہوتی جائے گی۔ انڈیا اس خلا کو بیرونی کمپنیوں اور سامراجی قرض لے کر پورا کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ انڈین سرمایہ کاروں اور سامراجی سرمایہ کاروں کا اندرون خانہ گٹھ جوڑ ہوچکا ہے۔ عالمی سرمایہ کار اس خطے کو تیسری عالمی جنگ کا مرکز بناکر نئے سرے سے معاشی غلام ملکوں کی حد بندیاں اور بندر بانٹ کرنے کا کھیل کھیل رہا ہے۔ انڈیا کی عوامی آبادی زیادہ ہے۔
انڈین عوام اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں اگر کانٹے بوئے جائیں تو کانٹوں کی جگہ گندم نہیں پیدا ہوتی ہے۔ 1947 سے 2014 تک 67 سالوں کے دوران انڈین سرمایہ کاروں اور سامراجی سرمایہ کاروں نے انڈین عوام کے وسائل کو بری طرح ٹوٹا ہے۔ اس وقت انڈیا سامراجی مالیاتی سسٹم کے دباؤ میں بڑی طرح دب چکا ہے۔ نریندر مودی کے سامنے صرف دو راستے ہیں۔ (1)۔ انڈیا کو سامراجی معاشی غلامی سے بچائے۔ اس کے لیے نریندر وہ کالادھن سوئس بینکوں سے واپس لائے جو انڈین سرمایہ کاروں، سیاستدانوں نے تقریباً 16.5 کھرب ڈالر سوئس بینکوں میں چھپائے ہوئے ہیں۔
(2)۔ انڈیا کو معاشی آزادی دلانے کا عمل شروع کرے۔ (3)۔اگر اسلحے کی صنعت سازی کی گئی تو نریندر مودی کی حکومت کو انڈیا برائے فروخت یا برائے ٹھیکہ پر دینے کا اعلان کردے تاکہ یہ بات انڈین عوام کی سمجھ میں آجائے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ اب سامراجی اسلحہ سازی کی کمپنیاں انڈیا کو لوٹنے کے لیے لگائی جارہی ہیں اور ہر سال 12 ہزار کسانوں کی خودکشیوں میں مزید اضافہ ہوگا اور صنعتی کلچر مزید ختم ہوجائے گا۔ اور مہنگائی بڑھ جائے گی کیونکہ اسلحہ ساز فیکٹریاں انسانی ضرورت کی اشیاؤں کے انبار نہیں پیدا کریں گی بلکہ انسانوں کے لیے موت کے طریقے خطرناک اسلحے کی شکل میں پیدا کریں گی۔ نریندر مودی انڈین عوام کے لیے نیک نامی نہیں غربت اور بدنامی خرید رہا ہے اور نریندر مودی انڈیا کو اسلحہ ساز فیکٹریوں کی آڑ میں انڈیا کو سامراجیوں کو ٹھیکے پر دے رہا ہے۔
اب اس ٹھیکے میں نریندرمودی کا کتنا حصہ ہے اور ان سرمایہ کاروں کا کتنا حصہ ہے جنھوں نے نریندر مودی کے الیکشن پر سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ یہ طے ہے نریندر مودی جس راہ پر چل رہا ہے یہ راہ انڈیا کو معاشی آزادی نہیں دلاسکے گی بلکہ انڈین عوام مزید سامراجی مالیاتی غلامی کے شکنجے میں جکڑے جائیں گے۔ سامراجی آج تک انڈین عوام کو لوٹتے آرہے ہیں۔ جس کا ثبوت انڈین عوام کا سرمایہ سامراجی ملکوں کو انڈین حکومتی ریونیو سے 3.6 گنا زیادہ منتقل ہو رہا ہے۔ اگر یہی سرمایہ انڈیا میں انڈیا کی حکومت خرچ کرتی تو آج عوام ہزاروں کی تعداد میں خودکشیاں نہ کر رہے ہوتے۔ نریندر مودی اور عوام کے لیے اب دو ہی راستے ہیں۔
انڈیا کو مکمل سامراجی غلامی میں دے دیا جائے۔ (2)۔ یا انڈین عوام اور بی جے پی کے حکمران سامراج سے مکمل معاشی آزادی حاصل کرنے کا تہیہ کرلیں جو ملک آج کے دور میں معاشی آزاد ہے اس کی کرنسی اچھوت نہیں ہے۔ انڈیا ایٹمی قوت، بھاری فوج اور بڑی آبادی کے ہونے باوجود ''چوہے'' کی معاشی غلامی میں دبا ہوا ہے۔ انڈین ماہرین معیشت کو علم ہوگا کہ عالمی سامراج صرف اور صرف کاغذی کئی سو کھربوں ڈالروں کی ناؤ پر بہہ رہا ہے۔
کاغذی کئی سو کھربوں ڈالروں کی کوئی ضمانت نہیں کب امریکا کو لے ڈوبیں۔ انڈیا تو BRICS تنظیم کا ممبر بھی ہے۔اسے تو معلوم ہے کہ BRICS تنظیم دوسرا عالمی عوامی آئی ایم ایف بنانے کا ارادہ کرچکی ہے اور آخر میں یہ بتاتا چلوں کہ نریندر مودی کے الیکشن میں سامراج نے بھی مقامی سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر فنڈنگ کی تھی اب یہ کتنا کاغذی ڈالر تھا؟ یہ نریندر مودی ہی بتا سکتا ہے۔ جس نے عالمی سامراج کو کھلی دعوت دی ہے کہ انڈیا میں مادر پدر آزاد ہوکر اسلحہ سازی کی صنعت لگائیں۔ دراصل اسلحہ سازی کی آڑ میں انڈیا کو بیچا جا رہا ہے۔
گجرات کو ماڈل ریاست کے طور پر استعمال کرکے بی جے پی کو سرمایہ کاروں نے 2014 کے الیکشن میں بڑے پیمانے پر رقوم (فنڈ) دیں ان کی تعداد 1334 تھی اور اس کے مقابلے میں صرف 418 بڑے سرمایہ کاروں نے کانگریس کو فنڈ دیا۔ جمہوری کلچر جب سرمایہ کاری کلچر بن جاتا ہے تو یہ جتنا خرچ کرتا ہے اس سے کئی گنا وصول کرتا ہے۔ عوام کی خوشحالی صرف ماتھے پر سجایا گیا تلک ہوتا ہے۔
اندر عوام کے خون نچوڑنے کا عمل ہوتا ہے۔ نریندر مودی 16 مئی 2004 کو الیکشن جیت کر ابھی کھڑا ہی نہیں ہو پایا تھا کہ 29 جون 2014 کو نریندر مودی نے اسلحہ ساز غیرملکی کمپنیوں کے لیے سہولتوں کے ساتھ انڈیا کا دروازہ کھول دیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سامراج ایک سوچے سمجھے منصوبے پر انڈین مقامی سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر سرگرم ہوگیا ہے۔ ٹرائیکا (سرمایہ کار+زمیندار+بیورو کریٹ) کا مذہب سرمایہ ہوتا ہے۔ اگر انڈین سرمایہ کار انڈیا کو صنعتی کلچرڈ ملک بنانا چاہتے تو 2012 میں عوام کا کثیر سرمایہ سامراجی ملکوں کو منتقل نہ ہوتا۔
جوں جوں کسی ملک کی حکومت کا ریونیو دوسرے ملکوں کو منتقل ہونے والے سرمائے کے مقابلے میں کم ہوتا جائے گا توں توں اس ملک میں غربت کی سطح بلند ہوتی جائے گی اور اسی نسبت سے بے روزگاری، مہنگائی بڑھتی جائے گی، حکومتی رٹ ختم ہوتی جائے گی۔ انڈیا اس خلا کو بیرونی کمپنیوں اور سامراجی قرض لے کر پورا کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ انڈین سرمایہ کاروں اور سامراجی سرمایہ کاروں کا اندرون خانہ گٹھ جوڑ ہوچکا ہے۔ عالمی سرمایہ کار اس خطے کو تیسری عالمی جنگ کا مرکز بناکر نئے سرے سے معاشی غلام ملکوں کی حد بندیاں اور بندر بانٹ کرنے کا کھیل کھیل رہا ہے۔ انڈیا کی عوامی آبادی زیادہ ہے۔
انڈین عوام اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں اگر کانٹے بوئے جائیں تو کانٹوں کی جگہ گندم نہیں پیدا ہوتی ہے۔ 1947 سے 2014 تک 67 سالوں کے دوران انڈین سرمایہ کاروں اور سامراجی سرمایہ کاروں نے انڈین عوام کے وسائل کو بری طرح ٹوٹا ہے۔ اس وقت انڈیا سامراجی مالیاتی سسٹم کے دباؤ میں بڑی طرح دب چکا ہے۔ نریندر مودی کے سامنے صرف دو راستے ہیں۔ (1)۔ انڈیا کو سامراجی معاشی غلامی سے بچائے۔ اس کے لیے نریندر وہ کالادھن سوئس بینکوں سے واپس لائے جو انڈین سرمایہ کاروں، سیاستدانوں نے تقریباً 16.5 کھرب ڈالر سوئس بینکوں میں چھپائے ہوئے ہیں۔
(2)۔ انڈیا کو معاشی آزادی دلانے کا عمل شروع کرے۔ (3)۔اگر اسلحے کی صنعت سازی کی گئی تو نریندر مودی کی حکومت کو انڈیا برائے فروخت یا برائے ٹھیکہ پر دینے کا اعلان کردے تاکہ یہ بات انڈین عوام کی سمجھ میں آجائے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ اب سامراجی اسلحہ سازی کی کمپنیاں انڈیا کو لوٹنے کے لیے لگائی جارہی ہیں اور ہر سال 12 ہزار کسانوں کی خودکشیوں میں مزید اضافہ ہوگا اور صنعتی کلچر مزید ختم ہوجائے گا۔ اور مہنگائی بڑھ جائے گی کیونکہ اسلحہ ساز فیکٹریاں انسانی ضرورت کی اشیاؤں کے انبار نہیں پیدا کریں گی بلکہ انسانوں کے لیے موت کے طریقے خطرناک اسلحے کی شکل میں پیدا کریں گی۔ نریندر مودی انڈین عوام کے لیے نیک نامی نہیں غربت اور بدنامی خرید رہا ہے اور نریندر مودی انڈیا کو اسلحہ ساز فیکٹریوں کی آڑ میں انڈیا کو سامراجیوں کو ٹھیکے پر دے رہا ہے۔
اب اس ٹھیکے میں نریندرمودی کا کتنا حصہ ہے اور ان سرمایہ کاروں کا کتنا حصہ ہے جنھوں نے نریندر مودی کے الیکشن پر سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ یہ طے ہے نریندر مودی جس راہ پر چل رہا ہے یہ راہ انڈیا کو معاشی آزادی نہیں دلاسکے گی بلکہ انڈین عوام مزید سامراجی مالیاتی غلامی کے شکنجے میں جکڑے جائیں گے۔ سامراجی آج تک انڈین عوام کو لوٹتے آرہے ہیں۔ جس کا ثبوت انڈین عوام کا سرمایہ سامراجی ملکوں کو انڈین حکومتی ریونیو سے 3.6 گنا زیادہ منتقل ہو رہا ہے۔ اگر یہی سرمایہ انڈیا میں انڈیا کی حکومت خرچ کرتی تو آج عوام ہزاروں کی تعداد میں خودکشیاں نہ کر رہے ہوتے۔ نریندر مودی اور عوام کے لیے اب دو ہی راستے ہیں۔
انڈیا کو مکمل سامراجی غلامی میں دے دیا جائے۔ (2)۔ یا انڈین عوام اور بی جے پی کے حکمران سامراج سے مکمل معاشی آزادی حاصل کرنے کا تہیہ کرلیں جو ملک آج کے دور میں معاشی آزاد ہے اس کی کرنسی اچھوت نہیں ہے۔ انڈیا ایٹمی قوت، بھاری فوج اور بڑی آبادی کے ہونے باوجود ''چوہے'' کی معاشی غلامی میں دبا ہوا ہے۔ انڈین ماہرین معیشت کو علم ہوگا کہ عالمی سامراج صرف اور صرف کاغذی کئی سو کھربوں ڈالروں کی ناؤ پر بہہ رہا ہے۔
کاغذی کئی سو کھربوں ڈالروں کی کوئی ضمانت نہیں کب امریکا کو لے ڈوبیں۔ انڈیا تو BRICS تنظیم کا ممبر بھی ہے۔اسے تو معلوم ہے کہ BRICS تنظیم دوسرا عالمی عوامی آئی ایم ایف بنانے کا ارادہ کرچکی ہے اور آخر میں یہ بتاتا چلوں کہ نریندر مودی کے الیکشن میں سامراج نے بھی مقامی سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر فنڈنگ کی تھی اب یہ کتنا کاغذی ڈالر تھا؟ یہ نریندر مودی ہی بتا سکتا ہے۔ جس نے عالمی سامراج کو کھلی دعوت دی ہے کہ انڈیا میں مادر پدر آزاد ہوکر اسلحہ سازی کی صنعت لگائیں۔ دراصل اسلحہ سازی کی آڑ میں انڈیا کو بیچا جا رہا ہے۔