ضرب عضب کا پہلا مرحلہ
ابتدائی دنوں میں علاقے میں کرفیو لگا کر مخصوص اہداف پر محض فضائی کارروائیاں کی گئیں
لاہور:
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کا پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل کرلیا گیا ہے، جس کے دوران تقریباً 400دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جب کہ آپریشن سے قبل متعدد دہشت گرد علاقہ چھوڑ کر فرار ہوگئے، تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد افغانستان فرار ہوگئے، ہلاک ہونے والوں میں ازبک اور ترکش دہشت گردوں کی بڑی تعداد شامل ہے، آپریشن کے دوران 23 ٹن دھماکا خیز مواد برآمد کیا گیا ہے جب کہ بم بنانے کی 11 فیکٹریاں بھی پکڑی گئی ہیں۔
آپریشن ضرب عضب میں مسلسل پیش رفت ہو رہی ہے، شمالی وزیرستان کے قبائلی عوام نہیں چاہتے کہ دہشت گرد ان کے علاقوں میں واپس آئیں، نہ ہی ریاست دہشت گردوں کو کبھی واپسی کی اجازت دے گی۔ (سماجی ویب سائٹ ''ٹوئٹر'' پر پیغام، جمعرات 10 جولائی 2014) اسی روز چیف سیکریٹری کنٹرول روم پشاور کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق آئی ڈی پیز (متاثرین) کی رجسٹریشن کے دوران کل 75 ہزار 241 خاندانوں اور 8 لاکھ 76 ہزار 999 افراد کی رجسٹریشن کرائی گئی ہے، صوبائی حکومت نے اب تک پی ڈی ایم اے بنوں ریلیف کیمپس کے لیے 34 کروڑ 90 لاکھ روپے جاری کیے، وفاقی حکومت نے بھی بنوں میں کیمپس لگانے کا فیصلہ کیا ہے، جن کی نگرانی وفاقی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور پاک آرمی مشترکہ طور پر کر رہی ہے۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق شمالی وزیر ستان میں آپریشن ضرب عضب کے دوران پاک فوج نے 3 ہفتوں میں 400 کے قریب دہشت گرد ہلاک اور ان کے درجنوں ٹھکانے تباہ کیے جب کہ 20 کے قریب فوجی جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا، شمالی وزیرستان میں موجود ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی 15جون 2014 کو باقاعدہ طور پر شروع ہوئی، اس سے ایک روز پہلے ٹارگٹڈ کارروائی میں بھی درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔
ابتدائی دنوں میں علاقے میں کرفیو لگا کر مخصوص اہداف پر محض فضائی کارروائیاں کی گئیں، جس میں ساڑھے 3 سو سے زائد دہشت گردوں کا صفایا ہوا، علاقے سے آبادی کے انخلا کے بعد 30 جون سے میرانشاہ میں زمینی کارروائی شروع ہوئی تو اس میں بھی فورسز کو اہم کامیابیاں ملیں، دہشت گردوں کے تربیتی مراکز اور بم بنانے کی 2 فیکٹریاں پکڑی گئیں، جہاں سے بارودی مواد اور 2 سو کے قریب سلینڈر ملے، جنھیں سڑکوں پر نصب کرکے فورسز کو نشانہ بنانا تھا، بارودی سرنگوں اور دھماکا خیز مواد کے باعث فورسز نے آہستہ آہستہ پیش قدمی کی اور میرانشاہ سمیت بیشتر ملحقہ علاقوں کو کلیئر کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے، فورسز شمالی وزیرستان کے صدر مقام کا تقریباً 40 فیصد سے زائد علاقے پر مکمل کنٹرول کرچکی ہیں۔
پاکستان کی وزارت خزانہ، وزارت دفاع اور وزارت خارجہ پر مشتمل مشترکہ وزارتی کمیٹی نے اعدادوشمار مرتب کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق نائن الیون کے بعد سے افغانستان میں امریکی یلغار کے بعد پاکستان کو سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، افغانستان سے لاکھوں افراد پاکستان نقل مکانی کرگئے اس کے ساتھ ہی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی شدت پیدا ہوگئی، داخلی سیکیورٹی اور معیشت کو درپیش یہ خطرات اب بھی موجود ہیں اور معاشی ترقی و استحکام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور پاکستان قیمتی جانوں (50 ہزار) کے ساتھ بھاری مالی نقصان برداشت کر رہا ہے، دہشت گردی کے سبب پاکستان میں تجارتی اور پیداواری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں جس سے نہ صرف پیداواری لاگت بڑھ گئی بلکہ ایکسپورٹ آرڈرز بھی بروقت پورے نہ ہونے سے ایکسپورٹ کی مد میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور نتیجے میں پاکستانی مصنوعات کے لیے عالمی منڈی میں اپنا مقام برقرار رکھنا دشوار ہوتا چلا گیا۔
پچھلے 3 سال کے دوران دہشت گردی کے سبب معیشت کو پہنچنے والے نقصانات اور پچھلے 13 سال کے دوران افغان جنگ میں پاکستان کے اخراجات کی تفصیل درج ذیل ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے سبب گزشتہ تین سال کے دوران معیشت کو 28 ارب 45 کروڑ 98 لاکھ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جب کہ دنیا کے امن کی خاطر 2002 سے شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر پاکستان نے 102.51 ارب ڈالر (8 ہزار 264 ارب روپے) جھونک دیے۔
سرمایہ کاری پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے تجارتی سرگرمیاں ماند ہونے سے ٹیکس وصولیاں بھی بری طرح متاثر ہوئیں۔ مالی سال 2011-12 سے مالی سال 2013-14 کے دوران پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی نے معیشت کو 28 ارب 45 کروڑ 98 لاکھ ڈالر کا نقصان پہنچایا جس میں سے ایکسپورٹ کو 2ارب 29 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا، دہشت گردی کے سبب معاشی سرگرمیوں میں سست روی کے سبب ٹیکس وصولیوں کی مد میں 6 ارب 47 کروڑ 99 لاکھ ڈالر، غیرملکی سرمایہ کاری کی مد میں 8 ارب 6 کروڑ 70 لاکھ ڈالر، نجکاری کے منصوبوں میں تاخیر کے باعث 4 ارب 99 کروڑ64 لاکھ ڈالر، انفرااسٹرکچر کو 2 ارب47 کروڑ ڈالر، متاثرین کی بحالی میں 5 کروڑ92 لاکھ ڈالر، صنعتی پیداوار میں کمی کے سبب 76 کروڑ97 لاکھ ڈالر، غیر یقینی صورت حال کے سبب 20 کروڑ47 لاکھ ڈالر، جاری اخراجات میں اضافے کے سبب 64 کروڑ45 لاکھ ڈالر اور متفرق 2 ارب 47 کروڑ 53 لاکھ ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی سال 2011-12 کے دوران دہشت گردی نے معیشت کو 11 ارب 79 کروڑ 75 لاکھ ڈالر کا نقصان پہنچایا، مالی سال 2012-13 کے دوران دہشت گردی کے سبب معیشت کو 9 ارب 96 کروڑ 86 لاکھ ڈالر کا نقصان پہنچا جب کہ مالی سال 2013-14 میں 6 ارب 69 کروڑ 37 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔
افغانستان میں جاری دہشت گردی کی جنگ پر پاکستان نے کسی ایک سال میں سب سے زیادہ 23.77ارب ڈالر خرچ کیے، سال 2009-10 میں 13.56 ارب ڈالر جب کہ سال 2011-12 کے دوران 11.98 ارب ڈالر خرچ کیے گئے۔
پاکستانی قوم افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے امید کامل ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ''ضرب عضب'' دشمنوں کو ناکارہ بنا دے گا اور پاکستان ایک مرتبہ پھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کا پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل کرلیا گیا ہے، جس کے دوران تقریباً 400دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جب کہ آپریشن سے قبل متعدد دہشت گرد علاقہ چھوڑ کر فرار ہوگئے، تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد افغانستان فرار ہوگئے، ہلاک ہونے والوں میں ازبک اور ترکش دہشت گردوں کی بڑی تعداد شامل ہے، آپریشن کے دوران 23 ٹن دھماکا خیز مواد برآمد کیا گیا ہے جب کہ بم بنانے کی 11 فیکٹریاں بھی پکڑی گئی ہیں۔
آپریشن ضرب عضب میں مسلسل پیش رفت ہو رہی ہے، شمالی وزیرستان کے قبائلی عوام نہیں چاہتے کہ دہشت گرد ان کے علاقوں میں واپس آئیں، نہ ہی ریاست دہشت گردوں کو کبھی واپسی کی اجازت دے گی۔ (سماجی ویب سائٹ ''ٹوئٹر'' پر پیغام، جمعرات 10 جولائی 2014) اسی روز چیف سیکریٹری کنٹرول روم پشاور کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق آئی ڈی پیز (متاثرین) کی رجسٹریشن کے دوران کل 75 ہزار 241 خاندانوں اور 8 لاکھ 76 ہزار 999 افراد کی رجسٹریشن کرائی گئی ہے، صوبائی حکومت نے اب تک پی ڈی ایم اے بنوں ریلیف کیمپس کے لیے 34 کروڑ 90 لاکھ روپے جاری کیے، وفاقی حکومت نے بھی بنوں میں کیمپس لگانے کا فیصلہ کیا ہے، جن کی نگرانی وفاقی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور پاک آرمی مشترکہ طور پر کر رہی ہے۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق شمالی وزیر ستان میں آپریشن ضرب عضب کے دوران پاک فوج نے 3 ہفتوں میں 400 کے قریب دہشت گرد ہلاک اور ان کے درجنوں ٹھکانے تباہ کیے جب کہ 20 کے قریب فوجی جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا، شمالی وزیرستان میں موجود ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی 15جون 2014 کو باقاعدہ طور پر شروع ہوئی، اس سے ایک روز پہلے ٹارگٹڈ کارروائی میں بھی درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔
ابتدائی دنوں میں علاقے میں کرفیو لگا کر مخصوص اہداف پر محض فضائی کارروائیاں کی گئیں، جس میں ساڑھے 3 سو سے زائد دہشت گردوں کا صفایا ہوا، علاقے سے آبادی کے انخلا کے بعد 30 جون سے میرانشاہ میں زمینی کارروائی شروع ہوئی تو اس میں بھی فورسز کو اہم کامیابیاں ملیں، دہشت گردوں کے تربیتی مراکز اور بم بنانے کی 2 فیکٹریاں پکڑی گئیں، جہاں سے بارودی مواد اور 2 سو کے قریب سلینڈر ملے، جنھیں سڑکوں پر نصب کرکے فورسز کو نشانہ بنانا تھا، بارودی سرنگوں اور دھماکا خیز مواد کے باعث فورسز نے آہستہ آہستہ پیش قدمی کی اور میرانشاہ سمیت بیشتر ملحقہ علاقوں کو کلیئر کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے، فورسز شمالی وزیرستان کے صدر مقام کا تقریباً 40 فیصد سے زائد علاقے پر مکمل کنٹرول کرچکی ہیں۔
پاکستان کی وزارت خزانہ، وزارت دفاع اور وزارت خارجہ پر مشتمل مشترکہ وزارتی کمیٹی نے اعدادوشمار مرتب کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق نائن الیون کے بعد سے افغانستان میں امریکی یلغار کے بعد پاکستان کو سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، افغانستان سے لاکھوں افراد پاکستان نقل مکانی کرگئے اس کے ساتھ ہی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی شدت پیدا ہوگئی، داخلی سیکیورٹی اور معیشت کو درپیش یہ خطرات اب بھی موجود ہیں اور معاشی ترقی و استحکام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور پاکستان قیمتی جانوں (50 ہزار) کے ساتھ بھاری مالی نقصان برداشت کر رہا ہے، دہشت گردی کے سبب پاکستان میں تجارتی اور پیداواری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں جس سے نہ صرف پیداواری لاگت بڑھ گئی بلکہ ایکسپورٹ آرڈرز بھی بروقت پورے نہ ہونے سے ایکسپورٹ کی مد میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور نتیجے میں پاکستانی مصنوعات کے لیے عالمی منڈی میں اپنا مقام برقرار رکھنا دشوار ہوتا چلا گیا۔
پچھلے 3 سال کے دوران دہشت گردی کے سبب معیشت کو پہنچنے والے نقصانات اور پچھلے 13 سال کے دوران افغان جنگ میں پاکستان کے اخراجات کی تفصیل درج ذیل ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے سبب گزشتہ تین سال کے دوران معیشت کو 28 ارب 45 کروڑ 98 لاکھ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جب کہ دنیا کے امن کی خاطر 2002 سے شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر پاکستان نے 102.51 ارب ڈالر (8 ہزار 264 ارب روپے) جھونک دیے۔
سرمایہ کاری پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے تجارتی سرگرمیاں ماند ہونے سے ٹیکس وصولیاں بھی بری طرح متاثر ہوئیں۔ مالی سال 2011-12 سے مالی سال 2013-14 کے دوران پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی نے معیشت کو 28 ارب 45 کروڑ 98 لاکھ ڈالر کا نقصان پہنچایا جس میں سے ایکسپورٹ کو 2ارب 29 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا، دہشت گردی کے سبب معاشی سرگرمیوں میں سست روی کے سبب ٹیکس وصولیوں کی مد میں 6 ارب 47 کروڑ 99 لاکھ ڈالر، غیرملکی سرمایہ کاری کی مد میں 8 ارب 6 کروڑ 70 لاکھ ڈالر، نجکاری کے منصوبوں میں تاخیر کے باعث 4 ارب 99 کروڑ64 لاکھ ڈالر، انفرااسٹرکچر کو 2 ارب47 کروڑ ڈالر، متاثرین کی بحالی میں 5 کروڑ92 لاکھ ڈالر، صنعتی پیداوار میں کمی کے سبب 76 کروڑ97 لاکھ ڈالر، غیر یقینی صورت حال کے سبب 20 کروڑ47 لاکھ ڈالر، جاری اخراجات میں اضافے کے سبب 64 کروڑ45 لاکھ ڈالر اور متفرق 2 ارب 47 کروڑ 53 لاکھ ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی سال 2011-12 کے دوران دہشت گردی نے معیشت کو 11 ارب 79 کروڑ 75 لاکھ ڈالر کا نقصان پہنچایا، مالی سال 2012-13 کے دوران دہشت گردی کے سبب معیشت کو 9 ارب 96 کروڑ 86 لاکھ ڈالر کا نقصان پہنچا جب کہ مالی سال 2013-14 میں 6 ارب 69 کروڑ 37 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔
افغانستان میں جاری دہشت گردی کی جنگ پر پاکستان نے کسی ایک سال میں سب سے زیادہ 23.77ارب ڈالر خرچ کیے، سال 2009-10 میں 13.56 ارب ڈالر جب کہ سال 2011-12 کے دوران 11.98 ارب ڈالر خرچ کیے گئے۔
پاکستانی قوم افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے امید کامل ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ''ضرب عضب'' دشمنوں کو ناکارہ بنا دے گا اور پاکستان ایک مرتبہ پھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔