انفرادی و اجتماعی توبہ اور ’’شہر نامہ‘‘ پہلا حصہ
نشہ آور اشیا کا استعمال لڑکے ہی نہیں بلکہ لڑکیاں بھی ببانگ دہل کرتی ہیں
ممتاز افسانہ و کالم نگار امین الدین جالندھری کی کتاب ''شہرنامہ'' حال ہی میں شایع ہوئی ہے جس پر خامہ فرسائی کرنے ہی بیٹھے تھے کہ لاہور کے نجی کالج کا واقعہ پیش آگیا جس سے دل بڑا مکدر ہوا، درسگاہوں میں آئے دن اس طرح کے واقعات سامنے آتے ہیں، انھی میں سے کچھ اسکول، مدارس اور کالج و یونیورسٹیاں گزشتہ دو تین عشروں سے اصطبل میں تبدیل ہوگئی ہیں، جہاں شرمناک حالات کا سامنا ہر شخص کو کرنا پڑتا ہے۔
چھوٹے، بڑے طلبا و طالبات کی ناپسندیدہ ویڈیوز لیک ہوتی ہیں، ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ چھوٹے بچوں سے لے کر سیکنڈری جماعت کے طلبا کے وقار کے خلاف ہے۔ بے چارے والدین جب اپنے بچوں کے تعلیمی کیریئر کو تباہ ہوتے دیکھتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو بڑا بے بس پاتے ہیں۔ سال دو سال قبل مدارس میں تشدد کے واقعات کے ساتھ ساتھ برے افعال کا بھی بڑا چرچا ہوا تھا۔ کالج، اسکول، یونیورسٹیاں بھی ایسے حالات سے مبرا نہیں ہیں۔ کوئی نہ کوئی سانحہ اپنا رنگ دکھاتا ہے۔
نشہ آور اشیا کا استعمال لڑکے ہی نہیں بلکہ لڑکیاں بھی ببانگ دہل کرتی ہیں۔ پچھلے برسوں میں ایک یونیورسٹی میں منشیات فراہم کرنے والے شخص کو پولیس نے گرفتار کیا تھا، ملزم کے پاس چرس اور دوسری نشہ آور چیزیں برآمد ہوئیں، اس گھناؤنے کاروبار میں طالبات بھی شریک ہیں۔ بہت کم تعلیمی ادارے نیک نامی کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں جوکہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ ان اداروں کے منتظمین جن میں پرنسپل، کچھ قانون شکن اساتذہ اور دوسرے جرائم پیشہ افراد شامل ہیں اور ایسے اداروں کو پروان چڑھانے میں اہم لوگوں کے نام شامل ہیں، اس کی ذمے دار صوبائی و وفاقی حکومتیں اور شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد کی ہیں۔ ہوس زر اور مادہ پرستی نے انسان کو اس قدر پستی میں دھکیل دیا ہے کہ اب اس عمل میں انسانوں اور درندوں میں ذرہ برابر فرق نہیں رہا ہے۔
یہ معصوم اور علم کے طالب اپنے اداروں میں علم حاصل کرنے جاتے ہیں، اپنے بہتر مستقبل کے تمنائی اور اپنے والدین و ملک کی خدمت کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں، برے ماحول سے بچانے کے لیے ان بچوں کے والدین نیک مقاصد کے حصول اور انسانیت کا پرچار کرنے والوں کی قطار میں شامل کرنے کے لیے صبح و شام محنت کرتے ہیں، اس عزم کے ساتھ کہ ان کی اولاد تعلیم حاصل کرکے اپنے نیک مقصد کو حاصل کر لے گی، لیکن علمی اداروں میں تو شیطان پہنچ گیا ہے جو آئے دن انسانوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔
حوا کی بیٹی جب صبح سویرے گھر سے تعلیم حاصل کرنے یا روزگار کمانے نکلتی ہے ، اسے اندازہ بھی نہیں ہوتا، نہ والدین کو کہ آج انھی لوگوں کے ہاتھوں جن پر بھروسہ ہے وہی اعتبار و عزت کی دھجیاں بکھیریں گے، ظلم یہ ہے کہ ایک تو مار کھاؤ اور آہ بھی نہ کرو، یہ کیسا دستور زباں بندی ہے اور کیسا انصاف ہے کہ مظلوم کا نہیں بلکہ ظالم کا ساتھ دیتا ہے،کئی گھنٹوں بلکہ ایک دو روز قبل حکومتی اراکین واقعہ سے انکاری تھے اور اعتماد کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے، آخر سچ کیا ہے وہ سب سامنے آ جائے گا۔ حکومت کرنے والے اور اقتدار پر قابض حضرات بھی آخر انسان ہی ہیں۔
ایسے حادثات کسی کے ساتھ بھی جنم لے سکتے ہیں لہٰذا برے وقت سے ڈریں اور انصاف کی ردا کو دراز کریں تاکہ امیر و غریب طاقت ور اور کمزور اپنے بچوں کا گلا کٹتا دیکھ کر قاتل کو بھی تختہ دار پر دیکھیں لیکن اس منظر کے لیے عوام ترس گئے ہیں کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی کا نتیجہ سامنے نہیں آتا۔
دراصل بات یہ ہے کہ جب جبر کا نظام نافذ ہو جائے تب انصاف، تہذیب، شرافت اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ آج پورا پاکستان سخت پریشان ہے، ان کے حقوق کو غصب کر لیا گیا ہے، ٹیکسوں کی بھرمار نے سکون، خوشیاں اور خوشحالی چھین لی ہے اور پھر مزید ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ جب اللہ رسی دراز کر دیتا ہے، تب بااختیار انسان اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر مکافات عمل کو بھلا بیٹھتا ہے۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے لیکن اسی خطے میں سب سے زیادہ غیر اسلامی قوانین پر عمل کیا جا رہا ہے۔ سود سے لے کر بے حیائی، جھوٹ، فسق و فجور، دھوکہ دہی کرنا عام بات ہے۔ اسی لیے پاکستان پھلنے پھولنے کی جگہ، قرض، بدحالی، چوری ڈکیتی، قتل و غارت گری، زنابالجبر جیسی برائیوں کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔
کیا ان برائیوں میں مبتلا لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ مسلمان ہیں لیکن نماز سے غافل۔ آج اگر ذرا تحمل سے غور کریں تو غیر اسلامی اجتماع کی بھرمار ہے، رقص و موسیقی کی محافل سجی ہوئی ہیں اور ایک جمِ غفیر ہے جو اپنے محلے کی مساجد کو ویران کرکے یہاں تک پہنچا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان کفار کی مار کھا رہے ہیں، اس کی وجہ ''جہاد'' کو بھول چکے ہیں، تو پھر حالات ایسے ہی ہوں گے۔ عزت و وقار کا تحفظ اور نہ والدین کا ادب و احترام۔ عزیز و اقارب سے تعلقات کشیدہ، گویا ہر کام میں اللہ کی نافرمانی۔ بس ایک توبہ کی ضرورت ہے، انفرادی و اجتماعی توبہ۔
(جاری ہے۔)
چھوٹے، بڑے طلبا و طالبات کی ناپسندیدہ ویڈیوز لیک ہوتی ہیں، ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ چھوٹے بچوں سے لے کر سیکنڈری جماعت کے طلبا کے وقار کے خلاف ہے۔ بے چارے والدین جب اپنے بچوں کے تعلیمی کیریئر کو تباہ ہوتے دیکھتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو بڑا بے بس پاتے ہیں۔ سال دو سال قبل مدارس میں تشدد کے واقعات کے ساتھ ساتھ برے افعال کا بھی بڑا چرچا ہوا تھا۔ کالج، اسکول، یونیورسٹیاں بھی ایسے حالات سے مبرا نہیں ہیں۔ کوئی نہ کوئی سانحہ اپنا رنگ دکھاتا ہے۔
نشہ آور اشیا کا استعمال لڑکے ہی نہیں بلکہ لڑکیاں بھی ببانگ دہل کرتی ہیں۔ پچھلے برسوں میں ایک یونیورسٹی میں منشیات فراہم کرنے والے شخص کو پولیس نے گرفتار کیا تھا، ملزم کے پاس چرس اور دوسری نشہ آور چیزیں برآمد ہوئیں، اس گھناؤنے کاروبار میں طالبات بھی شریک ہیں۔ بہت کم تعلیمی ادارے نیک نامی کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں جوکہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ ان اداروں کے منتظمین جن میں پرنسپل، کچھ قانون شکن اساتذہ اور دوسرے جرائم پیشہ افراد شامل ہیں اور ایسے اداروں کو پروان چڑھانے میں اہم لوگوں کے نام شامل ہیں، اس کی ذمے دار صوبائی و وفاقی حکومتیں اور شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد کی ہیں۔ ہوس زر اور مادہ پرستی نے انسان کو اس قدر پستی میں دھکیل دیا ہے کہ اب اس عمل میں انسانوں اور درندوں میں ذرہ برابر فرق نہیں رہا ہے۔
یہ معصوم اور علم کے طالب اپنے اداروں میں علم حاصل کرنے جاتے ہیں، اپنے بہتر مستقبل کے تمنائی اور اپنے والدین و ملک کی خدمت کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں، برے ماحول سے بچانے کے لیے ان بچوں کے والدین نیک مقاصد کے حصول اور انسانیت کا پرچار کرنے والوں کی قطار میں شامل کرنے کے لیے صبح و شام محنت کرتے ہیں، اس عزم کے ساتھ کہ ان کی اولاد تعلیم حاصل کرکے اپنے نیک مقصد کو حاصل کر لے گی، لیکن علمی اداروں میں تو شیطان پہنچ گیا ہے جو آئے دن انسانوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔
حوا کی بیٹی جب صبح سویرے گھر سے تعلیم حاصل کرنے یا روزگار کمانے نکلتی ہے ، اسے اندازہ بھی نہیں ہوتا، نہ والدین کو کہ آج انھی لوگوں کے ہاتھوں جن پر بھروسہ ہے وہی اعتبار و عزت کی دھجیاں بکھیریں گے، ظلم یہ ہے کہ ایک تو مار کھاؤ اور آہ بھی نہ کرو، یہ کیسا دستور زباں بندی ہے اور کیسا انصاف ہے کہ مظلوم کا نہیں بلکہ ظالم کا ساتھ دیتا ہے،کئی گھنٹوں بلکہ ایک دو روز قبل حکومتی اراکین واقعہ سے انکاری تھے اور اعتماد کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے، آخر سچ کیا ہے وہ سب سامنے آ جائے گا۔ حکومت کرنے والے اور اقتدار پر قابض حضرات بھی آخر انسان ہی ہیں۔
ایسے حادثات کسی کے ساتھ بھی جنم لے سکتے ہیں لہٰذا برے وقت سے ڈریں اور انصاف کی ردا کو دراز کریں تاکہ امیر و غریب طاقت ور اور کمزور اپنے بچوں کا گلا کٹتا دیکھ کر قاتل کو بھی تختہ دار پر دیکھیں لیکن اس منظر کے لیے عوام ترس گئے ہیں کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی کا نتیجہ سامنے نہیں آتا۔
دراصل بات یہ ہے کہ جب جبر کا نظام نافذ ہو جائے تب انصاف، تہذیب، شرافت اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ آج پورا پاکستان سخت پریشان ہے، ان کے حقوق کو غصب کر لیا گیا ہے، ٹیکسوں کی بھرمار نے سکون، خوشیاں اور خوشحالی چھین لی ہے اور پھر مزید ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ جب اللہ رسی دراز کر دیتا ہے، تب بااختیار انسان اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر مکافات عمل کو بھلا بیٹھتا ہے۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے لیکن اسی خطے میں سب سے زیادہ غیر اسلامی قوانین پر عمل کیا جا رہا ہے۔ سود سے لے کر بے حیائی، جھوٹ، فسق و فجور، دھوکہ دہی کرنا عام بات ہے۔ اسی لیے پاکستان پھلنے پھولنے کی جگہ، قرض، بدحالی، چوری ڈکیتی، قتل و غارت گری، زنابالجبر جیسی برائیوں کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔
کیا ان برائیوں میں مبتلا لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ مسلمان ہیں لیکن نماز سے غافل۔ آج اگر ذرا تحمل سے غور کریں تو غیر اسلامی اجتماع کی بھرمار ہے، رقص و موسیقی کی محافل سجی ہوئی ہیں اور ایک جمِ غفیر ہے جو اپنے محلے کی مساجد کو ویران کرکے یہاں تک پہنچا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان کفار کی مار کھا رہے ہیں، اس کی وجہ ''جہاد'' کو بھول چکے ہیں، تو پھر حالات ایسے ہی ہوں گے۔ عزت و وقار کا تحفظ اور نہ والدین کا ادب و احترام۔ عزیز و اقارب سے تعلقات کشیدہ، گویا ہر کام میں اللہ کی نافرمانی۔ بس ایک توبہ کی ضرورت ہے، انفرادی و اجتماعی توبہ۔
(جاری ہے۔)