پنجاب کے جنوبی اضلاع میں ترقی کا ایک کوآپریٹ ماڈل

ورلڈ بینک نے بھی اس ماڈل کو پسند کیا او رایک بہتر، معیاری سطح کا ماڈل قرار دیا

salmanabidpk@gmail.com

عموماً پنجاب کی ترقی کو دیگر صوبوں کے مقابلے میں ایک مثالی قرار دیا جاتا ہے ۔لیکن پنجاب کے جنوبی اضلاع میں ترقی کی رفتار اور وسعت بہت کم نظر آتی ہے ۔ان اضلاع میں جاگیرداروں، سرداروں، سیاسی گدی نشینوں کا سیاست ، معیشت اور انتظامیہ پر کنٹرول ہے،یہی وجہ ہے کہ پنجاب کا پورا جنوبی علاقہ پسماندہ ہے اور یہاں مڈل کلاس کے پھیلاؤ کی رفتار کچھوے کی چال جیسی ہے ۔

پنجاب کا جنوبی علاقہ محروم اور کمزور طبقوں کا علاقہ ہے۔ غریب اور پسماندہ طبقات وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم کا شکار ہیں۔ان علاقوں کے بااثر سیاستدان، سردار اور گدی نشین چونکہ اسمبلیوں میں جاتے ہیں، وزارتیں لیتے ہیں لیکن اپنے علاقوں میں سماجی تبدیلی اور ترقی کے عوامل کو پنپنے نہیں دیتے جس کی وجہ سے جو چھوٹی سے مڈل ہے ، انھیں پنجاب کے وسطی اور شمالی علاقوں میں ترقی کی رفتار تیز نظر آتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاقوں کو جان بوجھ کر محروم رکھا جارہا ہے جب کہ جنوبی علاقوں کے سیاست دان اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے اس احساس کو زیادہ بڑھاوا دیتے ہیں۔

۔18ویں ترمیم کے بعد خیال تھا کہ پنجاب کے جنوبی اؒضلاع میں ترقی کی رفتار تیز ہوگی لیکن 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو تو اختیارات تو مل گئے مگر پسماندہ اضلاع کو ترقی نہیں ملی ۔ایک مضبوط اور بااختیار مقامی حکومت کا نظام قائم نہ ہونے کی وجہ سے بھی پنجاب کے جنوبی علاقے کی ترقی سے محروم ہیں۔

پنجاب کے جنوبی اضلاع میں کچھ مقامی تنظیمیں دہائیوں سے مقامی حکومتوں کے قیام اور عوام میں شعور کی بیداری اور بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں اور اگر یہ تنظیمیں مقامی سطح پر فعال نہ ہوتیں تو آج جنوبی پنجاب کے معاشی و سماجی حالات پسماندہ ہوتے ۔ان میں ایک بڑی سماجی سطح پر کام کرنے والی تنظیم '' لودھراں پائلٹ پروجیکٹ'' کے نام سے جنوبی پنجاب کے 12اضلاع اور 40کے قریب تحصیلوں اور گاوں کی سطح پر 1400سے زیادہ مختلف سماجی اور مقامی تنظیموںکی مدد سے کام کررہی ہے ۔اس تنظیم کا آغاز معروف سیاست دان اور سماجی ترقی میں ایک مختلف بیانیہ رکھنے والی شخصیت جہانگیر ترین نے 1999میں کیا ۔

وہ بنیادی طور پر کراچی میں کام کرنے والی مقامی تنظیم اورجو معروف استاد اور دانشور و سماجی ترقی پر گہری نظر رکھنے والے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے سربراہ ڈاکٹر اختر حمید خان سے متاثر تھے اور انھوں نے جس انداز سے مقامی سطح پر سینی ٹیشن اور سیوریج کے نظام کی بہتری میں حکومت کے مقابلے میں ایک متبادل پائیدار ترقی کا ماڈل کامیابی سے چلایا تو اسی ماڈل کو لے کر جہانگیر ترین نے لودھراں میں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی معاونت سے '' لودھراں پائلٹ پروجیکٹ کی بنیاد رکھی ۔ اس کام کو آگے بڑھانے میں ایک معروف سماجی راہنما حفیظ آرائیں کا اہم کردار ہے ۔ مجھے ذاتی طور پر اختر حمید خان اور حفیظ آرائیں سے کراچی میں رہ کر تین ہفتوں تک کام سیکھنے کا موقع ملا ہے ، بہرحال لودھراں سے شروع ہونے والا کام

12اضلاع اور 40تحصیلوں تک پھیل چکا ہے۔ اس وقت اس تنظیم کے معاملات جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین اور بطور چیف ایگزیکٹو آفسیر معروف سماجی راہنما اور دانشور ڈاکٹر عبد الصبور چلارہے ہیں اور رواں برس اس تنظیم نے اپنے کام کے پچیس برس بڑی کامیابی کے ساتھ مکمل کرلیے ہیں گاوں کی سطح پر نلکے لگانے کے کا م سے جو آغاز ہوا اس نے جنوبی پنجاب میں ایک بڑی اصلاحی تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے۔ کسان ، مزدور، عورتیں ، بچے ، بچیاں، معذور افراد یا خواجہ سرا ، نوجوان لڑکے اور لڑکیوںسمیت اقلیتوں کے مسائل پر خصوصی توجہ دی گئی اور ان کوبنیاد بنا کر مقامی ترقی کے تناظر میں منصوبے بنائے گئے ہیں۔ اس تنظیم کے ماڈل لو کاسٹ یعنی کم قیمت پر سینی ٹیشن ماڈل کو عالمی اور ملکی سطح پر کافی پزیرائی ملی او رکئی اور اہم اداروں نے مختلف علاقوں یا صوبوں میں اس ماڈل سے فائدہ اٹھایا۔


ورلڈ بینک نے بھی اس ماڈل کو پسند کیا او رایک بہتر، معیاری سطح کا ماڈل قرار دیا۔اسی طرح دو سو کے قریب سینی ٹیشن اسکیم ،375بائیو سینڈ فلٹریشن،دو ہزار دو سو اٹھائیس ہینڈ پمپ دیہی سطح پر لگوائے ۔کلین گرین مہم ، کورونا مہم میں مقامی لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا اور بنیادی سہولیات فراہم کرنا اور گیارہ ہزار فیملیز کو بنیادی خوراک کا شفاف نظام فراہم کرنا بھی ان کے کاموں کا حصہ ہے ۔بہاولپور، جھنگ ، مظفر گڑھ ، راجن پور ، ڈی جی خان اور لیہ جیسے علاقوں میں مقامی ترقی اور بیت الخلا کی فراہمی جیسے منصوبے شامل ہیں ۔چار اربن فارسٹ 40ایکٹر پر قائم کیے گئے ہیںاور اس وقت یہ تنظیم مقامی سطح پر حکومت ، نجی شعبہ اور ملکی و غیر ملکی ڈونرز کی مدد سے بڑی فعالیت اور متحرک ہوکر کام کررہی ہے۔اسی طرح آٹھ ہزار افراد یا نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی میں تربیت دی او ریہ لوگ آج برسرروزگار ہیں ۔

مجھے ذاتی طور پر اس کام کو بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ، جہانگیر ترین علی ترین اور ڈاکٹر عبدالصبور اور ا ن کی ٹیم سے ملاقاتیں یا مقامی پاٹرنرز سے بات چیت کا موقع ملاتا رہتا ہے ۔یہ لوگ واقعی کمال کا کام کررہے ہیں ۔ان کے بقول وہ نوجوانوں کی اس طرح سے تربیت اور سرپرستی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ لوگوں کو معاشی طور پر خود مختار بنایا جائے اور علی ترین کھیلوں کو بنیاد بنا کر نئی نسل کو صحت مندانہ سرگرمیاں دینے کا ایک مکمل منصوبہ رکھتے ہیں ۔

مستقبل میں اس تنظیم کا ارادہ حود کو ایک صوبائی سطح پر بڑی تنظیم کے طور پر کام کرنے کا ہے اور اس کا ایک جامع منصوبہ بھی ان کے پاس ہے ۔ سروس ڈیلوری کے ساتھ ایڈوکیسی کرنا ، حکومت کے ساتھ پارٹنر شپ اور جدیدیت کی بنیاد پر مقامی ترقی کے ماڈل سمیت خود مختار مقامی حکومت کی جدوجہد ان کا حصہ ہوگی ۔مجھے یقین ہے کہ جہانگیر ترین ، علی ترین اور ڈاکٹر عبدالصبور سمیت ان کی ٹیم اگلے برسوں میں جنوبی پنجاب کی ترقی میں نئی جہتوں اور نئی جددیت سمیت سماجی و معاشی ترقی کے کامیاب ماڈل جو دنیا میں چل رہے ہیں ان سے فائدہ اٹھاکر زیادہ پائیدار ترقی کے عمل کو آگے بڑھائیں گے ۔

پنجاب کے جنوبی اضلاع میں ترقی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان اضلاع میں ترقی کرنے کا پورا پوٹینشل موجود ہے۔ پنجاب حکومت کو بھی اپنی ترجیحات میں جنوبی اضلاع کو پہلی پوزیشن پر رکھنا چاہیے۔ ان علاقوں کے رجعت پسند جاگیرداروں، سیاسی گدی نشینوں اور سیاست دانوں کو بھی اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے اب پرانی روایتی سیاست زیادہ دیر تک کامیاب نہیں رہے گی اور نہ ہی وہ منفی سیاست کے ذریعے جنوبی اضلاع کے مڈل کلاس طبقے کو وسطی اور شمالی پنجاب کے خلاف استعمال کر سکیں گے۔

اس علاقے کے لوگوں میں شعور اور آگاہی بلند ہو رہی ہے۔ گو ان علاقوں میں ترقی کا سفر کمزور ہے مگر لودھراںپائلٹ پروجیکٹ جیسے پروگرام ان علاقوں کی سوچ میں تبدیلی لا رہے ہیں۔ وسطی اور شمالی پنجاب کے ساتھ جنوبی اضلاع کے عوام کا انٹریکشن پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہو چکا ہے۔ بین الاضلاعی شاہراہوں کی تعمیر، لاہور ملتان موٹروے کی تعمیر اور دیگر ترقیاتی کاموں کی وجہ سے جنوبی اضلاع کے عوام کے شعور میں بلندی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے علاقے ترقی یافتہ ہوں۔

پنجاب کے جنوبی اضلاع میں پرانا سماجی اور معاشی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اب یہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا اور یہاں مڈل کلاس بڑھتی چلی جائے گی۔
Load Next Story