مشرق وسطیٰ شعلوں کی لپیٹ میں
متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل کر دیے ہیں۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق ایک ڈرون اسرائیلی وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ کے قریب ایک عمارت سے ٹکرایا ہے۔ دوسری جانب غزہ کے علاقے بیت لاحیہ پر اسرائیلی بمباری سے جاں بحق فلسطینیوں کی تعداد 80 تک جا پہنچی جب کہ درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یونیسیف نے غزہ کو 10 لاکھ فلسطینی بچوں کے لیے جہنم قرار دے دیا ہے۔
اسرائیلی جارحیت کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے، غزہ کے بعد لبنان اور یمن پر بمباری اور زمینی حملے جاری ہیں جب کہ ایران کسی بھی وقت اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ اسرائیلی جارحیت نے صرف غزہ میں اب تک لگ بھگ بیالیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جان لے لی ہے، اس وقت بھی ہزاروں ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ غزہ کی فضا میں چاروں طرف بارود کی بُو ہے۔
70 فیصد گھر رہنے کے قابل نہیں رہے۔ بچے صرف گولیوں اور بموں سے نہیں مرے، بہت سی ہلاکتیں خوراک کی کمی اور آلودہ پانی سے ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تک پیدا ہونے والی فضائی آلودگی ڈیڑھ لاکھ ٹن کوئلہ جلانے کے برابر ہے۔ بموں میں استعمال ہونے والے سفید فاسفورس سے زرعی زمین پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ غزہ کے 23 لاکھ شہری پہلے بھی 365 مربع میل میں قید تھے، اب بہت سے لوگ شمال سے جنوب کی جانب ہجرت کرگئے ہیں۔ اس سے جنوب میں آبادی کی کثافت مزید بڑھ گئی ہے جس سے نت نئے سماجی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ غزہ کی صورتحال کا واضح اثر ابراہیمی معاہدوں پر ہوا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل کر دیے ہیں۔ بحرین نے یہ قدم پہلے ہی اٹھا لیا تھا۔ اردن کی حکومت اس وقت شدید دباؤ میں ہے اور وہاں روزانہ مظاہرے ہو رہے ہیں۔
اردن کی ستر فیصد آبادی فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔ غزہ کی جنگ کا عالمی تجارت پر بھی بڑا منفی اثر پڑا ہے، نہر سویز سے گزرنے والے جہاز بہت کم رہ گئے ہیں۔ حوثی میزائلوں کے ڈر سے اب بحری جہاز جنوبی افریقہ کے راستے سے یورپ جا رہے ہیں۔ یورپ اور ایشیا کے درمیان سمندری سفر لمبا اور مہنگا ہوگیا ہے جہازوں کے کرائے اور انشورنس کا خرچ بھی بڑھ گیا ہے۔ سب سے دلچسپ پوزیشن بھارت کی رہی ہے۔ مودی اور نیتن یاہو میں سالوں سے دوستی ہے، دونوں انتہا پسند ہیں۔ بی جے پی اور اسرائیل کی لیکود پارٹی میں بھی بہت سی اقدار مشترک ہیں۔
دونوں مسلم دشمن سیاسی جماعتیں ہیں۔ بھارت نے 7 اکتوبر کے فوراً بعد اسرائیل کی مکمل حمایت کی اور پھر عالمی رائے عامہ کو دیکھ کر فلسطینی حقوق کی بات کرنا شروع کر دی۔ فلسطین کے معاملے پر بھارت کی فارن پالیسی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کے ترجمان نے کہا ہے کہ بچوں کو روزانہ ناقابل بیان نقصان پہنچ رہا ہے،اب تک یہاں بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد 14,100 سے تجاوز کر گئی ہے، بچوں کو بار بار تشدد اور بار بار انخلا کے احکامات سے بے گھر کیا گیا یہاں تک کہ محرومیت نے پورے غزہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
دوسری جانب واشنگٹن غزہ میں جنگ کو روکنے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے میں ناکام رہا ہے کیونکہ امریکا، اسرائیل پر اپنی فوجی مہم روکنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا تھا لیکن اس نے تشدد کو جاری رکھنے کی اجازت دی ہے۔ اسرائیل پر 180 سے زائد بیلسٹک میزائلوں کے ساتھ ایرانی حملے اور اسرائیل کے کسی بھی نئے اقدام کو سخت ردعمل کا سامنا کرنے کے ایرانی انتباہ کے بعد خطے میں غیر معمولی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ ا
یک ہمہ گیر جنگ کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے جو ایٹمی سطح تک پہنچ سکتی ہے۔ اسرائیل نے بار بار اپنے حکام کے ذریعے جواب دینے کے اپنے ارادے کی تصدیق کی اور کہا کہ ایرانی حملے کا جواب تکلیف دہ ہوگا۔ کچھ تجزیہ کاروں نے رپورٹ کیا کہ ایرانی ایٹمی تنصیبات یا تیل کے بنیادی ڈھانچے پر کسی بھی اسرائیلی حملے سے خطرات میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ اس طرح کے فضائی حملے سے تہران کو میزائلوں سے ایک بڑا حملہ کرنے، بیرون ملک اسرائیلی مفادات کے خلاف حملے کرنے اور اپنے جوہری پروگرام کو تیز کرنے پر اکسایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی اسرائیلی رد عمل سے تہران کے جوہری بم بنانے کے راستے میں تیزی آ سکتی ہے۔
ایران کے ساتھ ایک وسیع جنگ کے لیے اسرائیل کو امریکا کی سیاسی، اقتصادی اور فوجی حمایت کی ضرورت ہوگی۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق تل ابیب کو اس بات کا احساس ہے کہ واشنگٹن کو اس طرح کے تنازع میں ملوث ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، تاہم اس کے باوجود تل ابیب ایران میں ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرسکتا ہے جیسا کہ متعدد اسرائیلی حکام کی طرف سے خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کا ملک ایران کے اندر تیل کی تنصیبات اور اسٹرٹیجک مقامات کو نشانہ بنا سکتا ہے اور ایٹمی حملہ سمیت تمام آپشنز میز پر موجود ہیں۔امریکا کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی جانب سے صرف سخت الفاظ کا اظہار، نیتن یاہو کو پیچھے ہٹنے پر راضی نہیں کرے گا، کیونکہ نیتن یاہو کو جو چیز پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکتی ہے وہ سخت الفاظ نہیں ہیں بلکہ امریکا کے ہتھیاروں اور مالی امداد کو روکنے جیسے اقدامات ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ اسرائیل مخالف مظاہرے مغربی ممالک میں ہوئے ہیں اور مغربی شہروں میں بھی لندن سرفہرست ہے، اس کے بعد واشنگٹن ہے۔
اسرائیل مخالف نعرے لگانے والوں میں مسلمان، عیسائی اور یہودی، سب شامل ہوئے۔ یہاں مذہب کی کوئی تفریق نہیں۔ ناحق قتل ہونے والے بچوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کی آستین کا لہو دن رات پوری دنیا پر آشکار کر رہا ہے کہ ان معصوم ننھے منے بچوں کا قاتل وہی ہے۔ گزشتہ اکتوبر میں جب یہ جنگ شروع ہوئی تو امریکا نے حسبِ معمول اپنی مکمل حمایت اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ امریکا کی دونوں سیاسی جماعتیں اگر کسی بات پر ہم خیال ہیں تو وہ اسرائیل کی حمایت ہے۔ صدر جوبائیڈن نے تو یہاں تک کہا تھا کہ میں بھی صہیونی ہوں۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ صہیونی کون ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عہد نامہ قدیم یعنی Old Testament کی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فلسطین میں واپس آ کر آباد ہونا یہودیوں کا حق ہے۔ یہاں اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ ہر یہودی ضروری نہیں کہ صہیونی ہو۔ عیسائیوں میں صہیونیوں کی تعداد اور بھی کم ہے۔ فلسطین، شام، لبنان، مصر اور عراق میں عیسائی کافی بڑی تعداد میں آباد ہیں اور ان میں شاید ہی کوئی صہیونی ہو۔
مغربی دنیا میں رائے عامہ کی خاص اہمیت ہے۔ اسی رائے عامہ کا اعجاز تھا کہ بائیڈن حکومت کو بھی جنگ بندی کے سوال پر بار بار اپنا ویٹو استعمال کرنے کی پالیسی ترک کرنا پڑی۔ تل ابیب میں انتہا پسند صہیونی حکومت اس بات پر خاصی سیخ پا ہے۔غزہ جنگ پر مسلم دنیا کا ردِعمل مایوس کن رہا ہے۔ کسی عرب ملک نے اسرائیلی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود کو بند نہیں کیا۔ کسی مسلم ملک نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ 1969میں جب صہیونیوں نے مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگائی تھی تو اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم او آئی سی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہ تنظیم آج بھی موجود ہے لیکن غزہ کی جنگ بندی کے لیے اس کا کردار قراردادوں کے پاس کرنے سے زیادہ نہیں رہا۔ مسلم ممالک اس ساری صورتحال میں خاصے بے بس نظر آئے۔جب اسرائیل نے غزہ پر اندھا دھند بمباری شروع کی تو دنیا کے نو ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات معطل کیے، ان میں سے چھ غیر مسلم ممالک تھے اور بیشتر کا تعلق لاطینی امریکا سے تھا۔
کسی مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ انسانی قتلِ عام کے الزام میں اسرائیل کو عالمی عدالت میں لے جاتا۔ یہ فریضہ بھی جنوبی افریقہ کو ادا کرنا پڑا۔گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد جاری کی، جس میں کہا گیا کہ تمام ممالک مشترکہ طور پر یا انفرادی طور پر اسرائیلی مصنوعات پر پابندی لگائیں۔ اس قرارداد کے حق میں 124 ممالک نے ووٹ دیا اور صرف 14 ممالک نے مخالفت کی، جن میں امریکا، اسرائیل، ارجنٹائن اور چند دیگر چھوٹے ممالک ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر موثر نہیں ہیں اور ہم نے ان کا نام بھی ٹھیک طرح سے نہیں سنا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ منظر نامے میں امریکیوں کو حکومتوں بالخصوص اقوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران جہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی حکومت کے خلاف 11 قراردادیں منظور کی گئی ہیں، وہاں ہیگ میں عالمی عدالت انصاف نے حال ہی میں 83 صفحات اور 282 پیراگراف میں صیہونی حکومت کے اقدامات کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی درخواست پر عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو ایک بدمعاش، چور اور خلاف ورزی کرنے والے کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ یہ اس مجرمانہ حکومت کی قانونی حیثیت ہے، جس نے انسانیت کے خلاف ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
اگرچہ اقوام متحدہ نے اس لڑائی کو روکنے کی بات کی ہے۔ ایک قرارداد کے ذریعے اسے پابند بنایا ہے کہ غزہ اور لبنان پر حملوں اور ہر قسم کی کارروائی کو روک دے لیکن اسرائیل نے سنی ان سنی کردی ہے۔ حملوں کو نہ روک کر اسرائیل اقوام متحدہ کی قرارداد کی صریحا نفی کر رہا ہے جس سے خطے میں جنگ کے بادل منڈلائے ہوئے ہیں۔ جنگ کے اثرات اگر خطے سے باہر چلے جاتے ہیں اور ایران بھی اس کی لپیٹ میں آتا ہے تو تیسری عالمگیر جنگ چھڑنے کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے ۔
اسرائیلی جارحیت کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے، غزہ کے بعد لبنان اور یمن پر بمباری اور زمینی حملے جاری ہیں جب کہ ایران کسی بھی وقت اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ اسرائیلی جارحیت نے صرف غزہ میں اب تک لگ بھگ بیالیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جان لے لی ہے، اس وقت بھی ہزاروں ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ غزہ کی فضا میں چاروں طرف بارود کی بُو ہے۔
70 فیصد گھر رہنے کے قابل نہیں رہے۔ بچے صرف گولیوں اور بموں سے نہیں مرے، بہت سی ہلاکتیں خوراک کی کمی اور آلودہ پانی سے ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تک پیدا ہونے والی فضائی آلودگی ڈیڑھ لاکھ ٹن کوئلہ جلانے کے برابر ہے۔ بموں میں استعمال ہونے والے سفید فاسفورس سے زرعی زمین پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ غزہ کے 23 لاکھ شہری پہلے بھی 365 مربع میل میں قید تھے، اب بہت سے لوگ شمال سے جنوب کی جانب ہجرت کرگئے ہیں۔ اس سے جنوب میں آبادی کی کثافت مزید بڑھ گئی ہے جس سے نت نئے سماجی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ غزہ کی صورتحال کا واضح اثر ابراہیمی معاہدوں پر ہوا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل کر دیے ہیں۔ بحرین نے یہ قدم پہلے ہی اٹھا لیا تھا۔ اردن کی حکومت اس وقت شدید دباؤ میں ہے اور وہاں روزانہ مظاہرے ہو رہے ہیں۔
اردن کی ستر فیصد آبادی فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔ غزہ کی جنگ کا عالمی تجارت پر بھی بڑا منفی اثر پڑا ہے، نہر سویز سے گزرنے والے جہاز بہت کم رہ گئے ہیں۔ حوثی میزائلوں کے ڈر سے اب بحری جہاز جنوبی افریقہ کے راستے سے یورپ جا رہے ہیں۔ یورپ اور ایشیا کے درمیان سمندری سفر لمبا اور مہنگا ہوگیا ہے جہازوں کے کرائے اور انشورنس کا خرچ بھی بڑھ گیا ہے۔ سب سے دلچسپ پوزیشن بھارت کی رہی ہے۔ مودی اور نیتن یاہو میں سالوں سے دوستی ہے، دونوں انتہا پسند ہیں۔ بی جے پی اور اسرائیل کی لیکود پارٹی میں بھی بہت سی اقدار مشترک ہیں۔
دونوں مسلم دشمن سیاسی جماعتیں ہیں۔ بھارت نے 7 اکتوبر کے فوراً بعد اسرائیل کی مکمل حمایت کی اور پھر عالمی رائے عامہ کو دیکھ کر فلسطینی حقوق کی بات کرنا شروع کر دی۔ فلسطین کے معاملے پر بھارت کی فارن پالیسی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کے ترجمان نے کہا ہے کہ بچوں کو روزانہ ناقابل بیان نقصان پہنچ رہا ہے،اب تک یہاں بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد 14,100 سے تجاوز کر گئی ہے، بچوں کو بار بار تشدد اور بار بار انخلا کے احکامات سے بے گھر کیا گیا یہاں تک کہ محرومیت نے پورے غزہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
دوسری جانب واشنگٹن غزہ میں جنگ کو روکنے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے میں ناکام رہا ہے کیونکہ امریکا، اسرائیل پر اپنی فوجی مہم روکنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا تھا لیکن اس نے تشدد کو جاری رکھنے کی اجازت دی ہے۔ اسرائیل پر 180 سے زائد بیلسٹک میزائلوں کے ساتھ ایرانی حملے اور اسرائیل کے کسی بھی نئے اقدام کو سخت ردعمل کا سامنا کرنے کے ایرانی انتباہ کے بعد خطے میں غیر معمولی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ ا
یک ہمہ گیر جنگ کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے جو ایٹمی سطح تک پہنچ سکتی ہے۔ اسرائیل نے بار بار اپنے حکام کے ذریعے جواب دینے کے اپنے ارادے کی تصدیق کی اور کہا کہ ایرانی حملے کا جواب تکلیف دہ ہوگا۔ کچھ تجزیہ کاروں نے رپورٹ کیا کہ ایرانی ایٹمی تنصیبات یا تیل کے بنیادی ڈھانچے پر کسی بھی اسرائیلی حملے سے خطرات میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ اس طرح کے فضائی حملے سے تہران کو میزائلوں سے ایک بڑا حملہ کرنے، بیرون ملک اسرائیلی مفادات کے خلاف حملے کرنے اور اپنے جوہری پروگرام کو تیز کرنے پر اکسایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی اسرائیلی رد عمل سے تہران کے جوہری بم بنانے کے راستے میں تیزی آ سکتی ہے۔
ایران کے ساتھ ایک وسیع جنگ کے لیے اسرائیل کو امریکا کی سیاسی، اقتصادی اور فوجی حمایت کی ضرورت ہوگی۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق تل ابیب کو اس بات کا احساس ہے کہ واشنگٹن کو اس طرح کے تنازع میں ملوث ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، تاہم اس کے باوجود تل ابیب ایران میں ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرسکتا ہے جیسا کہ متعدد اسرائیلی حکام کی طرف سے خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کا ملک ایران کے اندر تیل کی تنصیبات اور اسٹرٹیجک مقامات کو نشانہ بنا سکتا ہے اور ایٹمی حملہ سمیت تمام آپشنز میز پر موجود ہیں۔امریکا کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی جانب سے صرف سخت الفاظ کا اظہار، نیتن یاہو کو پیچھے ہٹنے پر راضی نہیں کرے گا، کیونکہ نیتن یاہو کو جو چیز پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکتی ہے وہ سخت الفاظ نہیں ہیں بلکہ امریکا کے ہتھیاروں اور مالی امداد کو روکنے جیسے اقدامات ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ اسرائیل مخالف مظاہرے مغربی ممالک میں ہوئے ہیں اور مغربی شہروں میں بھی لندن سرفہرست ہے، اس کے بعد واشنگٹن ہے۔
اسرائیل مخالف نعرے لگانے والوں میں مسلمان، عیسائی اور یہودی، سب شامل ہوئے۔ یہاں مذہب کی کوئی تفریق نہیں۔ ناحق قتل ہونے والے بچوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کی آستین کا لہو دن رات پوری دنیا پر آشکار کر رہا ہے کہ ان معصوم ننھے منے بچوں کا قاتل وہی ہے۔ گزشتہ اکتوبر میں جب یہ جنگ شروع ہوئی تو امریکا نے حسبِ معمول اپنی مکمل حمایت اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ امریکا کی دونوں سیاسی جماعتیں اگر کسی بات پر ہم خیال ہیں تو وہ اسرائیل کی حمایت ہے۔ صدر جوبائیڈن نے تو یہاں تک کہا تھا کہ میں بھی صہیونی ہوں۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ صہیونی کون ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عہد نامہ قدیم یعنی Old Testament کی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فلسطین میں واپس آ کر آباد ہونا یہودیوں کا حق ہے۔ یہاں اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ ہر یہودی ضروری نہیں کہ صہیونی ہو۔ عیسائیوں میں صہیونیوں کی تعداد اور بھی کم ہے۔ فلسطین، شام، لبنان، مصر اور عراق میں عیسائی کافی بڑی تعداد میں آباد ہیں اور ان میں شاید ہی کوئی صہیونی ہو۔
مغربی دنیا میں رائے عامہ کی خاص اہمیت ہے۔ اسی رائے عامہ کا اعجاز تھا کہ بائیڈن حکومت کو بھی جنگ بندی کے سوال پر بار بار اپنا ویٹو استعمال کرنے کی پالیسی ترک کرنا پڑی۔ تل ابیب میں انتہا پسند صہیونی حکومت اس بات پر خاصی سیخ پا ہے۔غزہ جنگ پر مسلم دنیا کا ردِعمل مایوس کن رہا ہے۔ کسی عرب ملک نے اسرائیلی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود کو بند نہیں کیا۔ کسی مسلم ملک نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ 1969میں جب صہیونیوں نے مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگائی تھی تو اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم او آئی سی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہ تنظیم آج بھی موجود ہے لیکن غزہ کی جنگ بندی کے لیے اس کا کردار قراردادوں کے پاس کرنے سے زیادہ نہیں رہا۔ مسلم ممالک اس ساری صورتحال میں خاصے بے بس نظر آئے۔جب اسرائیل نے غزہ پر اندھا دھند بمباری شروع کی تو دنیا کے نو ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات معطل کیے، ان میں سے چھ غیر مسلم ممالک تھے اور بیشتر کا تعلق لاطینی امریکا سے تھا۔
کسی مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ انسانی قتلِ عام کے الزام میں اسرائیل کو عالمی عدالت میں لے جاتا۔ یہ فریضہ بھی جنوبی افریقہ کو ادا کرنا پڑا۔گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد جاری کی، جس میں کہا گیا کہ تمام ممالک مشترکہ طور پر یا انفرادی طور پر اسرائیلی مصنوعات پر پابندی لگائیں۔ اس قرارداد کے حق میں 124 ممالک نے ووٹ دیا اور صرف 14 ممالک نے مخالفت کی، جن میں امریکا، اسرائیل، ارجنٹائن اور چند دیگر چھوٹے ممالک ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر موثر نہیں ہیں اور ہم نے ان کا نام بھی ٹھیک طرح سے نہیں سنا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ منظر نامے میں امریکیوں کو حکومتوں بالخصوص اقوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران جہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی حکومت کے خلاف 11 قراردادیں منظور کی گئی ہیں، وہاں ہیگ میں عالمی عدالت انصاف نے حال ہی میں 83 صفحات اور 282 پیراگراف میں صیہونی حکومت کے اقدامات کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی درخواست پر عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو ایک بدمعاش، چور اور خلاف ورزی کرنے والے کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ یہ اس مجرمانہ حکومت کی قانونی حیثیت ہے، جس نے انسانیت کے خلاف ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
اگرچہ اقوام متحدہ نے اس لڑائی کو روکنے کی بات کی ہے۔ ایک قرارداد کے ذریعے اسے پابند بنایا ہے کہ غزہ اور لبنان پر حملوں اور ہر قسم کی کارروائی کو روک دے لیکن اسرائیل نے سنی ان سنی کردی ہے۔ حملوں کو نہ روک کر اسرائیل اقوام متحدہ کی قرارداد کی صریحا نفی کر رہا ہے جس سے خطے میں جنگ کے بادل منڈلائے ہوئے ہیں۔ جنگ کے اثرات اگر خطے سے باہر چلے جاتے ہیں اور ایران بھی اس کی لپیٹ میں آتا ہے تو تیسری عالمگیر جنگ چھڑنے کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے ۔