26 ویں آئینی ترمیم اور پارلیمانی جمہوریت

چھبیسیویں آئینی ترمیم پاس کرکے پارلیمان نے قانون سازی کے اپنے آئینی حق کو ثابت کیا ہے۔

چھبیسیویں آئینی ترمیم پاس کرکے پارلیمان نے قانون سازی کے اپنے آئینی حق کو ثابت کیا ہے۔

 

صدر مملکت آصف علی زرداری نے وزیراعظم شہباز شریف کے سفارش پر پارلیمنٹ کی دوتہائی اکثریت کی منظور کردہ 26 ویں آئینی ترمیم کی توثیق کردی ہے۔ یوں یہ اب باقاعدہ قانون بن گئی ہے۔ حکومت اور اتحادیوں نے بھرپور مشاورت کے ساتھ چھبیسویں آئینی ترمیم سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے پاس کرا کر ملک کی آئینی تاریخ کا اہم سنگِ میل حاصل کرلیا ہے۔
 
چھبیسیویں آئینی ترمیم پاس کرکے پارلیمان نے قانون سازی کے اپنے آئینی حق کو ثابت کیا ہے۔ یوں پارلیمنٹرینز اور سیاسی قیادت نے پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کے حق اور اختیارات کی وضاحت بھی کردی ہے۔ پاکستان میں پہلے بھی آئینی ترامیم ہوچکی ہیں تاہم اس بار صورتحال ذرا مختلف تھی، اس لیے آئینی ترمیم کے بارے میں خاصی بحث جاری رہی۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن اس ترمیم کے حق میں نہیں تھی جب کہ وکلاء تنظیموں میں اس حوالے سے حمایت و مخالفت کے جذبات موجود تھے، بہرحال یہ ترمیم قواعدو ضابطے کے تحت پیش اور پاس ہوئی جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔
 
یہ ترمیم پارلیمنٹ کی بطور ادارہ کامیابی ہے، ججز کی تقرری میں اب پارلیمنٹ کا اختیار پوسٹ آفس کا نہیں رہا بلکہ پارلیمنٹ کی اجتماعی بصیرت کا مظہر ہوگا۔ اس ترمیم کا اچھا پہلو یہ ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے جو چار ارکان نامزد کیے جائیں گے ان میں سے دو کا تعلق حکومتی بینچوں اور دوکا اپوزیشن سے ہوگا، لہٰذا یہ تاثر دینا کہ اس ترمیم کا مقصد حکومت کا اثر بڑھانا ہے، درست نہیں ہے۔
 
چیف جسٹس کی تقرری کو تین سال کی مدت تک محدود کرنے اور عمر کی بالائی حد65 سال مقرر کرنے کا فیصلہ ماضی کے ناخوشگوار تجربہ کی روشنی میں ایک صائب فیصلہ ہے۔ اس ترمیم کے بعد پارلیمنٹ کے وقار میں خاصی حد تک اضافہ ہوا ہے ۔ کسی کے سپریم ہونے یا ماتحت ہونے کی بحث بھی اب ختم ہوجانی چاہیے اور جمہوری سسٹم کو مزید بہتر کرنے کے لیے مزید کام کرنے کا عزم سامنے آنا چاہیے۔26ویں آئینی تر میم کی منظوری کا کریڈٹ سب کو جاتا ہے۔ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ترمیم منظور کرانے کے لیے متحرک کردار ادا کیا ہے ۔
 
مولانا فضل الرحمن کا جمہوری کردار کھل کرسامنے آیا، انھوں نے اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا، آئینی مسودے میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی اور حزب اقتدار کو اپنی تجاویز پر قائل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے سب کے ساتھ مسلسل اپنا رابطہ برقرار رکھا، کسی معاملے میں بے جا ضد کا مظاہرہ نہیں جب کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے مدبرانہ انداز میں ترمیم منظور کرانے میں رہنما کردار ادا کیا۔ اے این پی کے نوجوان قائد ایمل ولی اور ان کے ساتھیوں نے بھی بہترین جمہوری حکمت عملی کا مظاہرہ کیا، ایم کیو ایم پاکستان کے مقبول صدیقی اور ان کے ساتھیوں نے پارلیمانی جمہوریت،آئین اور عوامی مفادات کو لے کر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا اور حکومتی اتحاد کو بھی قائم رکھا، ایم کیو ایم کی لیڈرشپ نے محض کراچی کے عوام کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے عوام کی حقوق کے لیے آواز اٹھائی ۔ درمیان شٹل ڈپلومیسی کر کے متنازعہ نکات کی تحلیل اور مشترکہ نکات پر اتفاق رائے پیدا کرایا۔
 
دنیا بھر میں آئینی عدالتیں خصوصی عدالتی ادارے ہوتے ہیں جنھیں قوانین اور حکومتی اقدامات کی آئینی حیثیت کو یقینی بنانے کا کام سونپا جاتا ہے۔ یہ ادارے آئین کے محافظ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ عدالتیں طاقت کے توازن کو برقرار رکھتی ہیں۔ قوانین کو آئینی ڈھانچے کے مطابق ڈھالنے اور جمہوری اقدار کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔آئینی ترمیم کے نکات کے مطابق نئے آرٹیکل 191 اے میں سپریم کورٹ میں ''آئینی بینچ'' کا قیام، ججز کی تعداد جوڈیشل کمیشن مقرر کرے گا، آئینی بینچ کے ججز میں ممکنہ حد تک تمام صوبوں کو برابر کی نمایندگی دی جائے گی، آئینی بینچ کے علاوہ سپریم کورٹ کا کوئی جج اوریجنل جو ریسڈکشن، سوموٹو مقدمات، آئینی اپیلیں یا صدارتی ریفرنس کی سماعت کا مجاز نہیں ہوگا سوموٹو، اوریجنل جوریسڈکشن درخواستوں اور صدارتی ریفرنسز کی سماعت اور فیصلہ '' آئینی بینچ'' کا 5 رکنی بینچ کرے گا۔
 
دنیا نے آئینی عدالت کی اہمیت و ضرورت کو بہت پہلے محسوس کرلیا تھا، یہی وجہ ہے کہ اس نوع کی عدالتیں دنیا بھر کے بہت سے ممالک میں موجود ہیں، بالخصوص ان ممالک میں جہاں سول لاء سسٹم موجود ہے۔ کامن لاء سسٹم والے ممالک میں بھی آئینی عدالتیں موجود ہیں۔ اس وقت 80 سے زائد ممالک میں آئینی معاملات پر نظرثانی کے لیے علیحدہ عدالتوں کا نظام قائم ہے، ان ممالک میں جرمنی بھی شامل ہے۔ جرمن وفاقی آئینی عدالت عالمی سطح پر سب سے طاقتور آئینی عدالتوں میں سے ایک ہیں۔ فرانس بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں علیحدہ آئینی عدالت موجود ہے۔ آئینی کونسل فرانس کی اعلیٰ ترین آئینی اتھارٹی کے طور پر کام کرتی ہے ۔ جنوبی افریقہ بھی علیحدہ آئینی عدالت رکھنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔
 
جنوبی افریقہ کی آئینی عدالت 1994میں نسل پرستی کے خاتمے کے بعد قائم کی گئی تھی۔ اس نے ملک کو جمہوریت کی طرف منتقل کرنے اور انسانی حقوق کو برقرار رکھنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اٹلی، اسپین اور آسٹریا بھی ان ممالک میں شامل ہیں جہاں الگ آئینی عدالتیں کام کر رہی ہیں، جو قوانین اور حکومتی اقدامات کا جائزہ لیتی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ آئینی دفعات کے مطابق ہیں یا نہیں۔ البتہ امریکا، کینیڈا اور بھارت جیسے ممالک میں الگ آئینی عدالت نہیں ہے بلکہ آئینی معاملات پر نظرثانی کے اختیارات سپریم کورٹس کے پاس ہیں۔ ان ممالک میں پہلے سے موجود آئینی ڈھانچہ ہی اس نوع کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہاں بھی کئی حلقوں کی طرف سے الگ آئینی عدالت کے قیام کی افادیت اور اہمیت پر زور دیا جاتا ہے۔
 
آئینی عدالت خالصتاً آئینی تشریح اور نظرثانی سے متعلق مقدمات کی سماعت کرے گی۔ یہ عدالت بنیادی حقوق پر بہتر توجہ مرکوز کر سکتی ہے۔ آئینی عدالت، آئینی حقوق اور اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی پوری توجہ کے ساتھ شہری آزادیوں کے زیادہ موثر اور خصوصی محافظ کے طور پر کام کرسکتی ہے اور آئینی اختیارات کا واضح تعین کرسکتی ہے۔ ہمارے ہاں عدلیہ، ایگزیکٹو اور مقننہ کے درمیان اختیارات کی حدود بعض اوقات دھندلا جاتی ہیں، ایک آئینی عدالت کسی ایک شاخ کی طرف سے حد سے تجاوز کو روکنے کے لیے واضح چیک اینڈ بیلنس فراہم کرسکتی ہے۔ آئینی عدالتوں کی نظیر دنیا بھر کے جمہوری نظاموں میں موجود ہے جن سے بڑے پیمانے پر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
 
دنیا کے کئی جمہوری ممالک نے تاریخی، سماجی اور سیاسی چیلنجز کے ساتھ اپنے قانونی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے آئینی عدالتوں کے نظام کو اپنایا ہے۔ جنوبی افریقہ کا نسل پرستی کے بعد کا تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح ایک آئینی عدالت ایک نئے معاشرے میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے تحفظ میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور آمرانہ حکمرانی کی اپنی تاریخ کے ساتھ پاکستان بھی اسی طرح کے ادارے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں آئینی عدالت کا مقدمہ کافی مضبوط ہے، لیکن کچھ چیلنجز بھی ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے، جن میں ادارہ جاتی مزاحمت بھی شامل ہے۔ عدالتِ عظمیٰ میں ایک دھڑا ایک علیحدہ آئینی عدالت کے ساتھ اپنا اختیار بانٹنے کے تصور کی مخالفت کرسکتا ہے۔
 
اس طرح کے ادارے کے قیام کے لیے محتاط رابطہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ عدالتی ذمے داریاں کسی بھی ادارے کے اختیار کو مجروح کیے بغیر موثر طریقے سے بانٹ دی جائیں۔ آئینی عدالت پاکستان کے قانونی اور سیاسی نظام کو بہت سے فوائد پہنچا کر زیادہ موثر آئینی نگرانی فراہم کرسکتی ہے، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرسکتی ہے اور عدالتی آزادی کو مضبوط بنا سکتی ہے، اگرچہ اس حوالے سے کئی چیلنجز بھی درپیش ہیں لیکن آئینی عدالتوں کی عالمی سطح پر کامیابی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایسا ادارہ پاکستان میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
 
ملک کے پیچیدہ قانونی اور سیاسی منظر نامے کے پیش نظر آئینی عدالت مستقبل کی نسلوں کے لیے آئینی اصولوں کی پاسداری اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی پارلیمانی اور آئینی تاریخ میں چھبیسویں آئینی ترمیم ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس سے پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کی بالا دستی قائم ہوگئی ہے۔
Load Next Story