عوام اور حکمران
وفاقی وزیر پانی بجلی نے طویل لوڈ شیڈنگ پر عوام سے معافی مانگی ہے۔ انھوں نے کہا کہ قوم توبہ استغفار کرے۔
وفاقی وزیر پانی بجلی نے طویل لوڈ شیڈنگ پر عوام سے معافی مانگی ہے۔ انھوں نے کہا کہ قوم توبہ استغفار کرے۔ بارشیں شروع ہو گئیں تو لوڈشیڈنگ میں کمی ہو گی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بارش سے لوڈ شیڈنگ میں کمی ہو گی تو یہ بات تو ایک ان پڑھ بھی جانتا ہے۔ محترم وزیر صاحب نے یہ انکشاف کر کے لگتا ہے اپنی دانست میں کسی بڑے راز کو منکشف کیا ہے۔ اگر بارش سے لوڈشیڈنگ میں کمی آتی ہے تو اس میں حکومت کا کیا کمال ہے۔ یہ تو قدرت کی طرف سے ایک عارضی ریلیف ہے۔
اس کے بعد وہی آگ برساتا سورج اور عوام کی آہ و زاریاں۔ لاہور میں کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے' پنجاب کے دور دراز علاقوں کا کیا حال ہوگا' یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ مجھے اکثر ٹیلیفون پنجاب کے پس ماندہ علاقوں اور دوسرے صوبوں سے آتے رہتے ہیں ان میں سے بعض افراد شکایت کرتے ہیں کہ ان کے علاقوں میں بعض اوقات دنوں کے حساب سے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔
بڑے شہروں میں تو لوگ احتجاج' توڑ پھوڑ کر کے بجلی بحال کروا لیتے ہیں لیکن پاکستان کے چھوٹے شہروں' قصبوں اور دیہات کے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وہ بے چارے خاموش ہی رہتے ہیں۔ موجودہ صورتحال زرداری دور کی یاد دلاتی ہے جب وزیراعلیٰ پنجاب شامیانہ لگا کر دستی پنکھا جھلتے ہوئے دعویٰ کرتے تھے کہ وہ 6 مہینے میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیں گے۔ وہ مدت تو کب کی گزر گئی۔اب لوگ ماضی کی حکومت کو ہی یاد کر رہے ' جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی' لوگ جنرل مشرف کی حکومت کو یاد کرتے تھے۔
یہی ہماری قوم کا المیہ ہے جب یہ پہلی سے بڑی آزمائش میں پڑتی ہے تو ماضی کو یاد کرتی ہے۔ خوشنما نعروں کے پیچھے اپنا سب کچھ لٹا دیتی ہے۔مجھے لوگ اکثر ٹیلیفون کر کے پوچھتے ہیں کہ عوام کا پہلا مسئلہ مہنگائی کا خاتمہ اور سستی وافر بجلی ہے' عالیشان سڑکیں نہیں۔ ہماری حالت تو بالکل ویسے ہی ہے کہ پیٹ میں روٹی نہیں اور تھری پیس سوٹ پہن کر شو ماری جا رہی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اب تک جتنی بھی حکومتیں برسراقتدار آئی ہیں انھوں نے ملکی معیشت کی ترقی کے لیے حقیقی منصوبہ بندی کے تحت کام نہیں کیا۔قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب مستقبل کو سامنے رکھ کر منصوبہ بنائے جائیں۔
بجلی ہو یا کوئی اور معاملہ 'اس کے حوالے سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے یہ دیکھا جانا چاہیے کہ آج کتنی ضرورت ہے اور 25 سال بعد کتنی ہو گی۔اگر ایسی منصوبہ بندی کر لی جائے تو نہ بجلی کا بحران پیدا ہو گا اور نہ ہی پانی کی کمی ہو گی۔ہماری تو صورت حال یہ ہے کہ ہم منگلا اور تربیلا کے بعد کوئی بڑا آبی ذخیرہ ہی تعمیر نہیں کر سکے۔فنی معاملات کو سیاستدانوں نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے۔آپ کو تو پتہ ہے کہ سیاستدان تو سیاستدان ہوتا ہے اس نے تو ووٹ لینے ہوتے ہیں'اس کے لیے چاہے عوام کو سہانے خواب ہی کیوں نہ دکھانے پڑیں ۔
ادھر ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو عوام میں جوش و جذبہ پیدا کرنے کے بجائے ان میں احساس گناہ پیدا کرنے پر لگا ہوا ہے۔انھیں یہ باور قرار دیا جا رہا ہے کہ شاید یہ بحران ان کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو عوام بے چارے ایک طویل مدت سے حکمران طبقوں کے گناہوں کا کفارہ ہی ادا کر رہے ہیں۔ حکمران طبقوں نے ایک منصوبہ بندی کے تحت ملک میں انتہا پسند نظریات کو فروغ دیا۔ضیاء الحق کے دور میں سرد جنگ کی منصوبہ بندی کے تحت بعض سیاسی گروہوں کی پرورش کی گئی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس وقت ملک میں کوئی نئی بات کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ملک کی سیاسی قیادت بھی روایتی نعرے لگا رہی ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ ہی ہے جو اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے عوام کو نان ایشوز کی طرف لگا رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ضیا آمریت کے اوپننگ بیٹسمین رہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ملک میں جب بھی زلزلہ آتا ہے تو بعض حضرات فوراً قوم سے مطالبہ کرتے کہ وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔ حالانکہ معافی تو ان لوگوں کو مانگنی چاہیے جو حکومت میں ہیں'ان کے پاس وسائل ہیں 'سائنسی ایجادات موجود ہیں لیکن انھوں نے انھیں استعمال نہیں کیا۔
پاکستان میں آج بھی سیلاب سے تباہ کاریاں ہو رہی ہیں'کم شدت کے زلزلوں میںبھی بے پناہ جانیں ضایع ہو رہی ہیں۔بلاشبہ سیلاب اور زلزلے قدرتی آفات ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی عقل و دانش بخشی ہے کہ وہ زلزلوں اور سیلاب سے تباہ کاریاں کی شدت میں کمی لا سکتا ہے۔ امریکا 'یورپی ممالک اور جاپان کی مثالیں سامنے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں قدرتی آفات سے نمٹنے کا طریقہ کار موجود ہے۔ وہاں زلزلوں سے تباہی بہت کم ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں حکمرانو ں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔
پاکستان کے مسائل کی ذمے دار وہ اشرافیہ ہے جس نے عالمی سامراج کے مفادات کے لیے پاکستان کے عوام کو ترقی یافتہ بننے نہیں دیا۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ تمام تر وسائل ہونے کے باوجود پاکستان بد حال ہے۔ پاکستان میں دریا موجود ہیں'قدرتی وسائل موجود ہیں لیکن اس کے باوجود بجلی نہیں ہے۔ فصلوں کو سیلاب کرنے کے لیے پانی نہیں ہے۔اس کا واضح مطلب ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں عوامی فلاح بہت نیچے ہے۔ وہ صرف اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھتی۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں نہ دہشت گردی پر قابو پایا جا سکا ہے اور نہ ہی لوڈشیڈنگ پر۔معیشت بھی ذبوں حال ہے اور عوام بھی۔
پرویز مشرف کے وبالی وقت کا خاتمہ اگست میں ہو گا جس کا آغاز جولائی کے آخر سے ہو جائے گا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی خدمات و قربانیوں کو 2016ء۔2017ء میں قومی سطح پر تسلیم کر لیا جائے گا۔
سیل فون:۔0346-4527997
اس کے بعد وہی آگ برساتا سورج اور عوام کی آہ و زاریاں۔ لاہور میں کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے' پنجاب کے دور دراز علاقوں کا کیا حال ہوگا' یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ مجھے اکثر ٹیلیفون پنجاب کے پس ماندہ علاقوں اور دوسرے صوبوں سے آتے رہتے ہیں ان میں سے بعض افراد شکایت کرتے ہیں کہ ان کے علاقوں میں بعض اوقات دنوں کے حساب سے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔
بڑے شہروں میں تو لوگ احتجاج' توڑ پھوڑ کر کے بجلی بحال کروا لیتے ہیں لیکن پاکستان کے چھوٹے شہروں' قصبوں اور دیہات کے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وہ بے چارے خاموش ہی رہتے ہیں۔ موجودہ صورتحال زرداری دور کی یاد دلاتی ہے جب وزیراعلیٰ پنجاب شامیانہ لگا کر دستی پنکھا جھلتے ہوئے دعویٰ کرتے تھے کہ وہ 6 مہینے میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیں گے۔ وہ مدت تو کب کی گزر گئی۔اب لوگ ماضی کی حکومت کو ہی یاد کر رہے ' جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی' لوگ جنرل مشرف کی حکومت کو یاد کرتے تھے۔
یہی ہماری قوم کا المیہ ہے جب یہ پہلی سے بڑی آزمائش میں پڑتی ہے تو ماضی کو یاد کرتی ہے۔ خوشنما نعروں کے پیچھے اپنا سب کچھ لٹا دیتی ہے۔مجھے لوگ اکثر ٹیلیفون کر کے پوچھتے ہیں کہ عوام کا پہلا مسئلہ مہنگائی کا خاتمہ اور سستی وافر بجلی ہے' عالیشان سڑکیں نہیں۔ ہماری حالت تو بالکل ویسے ہی ہے کہ پیٹ میں روٹی نہیں اور تھری پیس سوٹ پہن کر شو ماری جا رہی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اب تک جتنی بھی حکومتیں برسراقتدار آئی ہیں انھوں نے ملکی معیشت کی ترقی کے لیے حقیقی منصوبہ بندی کے تحت کام نہیں کیا۔قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب مستقبل کو سامنے رکھ کر منصوبہ بنائے جائیں۔
بجلی ہو یا کوئی اور معاملہ 'اس کے حوالے سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے یہ دیکھا جانا چاہیے کہ آج کتنی ضرورت ہے اور 25 سال بعد کتنی ہو گی۔اگر ایسی منصوبہ بندی کر لی جائے تو نہ بجلی کا بحران پیدا ہو گا اور نہ ہی پانی کی کمی ہو گی۔ہماری تو صورت حال یہ ہے کہ ہم منگلا اور تربیلا کے بعد کوئی بڑا آبی ذخیرہ ہی تعمیر نہیں کر سکے۔فنی معاملات کو سیاستدانوں نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے۔آپ کو تو پتہ ہے کہ سیاستدان تو سیاستدان ہوتا ہے اس نے تو ووٹ لینے ہوتے ہیں'اس کے لیے چاہے عوام کو سہانے خواب ہی کیوں نہ دکھانے پڑیں ۔
ادھر ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو عوام میں جوش و جذبہ پیدا کرنے کے بجائے ان میں احساس گناہ پیدا کرنے پر لگا ہوا ہے۔انھیں یہ باور قرار دیا جا رہا ہے کہ شاید یہ بحران ان کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو عوام بے چارے ایک طویل مدت سے حکمران طبقوں کے گناہوں کا کفارہ ہی ادا کر رہے ہیں۔ حکمران طبقوں نے ایک منصوبہ بندی کے تحت ملک میں انتہا پسند نظریات کو فروغ دیا۔ضیاء الحق کے دور میں سرد جنگ کی منصوبہ بندی کے تحت بعض سیاسی گروہوں کی پرورش کی گئی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس وقت ملک میں کوئی نئی بات کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ملک کی سیاسی قیادت بھی روایتی نعرے لگا رہی ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ ہی ہے جو اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے عوام کو نان ایشوز کی طرف لگا رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ضیا آمریت کے اوپننگ بیٹسمین رہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ملک میں جب بھی زلزلہ آتا ہے تو بعض حضرات فوراً قوم سے مطالبہ کرتے کہ وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔ حالانکہ معافی تو ان لوگوں کو مانگنی چاہیے جو حکومت میں ہیں'ان کے پاس وسائل ہیں 'سائنسی ایجادات موجود ہیں لیکن انھوں نے انھیں استعمال نہیں کیا۔
پاکستان میں آج بھی سیلاب سے تباہ کاریاں ہو رہی ہیں'کم شدت کے زلزلوں میںبھی بے پناہ جانیں ضایع ہو رہی ہیں۔بلاشبہ سیلاب اور زلزلے قدرتی آفات ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی عقل و دانش بخشی ہے کہ وہ زلزلوں اور سیلاب سے تباہ کاریاں کی شدت میں کمی لا سکتا ہے۔ امریکا 'یورپی ممالک اور جاپان کی مثالیں سامنے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں قدرتی آفات سے نمٹنے کا طریقہ کار موجود ہے۔ وہاں زلزلوں سے تباہی بہت کم ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں حکمرانو ں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔
پاکستان کے مسائل کی ذمے دار وہ اشرافیہ ہے جس نے عالمی سامراج کے مفادات کے لیے پاکستان کے عوام کو ترقی یافتہ بننے نہیں دیا۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ تمام تر وسائل ہونے کے باوجود پاکستان بد حال ہے۔ پاکستان میں دریا موجود ہیں'قدرتی وسائل موجود ہیں لیکن اس کے باوجود بجلی نہیں ہے۔ فصلوں کو سیلاب کرنے کے لیے پانی نہیں ہے۔اس کا واضح مطلب ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں عوامی فلاح بہت نیچے ہے۔ وہ صرف اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھتی۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں نہ دہشت گردی پر قابو پایا جا سکا ہے اور نہ ہی لوڈشیڈنگ پر۔معیشت بھی ذبوں حال ہے اور عوام بھی۔
پرویز مشرف کے وبالی وقت کا خاتمہ اگست میں ہو گا جس کا آغاز جولائی کے آخر سے ہو جائے گا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی خدمات و قربانیوں کو 2016ء۔2017ء میں قومی سطح پر تسلیم کر لیا جائے گا۔
سیل فون:۔0346-4527997