پاکستان آگے بڑھو
سوال یہ نہیں ہے کہ پاکستان آگے بڑھے گا یا نہیں، سوال یہ ہے کہ پاکستان کتنی تیزی سے آگے بڑھے گا؟
سوال یہ نہیں ہے کہ پاکستان آگے بڑھے گا یا نہیں، سوال یہ ہے کہ پاکستان کتنی تیزی سے آگے بڑھے گا؟
چین اور ہندوستان کی مثالیں اس وقت سامنے ہیں جس طرح پچھلے دس پندرہ سال میں ان دونوں ملکوں نے ترقی کی ہے وہ ترقی پذیر ملکوں کے لیے مثال ہیں، ترقی کے معاملے میں پاکستان ہمیشہ ہندوستان سے پانچ سات سال پیچھے ہے، لیکن غور کرنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت ترقی کا وہ Potential ہے جس کو دنیا صحیح طرح سمجھ نہیں پا رہی۔
پاکستان کی آبادی 2020 تک 2010 ملین (دو سو دس) ہوجائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا کا چھٹے نمبر پر سب سے زیادہ آبادی والا ملک، ورلڈ اسٹارٹ اپ رپورٹ جوکہ امریکا کی کمپیوٹر انڈسٹری کی ایک رپورٹ ہے ان کے حساب سے پاکستان وہ بہترین جگہ ہے جہاں ٹیکنالوجی سے متعلق اسٹارٹ اپ کمپنیاں شروع کی جائیں۔
''اسٹارٹ اپ'' کا مطلب ہوتا ہے ایک چھوٹا بزنس جسے کم پیسوں سے دو تین لوگ مل کر شروع کرسکتے ہیں لیکن اس میں Potential بہت ہے۔ ''اسٹارٹ اپ'' سیٹ کرنے والے شخص کا کام عموماً ایک آئیڈیے سے شروع ہوتا ہے جس کو آگے بڑھانے کے لیے وہ کئی رسک لیتا ہے، اپنے بزنس کو جمانے میں وہ دن رات ایک کردیتا ہے، کچھ بہت کامیاب ٹیکنالوجی اسٹارٹ اپس میں مائیکروسافٹ، ایپل اور حال میں گوگل اور فیس بک جیسی کمپنیاں آتی ہیں۔
امریکن اسٹارٹ اپ کی اہمیت سمجھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ جو لڑکے ابھی ابھی کالج سے نکلے ہیں وہ رسک لینے سے ڈرتے نہیں ہیں، ان کے آئیڈیے فریش ہیں اور ان میں کام کرنے کی قوت ہے، اسی لیے ان کے لیے مواقع حکومت اور سسٹم خود فراہم کرتا ہے، اگر آپ کا آئیڈیا اچھا ہے اور آپ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ آپ میں کام کرنے کی صلاحیت ہے تو امریکا میں کئی ذرائع ملتے ہیں آپ کو اپنا کام آگے بڑھانے کے لیے۔
ہندوستان نے امریکا سے یہ بات بہت جلدی سیکھ لی کہ اپنے نوجوانوں کو بڑھاوا دو، انھیں موقع دو تاکہ وہ بھی مغرب کے نوجوانوں کی طرح اپنے ملک کے لیے بلینز کما کر دکھائیں، فلم انڈسٹری، میڈیا، پالیٹکس، بزنس ہر جگہ اس وقت ہندوستان میں نوجوان چھائے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان پچھلے کچھ برسوں میں پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔
پاکستان میں اس وقت اسٹارٹ اپ کا کوئی رجحان نہیں۔ اگر آپ یہاں کے کسی بھی اعلیٰ ترین انسٹیٹیوشن میں جاکر ایم بی اے کی کلاس سے پوچھیں کہ وہ گریجویشن کے بعد کیا کریں گے تو پچاس فیصد سے زیادہ کسی ملٹی نیشنل میں جاب کرنا چاہتے ہیں اور باقی یا تو باہر جانے کے خواہش مند ہیں یا پھر اپنے خاندان کا کوئی بزنس جوائن کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن یہی سوال اگر کسی امریکن یا انڈین یونیورسٹی کی ایم بی اے کی کلاس سے کریں تو 80 فیصد کا جواب یہ ہوگا کہ وہ خود اپنے اسٹارٹ اپ سے شروع کریں گے۔
جو بات ہم ابھی تک نہیں سمجھے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان انڈیا اور امریکا دونوں سے زیادہ صلاحیت رکھتا ہے، کسی بھی نوجوان کے لیے اسٹارٹ اپ شروع کرنے اور اسے کامیاب بنانے کے لیے۔
پاکستان میں اس وقت 70 فیصد لوگ ایسے ہیں جو تیس سال سے کم عمر ہیں، امریکا میں چالیس فیصد اور انڈیا میں ساٹھ، انڈیا میں انگریزی سمجھنے والے افراد کی تعداد 30 فیصد اور پاکستان میں 55 فیصد ہے، پاکستان میں اس وقت 136 ملین موبائل استعمال کرنے والے افراد ہیں جن میں سے 80 فیصد انٹرنیٹ بھی اپنے فون پر استعمال کرتے ہیں، ساتھ ہی پاکستان میں اس وقت ایشیا کا سب سے بڑا انٹرنیٹ نیٹ ورک ہے اور انٹرنیٹ میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت پاکستان دنیا کا ستائیسواں ملک ہے جہاں سب سے زیادہ فیس بک استعمال کیا جاتا ہے۔
دنیا میں چھٹے نمبر پر سب سے بڑا ملک آبادی کے لحاظ سے ہونے اور ٹیکنالوجی یوزرز اور نوجوانوں کی موجودگی کے باوجود پاکستان کی مارکیٹ کو نہ ہی ہمارے نوجوان اور نہ ہی باہر کے انویسٹرز سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
ای کامرس، یعنی انٹرنیٹ پر چیزیں خریدنے بیچنے کے طریقے کو اس وقت دنیا کی سب سے کامیاب انڈسٹری مانا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ای کامرس ابھی تک صحیح طور پر قدم نہیں جما پایا ہے، پاکستان اس وقت ای کامرس میں صرف 4.5 بلین روپوں کی انڈسٹری ہے جہاں پیسے کی لین دین کریڈٹ کارڈ پر نہیں بلکہ کیش آن ڈلیوری کی جاتی ہے اس کے باوجود ہوم شاپنگ اور دیگر آن لائن شاپنگ جیسی ویب سائٹس ای کامرس چلانے کی اپنی سی پوری کوشش کر رہی ہیں، وہ ویب سائٹس جو بغیر کسی سپورٹ سسٹم کے دن میں ہزار آرڈرز لینے میں بھی کامیاب ہوجاتی ہیں اس کے علاوہ روزی ڈاٹ کام جیسی سائٹس بھی پاکستان میں کامیاب ہیں جو جاب تلاش کرنے کی سائٹس ہیں۔
امریکا میں کامیاب سائٹ Amazon اپنے پیک سیزن میں ایک سیکنڈ میں تین سے چار سو آرڈرز حاصل کرتی ہے۔ اتنی نہ سہی لیکن ہمارے ملک میں ای کامرس کا ایک بڑا اسکوپ ہے جو ہمیں خود آگے بڑھانا چاہیے۔
اس وقت امریکا کی کامیاب ترین ای کامرس ویب سائٹس میں ساڑھے بارہ ہزار سے زیادہ پاکستانی کام کرتے ہیں جو ان کے بلین ڈالر پروسس کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
ہندوستان نے اپنے سافٹ ویئر انجینئرز کو 2001 سے 2003 کے دوران امریکا سے ڈبل تنخواہ آفر کرکے واپس انڈیا بلایا تھا تاکہ وہ ہندوستان کے لیے وہی کام کرسکیں جو امریکا کے لیے کر رہے ہیں اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
ہمیں دو چیزیں کرنی چاہئیں اپنے پاکستان سے باہر کام کرنے والے پروفیشنلز کو واپس ملک بلانے کی کوشش اور ساتھ ہی پاکستان کے نوجوانوں کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا اسٹارٹ اپ شروع کرسکیں۔
پاکستان میں اس وقت ہم کو ای کامرس کے لیے شپنگ کمپنیاں، پے منٹ سسٹم، ویئر ہاؤس اور بہترین انٹرنیٹ سیکیورٹی سسٹم رائج کرنے کی ضرورت ہے جو دنیا میں درجنوں ملک کرچکے ہیں جس سے ہمیں کئی آئیڈیاز اور ریفرنس مل سکتے ہیں۔
پاکستان میں ہم ایک چیز بہت کمال کی کرتے ہیں اور وہ ہے پلاننگ، مگر اس پر عمل نہیں کرتے لیکن اس بار ہم کو ایکشن لینا ہوگا اس کامیابی کی گاڑی کو اپنی طرف آتے دیکھ کر خود کو تیار کرنا ہوگا۔ اس پر چڑھ کر دکھانا ہوگا ورنہ کامیابی ہمارے سامنے سے کہیں اور نکل جائے گی اور ہم ''انتظار'' نامی اسٹیشن پر ہی کھڑے رہ جائیں گے۔
چین اور ہندوستان کی مثالیں اس وقت سامنے ہیں جس طرح پچھلے دس پندرہ سال میں ان دونوں ملکوں نے ترقی کی ہے وہ ترقی پذیر ملکوں کے لیے مثال ہیں، ترقی کے معاملے میں پاکستان ہمیشہ ہندوستان سے پانچ سات سال پیچھے ہے، لیکن غور کرنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت ترقی کا وہ Potential ہے جس کو دنیا صحیح طرح سمجھ نہیں پا رہی۔
پاکستان کی آبادی 2020 تک 2010 ملین (دو سو دس) ہوجائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا کا چھٹے نمبر پر سب سے زیادہ آبادی والا ملک، ورلڈ اسٹارٹ اپ رپورٹ جوکہ امریکا کی کمپیوٹر انڈسٹری کی ایک رپورٹ ہے ان کے حساب سے پاکستان وہ بہترین جگہ ہے جہاں ٹیکنالوجی سے متعلق اسٹارٹ اپ کمپنیاں شروع کی جائیں۔
''اسٹارٹ اپ'' کا مطلب ہوتا ہے ایک چھوٹا بزنس جسے کم پیسوں سے دو تین لوگ مل کر شروع کرسکتے ہیں لیکن اس میں Potential بہت ہے۔ ''اسٹارٹ اپ'' سیٹ کرنے والے شخص کا کام عموماً ایک آئیڈیے سے شروع ہوتا ہے جس کو آگے بڑھانے کے لیے وہ کئی رسک لیتا ہے، اپنے بزنس کو جمانے میں وہ دن رات ایک کردیتا ہے، کچھ بہت کامیاب ٹیکنالوجی اسٹارٹ اپس میں مائیکروسافٹ، ایپل اور حال میں گوگل اور فیس بک جیسی کمپنیاں آتی ہیں۔
امریکن اسٹارٹ اپ کی اہمیت سمجھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ جو لڑکے ابھی ابھی کالج سے نکلے ہیں وہ رسک لینے سے ڈرتے نہیں ہیں، ان کے آئیڈیے فریش ہیں اور ان میں کام کرنے کی قوت ہے، اسی لیے ان کے لیے مواقع حکومت اور سسٹم خود فراہم کرتا ہے، اگر آپ کا آئیڈیا اچھا ہے اور آپ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ آپ میں کام کرنے کی صلاحیت ہے تو امریکا میں کئی ذرائع ملتے ہیں آپ کو اپنا کام آگے بڑھانے کے لیے۔
ہندوستان نے امریکا سے یہ بات بہت جلدی سیکھ لی کہ اپنے نوجوانوں کو بڑھاوا دو، انھیں موقع دو تاکہ وہ بھی مغرب کے نوجوانوں کی طرح اپنے ملک کے لیے بلینز کما کر دکھائیں، فلم انڈسٹری، میڈیا، پالیٹکس، بزنس ہر جگہ اس وقت ہندوستان میں نوجوان چھائے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان پچھلے کچھ برسوں میں پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔
پاکستان میں اس وقت اسٹارٹ اپ کا کوئی رجحان نہیں۔ اگر آپ یہاں کے کسی بھی اعلیٰ ترین انسٹیٹیوشن میں جاکر ایم بی اے کی کلاس سے پوچھیں کہ وہ گریجویشن کے بعد کیا کریں گے تو پچاس فیصد سے زیادہ کسی ملٹی نیشنل میں جاب کرنا چاہتے ہیں اور باقی یا تو باہر جانے کے خواہش مند ہیں یا پھر اپنے خاندان کا کوئی بزنس جوائن کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن یہی سوال اگر کسی امریکن یا انڈین یونیورسٹی کی ایم بی اے کی کلاس سے کریں تو 80 فیصد کا جواب یہ ہوگا کہ وہ خود اپنے اسٹارٹ اپ سے شروع کریں گے۔
جو بات ہم ابھی تک نہیں سمجھے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان انڈیا اور امریکا دونوں سے زیادہ صلاحیت رکھتا ہے، کسی بھی نوجوان کے لیے اسٹارٹ اپ شروع کرنے اور اسے کامیاب بنانے کے لیے۔
پاکستان میں اس وقت 70 فیصد لوگ ایسے ہیں جو تیس سال سے کم عمر ہیں، امریکا میں چالیس فیصد اور انڈیا میں ساٹھ، انڈیا میں انگریزی سمجھنے والے افراد کی تعداد 30 فیصد اور پاکستان میں 55 فیصد ہے، پاکستان میں اس وقت 136 ملین موبائل استعمال کرنے والے افراد ہیں جن میں سے 80 فیصد انٹرنیٹ بھی اپنے فون پر استعمال کرتے ہیں، ساتھ ہی پاکستان میں اس وقت ایشیا کا سب سے بڑا انٹرنیٹ نیٹ ورک ہے اور انٹرنیٹ میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت پاکستان دنیا کا ستائیسواں ملک ہے جہاں سب سے زیادہ فیس بک استعمال کیا جاتا ہے۔
دنیا میں چھٹے نمبر پر سب سے بڑا ملک آبادی کے لحاظ سے ہونے اور ٹیکنالوجی یوزرز اور نوجوانوں کی موجودگی کے باوجود پاکستان کی مارکیٹ کو نہ ہی ہمارے نوجوان اور نہ ہی باہر کے انویسٹرز سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
ای کامرس، یعنی انٹرنیٹ پر چیزیں خریدنے بیچنے کے طریقے کو اس وقت دنیا کی سب سے کامیاب انڈسٹری مانا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ای کامرس ابھی تک صحیح طور پر قدم نہیں جما پایا ہے، پاکستان اس وقت ای کامرس میں صرف 4.5 بلین روپوں کی انڈسٹری ہے جہاں پیسے کی لین دین کریڈٹ کارڈ پر نہیں بلکہ کیش آن ڈلیوری کی جاتی ہے اس کے باوجود ہوم شاپنگ اور دیگر آن لائن شاپنگ جیسی ویب سائٹس ای کامرس چلانے کی اپنی سی پوری کوشش کر رہی ہیں، وہ ویب سائٹس جو بغیر کسی سپورٹ سسٹم کے دن میں ہزار آرڈرز لینے میں بھی کامیاب ہوجاتی ہیں اس کے علاوہ روزی ڈاٹ کام جیسی سائٹس بھی پاکستان میں کامیاب ہیں جو جاب تلاش کرنے کی سائٹس ہیں۔
امریکا میں کامیاب سائٹ Amazon اپنے پیک سیزن میں ایک سیکنڈ میں تین سے چار سو آرڈرز حاصل کرتی ہے۔ اتنی نہ سہی لیکن ہمارے ملک میں ای کامرس کا ایک بڑا اسکوپ ہے جو ہمیں خود آگے بڑھانا چاہیے۔
اس وقت امریکا کی کامیاب ترین ای کامرس ویب سائٹس میں ساڑھے بارہ ہزار سے زیادہ پاکستانی کام کرتے ہیں جو ان کے بلین ڈالر پروسس کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
ہندوستان نے اپنے سافٹ ویئر انجینئرز کو 2001 سے 2003 کے دوران امریکا سے ڈبل تنخواہ آفر کرکے واپس انڈیا بلایا تھا تاکہ وہ ہندوستان کے لیے وہی کام کرسکیں جو امریکا کے لیے کر رہے ہیں اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
ہمیں دو چیزیں کرنی چاہئیں اپنے پاکستان سے باہر کام کرنے والے پروفیشنلز کو واپس ملک بلانے کی کوشش اور ساتھ ہی پاکستان کے نوجوانوں کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا اسٹارٹ اپ شروع کرسکیں۔
پاکستان میں اس وقت ہم کو ای کامرس کے لیے شپنگ کمپنیاں، پے منٹ سسٹم، ویئر ہاؤس اور بہترین انٹرنیٹ سیکیورٹی سسٹم رائج کرنے کی ضرورت ہے جو دنیا میں درجنوں ملک کرچکے ہیں جس سے ہمیں کئی آئیڈیاز اور ریفرنس مل سکتے ہیں۔
پاکستان میں ہم ایک چیز بہت کمال کی کرتے ہیں اور وہ ہے پلاننگ، مگر اس پر عمل نہیں کرتے لیکن اس بار ہم کو ایکشن لینا ہوگا اس کامیابی کی گاڑی کو اپنی طرف آتے دیکھ کر خود کو تیار کرنا ہوگا۔ اس پر چڑھ کر دکھانا ہوگا ورنہ کامیابی ہمارے سامنے سے کہیں اور نکل جائے گی اور ہم ''انتظار'' نامی اسٹیشن پر ہی کھڑے رہ جائیں گے۔