پاکستان میں پولیو کا جڑ سے خاتمہ؟
حالیہ دنوں میں پاکستان میں پولیو کے مزید چار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کیس خیبر پختونخوا اور تین کیسز بلوچستان سے رپورٹ ہوئے جس کے بعد ملک بھر سے رواں برس کے دوران سامنے آنے والے پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 39 ہوگئی ہے۔
دنیا بھر میں اس وقت صرف تین ممالک ایسے ہیں جہاں یہ بیماری اب تک موجود ہے اور ان میں پاکستان کے علاوہ افغانستان اور نائجیریا شامل ہیں۔ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کا پروگرام تین دہائیاں پہلے 1994ء میں شروع کیا گیا تھا جس کے نہایت مثبت نتائج سامنے آئے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق، 1990ء کی دہائی کے آغاز میں پاکستان سے سالانہ بنیادوں پر 20 ہزار پولیو کیسز رپورٹ ہو رہے تھے۔
حکومت کی طرف سے کیے جانے والے مثبت اقدامات کے نتیجے میں 2021ء میں پورے ملک سے صرف ایک کیس رپورٹ ہوا جو بلوچستان سے سامنے آیا، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ 2022ء میں ان کیسز کی تعداد بڑھ کر 20 ہوگئی اور تمام کیسز خیبر پختونخوا سے رپورٹ ہوئے۔
سال 2023ء میں مجموعی طور پر پاکستان میں پولیو کے 6 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 4 خیبر پختونخوا اور 2 سندھ سے سامنے آئے۔ رواں برس کے تقریباً ساڑھے دس مہینے میں 39کیسوں کا رپورٹ ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس سلسلے میں حکومتی اقدامات کو اس سنجیدگی سے آگے نہیں بڑھایا جارہا جیسے یہ کام پہلے کیا جا رہا تھا۔
اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ پولیو پروگرام کے لیے حکومت کی طرف سے مختص کی جانے والی رقم رواں برس آدھی سے بھی کم ہوگئی ہے۔ حکومت نے 2022ء میں پولیو کے خاتمے کے قومی پروگرام کے لیے 180 ملین ڈالر کی رقم مختص کی تھی جو 2023ء میں بڑھا کر 187 ملین ڈالر کردی گئی لیکن 2024ء میں اس رقم میں 57 فیصد کمی کرتے ہوئے اسے صرف 80 ملین ڈالر کردیا گیا۔
اس صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت پولیو کے خاتمے کے معاملے میں اتنی سنجیدہ اور حساس نہیں رہی جتنی یہ پہلے تھی۔ پولیو اس وقت تک پھیلتا رہے گا جب تک ہر جگہ سے اس کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ انتہائی ضروری ہو چکا ہے کہ بچوں کو ہر جگہ قطرے پلائے جائیں، تاکہ جب وائرس ان کے علاقے میں پھیلے تو وہ اس سے محفوظ رہیں۔
ایک مرتبہ جب وائرس کسی علاقے میں اپنی جگہ بنا لیتا ہے، تو یہ ان بچوں کو باآسانی متاثر کرسکتا ہے جنہوں نے پولیو ویکسین کے قطرے نہیں پیے ہوتے۔ 2013 میں عالمی پولیو کے خاتمے کی مہم نے پولیو کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے اپنا سب سے جامع اسٹرٹیجک منصوبہ دیا تھا، جس میں پولیو کی موجودگی والے آخری علاقوں سے اس کا خاتمہ کرنے اور پولیو سے پاک دنیا کو برقرار رکھنے کے اقدامات واضح طور پر درج کیے گئے تھے، مگر پاکستان میں تاحال اس پر مکمل عمل نہیں ہو سکا۔
پولیو ایک انتہائی متعدی بیماری ہے جو پولیو وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے جو بنیادی طور پر پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو متاثر کرتی ہے، یہ وائرس اعصابی نظام پر حملہ کرتا ہے اور فالج یا موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اگرچہ پولیو کا کوئی علاج نہیں ہے، لیکن ویکسی نیشن بچوں کو اس معذوری سے بچانے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ جب بھی پانچ سال سے کم عمر کے بچے کو ویکسین لگائی جاتی ہے تو اس کے وائرس سے تحفظ میں اضافہ ہوتا ہے۔ بار بار کے حفاظتی ٹیکوں نے لاکھوں بچوں کو پولیو سے بچایا ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں پولیو ایک مرتبہ پھر ایک بڑے خطرے کے طور پر سر اٹھا رہا ہے جس سے عالمی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی طرف سے کسی بھی خطے کو اسی وقت پولیو سے پاک قرار دیا جاتا ہے، جب اس خطے کے تمام ممالک میں مسلسل تین سال تک اس بیماری کا کوئی نیا کیس سامنے نہ آئے۔ پاکستان اور افغانستان کئی بار پولیو کے خاتمے کے قریب آنے کے باوجود، اس بیماری کے خاتمے کی منزل سے دور ہو چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ان دونوں ملکوں میں پولیو سے متعلق غلط فہمیوں، والدین کا بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے گریز اور عوام تک پولیو ویکسین کی محفوظ اور آسان رسائی نہ ہونے سے صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے۔ کئی علاقوں میں گنجان آبادی، صحت کی ناکافی سہولتیں اور غربت بھی اس ضمن میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) کی ایمرجنسی کمیٹی برائے پولیو کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین آمدورفت بھی پولیو کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ رہی ہے۔ کمیٹی کے مطابق افغانستان میں پولیو کے پھیلاؤ میں اضافے کی ایک وجہ پاکستان سے لاکھوں افغان مہاجرین کی افغانستان واپسی بھی ہو سکتی ہے، جبکہ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیچھے افغانستان سے آنے والے متاثرہ لوگ ہیں۔کسی بھی ملک میں پولیو کی موجودگی کا علم بچوں میں نمودار ہونے والی علامات یا ان کے میڈیکل ٹیسٹوں کے نتائج سے ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ بہت سے لوگ جن میں بڑی عمر کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں وہ پولیو وائرس کے حامل ہوتے ہیں، اگرچہ بڑوں پر اس وائرس کا زیادہ اثر دیکھنے میں نہیں آتا لیکن ان کے سیوریج کے ذریعے جب یہ وائرس سیوریج میں جاتا ہے تو سیوریج کے پانی کے نمونوں سے بھی کسی علاقے میں وائرس کی موجودگی کا پتا چل جاتا ہے۔
سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس کی موجودگی کے حوالے سے پاکستان کے بعض علاقوں کو تو پولیو کا ذخیرہ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے جن علاقوں سے ایسے نمونے ملے ہیں ان میں کراچی، کوئٹہ، چمن، قلعہ عبداللہ، لاہور اور کے پی کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے قومی ادارہ صحت میں قائم انسداد پولیو لیبارٹری کے مطابق کراچی کے اضلاع کیماڑی اور ملیر سمیت سکھر، جیکب آباد، حیدر آباد اور لاہور سے لیے گئے سیوریج کے پانی کے آٹھ نمونوں میں پولیو وائرس ملا، جس کا جینیاتی تعلق سرحد پار کے وائے بی تھری اے پولیو وائرس کلسٹر سے بتایا جاتا ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق یہ وائرس کلسٹر2021 میں پاکستان میں ختم ہوگیا تھا، تاہم گزشتہ سال سرحد پار سے ایک بار پھر پاکستان میں واپس آگیا۔2024ء کے دوران پولیو کے کیسز میں جو اضافہ ہوا ہے وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اس بیماری کے حوالے سے دنیا بھر میں بہت سنجیدگی اور حساسیت پائی جاتی ہے اور پاکستان میں اب تک اس کا موجود ہونا انتہائی افسوس ناک ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ تازہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے پولیو کے خاتمے سے متعلق رواں سال کی پالیسی کا نئے سرے سے جائزہ لیں اور جہاں کہیں خامیاں دکھائی دیتی ہیں انھیں فوری طور پر دور کریں، اگر فنڈز کی کمی کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ حکومت اس سلسلے میں مزید فنڈز مختص کرے تاکہ اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔