انفرادی و اجتماعی توبہ اور شہر نامہ (آخری حصہ)
امین جالندھری کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، وہ حیدر آباد میں ہی نہیں، دوسرے شہروں میں بھی اپنی تخلیقی اور تعمیری صلاحیتوں کی بدولت مخصوص شناخت رکھتے ہیں۔
مذکورہ مجموعہ ’’شہر نامہ‘‘ ان کے کالموں، سہانی شاموں اور تجزیاتی و تنقیدی مضامین کا ثمر ہے۔ کتاب 192 صفحات پر مشتمل ہے۔ امین جالندھری کے دوست احباب اور دوسرے قلمکاروں نے ان کی ادبی کاوشوں کو سراہا ہے۔ اسی وجہ سے ’’شہرنامہ‘‘ ادیب وکالم نگار کی مکمل معلومات فراہم کرتا ہے۔ ان کے افسانے بھی قابل مطالعہ ہیں۔ قارئین و ناقدین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امین جالندھری بہترین افسانہ نگار ہیں، وہ بیانیہ کے ساتھ علامتوں کا استعمال بھی خوبصورتی اور فنی باریکیوں کے ساتھ کرتے ہیں،
اسی طرح ان کی کتاب ’’ شہرنامہ‘‘ میں چند کالم بھی میرے مطالعے میں آئے۔ روزنامہ جسارت، روزنامہ سفیر حیدرآباد، روزنامہ قومی اخبار، مصنف کے تحریر کردہ کالم تقریباً پچیس، تیس برسوں پر محیط ہیں، وہ خود بھی سینئر قلم کار ہیں، لیکن لکھنے کی قوت توانا ہے اور وہ اب بھی خوب لکھ رہے ہیں۔ ایک کالم سے چند اقتباس نذر سامعین۔ عنوان ہے ’’ ثروت حسین کو لفظوں کے استعمال پر ملکہ حاصل ہے‘‘ سماجی و ادبی ثقافتی تنظیم ’’رابطہ‘‘ کی جانب سے آریہ مہر ہوٹل لطیف آباد میں ثروت حسین کے ساتھ ایک شام منائی گئی،
واضح رہے کہ رابطہ کے روح رواں امین جالندھری ہیں۔ انھوں نے شاعر کا تعارف کراتے ہوئے کہا ’’ ثروت حسین اپنے عہد کا نمایندہ شاعر ہے۔ ثروت حسین نے فرانسیسی پس منظر میں لکھی گئی نظم بہ عنوان ’’محبت‘‘ پیش کی۔ انھوں نے اپنی دوسری نظمیں بھی سنائیں، جن میں ’’ یہ میرے خوابوں کا مکان، ایک کنارے پر وصال‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ثروت حسین کا تخلیق کردہ ایک شعر:
قندیل ماہ و مہر کا افلاک پر ہونا
کچھ اس سے بھی زیادہ ہے مرا خاک پہ ہونا
روزنامہ ہفت روزہ ’’فکر و عمل‘‘ حیدرآباد سے شایع ہوتا ہے۔ مصنف کا ایک کالم جس کا عنوان ’’بن بادل برسات‘‘ ان کے کالم سے چند سطریں۔
’’ اردو ادب میں ناقدین کی افادیت سے کبھی انکار نہیں کیا گیا، لیکن تخلیق کاروں نے ہمیشہ ناقدین پر بے پرواہی اور لاپرواہی کا الزام لگایا ہے۔ بہت سے ناقدین کی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ یہ وہ اصحاب ہنر ہیں جنھوں نے ہمیشہ فرد کی بجائے ہنرکی بات کی ہے۔ ان ناقدین کرام نے صلے اور ستائش کی تمنا کیے بغیر صاف، سچی اور معتبر تنقید سے دنیائے ادب کو مالا مال کیا ہے۔
ایسے ناقدین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔‘‘ میرا تو یہ خیال ہے کہ اب نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ ایسے سچے اورکھرے ناقدین ڈھونڈنے سے نہیں ملتے ہیں۔ اقربا پروری، منافقت، خود غرضی اور بداخلاقی عروج پر ہے۔ یہی آج کی تنقیدی محافل کا حال ہے۔ آج تو یہ عالم ہے ہر تخلیق کار کا اپنا سامع اور اپنا نقاد ہوتا ہے جو اس کے ہی حق میں بات کرتا ہے اور خوب کرتا ہے۔ داد دینے والے ان حضرات کو خوب داد دیتے ہیں، تالیاں بجائی جاتی ہیں اور جو صاحب علم ہے وہ منہ تکتا رہتا ہے اور تماشا دیکھتا ہے کہ یہ ہوکیا رہا ہے۔
ڈاکٹر مسرور احمد زئی کی رائے یہ ہے کہ امین جالندھری صرف ایک افسانہ نگار یا تنقید نگار ہی نہیں بلکہ وہ ایک تجزیہ نگار کے ساتھ ادبی قافلے کو مہمیز اور کاروان ادب کو تحریک دینے والے ایسے قلم کار ہیں جو رفتار ادب کے ساتھ معیار ادب بھی رکھتے ہیں۔ انھوں نے اس شہر میں ادب کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور اپنے شہر حیدرآباد میں ادب پروری کا کام اس وقت سے انجام دیا جب یہ شہر بالخصوص نثری تخلیقات میں بنجر ہوتا جا رہا تھا۔‘‘کتاب میں شاعرہ انجلا ہمیش کا مضمون بھی شامل ہے جو انھوں نے اپنے بابا کی محبت میں ڈوب کر لکھا ہے۔
اداسی، محرومی اور دکھ کا احساس تحریر میں پنہاں ہو گیا ہے۔ قاری بھی مطالعہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ چلتا ہے، وہ دونوں یادوں کے نگینوں سے اپنے من کی کٹیا میں روشنی کرتے ہیں۔ تاریخ وفات 2023 درج ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ احمد ہمیش کے انتقال کو کئی برس بیت چکے ہیں، دراصل کمپوزنگ کی غلطیاں بھی قاری کو مخمصے میں ڈال دیتی ہیں۔ سدرہ جاوید نے مصنف کا تعارف موثرانداز میں کروایا ہے۔ 29 دسمبر 1994 کے قومی اخبار میں امین جالندھری کا کالم ’’ادبی منظرنامہ‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا تھا، جیساکہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ انھوں نے 1994 کے ادب کا جائزہ لیا ہے اور ادبی صورتحال سے کافی مایوس نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شعرا غیر طرحی مشاعرہ برپا کرکے اپنا دل خوش کر لیتے ہیں اور ادبا لاحاصل گفتگو کر کے وقت گزار رہے ہیں، جبکہ تخلیقی اپچ کسی کونے میں منہ چھپائے رو رہی ہے اور اگر کوئی دقیقی ہنرمند تازہ تخلیق پیش کرتا ہے تو اسے سن کر بعض قلمکار غیر سنجیدہ گفتگو کرتے ہیں کہ الامان ۔ یہ ذکر ہے حیدرآباد کی ادبی شعری محفلوں اور تخلیق کاروں کا۔ امین جالندھری کو لکھنے کا جنون ہے ان کی نظر کتابوں، ان کے مصنفین اور تقریبات پر بہت گہری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تمام کالمز جو میں نے پڑھے وہ سب قلمکاروں اور ان کے تخلیقی امور کے گرد گھومتے ہیں۔ وہ خوبصورت شاموں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں، جو محفلیں ادب کے شایقین اور منتظم اعلیٰ سجاتے ہیں قصہ پارینہ ہے، مگر دلچسپ اور معلوماتی ہے۔مزاح کے حوالے سے مرزا عابد عباس کا تذکرہ نہ ہو تو یہ ناممکن ہے وہ بہت اچھی اور اعلیٰ درجے کی شاعری تخلیق کرتے ہیں۔
ان کی ایک دو کتابیں ہمارے مطالعے میں رہیں۔ چھوٹی بحروں میں تخلیق کردہ اشعار مزاحیہ رنگ میں قاری کے دل کو بھاتے ہیں اور خوشی کا احساس جاگزیں ہوتا ہے۔ امین جالندھری نے عابد عباس کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ مرزا عابد عباس نے اپنے فن مزاح کو ایک نیا رنگ دیا ہے۔ نہایت ہی استدلال، وقار، وسعت نظر، شوخی طبع، متانت، شگفتگی اور معیار ظرافت کو وہ وسعت عطا کی ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔‘‘ مصنف نے مرزا عابد عباس کی مزاحیہ تخلیقات پر بہت جامع اور تفصیلی مضمون قلم بند کیا ہے۔ ’’ مزاح برائے فروخت‘‘ کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ مرزا عابد عباس کا گراں قدر عمدہ تخلیقی تحفہ ہے جس میں زندگی کے حقائق سفر ناموں سمیت موجود ہیں۔‘‘’’ادبی جیوگرافی ‘‘ یہ کالم بہت ہی دلکش انداز میں لکھا گیا ہے، اسی کالم سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے! جناب اظہر جاوید کا شعر ہے:
وہ جو چاہتوں کے غزال تھے
وہ جو خواب تھے جو خیال تھے
وہ جو تھے شاعری کے چونچلے
سبھی بجھ گئے سبھی مر گئے
اسی خیال کو سیف الرحمن سیفی یوں بیان کرتا ہے:
قصہ تشنہ لبی جب کوئی دہراتا ہے
اک دریا میری آنکھوں میں چلا آتا ہے
جان کشمیری بہت اچھے شاعر اور نفیس انسان ہیں۔ امین جالندھری نے بڑے اہم شعرا کے کلام کا انتخاب کیا ہے جوکہ قابل تحسین ہے۔
حق بیانی لہو میں پلتی ہے
خون میں تر زبان اٹھا لایا
کتنا مشکل ہے سچ رقم کرنا
وہ کٹی انگلیاں اٹھا لایا
شہر نامہ کے مصنف نے اپنے دوست احباب کی محبتوں کا قرض اتارنے کے لیے ان کی تحریروں کا تجزیہ کیا اور توصیفی مضامین بے حد خلوص کے ساتھ لکھے، انھی میں وضاحت نسیم کی کتاب ’’بند گلی میں سورج‘‘ کا تعارف کروایا ہے۔ وضاحت کی شاعری کی خوبیوں کو اجاگرکیا ہے۔ انھوں نے قارئین کو اس بات کی بھی آگاہی دی ہے کہ وضاحت نسیم حساس اور درد مند شاعرہ ہیں۔ ان کے کلام کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دشت سخن میں انھوں نے بہت محنت کی ہے۔ ان کے کلام میں اثر پذیری بدرجہ اتم موجود ہے۔ امین جالندھری نے دیانت داری کے ساتھ مختلف تحریروں کا محاکمہ کیا ہے، میں انھیں مبارک باد پیش کرتی ہوں۔